شمس جالنوی کی ادبی تمازت
کوثر حیات، اورنگ آباد۔(دکن)
شناس نامہ
کوثر حیات کا اصل نام خواجہ کوثر جبین ہے لیکن ادب میں وہ کوثر حیات کے نام سے معروف ہیں. ان کا تعلق شہر خجستہ بنیاد اورنگ آباد (دکن) سے ہے جہاں وہ گزشتہ ربع صدی سے پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں. ان کی تعلیمی اور درسیاتی و نصابی نیز ہم درسی سرگرمیوں کا دورانیہ کافی طویل ہے. ادب میں وہ تحقیق کے علاوہ بچوں کا ادب، افسانہ نگاری اور مضمون نگاری جیسی اصناف میں طبع آزمائی کرتی ہیں. بحیثیت ممتحن انھوں نے کئی ادبی، ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں میں شرکت کی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے. ان کی تحریریں تسلسل اور تواتر کے ساتھ ملک و بیرون ملک کے موقر رسائل و اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں. سوشل میڈیا پر بھی وہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے مسلسل کوشاں نظر آتی ہیں. انھیں مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ایوارڈس سے بھی نوازا گیا ہے.
شمس جالنوی کی ادبی تمازت
کوثر حیات، اورنگ آباد۔(دکن)
Email: khwaja.kauser@gmail.com
علاقہ دکن ملک میں غزل کی بدولت اپنی مخصوص شناخت رکھتا ہے۔ دکن کے پہلے مشہور و معروف شاعر ولی دکنی جنہوں نے غزل لکھی۔ سرزمین دکن نے اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ادب کی مسلسل کی ابیاری کی۔ سرزمین دکن سے غزل کی آبیاری کرنے والے شمس جالنوی غزل گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔
انسانیت، بھائی چارگی، حب الوطنی عام انسان کی ضرورتیں و تڑپ اور خارجی عوامل جیسے اقدارو روایتوں کی تبدیلیاں، نا اتفاقی، ریاکاری و فساد جیسے حساس موضوعات کو اپنی غزلوں سے آراستہ کرکے بر صضیر کے نامور شعراء میں اپنا نام درج کروانے والی ناقابل فراموش ہستی غزلوں کا شمس، شمس جالنوی جو اپنے کلام کو سننے والے کو سحر انگیز ترنم سے سحر زدہ کردیتے تھے۔
شہر جالنہ سے شمس کی غزلوں کی تمازت بین الاقوامی سطح پر روشناس ہوئی و اعلی پائے کہ غزل گو شاعر تھے۔ انہوں نے دھولیہ کے قریب اماپور کے خوفناک فساد سے متاثر ہوکر اپنے کرب و اضطراب کو نظم میں پیش کیا جسے عالمی شہرت ملی۔ یہ نظم پڑھنے اور سننے والے کے روبرو اس سانحہ کو لاکھڑا کرتی ہے۔
زرد زرد چہرے ہیں زخم دل کے گہرے ہیں
وقت ہے تماشائی وقت ہے تماشائی
وہ تسلی دیتے ہیں زخم پر نمک رکھ کر
خوب ہے مسیحائی خوب ہے مسیحائی
بزم عیش و فرصت میں جب ملے چلے آنا
بے کسوں کی دنیا میں بے کسوں کی دنیا میں
وقت کے مسیحاؤں ناپ کر بتا دینا
تم غموں کی گہرائی تم غموں کی گہرائی
روح چیخ چیخ اٹھی دل کی بڑھ گئی دھڑکن
اشک آنکھ سے ٹپکے اشک آنکھ سے ٹپکے
تم نے کیوں ورق الٹے ماضی کے
درد نے لی انگڑائی درد نے لی انگڑائی
شمس جالنوی کا نام محمد شمس الدین تھا۔ وہ ۹۲۹۱ء کو ریاست مہاراشٹر کے ضلع جالنہ میں پیدا ہوئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم جالنہ ہی میں ہوئی اور اس کے بعد فاضل منشی کا امتحان میں پاس کیا تھا۔ انہوں نے فارسی سے ایم اے کیا تھا۔ادب کی دنیا میں انہیں شمس جالنوی سے جانا جاتا ہے۔ زندگی میں بہت تکالیف اور سختیاں جھیلی تھی۔ اس کا عکس ان کے کلام میں جا بجا ملتا ہے۔ ان کے کلام میں جہاں زندگی کی تلخی جھلکتی ہے وہیں اللہ سے قربت بھی عیاں ہوتی ہے جیسے
شیشہ ہوں پتھر کا جگر دے یا اللہ
پھر مجھ کو جینے کا ہنر دے یا اللہ
سرکش، سنگ دل، موم کی مورت بن جائے
میری زبان میں ایسا اثر دے یا اللہ
شمس جالنوی کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے رہا۔ انہوں میں اپنی پہلی غزل ۰۲/ سال کی عمر میں کہی۔ ان کا ماننا تھا کہ شاعر کا مطالعہ گہرا اور وسیع ہونا چاہئے۔چونکہ آج پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ کی ترقی کے باعث چھپنا چھپانا بڑا آسان ہوگیا ہے۔ پہلے یہ دشوار مرحلہ تھا اس لئے یہ عموماً شمس جالنوی جب بھی غزل کا شعر لکھتے سب سے پہلے اپنے دوست احباب کو سنادیا کرتے تھے اور ساتھ ہی غزل یا شعر جو پسند آجائے لکھ کر تحفہ کے طور پر بانٹ دیا کرتے تھے۔ بنیادی طور پر وہ شہرت یا نمود و نمائش کے خواہاں نہیں تھے۔ اور دوسری وجہ ان کی معاشی حالت بھی رہے جو انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ مرزا غالب سے بہت متاثر تھے۔اپنے کلا م میں وہ کہتے ہیں
صحرا کو گلزار بنانا پڑتا ہے
پتھر پتھر پھول کھلانا پڑتا ہے
شہرت یارو ملتی نہیں بازاروں میں
ہستی کو مٹی میں ملانا پڑتا ہے
پہن کے کھادی دیش بھکت نہیں بن جاتے
راہ وفا میں جان گنوانا پڑتا ہے
آج کے نیتا گونگے بہروں کی سنتان
دل نہیں ملتا ہاتھ ملانا پڑتا ہے
جس پر بھی انعام کی بارش ہوتی ہے
اس کے پیچھے شمس زمانہ پڑتا ہے
شمس جالنوی کو ذمہ داریوں اور فکر معاش نے ہمیشہ سرگرداں رکھا۔غریبی و مفلسی کی بناء پر وہ اخبار ات تقسیم کرنے کا کام کرتے تھے۔اس سے پہلے انہوں نے بیڑ میں ایک بیٹری کے کارخانہ میں لمبے عرصہ تک بطور مینجر کام کیا جہاں انہیں یومیہ بارہ سے پندرہ گھنٹے کام کرنا ہوتا تھا۔ بہر کیف ان کے حالات زندگی نے غزلوں کو صرف محبوب کی تعریف تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے وسعتیں دے کر اپنی غزلوں میں انہوں نے زندگی کی صعوبتوں، کرب اور تکالیف کو اپنے کلام میں پیش کیا۔
دل بھی ان سے لگا کے دیکھ لیا
عشق کی چوٹ لگا کے دیکھ لیا
اپنا سویا ہوا مقدر ہے
بارہا آزما کے دیکھ لیا
خو نا بدلے گی اہل الفت کی
وقت نے آزما کے دیکھ لیا
خیر ہو آشیانہ دل کی
برق نے مسکرا کے دیکھ لیا
زندگی کیوں نہ لے گی انگڑائی
آپ نے مسکراکے دیکھ لیا
پردہ دوستی فریب ہے شمس
سب کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
شمس جالنوی کے اعزاز میں بہت سے پروگرام منعقد ہوئے۔کئی ادبی انجمنوں کی جانب سے ان کی ادبی خدمات پر انہیں میمنٹو اور سپاس نامہ سے نوازا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انہیں دو مرتبہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ کے تاریخی مشاعرے میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ شمس جالنوی بہت سے طرحی مشاعروں میں شرکت کی۔ علاقہ مراہٹواڑہ میں منعقد ہونے والے بیشتر مشاعرے ان کے کلام کے پڑھے بغیر مکمل نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستان کی کئی ریاستوں میں مشاعرے پڑھے ان کے کلام کے ساتھ ساتھ سامعین ان کی غزل گوئی کے حصار میں بند جاتے۔
ایک وقت ممبئی میں ایس اے سندھو صاحب کی صدارت میں مشاعرہ ہونا تھا۔ اس وقت بیکل اتساہی، شہریار اور دیگر نامور شعراء بھی تھے اور شمس جالنوی کو مشاعرے سے پہلے پڑھنے کے لیے کہا گیا انہوں نے بلا جھجک پڑھنا شروع کردیا۔ سامعین ان کی شاعری میں اتنے منہمک ہوگئے تھے کہ شمس جالنوی کو مغالطہ ہوا کہ سامعین ان کی شاعری سے اکتا تو نہیں رہے ہیں اور رکنے کے لیے بول نہیں پا رہے ہیں۔ آخر میں انہوں نے سامعین سے پوچھ لیا ”معاف کرنا آپ کو میری شاعری پسند آرہی ہے۔“تبھی سب نے ایک آواز میں کہا”ارے ہم تو آپ کی شاعری میں ڈوب گئے تھے آپ نے درمیان میں رک کر ہمیں کنارہ پر لادیا۔“ شمس جالنوی کے کلا م میں تعریف و مدح نہیں ہے بلکہ زندگی کا تناؤ، کلام میں اذیت کا اظہار ہے۔ جیسے یہ اشعار
دستگیری وہ سب کی کرتا ہے
اور احسان بھی جتاتا ہے
کرکے احسان جو شرمسار کرے
ہم کو اس آدمی سے کیا لینا
شمس کی ذاتی زندگی تلخیوں، محرومیوں سے بندھی تھی۔ کسمپرسی اس پر جواں بیٹے کی موت ان سب نے انہیں زمانہ کی قدر شناسی سکھا دی۔ ان محرومیوں کی تصویر ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے ؎
راس آئے نہ آئے صحن چمن
میں نا بدلوں گا اپنا طرز سخن
پیکر حق ہوں سچ ہی بولوں گا
وقت کی برہمی سے کیا لینا
ایک غنچہ کی زندگی کتنی
ایک تبسم نصیب ہے جس کا
شمس جالنوی کے مجموعہ کلام ”تمازت“جو ۰۹۹۱ء میں شائع ہوا جس کا اجراء منجلہ گاؤں میں ہوئے مشاعرے میں بشیر بدر کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس مجموعہ کلام نے نے اہل ذوق و اہل ادب سے بہت داد و تحسین حاصل کی۔ اور بعد میں اسے ”مدھیہ نائک کا سوریہ“ کے نام سے جسے جالنہ ضلع کے کلکٹر ڈاکٹر نیلما کیرکیٹا اور جناب اجیت کمار شریواستو جی نے ہندی زبان میں شائع کروایا۔ ادب کی اس خدمت پر شمس جالنوی دونوں کے لیے رقمطراز ہیں ؎
نوازا ہے آپ دونوں نے اس قدر شمس کو
بعد شمس کے زمانہ یاد کرے گا شمس کو
آخری وقتوں میں بھی ان کے حالات موافق نہیں ہوئے۔ عمر کے ۱۹/ سال تک وہ غم روزگار سے الجھے رہے۔ان کے کلام کا ہر لفظ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو چیخ چیخ کر آشکارا کرتا نظر آتا ہے۔ کروٹ کروٹ درد سموئے ہوئے شمس جالنوی اپنے کلام میں زندگی کی حقیقتوں کا اس طرح پردہ چاک کرتے کہ پڑھنے والے کی آنکھیں درد کے احساس سے ڈبڈبا جاتیں۔اپنے حالات پر وہ برملا کیا خوب کہہ گئے کہ ؎
ذہنوں پہ پردے پڑ گئے، معذور ہوگئے
ہم خواہشوں میں ہی محصور ہوگئے
اس نے کس اس ادا سے جھوٹی تسلیاں
ہم دل کی بات کہنے پہ مجبور ہوگئے
آیا مریض غم کا مسیحا کو کب خیال
جب زخم رسنے لگ گئے، ناسور ہوگئے
سچائی اب ترستی ہے انصاف کے لیے
مکر و فریب آج کے دستور ہوگئے
انسانیت، خلوص و وفاء، پیار و دوستی
الفاظ یہ کتابوں سے کافور ہوگئے
روئے زمین پہ کوئی جنہیں جانتا نہ تھا
وہ بھی ہمارے نام سے مشہور ہوگئے
جن کے دلوں سے گزری انا لحق کی روشنی
وہ لوگ اپنے وقت کے منصور ہوگئے
الٹی نقاب شمس نے چہرے سے جس گھڑی
جلتے ہوئے چراغ بھی بے نور ہوگئے
شمس صاحب کا کہنا تھا کہ غریبی صرف پیسے نہ ہونے کا نام نہیں ہے۔ عقل اور تعلیم کا نہ ہونا ایک زیادہ بڑی اور افسوسناک غریبی ہے۔ ان کا کلام بے باک اور سچائی کا آئینہ ہوتا۔ حقیقتوں کی منظر کشی الفاظ میں کرنا انہیں بدرجہ اتم آتا تھا۔ ساتھ ہی ان کا کلام سلیس زبان میں پراثر اور دل کو چھو لینے والا ہوتا۔ ماحول کا درد ان کی رگ و پئے میں سرایت کرگیا جس کا تریاق ان کی شاعری میں پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ بے شک شمس آج ہمارے درمیان نہیں ہے مگر ان کے کلام کی تمازت آنے والی نسلوں کو تابناک کرتی رہے گی۔
………………………………
ماشاءاللہ بہت خوب کوثر حیات باجی ⚘
ReplyDeleteاللہ کرے زور قلم ✍🏻 اور زیادہ
نوازش آپ کے خلوص پر مشکور ہوں۔
Deleteماشاء اللّٰہ بہت خوب
ReplyDeleteممنون و مشکور ہوں۔
Deleteاچھا مضمون ہے ، مباک باد
ReplyDeleteہمت افزائی پر متشکرم ہوں۔
ReplyDeleteMASHA ALLHa... Mubarak maamm....
ReplyDeleteجزاکِ اللہ خیرا کثیرا
DeleteMASHA ALLHA mubarak madam
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteماشااللہ۔ مبروک ۔
ReplyDeleteنوازش شکریہ
DeletemashaAllah bahut khub.....urdu k ufaq pr ubherta howa sitara Mahterma khawaja kauser saheba.
ReplyDeleteنوازش آپ کی
ReplyDeleteurdu zubaa ki bakha ke liye aapki anthak kaawish khabil e taarif hai, ayenda nasl bhi aapko yaad rakhengi..
ReplyDeleteMashaAllah. Bohot khoob. Khabil-e-tareef 🌹💐
ReplyDeleteMasha allah ma'am bohht khoob...
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت ہی عمدہ مضمون لکھا ہے کوثرباجی آپ نے
ReplyDeleteMashallah
ReplyDeleteماشاءاللّٰہ بہت ہی عمدہ تحریرہے
ReplyDeleteاللّٰہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
ماشااللہ بہت عمدہ آرٹیکل اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔
ReplyDeleteسلامت وشاد رہیں آمین
ماشاءاللّٰہماشاءاللّٰہ
ReplyDeleteMashallah bahot khoob
ReplyDeleteماشاءاللہ عمدہ تجزیہ کرتی، معلوماتی تحریر... اللہ کرے زور قلم اور زیادہ...
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت ہی بہترین کوثر حیات باجی اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ReplyDeleteBehtereen research, Mashallah Madam, Keep it up......
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت خوب آرٹیکل ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ReplyDeleteMasha Allah bahut khub .....
ReplyDeleteMashaAllah ....
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت عمدہ
ReplyDelete*میرا شہر،میرے لوگ☆روشن چراغ☆* *قسط۳۱ استادالشعراء فخرمہاراشٹر عالیجناب شمس جالنویؔ صاحب* مستقل تعارفی سیریز (شخصی خاکے) جالنہ شہر کی مختلف شعبہ جات میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی شخصیات کا مکمل تعارف،سرگرمیوں کا مختصر پراثر تذکرہ۔۔نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ۔۔
ReplyDeletehttp://123aamerrahi.blogspot.com/2020/07/blog-post_93.html
متشکرم جناب عالی
Deleteبہت بہت خوب
ReplyDeleteماشاءاللہ
مبروک
بہت شکریہ جناب
Deleteمحترمہ کوثر حیات صاحبہ
ReplyDeleteآپ نے محترم شمس جالنوی پر شکم سیر مرحلہ وار ،موثر اور معلوماتی مضمون تحریر کی ہے۔ اشعار کے انتخاب نے چار چاند لگا دیئے ہیں
شیشہ ہوں پتھر کا جگر دے یا اللہ
پھر مجھ کو جینے کا ہنر دے یا اللہ
سرکش، سنگ دل، موم کی مورت بن جائے
میری زبان میں ایسا اثر دے یا اللہ
ابتدائی مرحلے میں شاعر باوقار کے حالات ،پھر کلام کی شہرت اور انکی ادبی خدمت کے موتیوں بہترین ڈھنگ سے ادب کی مالا میں پرویا ہے۔ اندازِ بیاں نے قاری کو مرکوز رکھا ہے۔ مجھے سب سے ذیادہ متاثرکن پہلو یہ لگا کہ گھر کے ادیب نے گھر کے چراغ کی روشنی کو عام کیا ہے۔ ورنہ تاریخ بتاتی ہے بین الاقوامی و قومی سطح پر اپنا لوہا منوانے والے زبان ، قوم و ملت اور سماج کے خادمین اپنے گھر سے ایک ہار کے لیے آخری سانس تک منتظر رہے۔ آپکو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ ربّ العزت سے دعا گو ہوں کہ آپ کے قلم سے بہتر سے بہتر ادب کی ترقی ہو۔ثمہ آمین
حُسین قُریشی
بلڈانہ مہاراشٹر
متشکرم جناب عالی بڑی عرق رتسے آپ نے خود ایک بہترین ادیب ہوتے ہوئے دوسرے ادیب کے قلم کو فراخدلی سے سراہا ۔آپ کے یہ الفاظ میرے لئے حوصلہ بخش ہیں۔
Deleteماشاءاللّه بہت عمدہ تحریر ����
ReplyDeleteاللہ سلامت رکھے
Deleteبہت شکریہ
Deleteاللہ شاد و فرحاں رکھے
ReplyDeleteآمین یارب العالمین
DeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteماشاء اللہ بہترین
ReplyDeleteپر اثر انداز بیان
بہت اچھا پیش کرنے کا انداز
ممنون و مشکور ہوں۔
Deleteبہت شکریہ
Deleteکوثر صاحبہ آپ کا تعارف اور شمس جالنوی کے بارے میں مضمون بہت متاثر کن ہیں۔۔
ReplyDeleteجزاک اللہ
متشکر ہوں جزاک اللہ خیرا کثیرا
ReplyDelete