جینااسی کا نام ہے
زینت جبین
کافی رات گئے وہ گھر آیا تھا۔اُسے خالی ہاتھ دیکھ کر بانو کا دل کرچی کرچی ہو رہا تھا۔
آپ بچ٘وں کے کپڑے نہیں لاۓ۔آج آپ کو پیسے ملنے والے تھے۔بانو کے لہجے میں شکایت در آئی تھی۔
وہ تھکا سا فرش پر بیٹھ گیا۔
آج بھی کام مکمل نہیں ہوا۔مالک کا کہنا ہے۔جب تک کام پورا نہیں ہوتا۔پیسے نہیں ملیں گے۔حامدنے اپنا سر دیوار سےٹیک کر۔آنکھیں بند کر لی۔
مگر بچے یہ سب نہیں سمجھ پاتے۔اُنہیں تو عید کے لئے کپڑے چاہیے۔ اور کچھ نہیں۔بانو کی آواز آپ ہی تیز ہو گئی۔
دیکھو۔میری بات کو سمجھو۔حامد نے آنکھیں کھول کر بانو کو دیکھا۔جو اُسکے پاس ہی آ بیٹھی تھی۔
میں کوشش تو کر رہا ہوں۔مگر یہ بڑے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔حامد اپنی جگہ کافی پریشان تھا۔
تم اُن لوگوں کو سمجھا کر۔اپنی محنت کے پیسے نہیں وصول کر سکتے۔تو میں اِن تین بچ٘وں کو کیسے سمجھاؤں۔جو ہر صبح اُٹھ کر سب سے پہلے سوال یہی کرتے ہیں۔کہ اب٘و عید کے کپڑے لاۓ یا نہیں۔ اور میں... میں اُن کو جواب دیتے تھک جاتی ہوں۔بانو کی آنکھیں گیلی ہو رہی تھی۔
دیکھ۔چپ رہو۔کل میں کام پورا کرکے آؤں گا۔اور دیکھنا۔میں بچ٘وں کے لئے کپڑے بھی لیتا آؤں گا۔اب تم جلدی سے کھانا نکالو۔مجھے بھوک لگی ہے۔حامد اُٹھ کر ہاتھ منھ دھونے چلا گیا۔بانو آنکھیں صاف کرتی اُٹھ کر کھانا نکالنے لگئ۔
حامد جب واپس آیا۔بانو کھانا نکال چکی تھی۔وہ آرام سے بیٹھ کر کھانے لگا۔
بانو قریب ہی بیٹھ گئی۔
بانو۔کل ایسا کرنا۔تم بچ٘وں کو ساتھ لیکر بازار آجانا۔ میں کام ختم ہوتے ہی وہاں پہنچ جاؤں گا۔پھر بچ٘وں کے کپڑےاورعید کے دیگر سامان خرید کر ہم سب ساتھ ہی گھر آجائیں گے۔کھانا کھاتے ہوئے حامد نے دوسرے دن کاپروگرام بتایا۔ تو بانو کے چہرے پر بڑی خوبصورت سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔
اُنکی شادی کو بارہ سال ہو چکے تھے۔بڑی بیٹی دس سال کی تھی۔اور دونوں بیٹے اُس سے چھوٹے تھے۔بچپن اُن پر خوب سج سنور کر آیا تھا۔روز کی تو خیر کوئی بات نہیں۔اُوپر والے نے پیٹ بنایا تھا تو اُسے بھرنے کے لئے کھانا دے ہی رہا تھا۔مگر یہ عید کا موقع۔ اور بچ٘وں کے کپڑے کی فرمائش۔جان مار رہی تھی۔بانو اُنہیں سمجھا کر تھک چکی تھی۔مگر بچے مان نہیں رہے تھے۔بانو کیا کرتی۔بچ٘وں کی باتیں شوہر کو بتا کر اپنی پریشانی کم کرنا چاہتی تو شوہر کی باتیں سُن کر۔ اور پریشان ہو جایا کرتی۔حامد زنگ و روغن کا کام کرتا تھا۔عید کا موقع تھا۔اُسے ایک جگہ کام مل گیا تھا۔اُس مکان کے مالک کا کہنا تھا۔جب تک کام مکمل نہیں ہوجاتا۔پیسے نہیں ملیں گے۔وہ ہر روز یہ سوچ کر کام پر جاتا کہ آج کام پورا کر آؤں گا۔مگر کام پورا ہی نہیں ہو رہا تھا۔
صبح حامد جلد اُٹھ کر کام پر چلا گیا۔بانو اُٹھ کر ناشتہ بنا رہی تھی۔جب فرمان نے آنکھ کھلتے ہی اپنا سوال دہرایا تھا۔
نہیں بیٹے کل پیسے نہیں ملے تھے۔آج تم سب شام کو میرے ساتھ بازار چلو گۓ۔تمہارے اب٘و تم لوگوں کے لئے کپڑے خرید دیں گے۔
بانو روٹی توے پرڈال کر فرمان کو سمجھائی۔
اور وہ کپڑے کی بات سن کر خوشی سے اچھل پڑا۔
اُسے خوش دیکھ کر بانو کے لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے۔
فرمان نے عمران اور نازلی کو بھی اُٹھا دیا۔اور اب تینوں بچے بانو کے گرد آکر اپنے کپڑوں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔بچ٘وں کے ناشتہ کر لینے کے بعد بانو گھر کے کاموں میں لگ گئی۔آج بچ٘ے آپس میں اتنے خوش لگ رہے تھے جیسے نئے کپڑے آنے کی خوشی میں عید ہفتہ بھر پہلے ہی اُسکے گھر اتر آئی ہو۔
امی اور کتنا وقت بچا ہے بازار جانے میں۔دونوں بیٹوں نے کئی بار یہ سوال کیا تھا۔اور بانو ابھی وقت ہے۔ کہتی اپنے کاموں میں لگ جاتی۔
امی اور کتنا وقت بچا ہے۔فرمان نے لاڈ سے پوچھا۔
ابھی وقت ہے۔تم سب سو جاؤ۔رات کپڑے خریدنے میں دیر ہو جائے گی۔بانو کپڑے دھوتی ہوئی بولی۔
میں رات میں بھی نہیں سوؤں گا۔عمران بانو کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے بولا۔
کس لئے بھلا۔بانو حیرانی سے اُسے دیکھی۔
اپنے کپڑے دیکھتا رہوں گا۔عمران کے معصومیت سے کہنے پر۔بانو کی آنکھیں پھر آئی۔
میرابچ٘ہ۔بانو نے کپڑا چھوڑ کر عمران کو سینے سے لگا کر رو پڑی۔
کاش میرے پاس اتنے پیسے ہوتے کہ میں تمہارے آگے کپڑوں کا ڈھیر لگا سکتی۔بانو روتی ہوئی بولی۔ماں کے رونے کی آواز پر نازلی اور فرمان جو پاس ہی بیٹھے اُن دونوں کی باتیں سن رہے تھے۔اٹھ کر انکے قریب آکر کھڑے ہو گۓ۔
فرمان۔ امی کو پریشان مت کرؤ۔امی کے پاس پیسے نہیں ہیں۔اگر ہوتے تو امی ہم لوگوں کو بہت سارےکپڑے خرید دیتیں۔مگر افسوس..... نازلی چپ ہوگئی۔
تو کیا کپڑے پیسے سے ملتے ہیں؟ عمران کے سوال پر بانو نے اس کی پیشانی چوم لی۔پھر پیار سے بولی۔
کپڑے ہی نہیں۔ دنیا کی ہر چیز پیسوں سے ملتی ہے۔اور ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔بانو ایک سردآ بھر کر اپنے تینوں بچ٘وں کو دیکھی۔
تو نازلی۔ امی کو کپڑے دھونے دو کہتی دونوں بھائیوں کے ہاتھ پکڑے۔آنگن سے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔بانودوبارہ کپڑے دھونےمیں مشغول ہوگئی۔
شام وہ بچ٘وں کو تیار کر کے گھر سے نکلنے ہی والی تھی کہ باہر گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔
نازلی دوڑ کر باہر آئی۔
کون ہو سکتا ہے۔ یہ سوچتی بانو بھی دروازے تک آئی تھی۔
نازلی کے پاس کھڑا شخص کہہ رہا تھا۔امی کو بلاؤ۔
جی کیا بات ہے۔بانو نے پردے کے پیچھے سے پوچھا۔
تمہارے شوہر کی آنکھوں میں گرم گرم چونا پڑگیا ہے۔ اُسے کافی تکلیف ہے۔اُس نے مجھے کہا تھا کہ یہ خبر تم تک پہنچادوں۔ورنہ تم پریشان ہوتی رہو گی۔
حامد اپنی آنکھوں کی دوا کے لئے سرکاری ہوسپیٹل گیا ہے۔ بچ٘وں کو لے کر تمہیں ہوسپیٹل بلایا ہے۔وہ شخص اپنی بات ختم کر کے واپس چلا گیا۔
بانو بےحد گھبرا گئی۔اُسے لگا۔جیسے اُسکے بچ٘وں کے خواب ٹوٹ رہے ہوں۔اُس نے جلدی سے دروازے میں تالا لگایا اور بچ٘وں کو لیکر نکل پڑی۔دونوں بچے ہنسی خوشی اُسکے ساتھ چل رہے تھے۔بچ٘وں کے اندر نئے کپڑے کی للک تھی۔اُنکے پیر خوشی خوشی بڑھ رہے تھے۔جبکہ بانو سوچ رہی تھی۔پتا نہیں کام ختم بھی ہوا تھا یا نہیں۔دوا میں کتنے پیسے لگیں گے۔وہ اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ بچ٘وں کو بتاتی کہ وہ کپڑے لینے بازار نہیں ہوسپیٹل جا رہی ہے۔
امی یہ تو ہوسپیٹل ہے۔ہمیں تو بازار جانا تھا۔عمران ہوسپیٹل پہنچ کر حیرانی سے پوچھ رہا تھا۔
بانو چپ رہی۔ کیا کہتی۔
ابو کی آنکھوں میں چونا پڑگیا ہے۔ابو ڈاکٹر کو دیکھانے آۓ ہیں۔ڈاکٹر کو دیکھانے کے بعد ہم سب بازار جائیں گے۔بانو کو چپ دیکھ کر نازلی نے بھائی کو سمجھایا۔تو وہ پھر سے خوشی خوشی چلنے لگا۔
ہوسپیٹل کے او پی ڈی میں اُن لوگوں کو حامد مل گیا۔اُس کی آنکھوں سے پانی گر رہا تھا۔جسے حامد ور مال سے پوچھ رہا تھا۔اُس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔تکلیف سے وہ پریشان تھا۔بچ٘وں کو دیکھکر شرمندہ ہو رہا تھا۔جبکہ بچے اُسے ایسی حالت میں دیکھ کر چپ سے ہوگۓ تھے۔انکی خوشی گم ہو گئی تھی۔
آپ کو ایسی حالت میں دیکھ کر۔سمجھ نہیں آرہا کیا کرؤں۔بانو کی آواز بھر٘ا گئی۔
تم بچ٘وں کو لیکر یہیں روکو۔میں آنکھیں دیکھا کر آتا ہوں۔پھر بازار چلیں گے۔حامد بانو کی باتوں کو نظرانداز کرتا ہوا بولا۔
مگر آپ کو تو کافی تکلیف ہے۔نازلی پریشانی سے بولی۔
میری تکلیف۔تم لوگوں کی خوشیوں سے کم ہو جائے گی۔حامد نے پیار سے نازلی کے سر پر ہاتھ رکھا۔
کام ختم ہو گیا تھا کیا۔بانو کے اس سوال پر حامد ہنس کر بول پڑا۔
نہیں کام تو ختم نہیں ہوا۔مگر چونا پڑ جانے سے مالک نے میری مزدوری کے ساتھ ہزار روپے بڑھا کر دیا ہے۔کل ملا کر پانچ ہزار روپے ہیں۔اِن پیسوں کو تم اپنے پاس رکھو۔میں آنکھیں چیک کروا کر ابھی آتا ہوں۔حامد نے جیب سے پیسے نکال کر بانو کو پکڑیااور سامنے والی کیبن میں داخل ہو گیا۔
کافی دیر بعد بھی جب حامد کیبن سے باہر نہیں نکلا تو بانو بچ٘وں کو لیکر کیبن میں آگئی۔ان سبھوں نے دیکھا۔حامد سامنے بیڈ پر چیت لیٹا تھا۔اور ڈاکٹر صاحب اُس پر چھک کر آنکھوں کو روئی سے صاف کر رہے تھے۔
کیا ہوا ہے ڈاکٹر۔بانو بے چین ہو کر پوچھی۔
بچ٘ے سہمے سے کھڑے تھے۔
تم اس کی وائف ہو۔ڈاکٹر صاحب حامد کو چھوڑ کر بانو کی طرف پلٹے۔
ہاں جی..... بانو کی آواز روندھ گئی۔
گھبرانے کی بات نہیں ہے۔مگر ابھی اِسے آرام کی ضرورت ہے۔ہفتہ پھر میں ٹھیک ہو جائے گا۔اب تم جلدی سے یہ دوائیں خرید لاؤ۔وہ تو اس نے اچھا کیا۔ جو فوراً یہاں چلا آیا۔ورنہ اس کی آنکھیں خراب ہو جاتیں۔ڈاکٹر نے ٹیبل سے پرچی اُٹھا کر بانو کو پکڑا دیا۔
کتنے میں آئیں گی یہ دوائیں۔وہ پرچی لیے پوچھ رہی تھی۔
یہی کوئی تین ساڑھے تین ہزار روپے کی۔اب تم جلدی سے جاؤ۔ڈاکٹر صاحب واپس حامد کے پاس جاتے ہوۓ بولے۔
بانو نے ایک نظر حامد پر ڈالی۔جس نے اپنا ہونٹ بھینچ رکھا تھا۔پھر اُس نے ہاتھ میں دھرے نوٹوں کو دیکھا۔پانچ ہزار روپے۔بچ٘وں کے نئے کپڑے اور عید کے لئے تھے۔اب ان پیسوں سے دوائیاں اور ہفتےپھر کا راشن لانا تھا۔وہ لاچاری سے اپنے بچ٘وں کی طرف دیکھنے لگی۔آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔
امی ہم لوگوں کو کپڑے نہیں ابو کی ضرورت ہے۔نازلی مسکرا کر بولی۔ساتھ ہی دونوں معصوم سے بچے اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔بانو ان سب کو آغوش میں بھر لی۔آنسو قطرہ قطرہ گر رہا تھا۔
بانو اُن سب کو ساتھ لیے میڈیکل کی طرف جانے لگی۔بچ٘ے اب بھی خوش تھے۔
اب بھی ان بچ٘وں کے پاؤں خوشی خوشی بڑھ رہے تھے۔
ختم شد
زینت جبین صدیقی
Zeenat jabeen siddiqui
H/no.32
Road no 15 (west)
Old purulia road.
Zakir nagar.
Mango.
Jamshedpur.
Jharkhand.
Mobile no.8340674242
No comments:
Post a Comment