Friday, June 18, 2021

'Sethani' by Zabeehullah Zabeeh

سیٹھانی
(افسانہ) 


ذبیح اللہ ذبیح، نئ دہلی



تعارف :( ذبیح اللہ ذبیح کا تعلق دہلی سے ہے. ذبیح، نوجوان شاعر اور اچھےافسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالر بھی ہیں. انھوں نےحال ہی میں دہلی یونیورسٹی سےایم فیل مکمل کیا ہے. بطور محقق، اردو ادب میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں. ان کی تخلیقات ملک اور بیرون ممالک کے ادبی رسائل اور اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں.) 



سیٹھانی


مسلسل چار روز سے وہ فجر کی اذان کے بعد نیند کے آغوش میں جاتا۔رات بھر اچھا مضمون لکھنے کا مشق کرتا۔پوری پوری رات کتاب کے مطالعہ کے بعد بھی کبھی دلچسپ تحریر وجود میں نہیں آتی۔بعض اوقات غصے کی زد میں پاس میں رکھی چائے کی پیالی آجاتی۔اور چائے کی چسکیوں کو پودوں کو لینے پڑ جاتے۔اور غصے میں بالکنی میں رکھے پودوں سے خوب باتیں کرتا۔اور کبھی کبھی اللہ سے بھی مخاطب ہو تا۔اور پودوں سے تو پوری رات لڑتا۔جس کسی دن بھی اس کی تحریر اچھی نہیں ہوتی۔
یار ! تم لوگوں کے ہی مزے ہیں۔ہر کوئی تم سب کی خوشبو کا قائل ہوتا ہے۔بارہا ایسا ہوتا ہے کہ میرے دوست مجھ سے ملنے آتے ہیں۔اور تم سب کی خوشبو پاتے ہی فوراً بالکنی میں آجاتے ہیں۔دنیا کے ازل سے تم سب کا انسانوں کے مزاج پر قبضہ ہے۔حسد کرتا ہوں کبھی کبھی میں تم سب کی زندگی سے۔اللہ نے ہماری تمہاری تخلیق میں تفریق کیا ہے۔تم لوگ بنا کسی محنت،مشقت کے بھی پوری دنیا میں معتبر ہو۔ہر کوئی تمہارا منتظر ہے۔اور مجھے دیکھو یہاں دنیا میں آئے ہوئے سالوں ہو گئے۔لیکن ہمارا کوئی مشتاق ہی نہیں۔میں منتظر ہوں کسی کی محبت کا۔لیکن افسوس محبت ہمارا مقدر نہیں۔تذلیل ہمارا وجود ہے۔جس کے زیر سایہ زندگی کٹ رہی ہے۔آنکھیں ترس گئیں ہیں شاہین کے نظر کو۔فطرت کچھ کہتی ہے،زندگی کچھ سمجھاتی ہے،اپنوں کی منافقت لے ڈوبی ہے،ملک کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ہر وقت یہاں جان خشک رہتی ہے۔کہ ہندوستان میں کوئی ہندو مسلم کا فساد تو نہیں ہواہوگا۔
اور ادھر ہر وقت سیٹھانی کی آنکھیں مجھے گھورتی رہتی ہیں۔مجھ سے کچھ جیسے شکایتیں کرتی ہیں۔وہ مجھے آواز دیتی ہیں۔نیند آتی نہیں۔قلم ساتھ دیتے نہیں۔دن میں دفتر۔بچوں کی فرمائیشیں،بیگم کی بے حسی،میری بوڈھی ماں کی چند بچی کچی سانسیں،بڑی آپا کے اپنے گھر کے معاملات،بھانجی کی ایم۔بی۔بی۔ایس کی فیس۔چھوٹی بہن کی شادی۔یہ ساری پریشانیاں ایک طرف۔اور دوسری طرف سیٹھانی ہر وقت میرے سر پہ مسلط رہتی ہیں۔میں یہاں تن تنہا گوروں کے ملک میں کیا کیا کروں۔بچپن سے خواہش تھی۔عصمت آپا اور سعادت حسن منٹو جیسا بے باک افسانہ نگار بنوں۔سر سید احمد خان جیسا قوم کا مجاہد بنوں۔لیکن میں،میں تو ان گوروں کا غلام بن کر رہ گیا۔سائنس ابا نے پڑھایا کہ میں بڑا دانشور بنوں گا،ملک کا نام روشن کروں گا۔دانشور بنا تو۔۔۔ لیکن ان گوروں کے ملک کے لئے۔اب میں بھی کیا کرتا۔پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لئے ہوئے گیارہ سال گذر گئے تھے۔ملازمت ملتی نہ تھی۔پھر مجبوراً مجھے امیریکہ آنا پڑا۔یہاں سب کچھ اچھا ہے۔پیکیز بھی بہت اچھا ہے۔بلکہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ۔یہاں آنے کے بعد گھر کے حالات بہتر ہیں۔
راحل! راحل!
جی خان صاحب
بیئر کی بوتل ہوگی کیا؟ اگر ہو تو ایک بوتل ہمیں بھی دے دو۔
جی بالکل خان صاحب! حاضر ہے آپ کی خدمت میں۔
نہیں راحل!تمہارا بہت شکریہ۔چلو میں چلتا ہوں۔Good Night
Pansy!دیکھا تم نے؟۔اور مجھے بہت نصیحت کیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں اپنی تہذیب مت بھول جانا۔رات میں پاجی اور دن میں حاجی بن جاتے ہیں۔
Roseیہ بتاؤ میں کیسے کچھ لکھوں؟ ظاہری طور پر خان صاحب روز اسی وقت نازل ہو جاتے ہیں۔اور باطنی طور پر سیٹھانی آہیں لگاتی ہیں۔
اوہ ! خدا یا ! دیکھو ! دیکھو! کیسے سیٹھانی مجھے گھور رہی ہیں۔مجھ سے یہ کہتی ہیں کہ میں ان کی روداد لکھوں۔
اب Jasmine بھلا تم ہی بتاؤ! آج کے زمانہ میں کوئی کسی کی روداد پڑھتا یا لکھتا ہے؟ آج کل تو دور Brendan Green کا ہے۔ جس نے PUBG Game کا ایجاد کیا ہے۔ سیٹھانی بھی حد کرتی ہیں۔اب مجھے انسیت ہو سکتی ہے ان سے۔کیوں کہ میں ان کا کبھی کسی زمانہ میں ہم سایہ تھا۔وہ بیوہ تھیں۔اپنی بیٹیوں کے ساتھ مختلف گھروں میں برتن دھل کر گزارا کرتی تھیں۔ان کے بیٹے اپنی بیویوں کے غلام تھے۔انہیں اپنی ماں یا بہنوں سے کوئی انسیت نہ تھی۔انہیں تو بس اپنی بیویاں عزیز تھیں۔اب بھلا تم سب یہ سوچوں کہ جس سیٹھانی کو ان کے اپنے بچے کبھی آنکھ بھر کرنہیں دیکھے۔تو دنیا کیا خاک ان کی روداد پڑھے گی۔نئی نسلوں کو PUBG سے فرصت نہیں۔اور ہماری ماں بہنوں کو ڈراموں سے فرصت نہیں۔آج کے زمانہ میں ادب سے کس کو شغف ہے۔اب یہ علی گڑھ تحریک،ترقی پسند تحریک کا زمانہ تو نہیں َ؟ جہاں با ذوق لوگ ہوا کرتے تھے۔
میری دادی کہاں کرتی تھیں۔کہ بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ وفا شعار ہوتی ہیں۔اب میری رافعہ کو ہی دیکھو! وہ مجھ سے کتنی محبت کرتی ہے۔میں تو جنت اسی کے ساتھ جاؤں گی۔ہا۔۔ہا۔۔ہا۔۔ہا۔۔۔ Daisy! سیٹھانی کی بیٹیاں تو بالکل دادی کے تجربے کے برعکس نکلیں۔ بڑی بیٹی نے تو ان کی عزت کو خوب چار چاند لگایا۔وہ اپنی ماں بہنوں کو چھوڑ کر کسی شادی شدہ مردکے ساتھ بھاگ گئی۔اس انسان کی بیوی نے سیٹھانی کی کیا درگت کی تھی۔ہائے اللہ! سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا میری اماں کے بقول۔میں نے نہیں دیکھا ہے یہ سب۔یہ سب تو اماں نے بتایا ہے۔
ہاں لیکن انکی دوسری اور تیسری بیٹیوں کی شادی دیکھی ہے میں نے۔دوسری بیٹی کی شادی اتنے امیر گھر میں ہوئی کہ وہ تو اپنی اوقات ہی بھول گئی۔وہاں اپنے سسرال میں وہ اب سیٹھانی بن گئی تھی۔وہ بڑے بڑے چابی کے گچھے لے کر گھوماکرتی تھی۔گہنوں سے ہمیشہ لدی ہوتی تھی۔اور پھر ان گہنوں اور چابی کے گچھوں کے ساتھ کھو ہی گئی۔اس کی اما یعنی کی سیٹھانی آواز دیتی رہ گئیں۔کرن!۔۔۔۔کرن!۔۔۔ کرن!۔۔۔۔
لیکن کرن تو اس محل میں کھو ہی گئی۔اور واپس اماں کے پاس کبھی نہیں لوٹی۔
اور پھر سیٹھانی کی بڑھتی بیماری،عمر کے تقاضے،پنکی کی شادی کی فکر انہیں جھک جور رہی تھی۔آخر کار پنکی کی شادی بھی ایک شرابی سے ہو گئی۔جو روز پنکی کو مارتا تھا۔پنکی چلاتی تھی۔اماں!۔۔۔۔اوشا دی دی!۔۔۔۔ کرن دی!۔۔۔۔۔۔مجھے بچا لو ! اپنے پاس بلا لو!
لیکن پنکی کو کو کون بلاتا،کون بچاتا،وہ بھائی جنہوں نے سدا اپنی ماں بہنوں کے سامنے بیویوں کو ترجیح دی۔وہ اوشا دی جس نے اپنی ماں کو
جیتے جی مار دیا۔اور وہ کرن دی جو شادی کے بعد دولت کے نشے میں ڈوب گئی۔اور آخر کار جب سیٹھانی سے یہ سب دیکھا نہیں گیا۔تو وہ گھر سے نکل گئییں۔ادھر ان کے بیٹے تھاوے والی ماتا کی پوجا کر رہے تھے۔اور سیٹھانی بھگول جی

کے بغیچے میں چراغ سحری کی مثال تھیں۔

ذبیح اللہ ذبیح ؔ
ریسرچ اسکالر،

دہلی یونیو رسٹی،دہلی

No comments:

Post a Comment