Thursday, November 12, 2020

آن لائن جشن یوم تعلیم اور جشن یوم اطفال

بی ایم سی محکمہ تعلیم اردو میڈیم کی جانب سے شاندار "آن لائن جشن یوم تعلیم اور جشن یوم اطفال" کا انعقاد.

 

                                                                                                       مبئ میونسپل کارپوریشن کے محکمہ تعلیم کی جناب سےکورونا لاک ڈاؤن کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ کئی ماہ سے آن لائن طرز تعلیم کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے. محکمہ تعلیم کے اردو میڈیم کی ٹیم بھی شروعات سے ہی آن لائن درس تدریس میں سرگرم عمل ہے. اس ٹیم کی جانب سے نہ صرف روزانہ آن لائن زوم کلاسیز کا انعقاد کیا جاتا ہے بلکہ نہایت ہی جوش و خروش کے ساتھ تعلیمی، تہذیبی و ثقافتی پروگرامس بھی منعقد کئے جاتے ہیں. اسی طرز پر 11 نومبر 2020 کو اردو میڈیم آن لائن ٹیم کی جناب سے ملک کے اولین وزیر تعلیم اور قومی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد اور آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش کے موقع پر ایک شاندار مشترکہ پروگرام بعنوان " جشن یوم تعلیم و یوم اطفال" کا انعقاد عمل میں آیا.

اس پروگرام میں بی ایم سی محکمہ تعلیم کے ایجوکیشن آفیسر جناب مہیش پالکر، ڈی ای او جناب راجو تڑوی، ڈی ای او جناب کرت کڑوے، ای او جناب اجئے وانی، اے او جناب ناصر علی شیخ، بی او محترمہ افسانہ میڈم، بی او اقبال شیخ و دیگر اہم افسران نے شرکت کی.

پروگرام کا آغاز عمران عقیل شاہ نے تلاوت و ترجمے سے کیا. پھر طلباء کے ذریعے حمد و نعت پیش کی گئ. پروگرام میں بالترتیب مولانا آزاد کا سونحی خاکہ، مولانا آزاد اور پنڈت نہرو کی نقل کرتے ہوئے فینسی ڈریس پریزینٹیشن، تقاریر، مولانا کے اقوال، غبار خاطر کی مضمون خوانی، طلباء و اساتذہ کا کوئز کونٹیسٹ، ڈرائنگ پیشکش، مراٹھی اور انگریزی میں تقاریر وغیرہ کے مطابق جاری و ساری رہا. پروگرام کے آخری حصے میں بیٹ آفیسر اور آن لائن طرز تعلیم اردو میڈیم  کی انچارج  محترمہ عارفہ سلیم شیخ نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا

 

" ہم تمام اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ آج کا یہ پروگرام' یوم تعلیم' ہمارے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش کی یاد میں منایا جارہا ہے. مولانا آزاد نہ صرف ہمارے ملک کے پہلے وزیر تعلیم تھے بلکہ آپ ایک منفرد اور ہمہ فن شخصیت کے ملک بھی تھے. مولانا کے مضامین اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں. مولانا نے اپنے اخبار الہلال کے ذریعے اردو صحافت کو نیا رخ عطا کیا. مولانا کی ملی اور قومی خدمات کا دائرہ  بے حد وسیع ہے لہٰذا  اس مختصر وقت میں ان کی تمام خدمات کا احاط کرنا نہایت ہی مشکل عمل ہے. البتہ میں آپ تمام حاضرین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوںکہ اساتذہ اپنی محنت اور انتھک کاوشوں سے مولانا آزاد نہ سہی لیکن ان جیسا قابل شخص ملک اور قوم کو دوبارہ دے سکتے ہیں.. آپ تمام اساتذہ اگر اپنی پیشہ وارانہ قابلیت کا مناسب استعمال کریں اور خلوص و لگن سے درس و تدریس میں سر گرم عمل رہیں تو ہم ملک اور قوم کو بہترین رہنما عطا کرسکتے ہیں."

صدارتی خطبے کے بعد سید فوزیہ نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا. اس پروگرام کو کلی طور پر محسن ساحل اور اول تا دہم جماعت کے تمام سی این اوز نے ترتیب دیا. محمد ذیشان نے ٹیکنیکل معاملات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پروگرام کی ہوسٹنگ کی. اس ناقابل فراموش تقریب میں اول تا آخر ایکسپرٹ ٹیچرس سید فوزیہ اور کہکشاں شیخ نے نہایت ہی خوش اسلوبی اور عمدگی سے نظامت کے فرائض انجام دیے. پروگرام کی بے انتہا کامیابی پر تمام آفیسرس اور شرکاء نے بی او عارفہ سلیم شیخ اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کی. امید ہے آن لائن طرز تعلیم اردو میڈیم کے تمام اساتذہ مستقبل میں اسی طرح متحرک رہیں گے.


Monday, November 9, 2020

**عورت کا کردار اور اقبال کا نظریہ فکر**

 **عورت کا کردار اور اقبال کا نظریہ فکر** 

ازقلم :  کوثر حیات،اورنگ آباد۔

Email:khwaja.kauser@gmail.com


آج تمام عالم میں برصغیر کے عالمگیر شہرت یافتہ عظیم شاعر و فلسفی،مفکر، مصلح قوم، اُخوت کے پیکراور دانائے قوم ڈاکٹر سر محمد اقبال ؒ کو ان کی ادبی و علمی بے لوث خدمات کی وجہ سے خراج تحسین پیش کیاجارہا ہے۔یوں تو علامہ کی شہرت اور مقبولیت اردو اور فارسی زبانوں میں بہت زیادہ ہے۔ مگر اقبال نے جو رنگ، لب و لہجہ اردو زباں کو بخشا وہ منفرد اور مثالی ہے۔اقبال نے اپنے کلام میں جا بجاء مسلمانوں کو اپنا ماضی یاد دلایا ہے۔ بقول اقبال   ؎

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا 

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

ان کا ماننا تھا کوئی بھی قوم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقف نہیں ہوتی اور اپنے اسلاف کے ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتی۔ اقبال کی شاعری روح کو جھنجھوڑنے والی، ضمیر کو خواب غفلت سے بیدار کرنے والی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان کے فلسفہ میں ایک درس اور پیغام ہوتا ہے۔ان کے کلام میں مایوسی اور ناامیدی کو بیداری میں تبدیل کرنا اور قوم میں اعلی اقدار پیدا کرنا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسانوں کی تربیت اور خود شناسی کا اہتمام کیا۔

عورت کے حوالے سے جو تصورات علامہ اقبال کے کلام میں ہیں وہ پہلے کسی اور شاعر کے کلام میں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے دیگر شعراء کی طرح عورت کے خدو خال اور ظاہری خوبصورتی کے بجائے عورت کے پاکیزہ وصف کو اس طرح پیش کیا کہ جس کی بدولت غزل و نظم کو نئی بنیاد ملی جو آج بھی ایک نظیر ہے۔ 

عورت پر اقبال کی شاعری صرف غزل کا شعار نہیں بلکہ ان کی نظر اور کلام میں عورت قابل تکریم ہستی ہے۔ چاہے وہ ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں ہوں۔ عورت کو رب کائنات نے جوعظمت عطا کی وہ ہر اس کردار میں ا پنا ایثار، قربانی، محبت، شفقت اور بے لوث خدمات کا پیکر ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال نے عورت کی ان خوبیوں اور اوصاف کو مختلف مثالوں کے ذریعہ اپنی نظموں میں ڈھالا ہے۔ 

تاریخ اسلامی اگر دیکھیں تو ایسی عظیم خواتین کی مثالیں موجود ہیں جو تمام امت کی خواتین کے لیے رہبری کی عمدہ رہنما اصول ثابت ہوگی۔ علامہ اقبال نے جہاں بیٹی کی تربیت کا ذکر کیا وہیں بیٹی کی تعلیم کی بھی ترغیب دی ہے۔ مگر ساتھ ہی جدیدیت کے حاوی ہوتے غلبہ سے بچنے اور محفوظ رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ انہیں یہ فکر ہر لمحہ لاحق رہتی کے جدید تعلیم عورت کو اس کے مقصد حقیقی سے دور نہ کردے۔ اپنے اشعار کے ذریعہ وہ درس دیتے ہیں کہ دینی تعلیم زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ عورت کی بنیاد دین کے عالمگیر اصولوں پر ہونی چاہئے۔ 

تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت

ہے حضرت ا نساں کے لیے اس کاثمر موت

بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن

ہے عشق و محبت کے لئے علم و ہنر موت

اقبال ”جاوید نامہ“ میں ایک مثالی بیٹی شرف النساء بیگم کا ذکر کرتے ہیں جو نواب خان بہادر خان کی بیٹی اور پنجاب کے گورنر نواب عبدالصمد خان کی پوتی تھیں۔ جو اپنا بیشتر وقت تلاوت قرآن پاک میں صرف کرتیں اور اس دوران ایک مرصع تلوار ہمیشہ ان کے ہمراہ رہتی کم سنی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اور ان کی یہ نصیحت تھی کہ ان کی قبر اسی مقام تلاوت پر بنائی جائے اور قرآن اور ان کی تلوار کو ان کی قبر کے تعویذ پر رکھا جائے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کا عورت سے متعلق وہی نظریہ ہے جو اسلامی تعلیمات کے متعلق ہے۔ وہ عورتوں کے لیے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتداء سے مروج ہے۔ 

ڈاکٹر علامہ اقبال بہن کے رشتہ کے وجود کی اہمیت کوفاطمہ بنت خطاب خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ فاروق کی بہن کے مضبوط کردار کے ذریعہ اجاگر کیا ہے۔ اس میں علامہ اقبال اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول نہیں کیا جبکہ ان کی بہن اور بہنوئی دونوں نے اسلام قبول کرلیا تھا جب بحالت غیض و غصہ عمر بن خطابؓ بہن کے گھر جاتے ہیں اور فاطمہ بنت خطاب کی قرآن کی تلاوت کے الفاظ حضرت عمرؓ کے کانوں پر پڑتے ہیں اور ان ہی الفاظ کی تاثیر حضرت عمرؓ کے دل پر ثبت ہوتی ہے۔ اسے سن کر وہ جو نعوذ باللہ آپ  ؐ  کو قتل کا ارادہ کررہے تھے وہ ترک کرکے آپؐ کے پاس جاکر کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے ہیں۔ ایک بہن کے مضبوط کردار نے انہیں ؓ  صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی ہے۔  اس واقعہ کو اپنے کلام میں پیش کرکے علامہ اقبال نے عورت کی عظمت اس کے کردار کی مضبوطی کو پیش کیا ہے۔ جس نے یہاں رہبر اور رہنما کا کردار ادا کیا ہے۔ آپ کلام کے ذریعہ یہ بات پیش کرتے ہیں۔

ترجمہ : تو جانتی ہے کہ تیری قرأت کے سوز نے عمر کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ 

اسی طرح علامہ اقبال اپنے کلام میں حضرت فاطمہ ؓ کی مثال پیش کرتے ہوئے بیوی کا بلند مقام و عظمت بیان کرتے ہیں۔ اس میں وہ حضرت فاطمہ ؓ کی حضرت علی ؓ کے تئیں وفا شعاری اور توکل کا خوبصورتی سے ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح وہ نہایت سادہ اور مشقت بھری زندگی بسر کررہی تھیں۔ رحمۃ اللعالمین نبی ؐ آخری الزماں کی بیٹی شوہر کے گھر اپنے ہاتھ سے کام کرتیں اور جو تسلیم و رضا کا پیکر تھیں،ساتھ ہی وہ ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتیں۔

اپنے اشعار کے ذریعہ علامہ اقبال عظیم بیٹی کا کردار رو برو کرواتے ہیں۔ ان کی فرمانبرداری اور دین پر ثابت قدمی جو بے شک آج کی ہر عورت کے لئے قابل تقلید ہے پیش کرتے ہیں    ؎

نوری اور آتشی اس کے فرمانبرداری ہیں 

شوہر کی مرضی میں اس کی مرضی ہے 

وہ جس کی پرورش صبر و رضا میں ہوئی ہے 

چکّی پیستے ہوئے بھی اس کے لبوں پر قرأن جاری ہے 

سب سے اہم اور قوی کردار کی طرف آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے مثنوی رموز بے خودی میں ایک حدیث مبارکہ کو اس طرح بیان کیا ہے     ؎

گفت آن مقصود و حرف کن فکان زیر پائی امہات آمد جنان

ترجمہ :  اس مقصود حرف کن فکان (حضرت محمدؐ) نے فرمایا کہ ماں کے پیروں تلے جنت ہے۔

 رموز بے خودی میں علامہ اقبال کہتے ہیں؛   

”سیرت فرزند ہا ازامیات“

ترجمہ :  اولاد کی اچھی سیرت ماں کی (تربیت) کی وجہ سے ہی ہے۔

عورت کو ماں کی صورت میں عظیم مرتبہ حاصل ہے صرف اس وجہ سے کہ ماں اپنی اولاد کی تعلیم اور تربیت دلجمعی سے کرتی ہیں۔ اقبال قوم کی ماؤں کے سامنے ماؤں کا وہ کردار پیش کرتے ہیں جو نیک سیرت فرزند قوم کو دیتی ہیں جوکہ قوم کی ترقی کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ ماں بچہ کی پہلی درسگاہ ہے۔ احکام خداوندی اور نظام خداوندی کو اپنے کلام میں واقعات سے مزین کرکے خو داپنی کامیابی کی وجہ اپنی ماں کی تربیت بتاتے ہیں جو ان کے خاندان کی سربلندی کی وجہ بنی۔ ان کی والدہ نے ان پڑھ ہونے کے باوجود دیں اور دنیا دونوں اعتبار سے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ وہ اپنی ماں کی ہمت افزائی کو زندگی کے مراحل میں مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت مانتے ہیں۔ 

بانگ درا میں وہ اپنی نظم ”مرحومہ والدہ کی یاد میں“  رقم طراز ہیں کہ    ؎

دفتر ہستی میں تھی زرین ورق تیری حیات

تھی سراپادین و دنیا کا سبق تیری حیات

قطع تیری ہمت افزائی سے یہ منزل ہوئی 

میری کشتی بوس لب ساحل ہوئی

علامہ اقبال نے جابجا تاریخ ساز خواتین کے کردار کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے جو آفرین ملت ہیں جوامت کے لیے مثال ہیں۔ماں کے مقام اور عظمت کا ادراک اپنی ذاتی زندگی سے کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی نظم جو کہ مرثیہ کی طرح ہے ماں کو سب کی ماں بنادیا ہے۔ جگہ جگہ وہ اپنے نظریات اور فلسفہ کو اشاروں میں پیش کرتے ہیں۔ ہر چند کے امام بی بی پڑھی لکھی نہیں تھیں اس کے باوجود علامہ اقبال کی تربیت میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 

تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی و بے چارگی کا نقش ابھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ اسی لیے نظم کے آغاز میں وہ فرماتے ہیں     ؎

ذرہ ذرہ دہر کا زندانی ہے 

پر وہ مجبوری وہ بے چارگی ہے 

علامہ اقبال رب کائنات کے کارساز ہونے کا احساس دلاتے ہیں کہ ہر چیز قادر المطلق کے ہاتھ اور طئے شدہ ہیں۔ آسماں، سورج، چاند سبھی اس ذات کے سامنے مجبورہیں۔ تیز رفتار ستارے بھی اللہ تبارک تعالی کے مرہون منت ہیں۔ ہر ذی روح، جاندار، بے جان تمام کے تمام اللہ تعالی کے احکامات کی عمل آوری کررہے ہیں۔سورج کا غروب ہونا، چاند کا نکلنا، باغ میں کلیوں کا چٹک کر پھول بننا حتی کہ بلبل کے نغمہ سے لے کر ضمیر کی آواز تک اس مالک حقیقی کی دسترس میں ہے۔

علامہ اقبال اس نظم کے ذریعہ اللہ تعالی کی لازوال نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ماں کے گزر جانے کے صدمہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ 

”زندگی کا باغ ماں کے جانے سے ویران ہوگیا ہے۔ماں کی جدائی کا غم ایسا ہے کہ نہ خوشی کے موقع پر ہنس پاتا ہوں اور نہ غم کے وقت آنسو نکلتے ہیں۔ انسان کتنا ہی صابر و شاکر کیوں نہ ہو زندگی کے کسی نہ کسی موقع پر اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتا ہے    ؎

یہ تیری تصویر قاصد گریہ پیہم کی ہے 

آہ یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے 

لیکن ماں کی تصویر،ان کاتصور علامہ اقبال کے آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔“ وہ کہتے ہیں کہ”میری حکمت دانائی سب دھرے رہ جاتے ہیں ماں کے غم کے سامنے۔“ماں سے دوری کا غم درد کا ایسا عرفان ہے جس سے عقل کی رسائی ممکن نہیں۔اپنی نظم میں بڑی خوبصورتی سے ماں کا ذکر کرتے ہیں کہ 

”مرحوم والدہ کی یاد انہیں حال و ماضی کا خوبصورت امتزاج دیتی ہے،ان کا بچپن یاد آجاتا ہے۔وہ ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں جب ان کا جسم کمزور تھا اور وہ بولنے سے بھی قاصر تھے واحد ماں وہ ہستی تھیں جو ان کی طاقت بنتی اور بغیر بولے بھی ان کا مدعا سمجھ لیتی تھیں۔وہ شکر گزار ہے کہ ماں کی توجہ اور تربیت کی بدولت ہی ان کی خوش گفتاری کے چرچے ہورہے ہیں۔“

بے شک ماں دنیا کی واحد ہستی ہے جس کے سامنے عالی سے عالی مرتبہ انسان اپنے آپ کو چھوٹا سا بچہ محسوس کرتا ہے۔ ماں کی محبت و شفقت ایک ایسا جذبہ ہے جس سے ہر عمر میں انسان سیراب ہونا چاہتا ہے۔ ماں کی آغوش ایسی جگہ ہے کہ اس کے سائے میں آکر ساری تکالیف ذہن سے محو ہوجاتی ہے،مانو وہ ایک گمشدہ جنت ہے۔ 

جب انسان اگر وطن سے دور بھی ہو تو ماں بے صبری سے خط کا انتظار کرتی ہیں۔ اپنی فریاد کے ذریعہ اقبال واضح کرتے ہیں کہ ماں آدھی رات کو اولاد کی بہتری کی دعائیں مانگتی ہیں۔ اور جب وہ اس دارفانی سے کوچ کرجائے تو کون ہوگا جو نصف شب کو اپنی اولاد کے لیے دعائیں مانگے گا۔

اقبال ماں کے اعلی مقام کو کُل انسانیت کے سامنے اس طرح رکھتے ہیں کہ ماں کی زندگی دین و دنیا کے حوالے سے ایک سبق کی مانند تھی۔ زندگانی کی آب و تاب ماں کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے مگر جب وہ اس قابل ہوتے کہ اپنی ماں کی خدمت کرسکیں والدہ نہیں رہی۔ ماں کی خدمت کا خواب ان کے دل میں ہی رہ گیا۔وہ اس بات کا بھی ادراک کرتے ہیں کہ ان کی کمسنی کے دور میں ان کے بڑے بھائی نے ماں کی بہت خدمت کی۔ پھر ان کا غم کتنا زیادہ ہوگا وہ تو بلک بلک کر روتے ہیں۔ انہیں کیسے صبر آئے گا جب کہ مجھے ہی صبر نہیں آتا۔وہ اپنی والدہ کے انتقال کے وقت یورپ میں تھے۔ 

”مرحوم والدہ کی یاد میں“ اس نظم میں علامہ اقبال نے موت کی حقیقت کی منظر کشی کرکے دنیا کا مکروہ چہرہ ظاہر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا تو جوان، بوڑھے ہر ایک کے لیے ماتم کدہ ہے اور اگر زندگی اور موت کا مقابلہ کرنے جائے تو زندگی بے حد مشکل اور موت بہت آسان ہے۔ مگر موت وہ تلخ حقیقت ہے جو غریب کی جھونپڑی سے لے کر امراء کے دولت کدہ سے ہوتے ہوئے صحرا، آبادی،ویرانے غرض ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ ساتھ ہی اقبال ایک در س یہ بھی دیتے ہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس کے خلاف نہ تو کوئی گلہ کرسکتا ہے اور نہ شکایت۔ وہ کہتے ہیں کہ موت کا کوئی مداوا نہیں۔ مگر مرنے والے کی جدائی کا غم وقت کے ساتھ کم ہوتا ہے مگر اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ اور کسی بھی تکلیف کے پہنچنے پر یہ غم آنسوؤں کی شکل میں بہنے لگتے ہیں۔ 

مکالمات افلاطون نہ لکھ سکی، لیکن

اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطون

علامہ اقبال اسلامی طرز زندگی کے پیش نظر کہتے ہیں کہ شرعی حدود میں رہ کر عورتیں تمام سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ اپنے کلام میں فاطمہ بنت عبداللہ کا ذکر کرتے ہیں جو چودہ سالہ کم سن معصوم عرب لڑکی جسے انہوں نے شجاعت کی مثال کہا ہے جو جذبہ جہاد سے مالا مال تھیں۔ جنگ طرابلس میں غازی اور زخمی مجاہد بھائیوں کو اپنے مشکیزے سے پانی پلاتی ہوئی جام شہادت نوش کرگئی تھیں۔اس واقعہ سے علامہ اقبال بہت متاثر ہوکر نظم ’فاطمہ تو آبرو ئے امت مرحوم ہے‘ بانگ درامیں اس نظم کے ذریعہ اس واقعہ سے امت کو واقف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 

فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے 

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے 

یہ سعادت حور صحرائی! تیری قسمت میں تھی

 غازیان ِدیں کی سقائی تیری قسمت میں تھی

یہ جہاں اللہ کے راستے میں بے تیغ و سفر ہے


علامہ اقبال کے تحریر کلام سے یہ عیاں ہے کہ وہ عورت کو بیٹی کے روپ میں معصومیت، شرم و حیا، زیور تعلیم سے آراستہ اور مغربی تہذیب سے پاک چاہتے ہیں۔ بہن سے بہادری اور جرأت مند ی کی توقع رکھتے ہیں۔ بیوی کو صبر و تحمل، شوہر کی فرمانبردار اور وفا کا پیکر مانتے ہیں۔ ماں کو بہترین تربیت گاہ تصور کرتے ہیں جہاں اللہ کے صالح بندے، قوم کے معمار اور سماج کے بہترین شہری تیار ہوتے ہیں اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ     ؎

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی میں سوزِ دروں 

علامہ اقبال کے کلام کے باعث کئی اسلامی تاریخی واقعات ہمارے سا منے موجود ہے جو نوجوان نسل اور عورتوں کے لیے آج بھی رہنما ثابت ہورہے ہیں۔آخر میں یہ ضرور کہوں گی کہ ادب کا یہ خورشید اپنی شاعری کی روشنی سے کل امت کو بصیرت دے گیا۔علامہ اقبال کی عہد ساز شخصیت پر اردو ادب جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔ 


……………………

Sunday, October 18, 2020

محسن ساحل کو 'جھیل کے اس پار ساہتیہ منچ' کی جانب سے اعزاز

 محسن ساحل کو 'جھیل کے اس پار ساہتیہ منچ' کی جانب سے اعزاز


ممبئ میں مقیم شاعر وادیب، معیارایسوسی ایشن کے صدر اور بی ایم سی آن لائن ایجوکیشن پروگرام میں سی این او کی خدمات انجام دینے والے متحرک معلم محسن ساحل کو ان کی ادبی و تعلیمی خدمات کے لیے 'جھیل کے اس پار ساہتیہ منچ' کی جانب سے اعزاز پیش کیا گیا.

'جھیل کے اس پار ساتیہ منچ' کی جانب سے ہندوستانی زبانوں کی تبلیغ و ترویج کے ساتھ ساتھ بچوں میں ادب کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے نیز ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے اس منچ کے بانی، بالیوڈ فلم اداکار اور ہندی ڈراموں کی مشہور شخصیت ' ہیم پشپک ارورا' اور ہندی زبان کی مترجم و ریسرچ اسکالر ان کی شریک حیات روچی ارورا نے اپنی ٹیم کےتعاون سے جماعت اول تا دہم کے طلباء کے لیے بنام' ننھی جھیل' قومی سطح کا ادبی ورکشاپ منعقد کیا. اس ورکشاپ میں ہندی، اردو، مراٹھی اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں تعلیم حاصل کر رہے طلبا نے شرکت کی. بچوں نے شرائط کے مطابق اپنی شعری تخلیقات پیش کیں. بہترین تخلیقات کا انتخاب کرکے فاتحین کو اعزازات اور نقد رقم سے نوازا گیا.

محسن ساحل اس مقابلے کی کور کمیٹی کے رکن ہیں. انھوں نے گاہے بگاہے طلباء کی ادبی رہنمائی کی. اس لیے ان کی بہترین کارکردگی پر ' جھیل کے اس پار' کی جانب سے انھیں اعزاز سے نوازا گیا. محسن ساحل کو اعزاز پیش کرنے کے لیے' جھیل کے اس پار ساہتیہ منچ' کی ٹیم ' گایک رفیع نگر میونسپل اردو اسکول گوونڈی' پہنچی. صدر مدرسہ فریدہ سالم، اسکول انچارج محمد سعید اور دیگر اساتذہ کی حاضری میں یہ اعزاز محسن ساحل کو دیا گیا. بیٹ آفیسر عارفہ شیخ، اسکول کی صدرمدرسہ اور جملہ اسٹاف نے محسن ساحل کو مبارکباد دی اور ہیم پشپک ارورا جی کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس کام کے لیے ایک قابل معلم کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے.


منجانب: معیار میڈیا

Wednesday, September 30, 2020

Quazi Rasheed Khan - Interview on Retirement

Farewell Ceremony 
Quazi  Rasheed Khan
Hazrat Aayesha Nagar Parishad Urdu Girls School Shegaon


Friday, July 17, 2020

Juma Nama : Aala Zarfi Aur Kushada Dili Ke Sath Waba Ka Muqabla by Dr. Saleem Khan

جمعہ نامہ:اعلیٰ ظرفی اورکشادہ دلی کےساتھ وباء کامقابلہ

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

کورونا وبا کی بابت کچھ لوگ بہت زیادہ احتیاط پر زور دیتے ہیں تو کچھ تقدیر پر قناعت کے قائل ہیں ۔ صحابہ کے درمیان بھی 18 ہجری کے اندر بپا ہونے والےعمو اس کی وباء کے دوران ایسا اختلاف رونما ہوا تھا لیکن جس طرح آج کل احتیاط والوں کو بزدل اور مخالفین کو احمق سمجھا جاتا ہے ایسی کیفیت وہاں نہیں تھی۔ دورِ فاروقی میں جب شام، مصر اور عراق کے اندر وباپھیلی توحضرت ابوعبیدہؓ کی قیادت میں مسلمانوں کی بہت بڑی فوج مقیم تھی۔امیر المومنین نے اپنی فوج کی خبر گیری کےلیے خود رختِ سفرباندھا اوروہاں جاکر مہاجرین و انصار کے ساتھ مشورہ فرمایا۔ رائیں مختلف تھیں لیکن مہاجرین فتح نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سےاگلے دن کوچ کا اعلان کروادیا۔ اس پرحضرت ابو عبیدہؓ نے کہا:’’ اے عمر ! تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہو‘‘ ۔ توجواب دیا :’’ ہاں تقدیر الٰہی سے بھاگتا ہوں مگر بھاگتا بھی تقدیر الٰہی کی طرف ہوں‘‘ اور مدینہ لوٹ گئے لیکن اپنے سپہ سالار کو معزول نہیں کیا ۔ کشادہ دلی کے ساتھ اختلاف کو انگیز کرنے کی یہ بہترین مثال ہے۔

مدینہ آکر ابو عبیدہؓ کو بلوا بھیجا تو انہیں خیال ہوا وبا کے خوف سے بلایا جارہا ہے۔ جواب دیا جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ ’’ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے، اس لئے کوئی عمدہ مقام تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔‘‘اس حکم کی تعمیل میں حضرت ابوعبیدہؓ نے صحت افزاءجابیہ میں جا کر مقام کیا ۔ یہ اطاعت ہے کہ جتنا احتیاط ضروری تھا کیا۔ نہ ہر بات کی تائید اورنہ ہر حکم سے انکار کیا ۔جابیہ میں حضرت ابو عبیدہؓ بیمار ہوئے تو انتقال سے قبل معاذ بن جبلؓ کو جانشین مقرر کیا ۔ اس وقت حضرت عمرو بن العاص ؓ نے کہا کہ یہ وبا بنی اسرائیل پر مصر میں نازل ہونے والی بلاوں میں سے ہے اس لئے یہاں سے بھاگ چلنا چاہئے۔ حضرت معاذؓ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا کہ یہ وباء بلا نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا: ’’ اے فرزند! یہ اللہ کی طرف سے ہے، دیکھ شبہہ میں نہ پڑنا‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے‘‘ یہ کہہ کر انتقال کرگئے۔ حضرت معاذؓ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑے۔انہوں اختلاف رکھنے والے عمرو بن العاصؓ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ۔ اس کو اعلیٰ ظرفی کہتے ہیں ۔

حضرت عمرو بن العاصؓ نے کمان سنبھالنے کے بعد خطاب کرکے کہا وبا آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ ان کی رائےکو بعض صحابہؓ نے مسترد کیا تاہم حضرت عمروؓ نے اپنی رائے پر عمل کیااور فوج ان کے حکم کے تعمیل میں پہاڑوں پر پھیل گئی ۔ سوشیل ڈسٹنسنگ سے وباء کا زور ٹوٹ گیا۔ اس وباءمیں 25 ہزار مسلمان جن میں حضرات ابوعبیدہؓ، معاذ بن جبلؓ، یزید بن ابی سفیانؓ، حارث بن ہشامؓ، سہیل بن عمروؓاور عتبہ بن سہیلؓ جیسے بڑے صحابہ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا لیکن وہ کسی سازشی تھیوری کا شکار نہیں ہوئے ۔ قیامت خیز وباء نےاسلامی فتوحات کوعارضی طورپرروک دیا ۔ ہزاروں بچے یتیم اور خواتین بیوہ ہو گئیں۔ حضرت عمرؓ نے ان حالات میں پھرسے حضرت علیؓ کو مدینہ میں جانشین بناکرشام کاقصد کیا۔ اور اکثر اضلاع میں قیام کر کے فوج کی تنخواہیں اور وبائی مہلوکین کے وارثین کو میراث دلائی۔آسمانی آفات ووباء کا مقابلہ اس طرح میدان عمل میں اتر کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جس اعلیٰ ظرفی ، کشادہ دلی ، جوانمردی اور حکمت و فراست کے ساتھ وبا کا مقابلہ کیا وہ تاقیامت عالمِ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ ہم لوگ حضرت عمر ؓ سے متعلق گاندھی جی کا مقولہ تو خوب نقل کرتے ہیں لیکن ان کی پیروی کم ہی کرتے ہیں؟

Thursday, July 9, 2020

Koi Chara Nahi Dua Ke Siwa, Koi Sunta Nahi Khuda Ke Siwa by Dr. Saleem Khan

جمعہ نامہ : کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا ، کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا 
ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:  ’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے‘‘نبی اکرم ﷺ نے  اس آیت کی  تفسیر میں:’ دعا ہی عبادت ہے‘ کہہ کر اسے  تلاوت فرمایا۔  نبی کریم  ﷺ کا فرمان ہے : ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ،وہ ہررات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر آکر فرماتاہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں‘‘۔ رات کے آخری پہر کی  تسبیح و مناجات بندۂ مومن  ا کو اس  مقام  بلند تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ  رب کائنات سے نہایت  قریب ہوجاتا ہے  اور سرگوشی کرنے لگتا ہے۔ بندے کی  اس  حالت پر  علامہ  اقبال کے  یہ شعر صادق آتا ہے کہ   ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی اپنے بیٹے کے حق میں دعا ۔ اس حدیث میں سب سے پہلے مظلوم کو یقین دہانی کرائی گئی  ہےکہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔  انسان جب کسی ظالم کی تعذیب کا شکار ہوتا ہے تو  وہ سب سے پہلے دنیاوی سہاروں کی جانب لپکتا ہے لیکن جب ان سب سے مایوس ہوجاتا ہے تو بالآخر اپنے خالق و مالک کے آگے دست دعا پھیلا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اس کو ظلم و ستم سے نجات مل جائے ۔  مشیت الٰہی کے تحت جب اس میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے۔ وہ  شیطانی وسوسوں کا شکار ہوکر طرح طرح کے گمان کرنے لگتا ہے ۔   ایسے میں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ کائنات کا خالق منصف بھی ہے۔  اس کا انصاف دنیا سے لے کر  آخرت تک محیط ہے۔ کبھی نمرود پر ایک معمولی  مچھر کے ذریعہ سزا  دی جاتی ہے تو کبھی  فرعون غرقاب کردیا جاتا ہے فی الحال کورونا  نے  اچھے اچھوں کے اقتدار  کو ہلا  دیا ہے مگریوگی ی رسوائی کے لیےتووکاس  دوبے کافی ہو گیا ۔ یہ تو  اس دنیا کی معمولی سزا ہے ،دائمی جہنم ظالموں  کا آخری ٹھکانہ  ہے ۔
  نبی پاک ﷺ نےحضرت  معاذ ؓ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجتے ہوئے ہدایت فرمائی:’’ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا‘‘۔اپنے جلیل القدر صحابی کو ایک خاص موقع پر یہ تلقین اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ حکمراں کے لیے اس  خطرے کی  سنگینی  زیادہ  ہوتی  ہے۔  مظلوم کی داد رسی بلا تفریق مذہب و ملت ہوتی  ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے: ’’ مظلوم کی دعا قبول کی جاتی ہے، چاہے فاجر ہی کیوں نہ ہو، فجور(کا خمیازہ) اسی کی جان پر ہوگا‘‘۔دربار الہی میں ظلم وزیادتی  کی سزا دنیا اور آخرت دونوں جگہ مل کررہتی ہے۔فرمانِ  نبی ﷺ ہے:’’ ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لئے بھی اسے باقی رکھا جائے‘‘ ۔ اس حدیث میں کشمیر و فلسطین کے مظلومین اور ایغور و روہنگیا ئی  مسلمانوں کی خاطر ڈھارس کا سامان ہے۔ 
نبی ٔ مکرم   ﷺ کا فرمان ہے:’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالی دعا کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ،  اللہ  اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کو ناکام و نامراد واپس کر دے‘‘۔قبولیت  دعا اس طرح ہوتی ہے کہ :’’جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو اسےاللہ ربّ العزت تین  میں سے ایک نوازتے ہیں: دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے والا ہے۔ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے وہی دینے والاہے‘‘۔اللہ تعالیٰ ہماری دعاوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔

Sunday, July 5, 2020

COVID-19 Awareness - Quiz Result

MEYAAR Association Organised

COVID-19 Awareness Quiz

Final Results


Category 1-Primary Schools Students

Rank

Students Name

School


Class
1
Swara Chavhan
Goregaon Transit Camp MPS
5th
2
Khan Farheen Zeeshan
A.K.I Urdu Primary School
5th
3
Krish Ganesh Mendon
St John’s High Pri School
5th

Category 2-Upper Primary Schools Students

Rank

Students Name

School


Class
1
Ayush Pradeep Mishra
Pahadi  High School
6th
2
Arohan Ajeet Tijore
St Joseph High School Panvel
7th
3
Shaikh Tooba Vaseem Ahmed
Shivaji Nagar Urdu School No 7
7th

Category 3-High Schools Students

Rank

Students Name

School


Class
1
Asma Shaikh Alauddin
Awami Girls High School
10th
2
Arya Vikas Sarfare
Parle Tilak Vidyalaya
10th
3
Shiddat
HMMS
9th


Category 4-Intermediate & Above

Rank

Students Name

School


Class
1
Pranav Hotwani
VES College
FYBCOM
2
Shaikh Uzma Javed
Awami Girls Jr College
FYJC
3
Shabina Khan
Awami Girls Jr College
FYJC

                                                                     
                                 For MEYAAR Association.
                                             Reg No : G.B.B.S.D 2026/2019

Thursday, July 2, 2020

Juma Nama : Azabe Duniya, Muhlik Na Ho to Mauqa Hai by Dr. Saleem Khan

جمعہ نامہ : عذابِ دنیا، مہلک نہ ہو تو موقع ہے
ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے :’’کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ‘‘ اس سوال کا لازمی جواب ہے کہ ’’ ہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے‘‘۔ ان کا  انجام ایک دوسرے سےمختلف ہے  کیونکہ  ’’ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے آرام کرنے کی جنتیں ہیں جو ان کے اعمال کی جزا ہیں‘‘۔ یہاں  ایمان کے ساتھ عمل کا اضافہ کردیا گیا اورایمان  کے بعد ایمان   عمل کو جنت کی شرط قرار دیا  گیا ۔ یعنی اہل ایمان  اور فاسق کے انجام میں  حد فاصل  ’اعمال  خیر‘ہوگا ۔ اس کے آگے فاسقین کا  انجام بھی  بتایا گیا ہے کہ :’’ اور جن لوگوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکاناجہنم ہے کہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ پلٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس جہنمّ کی آگ کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے ‘‘۔ فاسق  چونکہ زبان سےسے  اقرارکرنے کے بعد  عملاً انکار کرتا ہے اس لیے اس کے انجام کو تکذیب سے جوڑ دیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ اہل ایمان کو چاہیے کہ  عمل سے غافل  نہ ہوں اور فاسقین کےلیے اپنے ایمان کے عملی انکار   سے باز آنا لازم ہے ۔ 
مذکورہ بالا آیت میں دوزخ  کے عذاب کی خصوصیت یہ  بتائی گئی ہے کہ جب جہنمی  اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو انہیں دوبارہ پلٹا دیا جائے گا یعنی اس عذاب  کی نوعیت دائمی ہوگی۔  اس کے بعد والی آیت میں فرمایا :’’اور ہم یقینا بڑے عذاب سے پہلے انہیں معمولی عذاب کا مزہ چکھائیں گے ‘‘۔ یعنی جہنم کا بڑا عذاب تو قیامت میں حساب کتاب کے بعد دیا جائے گا لیکن اس سے قبل اس دنیا میں بھی  چھوٹی موٹی تعذیب سے گزارہ جائے گا  اور اس کی غرض و غایت  یہ بتائی  گئی ہے  ’’تاکہ شاید اسی طرح راہ راست پر پلٹ آئیں‘‘۔گویا انسانوں کو  اس  معمولی عذاب میں  خوابِ  غفلت سے بیدار کرنے یا خبردار کرنے کی خاطر  مبتلا کیا جائے  گاتاکہ  لوگ اس  سے عبرت پکڑ کر اپنا رویہ درست کرلیں  ۔ ایسے لوگوں  کے لیے یہ  نعمت بن جائے گا۔ اس کے برعکس جو اس کو نظر انداز کردیں گے ان کی بابت فرمایا :’’ اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات ِالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں‘‘۔  یہ آیت دنیا اور آخرت کے عذاب کا فرق اور کورونا کی حقیقت   واضح کرتی ہے ۔ 
دنیوی عذاب کی بابت ارشادِ قرآنی  ہے :کہو، وہ اِس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، ‘‘۔ انسان  جدید آلات کی مدد سے سمندری  طوفان  کی سمت اور رفتار کا پتہ لگا کر احتیاطی تدابیرتو کر سکتا ہے لیکن اسے  روک دینا  کسی  کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے۔ اسی طرح زلزلہ کے  مرکزہ اور شدت  کی معلومات کا اندازہ تو ہوجاتا  ہے لیکن  اسے آنے سے روکنا تو دور وہ کب آئے گا اور کتنی تباہی لائے گا  ؟ اس کا پتہ لگانا بھی انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔یہ آفاتِ ارضی و سماوی انسان کے غر ور کو پارہ پارہ  کرکے اسے اپنے خالق و مالک کے آگے خود سپردگی کی جانب متوجہ کردیتی ہے۔  آگے انسان آزاد   چاہے تو پلٹ   آئے یا دائمی  تباہی کی جانب  بگ ٹٹ دوڑتا چلاجائے۔
 مشیت الٰہی انسانوں  کے ذریعہ بھی عذاب مسلط  کرتی  ہے۔فرمان قرآنی ہے  :’’ تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ‘‘۔ یعنی لوگوں کو ایک دوسرے برسرِ پیکار ہوجانا بھی عذاب کی ایک شکل ہے۔ چین اور ہندوستان کی  سرکاریں  ایغور اور کشمیریوں  کے خلاف ریشہ دوانیاں کا اشتراک   کرتی تھیں لیکن اب گلوان میں ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں  ۔  مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں کی  آپسی چپقلش ان کے لیے عذابِ جان بن گئی  ہے فرمایا :’’  دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ‘‘۔  اللہ کی  یہ نشانیاں عذاب بن کر حقائق کا پردہ فاش کرکے  غافل  انسانوں کو بڑے عذاب سے خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ  اتمام ِ حجت کا کام بھی کردیتی ہیں ۔  اللہ تعالیٰ بنی نوعِ انسانی کوکورونا اور چائنا جیسی تنبیہات سے راہِ راست کی توفیق عطا فرمائے ۔