الوداع ماہِ رمضاں الوداع
ڈاکٹر سلیم خان
ایسا لگتا ہے کہ ابھی کل پرسوں کی بات ہے جب ہم لوگ مغرب کی اذان کے ساتھ رمضان کا استقبال کررہے تھے اور پھر فجر سے پہلے پہلی سحری ہورہی تھی ۔ ایک نئی صبح طلوع ہورہی تھی، سنہ 1441ہجری کے رمضان کی صبح ۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ قسم ہے فجر کی‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فجر کو ایک گواہ کے طور پر پیش فرما کر اس کی قسم کھاتا ہے۔ نبیٔ پاک ﷺ نے رمضان کو تین عشروں میں تقسیم کرکے فرمایا اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے ، دوسرا مغفرت اور آخری جہنم سے خلاصی ۔ کلام ربانی ہے اور دس راتوں کی (قسم)۔ یعنی یہ عشرے بھی شاہد بن کرتیزی سے گزرتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم اختتامی ایام گن رہے ہیں جیسے ’’ اور جفت و طاق کی (قسم) ۔آگے فرمایا’’ اور رات کی جب وہ جانے لگے‘‘۔ لیلۃ القدر کی ایک ایک مبارک رات جو ہزاروں مہینوں سے بہتر تھی ہماری مٹھی سے ریت کی مانند پھسل کر نکلتی چلی گئی ۔ اس کے بعد ایک اہم ترین سوال کیا گیاکہ’’ کیا اِس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟‘‘ کوئی نشانی ہے ۔ کیا ہماری زندگی بھی اسی طرح نہیں گزر جائے گی اور پھر کیا ہوگا؟
عام طور پر مہینے کو ہفتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن رمضان کو عشروں میں تقسیم کرنے کی حکمت چاند کے مختلف مراحل سےسمجھ میں آتی ہے۔ پہلی دس راتوں میں چاند بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اس کو بچپن کا زمانہ سمجھ لیں کہ جو انسان کو جسمانی ، عقلی ، معاشی اور معاشرتی طور پر طاقتور بناتا چلا جاتا ہے ۔ ابن آدم یا بنت حوا کا دیگر لوگوں پر انحصار کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے یعنی پہلے تو اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی وہ دوسروں کا محتاج تھا پھر اپنے ہاتھ سے کھانے پینے لگا اور اپنے جسم کو پاک صاف رکھنے لگا۔ اس میں چلنے پھرنے کی امنگ پیدا ہوئی تو سنبھل سنبھل کر قدم بڑھانے لگا ۔ پھر عقل نے خطرات کے شعور سے آگاہ کیا ۔ اپنے آپ علم وہنر سے آراستہ کر کے معاشی میدان میں خود کفالت کی جانب قدم بڑھاتو اپنی معاشرت کے خیال نے اسے ایک خاندان کا سربراہ بنادیا۔ یہ تھا رحمت کا عشرہ جو بہت تیزی کے ساتھ انسان کو بے شمار تبدیلیوں سے ہمکنار کرکے گزر گیا۔
جوانی میں کل تک انحصار کرنے والا اپنے خاندان کا سہارا بن چکاتھا ۔ یہ استحکام کا زمانہ ہے جس میں جسمانی تبدیلی کی رفتارقدرے دھیمی ہوگئی۔ اس مرحلے کے پہلے نصف میں ترقی انتہا کو پہنچی اور وہیں سے تنزل کا آغاز ہوگیا لیکن یہ سب اس قدر دبے پاوں ہوا ہے کہ انسان کو اس احساس نہیں ہوسکا۔ چاندی کی کیفیت کو دیکھیں کہ دوسرے عشرے کے اندر اس ہئیت بہت زیادہ نہیں بدلتی۔ چودھویں سے قبل اور بعد اس کی آب و تاب میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن تبدیلی کا رخ بدل چکا ہوتا ہے ۔ غیر محسوس طریقہ پرنہایت آہستگی کےساتھ عروج کا سفر روبہ زوال ہوجاتا ہے۔ اس قوت و شوکت کے مرحلے میں نفس کی سرکشی کا امکان بہت زیادہ ہو جاتا ہےاور توبہ و استغفار یا مغفرت کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔
چاند کے سفر کا تیسرا عشرہ تبدیلی کی رفتارپھر سےبڑھاکرزوال کوروشن کردیتا ہے۔بچوں کی خود کفالت معاشرت و معیشت میں عدم دلچسپی کاسبب بنتی ہے۔ یادداشت اور جسمانی قویٰ کا فقدان محسوس ہوتاہے۔ جسمانی انحصار کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ فرمانِ ربانی ہے’’اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری جان قبض کرے گا اور تم میں کوئی سب سے ناقض عمر کی طرف پھیرا جاتا ہے کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے ‘‘، دنیا سے بے رغبتی جب بڑھ جاتی ہے توبندۂ مومن زندگی کے تیسرے مرحلے میں اخروی کامیابی اور جہنم کی خلاصی کا آرزو مند ہوجاتا ہے ۔ کورونا کے زمانے میں بھیگی پلکوں کے ساتھ ہم ماہِ رمضان کو الوداع کررہے ہیں ۔ یہ ایسا رمضان تھا کہ جو کبھی دیکھا نہ کبھی سوچا تھا اور ایک ایسی ہی عید ہماری منتظر ہے ۔ اس رمضان میں ہم نےاللہ کی مرضی کے آگے سپر ڈال کر راضی برضا رہنا سیکھ لیا ۔ اپنی مرضی کو اللہ کی مشیت کے تابع بنا دینے کی اس مشق کے دوران ہم وہ سب نہیں کرسکے جو ہمیں پسند تھا لیکن و ہ سب کرنے کی سعی کی جس کی گنجائش رب کا ئنات نے عطا کی ۔ اللہ قبول فرمائے کہ اسلامی فلسفۂ حیات یہی ہے ۔
No comments:
Post a Comment