آخری پتّہ
O. Henry
کا مشہور افسانہ
“The Last Leaf”
کا اردو ترجمہ
فیصل نذیر
واشنگٹن شہر کے مغرب کی جانب ایک علاقہ
بستا ہے، وہ بہت ہی تنگ اور غیر منظم ہے، راستے ایک جگہ سے شروع ہو کر نہ جانے کن
گلیوں میں ختم ہوجاتے ہیں، اور پھر اچانک کہیں سے ابھر آتے ہیں. کئی مصوروں نے بھی
ان البیلی گلیوں کی تصویر بنائی ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر کوئی پینٹر کسی
دکان سے پینٹنگ کا سامان لائے اور اسے یہ پتہ دےاور دکان کا مالک وصولی کے لیے آئے
تو یہ گلیاں اتنی گنجلک اور شکوک پیدا کرنے والی ہیں کہ اس آدمی کی ملاقات کچھ گلیوں
کے بعد خود سے ہی ہوجائے گی. اور پینٹر بھی پیسہ دینے سے بچ جائے گا،شہر کے اس
علاقے کو “گرین وِچ” کہا جاتا ہے، اس پرانے علاقے میں بہت سارے پینٹر اور آرٹس
بہترین مستقبل اور حسین مناظر کی تلاش میں آکر بس گئے تھے، زیادہ تر پینٹر یہاں
ملنے والے سستے کمرے اور بہترین مناظر کی طرف کُھلنے والی کھڑکیوں کی وجہ سے یہاں
رہنا پسند کرتے تھے. یہیں محترمہ سُو اور محترمہ جونسی بھی ایک تین منزلہ عمارت کی
تیسری منزل پر رہتی تھیں. ان میں سے ایک کا تعلق انگلینڈ سے تھا تو دوسرے کا
امریکہ ہی کے کیلیفورنیا سے. ان کی ملاقات ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی تھی۔
ان کی دوستی اس بات پر مزید پختہ ہوگئی کہ
ان کو ایک ہی طرح کا آرٹ، ایک ہی طرح کا کھانا، اور ایک ہی طرح کا کپڑا پسند تھا.
لہٰذا دونوں نے ساتھ میں رہنا اور ساتھ میں کام کرنا شروع کر دیا.یہ موسمِ بہار کی
بات ہے، لیکن اسی سال ٹھنڈی کا موسم اپنے ساتھ ایک تباہی لیتے آیا.یہ تباہی دیکھتے
ہی دیکھتے “گرین وِچ” علاقے میں بھی داخل ہوگئی، یہ اپنے ٹھنڈے ہاتھ جس پر رکھ
دیتی وہ پہلے بخار میں مبتلا ہوتا پھر موت کی نیند سوجاتا. لوگوں میں اس کی دہشت
بڑھنے لگی. مگر ان تنگ گلیوں اور پیچیدہ راستے والے علاقے پر اس کا اثر اتنا زیادہ
نہیں دکھ رہا تھا. اس تباہی کو لوگ”نمونیا” کے نام سے بلاتے تھے. نمونیا کسی رحمدل
بزرگ وار کی طرح تو نہیں تھا مگر اس نے کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی دبلی پتلی
سُو پر شفقت دکھائی اور اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، مگر جونسی کو اپنی آغوش میں لے
لیا. وہ اس قدر بیمار اور کمزور ہوگئی کہ چلنا پھرنا دو بھر ہوگیا. اور وہ بسترِ
مرگ پر لیٹ گئی. اور بیماری کی حالت میں وہ بستر پر لیٹے ہمیشہ کھڑکی کے باہر
سامنے والے گھر کی دیوار کو دیکھتی رہتی۔
ایک صبح مصروف ڈاکٹر نے جونسی کی دوست اور
ہم کمرہ سُو سے اکیلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: جونسی کے بچنے کی امید بہت کم ہے،
مگر ایک طریقہ ہے جس سے وہ ٹھیک ہو سکتی ہے، اگر وہ سچ میں جینا چاہے، در اصل اس
میں جینے کی امنگ نہیں ہے اور ایک ڈاکٹر اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا، جب تک کہ
مریض میں جینے کی امنگ اور صحت مند ہونے کی خواہش نہ ہو. آپ کی دوست نے یہ طے کر
لیا ہے کہ ٹھیک ہونا ہی نہیں ہے. کیا اسے کوئی تکلیف ہے یا کوئی صدمہ پہنچا ہے.یا
کوئی پریشانی ہے؟
سو نے تھوڑا سوچنے کے بعد کہا: اس کی ایک
ہی خواہش تھی، وہ اٹلی جا کر وہاں سمندر کے کنارے کے خوبصورت منظر کی پینٹنگ کرنا
چاہتی تھی۔
ڈاکٹر: پینٹنگ!!! نہیں. نہیں. پینٹنگ کا
کوئی مسئلہ نہیں دکھ رہا ہے، اس کی زندگی میں سخت غم یا عاشقی کا تو کوئی چکّر
نہیں ہے؟ جیسے کہ وہ کسی لڑکے سے محبت کرتی ہو یا کوئی اور معاشقہ اور ناکام ہوگئی
ہو؟
سو: لڑکا!!! نہیں، کیا آج کل کے دو کوڑی
کے عاشق اس لائق ہیں کہ ان کے لیے جان دی جا سکے نہیں، ایسا تو کوئی معاملہ نہیں
ہے۔
ڈاکٹر: اچھا، تب کمزوری ہی ایک وجہ ہے،
میرے بس میں جو بھی ہے وہ کر دوں گا مگر ایک بیمار انسان جب سوچ لے کہ اسے مرنا ہی
ہے تو ڈاکٹر کا آدھا کام بیکار ہوجاتا ہے اور دوا بے اثر ہو جاتی ہے۔
اس سے کچھ ایسی باتیں کرو کہ اس کے اندر
جینے کی خواہش اور امنگ پیدا ہوجائے. جیسے کہ اس کو بتاؤ کہ مارکٹ میں ٹھنڈی کے
اچھے اچھے کپڑے آئیں ہیں، تو جلدی ٹھیک ہوجا پھر ساتھ چلیں گے کپڑے لینے اور پارک
میں گھومیں گے. اگر وہ آنے والے کل میں دلچسپی دکھائے گی اور جینا چاہے گی تبھی اس
کے جینے کی امید کی جا سکتی ہے۔
سو اپنے کمرے میں گئی اور رونے لگی. پھر
وہ جونسی کے کمرے میں گئی.اور ساتھ میں پینٹنگ کے ساز و سامان بھی ساتھ لے گئی،
اور مسکرا کر گانا گاتے ہوئے داخل ہوئی. مگر جونسی بے جان اور خاموش پڑی تھی، اور اس
کا چہرہ کھڑکی کی طرف جھکا ہوا تھا. سو نے گانا گانا بند کر دیا یہ سوچ کر کہ شاید
جونسی سو رہی ہے۔
سو اپنا کام کرنے لگی، اسے کچھ بولنے کی
مدھم آواز آئی، وہ آواز بار بار سنائی دے رہی تھی۔
جونسی کہہ رہی تھی “بارہ”، پھر کچھ دیر
بعد اس نے کہا “اگیارہ”، پھر “دس” پھر “نو” اور پھر “آٹھ، سات” ایک ساتھ کہا۔
سُو نے کھڑکی سے باہر دیکھا، یہ کیسی گنتی
چل رہی ہے، اس نے دیکھا تو وہاں کچھ دور پر موجود ایک مکان کی دیوار تھی، اس دیوار
میں کھڑکی نہیں تھی، اور دیوار سے سٹا ہوا ایک پرانا درخت تھا، جس کی ٹہنی اوپر تک
گئی تھی، جو سو اور جونسی کے کمرے سے نظر آتی تھی، اس ٹہنی پر موجود پتیاں برفیلی
ہواؤں کی وجہ گر رہی تھیں. اور تقریباً ٹہنی پتوں سے خالی ہوگئی تھی۔
سو نے جونسی سے پوچھا: کیا گن رہی ہو؟
جونسی بہت ہی دھیمی آواز میں: چھے، سب
جلدی جلدی گر رہے ہیں، بس تین دن پہلے سو سے زیادہ تھیں. پہلے گننے میں ساری گنتی
گڑ بڑ ہوجاتی تھی، اور میرا سر بھی دکھنے لگتا تھا، مگر اب آسانی سے گن لیتی ہوں،
دیکھو! دیکھو! ایک اور گیا. اب صرف پانچ بچ گئے۔
سو حیرت سے: ارے کیا پانچ بچ گئے؟ مجھے
بھی بتاؤ!!!۔
جونسی: پتے، سامنے والے درخت پر. اور جب آخری
پتہ گرے گا تو میں بھی مر جاؤ گی. مجھے تین دن سے ایسا لگ رہا ہے کہ بس ان پتوں کے
ساتھ میرا بھی کام ختم. ڈاکٹر تمہیں بتائے نہیں کہ میں مرنے والی ہوں؟
سو: یہ کیا بکواس ہے! میں نے اس طرح کی
واہیات کبھی نہیں سنی، ایک پرانے درخت کے پتوں میں تمہاری جان تھوڑی ہے! اور ان
پتوں سے تمہاری صحت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور تم تو اس درخت سے بہت پیار
کرتی ہو، بھلا وہ تمہاری جان کیوں لے گا! تم آج کل عجیب احمقانہ باتیں کرنے لگی
ہو. ڈاکٹر کا یہ کہنا ہے کہ تم اچھی ہو رہی ہو،انہوں نے آج صبح ہی یہ بات کہی، اب
تم تھوڑا تھوڑا کھانا بھی شروع کر دو.پھر مجھے پینٹنگ بنانی ہے، جسے بازار میں
بیچنے بھی جانا ہے اور اسے بیچ کر تمہارے لیے طاقت کے سامان لانا ہے تاکہ تم اسے
کھا کر جلد از جلد ٹھیک ہو جاؤ۔
جونسی: میرے لیے کچھ مت لانا۔
وہ اب تک گھر کے باہر دیکھ رہی تھی، “ایک
اور پتہ گرا”، مجھے کچھ بھی کھانے کا من نہیں ہے، “اب چار پتے بچ گئے”، آج رات سے
پہلے میں آخری پتے کو بھی گرتا دیکھنا چاہتی ہوں، پھر اس کے بعد میں بھی مر جاؤں
گی۔
سو: میری جان جونسی، تم آنکھ بند کر کے
آرام کرو، اور وعدہ کرو کہ تم اس کھڑکی کی طرف نہیں دیکھو گی، میں صبح تک اپنا کام
ختم کر لیتی ہوں، مجھے اس پینٹنگ کو کل شام تک ختم کرنا ہے، اور چونکہ مجھے روشنی
کی ضرورت ہے اس لیے میں کھڑکی بند نہیں کر رہی ہوں۔
جونسی نے سرد لہجے میں کہا: ارے یار! تم
دوسرے کمرے میں بھی تو کام کر سکتی ہو۔
میں تمہارے سامنے رہنا چاہتی ہوں اور یہ
بھی چاہتی ہوں کہ تم ان پتوں کی طرف نہ دیکھو۔
جونسی: اچھا چلو! جب تمہارا کام ہوجائے تو
بتا دینا. اس نے آنکھیں بند کر لی، اور خاموش ہو گئی. اور ہلکی آواز میں کہنے لگی:
میں نے اس پتے کے بارے میں بہت سوچا، اور بہت انتظار کیا، میں بالکل اس پتے کی طرح
اڑتے اور مست ہوا میں لہراتے ہوئے یہ دنیا چھوڑنا چاہتی ہوں.سو غصے میں: منہ بند
رکھو اور سونے کی کوشش کرو، میں نیچے روم والے چچا بہرمن کو بلا کر لاتی ہوں، مجھے
ان کی طرح ایک عمر رسیدہ انسان کی پینٹنگ بنانی ہے، میں یوں گئی اور یوں آئی، تم
ہلنے کی کوشش بھی مت کرنا۔
بہرمن چچا، یہ ساٹھ سال کی عمر کے ایک
ناکام پینٹر تھے، جو اسی بلڈنگ میں پہلی منزل پر رہتے تھے، ان کی ہمیشہ سے یہی
خواہش تھی کہ وہ ایک دن عالمی شہرت یافتہ مصور بنیں گے، مگر ان کی یہ خواہش، خواہش
ہی رہ گئی تھی، وہ ہمیشہ کہتے کہ میں ایک دن ایسا ماسٹر پیس اور شاہکار پینٹنگ
بناؤں گا کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی،مگر لوگ حیران تھے کہ وہ ایسا ماسٹر پیس اور
اعلی پینٹنگ بنانا شروع کیوں نہیں کرتے؟
بہرمن بال بڑھا کر مکمل ایک آرٹسٹ کی ہیئت
بنائے ہوئے تھے، اور وہ اس عمر میں دوسروں کو اپنی تصویر بنانے کی اجازت دیکر کچھ
پیسے کما لیتے تھے. پینٹر کے سامنے مجسمہ بن کر بیٹھے رہتے اور اس کی انہیں کچھ
رقم مل جاتی. شراب کے عادی تھے، اور لاچاری کی حالت میں بھی وہ اپنے شاہکار تصویر
کو نہیں بھولے تھے، اب تک اس کا ذکر ان کی زبان پر رہتا ہی تھا. کچھ لوگ انہیں
سنکی ناکام بڈھا سمجھنے لگے تھے۔
بہرمن چچا سو اور جونسی سے بہت لگاؤ رکھتے
تھے اور اکثر یہ کہتے تھے کہ بیٹا کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا، تم میرے بچوں کی
طرح ہو اور میں تمہارے گارجین کی طرح، اور یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے
پڑوسیوں کا خیال رکھوں۔
سو ان کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ مکمل
اندھیرا تھا، وہ سمجھ گئی کہ بہرمن چچا شراب پی کر مست اندھیرے میں کہیں پڑے ہیں،
اور شراب کی مہک سے بھی وہ سمجھ گئی.اس نے بہرمن سے جونسی کی بگڑتی حالت اور گرتے
ہوئے پتوں کی کہانی سنائی، اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اسے خوف کہ کہیں سچ میں آخری
پتہ گرتے گرتے جونسی بھی نا کہیں دنیا کو الوداع کہہ دے. دنیا سے اس کی دلچسپی روز
بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔
بہرمن جونسی کی طبیعت کے بارے میں جان کر
سخت غمزدہ ہوئے اور پتّوں والی بات سن کر غصے میں چلائے : کیا بک رہی ہو! کیا آج
تک کسی پتے کے گرنے سے بھلا کوئی انسان مرا ہے؟ میں نے اپنی زندگی میں آج تک ایسی
الول جلول بات نہیں سنی.میں نہیں آرہا تمہارے روم میں کہ تم میری پینٹنگ بنا سکو،
لیکن تم کیسی روم میٹ ہو! تم جونسی کو ایسی اناپ شناپ بات سوچنے ہی کیوں دیتی ہو؟
کتنی پیاری بچی ہے۔
سو: ارے میں تو اسے ایسی باتیں سوچنے سے
روکتی ہوں، مگر اس بیماری میں وہ بہت کمزور ہوگئی ہے اور اس اس لاچاری کی وجہ سے
اس کے ذہن میں ایسے عجیب خیالات آرہے ہیں۔
چچا اگر آپ میری پینٹنگ کے لیے نہیں آرہے
ہیں تو کوئی بات نہیں مگر میری بات ٹھکرا کر آپ میرا دل دکھا رہے ہیں۔
بہرمن: کیا آفت ہے یہ لڑکی! میں نے کب کہا
کہ میں نہیں آرہا ہوں، چلو چلتا ہوں تمہارے ساتھ، اتنی دیر سے میں کہہ رہا ہوں کہ
چلو چلتے ہیں مگر تم ہی عجیب و غریب قصے سنا رہی ہو، کہ پتّے میں جان ہے، تو طوطے
میں جان ہے۔
ان کہانیوں سے مجھے غصہ چڑ رہا ہے، اور
ایک بات اور ہے یہ کچرے والا علاقہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہے، یہاں صفائی کا بھی
صحیح انتظام نہیں ہے، اس میں جونسی اور پریشان ہو جائے گی. گھر سے بھی وہ دور ہے۔
کسی دن دیکھنا میں اپنی شاہکار تصویر
بناؤں گا اور اسے بیچ کر بہت پیسے کماؤں گا اور اس بے ہنگم علاقے سے نکل جاؤں گا۔
جب یہ دونوں اوپر والے کمرے میں گئے تو
جونسی سو رہی تھی، سو نے کھڑکی بند کی اور بہرمن چچا کو دوسرے کمرے میں لے گئی.اس
کمرے سے انہوں نے کھڑکی کے باہر دیکھا، اور وہ دونوں اس ڈراؤنے اور خوفناک درخت کو
دیکھنے لگے جس کے پتے گر رہے تھے،دونوں نے ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھا اور پھر درخت
کی طرف دیکھنے لگے، بارش بہت تیز ہورہی تھی اور برف بھی گر رہی تھی، بہرمن بیٹھ
گئے اور سو ان کی تصویر بنانے لگی، اس نے پھر رات بھر کام کیا. صبح میں وہ صرف ایک
گھنٹہ سو کر جونسی کے پاس گئی، اس نے دیکھا کہ جونسی آنکھ کھولے کھڑکی کی طرف دیکھ
رہی تھی، اس نے سو سے کہا: “مجھے پتّہ دیکھتا ہے”۔
سو نے شیشے کی کھڑکی پر لگے پردوں کو ہٹا
دیا۔
مگر رات بھر برفیلی بارش اور سخت طوفان کے
باوجود ایک پتّہ اب تک نظر آرہا تھا جو کہ آخری پتہ تھا. اس کا رنگ اب تک گہرا ہرا
لگ رہا تھا، کنارے کی طرف سے وہ پیلا ہو رہا تھا، مگر اب تک لٹکا ہوا تھا اور ہوا
کے جھوکے کھا رہا تھا۔
جونسی نے پوچھا: اچھا! یہ آخری والا اب تک
بچا ہوا ہے، گرا نہیں؟ مجھے لگا رات کے طوفان اور بارش میں ضرور گر گیا ہوگا. میں
تیز ہوا کی آواز رات بھر سنتی رہی تھی، کوئی بات نہیں، آج گر جائے گا، میں بھی اسی
وقت اس دنیا سے چلی جاؤں گی۔
سو نے پیار سے کہا: ارے میری پیاری سہیلی،
کیا بَک رہی ہو، اگر تمہیں اپنا خیال نہیں ہے تو میرے بارے میں سوچو، میں تمہارے
بغیر کیسے جیوں گی؟ اور کیا کروں گی؟
جونسی یہ سن کر خاموش پڑی رہی۔
دنیا میں سب سے تنہا چیز روح ہے، جب روح
ہی اس دنیا کو چھوڑ کر کسی لمبے سفر پر جانے کا تہیہ کر لے تو زمین اور اہل زمین
پر موجود ساری دوستی اور رشتہ داری کی ڈرو ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔
دیکھتے دیکھتے وہ دن بھی گذر گیا، جیسے
جیسے اندھیرا چڑھا، وہ دیوار سے لگا پتّہ اب تک نظر آرہا تھا، رات نے اپنا تاریک
سایہ دنیا پر پھیلانا شروع کر دیا، پُرویّا ہوا پھر سے تیز بہنے لگی، بارش اور
طوفان سے کھڑکی پر بار بار زور کا شور ہو رہا تھا۔
اگلی صبح جب سویرا پھوٹا، جونسی پھر سے وہ
پتہ دیکھنے کی ضد کرنے لگی: حیرت ہے! وہ پتہ اب تک وہی ہے!!!جونسی لیٹے ہوئے لمبے
وقت تک اس پتے کو تکتی رہی، پھر اس نے سُو کو آواز دیا، جو کچن میں اپنے کھانے کے
لیے کچھ بنا رہی تھی.
جونسی نے سو سے کہنا شروع کیا: میں بہت
بُری لڑکی ہوں نا؟ مجھے موت بھی پسند نہیں کرتی، اسی لیے وہ پتہ اب تک وہاں لٹکا
ہوا ہے، لگتا ہے وہ پتہ لٹکا ہی رہے گا اور مجھے جینا ہی پڑے گا. شاید موت کی مزید
امید اور انتظار اچھی بات نہیں، اب میں کچھ کھانے کی کوشش کرتی ہوں، مگر پہلے تم
آئینہ بڑھاؤ، ذرا دیکھو کیسی بھوتنی لگ رہی ہوں، اور پھر میں بیٹھ کر تمہیں کھانا
بناتے دیکھوں گی۔
کچھ گھنٹے بعد جونسی نے کہا: سو، میری بڑی
خواہش ہے کہ کسی دن اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے کی پینٹنگ بناؤں. جونسی نہا دھوکر
فریش ہوگئی اور سو کے ساتھ کھانا بھی کھایا۔
دوپہر میں ڈاکٹر چیک اپ کے لیے آئے، سو ان
کے پیچھے پیچھے آئی تاکہ کچھ بات کر سکے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے، اب
جونسی جیے گی، کیونکہ اب اس کے اندر جینے کی امنگ جاگ گئی ہے. ڈاکٹر نے شفقت سے سو
کا دبلا، پیلا اور کانپتا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا: جونسی ٹھیک ہو رہی
ہے اس کا بہترین خیال رکھو، وہ جلد پہلے جیسی ہوجائے گی، اب میں نکلتا ہوں، آج ذرا
جلدی ہے، اسی بلڈنگ میں ایک اور مریض دیکھنا ہے، اس کا نام شاید بہرمن ہے، وہی جو
پینٹر ہے، مجھے لگتا ہے وہی وائرل نمونیا ہے، ساٹھ سال عمر ہوچکی ہے، دبلا پتلا
آدمی ہے، اور بہت زیادہ بیمار ہے، اس کے بچنے کی امید کم ہی ہے. ابھی ہم لوگ اسے
ہاسپٹل لے جا رہے ہیں، ہم ان کا مکمل خیال رکھنے کی کوشش کریں گے.
دوسرے دن ڈاکٹر آئے اور سو سے کہا: جونسی
اب بالکل ٹھیک ہے، تم نے جس طرح ہر طریقے سے خیال رکھا وہ قابلِ داد ہے، تم نے
کمال کر دیا. بس اب وہ کھاتی پیتی رہے سب ٹھیک ہوجائے گا. اب میرے آنے کی بھی
ضرورت نہیں ہے.
دوپہر میں سو جونسی کے بستر کے پاس گئی
اور اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر بولی: بہن، مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے، بہرمن
چچاکا نمونیا سے آج ہاسپٹل میں انتقال ہوگیا، بیچارے، صرف دو دن میں ہی قصہ تمام
ہوگیا، ایک روز پہلے ہی اپنے کمرے میں گرے ہوئے ملے تھے، وہ سخت درد میں تھے، ان
کا جوتا اور کپڑا مکمل تر تھا، اور برف کی طرح سرد پڑے ہوئے تھے۔
سب آج تک یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ وہ اس
ٹھنڈی اور بارش میں آخر کہاں گئے تھے، اور ان کی پینٹنگ کے سامان برش، کلر بوکس،
ہرا پینٹ، پیلا پینٹ اور بھی دوسرے سامان گھر کے باہر پڑا ہوا ملا۔
میری پیاری جونسی باہر دیکھو، اس دیوار پر
جو آخری پتہ نظر آرہا ہے، کیا تمہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ آخر اتنی طوفانی بارش
میں ہلا اور گرا کیوں نہیں؟ ارے میری پیاری دوست، یہ بہرمن چچا کا ماسٹر پیس اور
شاہکار ہے، تمہارے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اور طوفان میں بھیگ کر انہوں نے
یہ پتی دیوار پر اس کاریگری سے بنائیکہ ہمارے کمرے سے وہ اصلی لگے. وہ زندگی بھر
جس ماسٹر پیس کی بات کرتے تھے وہ یہی تو ہے۔
سو کے آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہنے
لگی۔۔۔۔
........................
Special Thanks To Mr. Faisal Nazeer ( J.M.I)
بہت پُر اثر
ReplyDelete🍃🍁kamaal ki kahani hai
ReplyDeleteKamal-ast waah waah kya baat hai bhut hi khoob👌🏻👌🏻👌🏻❤❤❤❤
ReplyDelete❤❤❤☑☑bhut khoob hai janab zbrdst
ReplyDeleteTragic ending 😢
ReplyDelete