کہانی 2
احساس
کتاب : سورج کی سیر
مصنف: راج محمد آفریدی
بیل بجتے ہی سارے بچے سکول کے کھلے میدان میں اسمبلی کے لیے اکٹھے ہوئے۔ تلاوت اور قومی ترانے کے بعد پی ٹی صاحب نے سارے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئےتحکمانہ انداز میں کہا۔
" جس بچے نے ماسک نہیں پہنا وہ باہر آ جائے ۔ آج سب کو سزا ملے گی ۔" یہ سن کر ان طلبہ میں کھلبلی مچ گئی جن کے پاس ماسک نہیں تھے۔اس دوران شرمندگی سے بچنے کے لیے ایک شریر لڑکے (پرویز) نے اپنے ایک غریب کلاس فیلو (احمد) سے اس کا نیا ماسک چھیننے کی کوشش کی۔وہ پرویز کو اپنا ماسک نہیں دے رہا تھا۔ جس سے ان دونوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوئی۔ پی ٹی صاحب نے ان دونوں کو نوٹ کرکے باہر بلایا۔ جب تفصیل پوچھی تو احمد نے شکایت بھرے انداز میں کہا۔
"پرویز مجھ سے میرا ماسک چھین رہا تھا۔ جبکہ میرے پاس یہ ایک ہی ماسک تھا جسےمیں نے دینے سے انکار کیا۔ تب ہم دونوں میں زور زبردستی شروع ہوئی۔"
اس پر پی ٹی صاحب نے سارے بچوں کے سامنے پرویز کی خوب سرزنش کی ۔ احمد کے اس فعل پر پرویز کو بہت غصہ آیا ۔اس نے احمد سے بدلے کی ٹھان لی اور اسے سکول میں بدنام کرنے کا فیصلہ کیا۔
پرویز اپنی کوئی چیز گھر میں رکھ کر احمد پر الزام لگاتا کہ یہ اس نے مجھ سے چرائی ہے ۔ وہ ایک ایک کلاس فیلو کو فرضی کہانیاں سناتا ۔ " میں احمد کو لمبے عرصے سے جانتا ہوں،وہ کئی سال میرا پڑوسی رہا ہے۔ اس نے فلاں سے بھی چوری کی تھی اور فلاں دکان سے چوری کرتے ہوئے اسے ابو نے گھر سے بھی نکال باہر کیا تھا ۔" کلاس فیلو پرویز کی باتوں میں آنے لگے۔
ایک دفعہ پرویز نے کلاس میں بنچ فیلو کے بیگ سے پن نکال کر احمد کے بیگ میں ڈال دیا ۔ بعد میں جب وہ لڑکا پن ڈھونڈنے لگا تو احمد کے بیگ سے نکل آیا ۔ احمد کو بہت شرمندگی ہوئی۔ پرویز نے سکول میں پہلے سے مشہور کر رکھا تھا کہ احمد چوری کرنے لگا ہے ۔ وہ دوسرے لڑکوں کو متواتر احمد کے متعلق جھوٹی کہانیاں سناتا رہتا اور انہیں تاکید کرتا کہ احمد پر کسی قسم کا اعتبار نہ کریں۔رفتہ رفتہ سکول کے دیگر لڑکوں، اساتذہ اور پرنسپل تک یہ بات پہنچ گئی کہ احمد کو چوری کی لت لگ چکی ہے۔ انہوں نے احمد کے والد کو بلایا اور اس کے مذکورہ فعل بارے دریافت کیا ۔ اس کے والد کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے احمد سے کچھ نہیں کہا اور پرنسپل سے معافی مانگ کر گھر چلاگیا۔
احمد گھر آیا تو گھر کا ماحول عجب پایا ۔ اس نے ماں سے سب کچھ کہا ، "یہ سب پرویز کی شرارت ہے ۔ میں نے کوئی چوری نہیں کی ہے۔میں چوری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔" ماں نے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور کہا ،"مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے بیٹا!، اندر جاکر والد صاحب سے بات کرلو۔ "
جب وہ اندر گئے تو والد صاحب کسی میکینک سے فون پر بات کر رہے تھے۔ ان کی بات چیت احمد کی نوکری کے متعلق تھی۔ احمد کے پوچھنے پر اس کے ابو نے کہا، " کل سے تم سکول نہیں بلکہ دلبر خان کے ورک شاپ جاکر کام کروگے ۔" اسے سن کر دھچکا لگا۔اس نے احتجاج کیا کہ وہ ابھی پڑھنا چاہتا ہے مگر والد نے حتمی انداز میں کہا، " مجھے علم ہے مگر ایک دفعہ بدنامی دامن داغ دار کرے تو دامن کی کترائی لازمی ہوجاتی ہے۔تعلیم چھوڑکر محنت کرو اورگھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں میرا ہاتھ بٹاؤ۔" احمد نے سر تسلیم خم کیا اور اگلے روز سے دلبر خان کے ورک شاپ میں کام کرنے لگا ۔
ایک دفعہ پرویز اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں اس کی دکان چلا آیا۔ اس نے احمد کو پہچان کر سکول نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ احمد نے آنکھیں نیچے کرکے اسےپوری کہانی سنائی ،" تمہاری جھوٹی باتوں نے میری معصوم زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ تمہاری اس ایک افواہ نے میری مسکراہٹ چھین لی ۔ اب میں کبھی سکول نہیں جا سکوں گا ۔ اب میں یہی کام کروں گا۔"
پرویز کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ اسے احساس ہوا کہ میں نے ہی بدلے کی آگ بجھانے کے لیے نہایت غلط قدم اٹھایا تھا ۔ اس نے احمد کے قریب ہوکر اس کا ہاتھ پکڑا اور دل سے معافی مانگی۔پرویز نے جاکر اپنے والد کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ اس کے والد نے پہلے تو پرویز کو جلی کٹی سنائی۔لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اسے شاباش بھی دی کہ کم از کم اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ پرویز نے والد سے بھی معافی مانگی اور آئندہ ایسی حرکت سے توبہ کرلی ۔
چند روز بعد پرویز کے والد نے احمد کے والدسے مل کر دونوں کی آپس میں صلح کروائی،اس کے بعد انہوں نے سکول پرنسپل سے بات کرکے احمد کو دوبارہ سکول میں داخل کروایا۔پرویز کے والد نے داخلہ فیس جمع کی اور احمد کے لیے نیا بستہ بھی لے لیا۔ اس دن سے احمد اور پرویز اچھے دوست ہیں۔اب سکول میں سب ان کی دوستی کی مثالیں دیتے ہیں۔
واقعی اس کہانی نے بہت بڑی حقیقت پر روشنی ڈالی ۔خصوصا ان بچوں کے متعلق جو اچانک اسکول چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی وجہ بھی دریافت نہیں کی جاتی۔
ReplyDelete