Thursday, May 21, 2020

Dr Salim Khan Latest Article :


ہاتھی نما سنگھ پریوار کے مقابلے چیونٹی جیسا گاندھی خاندان

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

کورونا نے حکومت کے سارے اندازوں کو غلط ثابت کرکے اس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ سرکاری پیشنگوئی کے مطابق جس 17مئی کو کوویڈ 19 کے کیس کی تعداد صفر ہوجانی چاہیے تھی لیکن اس دن سب سے زیادہ معاملات سامنے آگئے۔ اس لیےحکومت ایسی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی کہ اس نے روزآنہ کی پریس بریفنگ کو پہلے ہفتے میں چار دن اور اب بند ہی کردیا ہے۔ وزارت صحت کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری ہوتا ہے اور اس پر سوال کرنے کا کسی کو موقع نہیں ملتا۔ فی الحال علاقائی جماعتوں کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں ؟ ایسے میں ہاتھی نما سنگھ پریوار کے سامنے چیونٹی جیسا تین نفری گاندھی خاندان آئے دن کوئی نہ کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیتا ہے اور ایوان اقتدار میں زلزلہ آجاتا ہے۔ کانگریس کی جانب سے چھوڑا جانے والا ہر شوشہ بی جے پی کے لیے عذابِ جان بنتا جارہا ہے اور بھگوا دھاری خود اپنے پیر پرکلہاڑی مار رہے ہیں ۔

سونیا گاندھی نے مزدوروں کی مدد کا اعلان کیا تو زعفرانی پریشان ہوگئے ۔ اس کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دینے کے لیے انہیں ایسے ایسے جھوٹ بولنے پڑے کہ نانی یاد آگئی۔ پہلے تو کہا گیا ٹکٹ کھڑکی نہیں کھلے گی، بعد میں پتہ چلا کہ ٹکٹ کی پیشگی قیمت صوبائی سرکار کے ذریعہ وصول کرلی جائے گی اس لیے ٹکٹ کھڑکی پر جانے کی ضرورت ہی نہیں ر ہے گی ۔ اس کے بعد ا اعلان ہوا کہ ریلوے 85فیصد رعایت دے چکا لیکن اس کا حکمنامہ ہنوز غائب ہے۔ راہل پیدل مزدوروں سے ملنے چلے گئے تو وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن کو کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے ڈرامہ بازی کرنے کے بجائے حکومت سے تعاون کی اپیل کرنے پر مجطور ہونا پڑا۔ اس کے جواب میں پرینکا نے یوگی کو 1000 بسوں کی پیشکش کی تو دو دن سناٹا رہا پھر بسوں اور ڈرائیوروں کی تفصیل مانگی گئی۔ انہیں جانچ کے لیے لکھنو طلب کیاگیا ۔ اس کے بعد فیصلہ بدلا گیا ۔ بسوں میں کچھ تعداد کو ایمبولنس وغیرہ قرار دے کرالٹا پرینکا کے نجی سکریٹری پر دھوکہ دھڑی کا مقدمہ ٹھونک دیا گیا ۔

یوگی جی کی ناٹک بازی نے تو نرملا سیتا رامن کو بھی شرمندہ کردیا ۔ فی الحال کانگریس کی جانب سے چھوڑا جانے والا ہر شوشہ بی جے پی کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے اور وہ اپنے پیر پرکلہاڑی مار لیتی ہے ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے راجستھان سے آنے والی بسوں کو روک کر مزدوروں کو کے ساتھ جو ناانصافی کی ہے اس کو ملک کی عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ سونیا گاندھی فی الحال سیتا رامن کے لیے ، پرینکا گاندھئ وزیر اعلیٰ یوگی کے لیے اور راہل گاندھی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ کورونا کے بعد جتنی بار مودی جی نے قوم سے خطاب کیا اتنی مرتبہ راہل گاندھی نے پریس سے خطاب کیا۔ راہل گاندھی کی پریس کانفرنس کا ذکرکرنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ گزشتہ ۶ سالوں کے دورِ اقتدار میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایک مرتبہ بھی کھلی پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کی جرأت نہیں کی۔

دوسری مرتبہ انتخابی کامیابی کے بعد جب ووزیر اعظم بی جے پی کے دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں آئے تو اخبارنویسوں نے سوچا کہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہونے جارہا ہے جس میں مودی جی ان کے سوالات کا برجستہ جواب مرحمت فرمائیں گے، لیکن جلسوں میں گرجنے والا وزیراعظم وہاں 17منٹ تک دم سادھے بیٹھا رہا ۔ اس پر ان کا اس قدر مذاق اڑایا گیا کہ دوبارہ انہوں نے یہ غلطی نہیں کی۔ اس وقت راہول گاندھی نے تمسخر اڑاتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’مودی جی مبارک ہو۔ شان دار پریس کانفرنس! آپ کا نظر آنا نصف جنگ ہے۔ اگلی بار مسٹر شاہ آپ کو ایک دو سوالوں کا جواب دینے کی اجازت ضرور دیں گے۔ شاباش!‘‘ اس وقت مودی جی حالت پر عندلیب شادانی کا یہ شعر ہو بہو صادق آگیا تھا؎

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

اس کے بعد ایک پریس کانفرنس کرکے راہل نے کہا تھا کہ ’’میں نے سنا کہ بعض صحافیوں کو وزیر اعظم کی پریس کانفرنس میں جانے نہیں دیا گیا، اس لیے میں یہیں سے ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ نے رفال پر میرے کسی سوال کا جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘ مودی جی پر تنقید کرنے والے راہل اکیلے نہیں تھے بلکہ کولکاتہ کے اخبار ’دی ا ٹیلی گراف‘ نے اپنے صفحہ اول پر جگہ خالی چھوڑ کر لکھا،’’یہ جگہ مختص ہے، اس کو وزیر اعظم نریندر مودی کی پریس کانفرنس میں سوالات کے جواب سےبھرا جائے گا‘‘۔ پہلے لاک ڈاون سے ایک دن قبل ۱۶ اپریل کو اپنی پہلی کووڈ پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نےواضح کیا کہ ان تبصروں کو تنقید نہیں بلکہ مشورہ سمجھا جائے ۔ یہ بات بہت اہم تھی ورنہ میڈیا تو باتوں کا بتنگڑ بنا نے پر تلا رہتا ہے۔

راہول گاندھی نے اس وقت لاک ڈاون کو پاز بٹن قرار دیتے ہوئے کہا تھا اس سے بات بنی نہیں ٹلی ہے۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ پر زور دے کر یاد دلایا کہ اُس وقت ملک میں جانچ کی شرح دس لاکھ میں صرف ۱۹۹ تھی۔ اس کے ساتھ ضلع اکائیوں کو مضبوط کرنے اور ریاستوں کو جی ایس ٹی کی رقم مہیا کرنے کا مطالبہ کیا ۔ وزیر اعظم کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا ہے کہ وہ ماہرین سے مشورہ نہیں کرتے ۔ اس پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے راہل گاندھی نے سابق آر بی آئی سربراہ رگھو رام راجن سے عوامی انٹرویو کیااور ان سے کورونا وائرس کے معاشی نقصانات اور ان پر قابو پانے کے لائحہ عمل پر گفتگو کی ۔ راہول نے راجن سے فوری توجہ طلب مسائل اور ملک کے غریبوں کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے کے لیے درکار وسائل وغیرہ پر استفسار کیا ؟

راہل گاندھی کے ذریعہ کیے جانے والے سوالات سے لوگوں اندازہ ہوا کہ انہیں قومی مسائل ادراک تو ہے ۔ ملک کو مختلف علاقوں میں تقسیم کرکے معاشی سرگرمیوں کا آغاز اور غریبوں پر تقریباً 65 ہزار کروڑ روپئے خرچ کردینا( جو 200 لاکھ کروڑ کی جی ڈی پی کا عشر عشیر بھی نہیں) جیسے مشورے سامنے آئے۔ اس کے بعد راہل نے دوسرا انٹرویو نوبل اعزاز یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ابھجیت بنرجی کے ساتھ کیا۔ انہوں نے بھی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر طلب بڑھانے پر زور دیا ۔ یہ ظاہر بات ہے کہ طلب و رسد کے بغیر معیشت کی گاڑی نہیں چل سکتی ۔ اسی کے ساتھ غریبوں اور مہاجر مزدوروں کو غیر علاقائی بنیاد پر راشن کارڈ دینا تاکہ جو جہاں ہے وہیں اناج حاصل کرسکے ایسے سجھاو سامنے آئے۔ اس کے علاوہ متوسط اور بڑی صنعتوں کی مدد کرنا تاکہ بیروزگاری دور ہوسکے اور مرکزیت کے بجائے علاقائی سطح پر فلاحی اسکیموں پر عمل کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ ان دونوں انٹرویوز میں ایسی باتیں نکل کر آگئیں کہ جو مرکزی حکومت کے طریقۂ کار سے متضاد ہیں ۔ مو جودہ سرکار پی ایم او کے اندر سے کام کرنے میں یقین رکھتی ہے اور ماہرین اسے ضلع کی سطح تک لے جانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ حکومت عوام اور صنعت کاروں پر روپیہ خرچ کرنے سے کترا رہی ہے اور مہاجر مزدوروں کے معاملے ناکام ہورہی ہے وغیرہ ۔ ان باتوں سے ملک کے دانشور، صنعتکار اور عام لوگوں نے بھی یہ محسوس کیا ہوگا کہ وزیراعظم کے عمومی و نمائشی مشوروں سے علی الرغم اس گفتگو میں فلاح و بہبود کی ٹھوس حکمت عملی پر غور ہورہا ہے۔ اس کے بعد راہل گاندھی نے جو اپنی دوسری پریس کانفرنس کی تو ان میں بلا کا اعتماد تھا ۔ اس میں لوگ کھل کر سوال کررہے تھے اور ان کا برجستہ جواب مل رہا تھا۔ یہ ان مصنوعی انٹرویوز کے مقابلے بالکل مختلف صورتحال تھی جو وزیراعظم کے ساتھ ہوتی ہے۔

راہل گاندھی سے گودی میڈیا کے اکثر سوالات حکومت کے خلاف تھے ۔ راہل کو سرکار ی مخالفت پر اکسا نے والی یہ ایک چال تھی لیکن انہوں نے اپنے آپ کو قابومیں رکھا تا کہ ان پر سیاست کرنے کا الزام نہ لگ سکے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس کا اعتراف بھی کرلیا کہ وہ اشتعال میں آکر ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ کسی رہنما کو اگر یہ اندازہ ہوجائے کہ اس کے کس بیان کا مخالفین بیجا استعمال کرکے اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں گا تو یہ سیاسی پختگی کی علامت ہے ۔ ماضی میں میڈیا نے آئی ٹی سیل کی مدد سے یہ کھیل بہت کھیلا ہے لیکن راہل نے اس کا موقع نہیں دیا اور متنازع سوالات کو بڑی خوبی سے ٹالتے رہے یہاں تک کہ پی ایم کیئر پر بھی آڈٹ کے مطالبے پر اکتفاء کیا۔ انہوں نے کم و بیش ۵۰ سوالات کے جواب دیئے اور عوام کے اندر اپنے اعتماد کا اظہار کیا جو ایک خوش آئند بات ہے نیز کورونا کی دہشت کو کم کرنے پر زور دیا۔راہل نے اپنی پریس کانفرنس میں مہاجرمزدوروں کی حالت زار کو شرمناک بتایا۔ کورونا سے جنگ جیتنے کی خاطر پی ایم کے ساتھ ساتھ سی ایم اور دی ایم کی اہمیت پر زور دیا ۔ کانگریس کے علاوہ بی جے پی کے وزیراعلیٰ کی مشکلات کا اعتراف کیا اور حکومت سے لاک ڈاون کھولنے کا تفصیلی لائحۂ عمل عوام کے سامنے پیش کرنے کی درخواست کی ۔ راہل نے متنبہ کیا کہ حکومت نے اگر فوری اقدامات نہ کئے تو ملک میں بے روزگاروں کی سونامی آجائے گی۔

 

راہل گاندھی نے جو ٹھوس مشورے دیئے ان میں سب سے پہلا ۱۳؍ کروڑ کنبوں کی فوری مالی مددہے ۔اس کے علاوہ منریگا کے تحت ۱۰۰؍ دنوں کےبجائے ۲۰۰؍ دن کام کی گارنٹی ، پی ڈی ایس اسکیم کے دائرے سے باہر ۱۱؍ کروڑ لوگوں کو بھی ۶ ماہ تک اشیائے خوردنی مہیا کرانا ، کسانوں کے لیے۲۲؍کروڑ پی ایم کسان کھاتوں میں ۱۰؍ ہزار روپے ڈال کر ان مالی مدد اور کم از کم قیمت پر زراعتی پیداوار کی خریداری کو یقینی بنانا ، زراعت میں کام آنے والےآلات پر جی ایس ٹی معطل کرنا ، چھوٹی اور متوسط صنعتوں کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے کی کریڈٹ گارنٹی اسکیم جاری کرنا کیونکہ ان سے ۱۱ کروڈ لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور تقریباً ۷؍ کروڑ دکانداروں کو دوبارہ تجارت شروع کرنے میں راحت دینا وغیرہ شامل تھے ۔ ان مشوروں پر عمل درآمد میں مشکلات ہوسکتی ہیں لیکن یہاں ایک لائحۂ عمل موجود توہے جس کو ترمیم وتنسیخ کے بعد حتمی شکل دی جاسکتی ہے ۔ اس پریس کانفرنس سے یہ ثابت ہوگیا کہ دلکش تقریروں سے رائے دہندگان کا دل جیت لینے میں اور عوام کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کی تدابیر کرنے میں کیا فرق ہے؟

No comments:

Post a Comment