پل پل دل کے پاس
زینت جبین
آفس کے کام سے میں دو دنوں کے لۓ اُسی شہر میں آ گیا تھا۔جہاں کی کچھ تلخ یادیں آج بھی میرے ذہن میں تازہ تھیں۔میں اُس شہر سے اپنے وجود پر زخموں کا درد لںۓکبھی نہ آنے کا سوچ کر ہی تو چلا گیا تھا۔اپنی بے گناہی کا ثبوت دۓ بغیر۔
یہ یقین دلایا بغیر کہ میں بے گناہ ہوں۔
بحرحال میں آٹھ سالوں بعد پھر سے اپنے اُسی بےدردشہر میں آپہنچا تھا۔جہاں میں ایک مکان میں پینگ گیسٹ کے طور پر رہتا تھا۔
میٹنگ ختم ہونے پر ہوٹل جانے کے بجائے کندھے پر بیگ لٹکائے۔
ہاتھ میں موبائل پکڑے۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے میں اُسی گلی میں چلا آیا۔
جہاں سے گیا تھا۔
برسوں پہلے ایسے ہی تو کندھے پر بیگ لٹکائے ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا پکڑے۔
پتہ پوچھتا میں اُس گلی میں آیا تھا۔
آج مجھے پتہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
میں ایک ایک گھر کو پہچان رہا تھا۔
بہت سے چہرے جانے پہچانےتھے۔
مگر میں کسی کو ٹوک نہیں رہا تھا۔
لوگ پاس سے گزرتے ہوئے مجھے دیکھ بھی رہے تھے۔مگر مجھے پہچان نہیں پارہے تھے۔میں اب کہاں پہلے جیسا رہا تھا۔اب میں کسی بوڈی بیولڈر سے کم نہیں تھا۔اونچا لمبا مضبوط قد کاٹھ والا۔پہلے پتلا دبلا ڈرا سہما سا رہا کرتا تھا۔اس شہر میں نیا جو تھا۔کسی سے زیادہ جان پہچان بھی کہاں تھی۔صبح کالج چلا جاتا اور شام کو ڈانس کلاس کروایا کرتا بس۔
میں اس گلی نما سڑک پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتا رہا۔پھر سڑک کے نکڑ پر آ کر رک گیا۔بیگ کندھے سے اتار کر زمین پر رکھتا ادھر اُدھر کر یاد کر رہا تھا۔نکڑ پر ہی تو وہ مکان تھا جہاں میں رہتا تھا۔اب وہ مکان فلیٹ میں بدل گیا تھا۔میرے مکان کے سامنے بھیالال جی کا گھر اور اُس گھر میں پائل۔میں ان آٹھ سالوں میں انگینت بار پائل کو یاد کر چکا تھا۔اور ہر بار جب وہ یاد آتی میں سر جھٹک دیتا۔اب بھی میں سر جھٹک کر ادھر اُدھر دیکھنے تھا کہ میری نظر بھیالال جی کے مکان پر لگے بورڈ پر رک گئی۔
"روپم ڈانس کلاس" میں زیرلب بورڈ کو پڑھا پھر آنکھیں رگڑ رگڑ کر کئی بار دیکھا۔اور ہر بار مجھے روپم ڈانس کلاس ہی نظر آیا۔مگر میں تو اپنا ڈانس کلاس بند کر گیا تھا۔پھر یہ ڈانس کلاس؟ میں کچھ دیر سوچتا رہا پھر بیگ دوبارہ کندھے پر لٹکا کر اُس مکان کی طرف بڑھنے لگا۔دماغ کہہ رہا تھا۔مت جاؤ۔مگر میرا دل کہاں مان رہا تھا۔میرے قدم کہاں رک رہے تھے۔میں تیزی سے چلتا اس مکان کے گیٹ پر آکر رک گیا۔آ ٹھ سالوں بعد میں بیگ اُٹھائے اُس کے دروازے پر کھڑا تھا۔
بیل بجانے پر کسی نے گیٹ کھول کر مجھے سر سے پیر تک اس طرح دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کس سے ملنا ہے۔
و.....ہ..... وہ.... میں..... روپم..... ڈانس.... میں جملہ ادھورا چھوڑ کر چپ ہو گیا۔کیا بولوں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
اچھا۔۔ آپ اندر آجائیں۔میں بٹیا کو خبر دیتا ہوں۔میری بات کاٹ کر انہوں نے مجھے اندر آنے کا کہا تو میں اُس کے مکان میں داخل ہوا۔
یہ ایک بڑا سا ہال تھا۔ہال کے ایک طرف بڑا سا صوفا رکھا تھا۔میں اپنا بیگ سائیڈ پر رکھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔پائل کی چھم چھم کے ساتھ پائل میرے خیالوں سے نکل کر میرے اردگرد ڈانس کرنے لگی۔میں سر جھٹک کر اس کی یادوں کے حصار سے نکلنا چاہا۔مگر نکل نہ پایا۔
وہ میری سب سے اچھی اسٹوڈینٹ تھی۔جو بتاؤ سمجھ جاتی۔پائل ڈانس کلاس کے لئے آتی تو اُس کے بھیا آنکھیں نکالے، پان چباتے اس کے ساتھ میں آتے اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر آرام سے کرسی پر بیٹھ جاتے۔میں ڈرا سہما پائل کو ڈانس سیکھتا رہتا۔پائل کو کوئی اسٹیپ بتانا ہوتا تو میں کسی اور کو اُس کے سامنے کھڑا کردیتا اور اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر پائل کو بتاتا کہ اس طرح کمر پر ہاتھ رکھو۔اس طرح پیر آگے کرؤ۔اور اس طرح راونڈ گھومو۔کبھی کبھی جب پائل کو سمجھ نہیں آتا تو وہ چڑھ جاتی اور پیر پٹکتی ہوئی ایسے واپس جاتی جیسے پھر کبھی نہیں آۓ گی۔اس کے جانے کے بعد بھیا لال جی۔
یہ بھیا صرف پائل کے تھے۔دوسروں کے لئے تو دبنگ تھے۔بھیا لال تھے۔کیا مجال کے کوئی انکی بہن کو دیکھ لے۔
ہاں تو بھیا لال جی دھیرے سے میرے ہاتھ پر سو دو سو روپے رکھ کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہتے۔شاباش دھیان رکھنا پائل میری بہن ہے۔ڈانس کا شوق ہے اس لئے تمہارے پاس آنے دیتا ہوں۔ورنہ..... تم تو سمجھ ہی رہے ہو....... پائل کو ڈانس آۓنا آئے۔ اُسے چھونے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔بھیا لال آنکھیں لال پیلی کرتے پائل کے پیچھے پیچھے نکل جاتے۔مجھے لگتا پائل اب کبھی نہیں آۓ گی۔
مگر دوسرے دن پھر سے پہلے بھیا لال جی اور انکے پیچھے پیچھے پائل کھانے کا ڈب٘ہ پکڑے حاضر رہتی۔
تمہارے لئے کھانا لائی ہوں۔وہ آتے ہی چہک کر کہتی تو میں چور نظروں سے بھیا لال کو دیکھنے لگتا۔
لائی ہے تو رکھ لو۔بعد میں کھا لینا۔وہ پان چبا چبا کر کہتے تو میں پائل سے کھانے کا ڈب٘ہ لے کر رکھ لیتا۔
بھیا لال جی ہر وقت سر پر سوار نہ ہوتے تو مجھے اُس پیاری سی لڑکی سے پیار ہو ہی جاتا۔مگر یہاں تو یہ حال تھا کہ پائل مجھے بہت اچھی لگنے لگی تھی۔مجھے ہر دن اُس کا انتظار رہنے لگا تھا اور میں خود سے یہ اعتراف بھی نہیں کر پا رہا تھا کہ مجھے پائل سے محبت ہو ہی گئی ہے۔اعتراف کیسے کر پاتا بھلا۔اُس خوبصورت سی پری کو پانے کے لئے ایک دیو کو برداشت کرنا میرے بس کے باہر کا کام جو تھا۔اس لئے میں خود کو یہ یقین دلاتا رہا کہ مجھے پائل سے محبت کا میم بھی نہیں ہے۔اور یہی میری غلطی تھی۔میں یہ سمجھا تھا اُس کے شہر کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔اُس سے دور ہو جاؤں گا تو میرا دل جو دھیرے دھیرے اُس کی طرف مائل ہو رہا ہے۔وہ اُس کے سحر سے نکل جائے گا۔بس اسی لئے میں اگزام کے ختم ہوتے ہی اپنا ڈانس کلاس بند کر کے گاؤں جانے کی سوچنے لگا۔
اور اُس دن میں دل کو سمجھا کر۔
دل کو منا کر۔
شام کی ٹرین سے گاؤں جانے کے لیے اپنا بیگ پیک کر رہا تھا کہ بھیا لال جی آئی دھماکے۔میرے بیگ کو پیروں سے ٹھوکر مار کر گرانے کے بعد میرا کالر پکڑ کر مجھے کمرے سے باہر لے آئے۔میں حیران تھا۔میں کچھ پوچھتا اس سے پہلے انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔میں گرتا رہا۔وہ مجھے اٹھاتے رہے۔مجھے وارنگ دیتے رہے کہ خبر دار جو پھر کبھی اس شہر میں دوبارہ آیا تو۔میں حیران تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔بھیا لال جی نے جاتے جاتے میری پسلی میں لات مارتے ہوۓ کہا تھا۔اتنی پہرے داری کے بعد بھی تو نے وہی کیا جس کے ڈر سے میں اپنی پائل کے ساتھ آیا کرتا تھا۔
مگر میں نے کیا کیا ہے۔میں کراہ کر انہیں دیکھنے لگا۔تو وہ جاتے جاتے رک گۓ۔اور آنکھیں نکال کر میری طرف دیکھ کر بولے۔
میری پائل کو اپنی جال میں پھنسا لیا ہے تم نے۔جب ہی تو کل سے کچھ کھا نہیں رہی ہے۔اور آج صبح سے بخار میں پڑی ہے۔ابھی میں دوا کھلا رہا تھا وہ غنودگی میں تمہیں آواز دے رہی تھی۔وہ ایک اور لات مجھے مار کر تیزی سے سیڑھیاں اترگئے۔میں سکتے کے عالم میں کچھ دیر فرش پر اوندھا پڑا رہا۔پھر دھیرے دھیرے اٹھا۔اپنا بیگ اٹھایا اور چپ چاپ کسی سے ملے بغیر وہاں سے چلا آیا۔پھر کبھی نہیں آنے کے لئے۔پائل کو بھول جانے کے لئے۔مگر پائل کو بھول نہیں پایا۔بار بار یہی لگتا کہ کیا پائل کو بھی مجھ سے محبت ہو گئی تھی۔اور ہر بار اُس کا پائل میرے خیالوں میں چھم چھم بج کر یہ یقین دلاتا رہتا کہ ہاں اُسے بھی تم سے محبت ہوگئی تھی۔تب ہی تو وہ غنودگی میں تمہیں پکار رہی تھی۔تب ہی تو بھیا لال جی نے تمہاری جم کر پٹائی کی تھی۔تب ہی تو بھیا لال جی نے وہاں آنے سے منع کر دیا تھا۔
دل جس سکون کی تلاش میں اُس کے شہر کو چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔وہاں سے آتے ہوئے اپنا سکون وہیں پائل کے پاس چھوڑ آیا۔وہاں سے آنے کے بعد مجھے سروس مل گئی۔میں نے گھر بنا لیا۔بینک بائلینس آگیا۔پہلے والا ڈرا سہما سا روپم اب ایک مضبوط جوان تھا۔ماں میری شادی کو لے کر بہت پریشان تھیں۔ہزاروں لڑکیاں دیکھا چکی تھیں مجھے۔مگر مجھے کوئی پسند ہی نہیں آرہی تھی۔شادی کی بات شروع ہونے پر پائل کی پائل میرے کانوں میں اتنے زور سے بجتا کہ میں ماں کو یہ کہہ کر انکار کر دیتا کہ لڑکی مجھے پسند نہیں ہے۔ماں میرے انکار پر برا مان کر کہتیں۔جتنی مرضی اتنی لڑکیوں کو ناپسند کر دے۔مگر میں بھی چین سے بیٹھنے والی نہیں ہوں۔میں تجھے لڑکی دیکھا تھا رہوں گی۔تیری شادی دیکھے بغیر میں مرنے والی نہیں ہوں۔اور میں ہنس کر کہتا۔مریں تمہارے دشمن۔لڑکی پسند آجاۓ تو میں شادی بھی کر لوں گا۔ویسے بھی میں کون سا ابھی بوڑھا ہو رہا ہوں۔
تو بوڑھا نہیں ہو رہا۔مگر میں تو ہو رہی ہوں نہ بوڑھی۔اب مجھ سے گھر کے کام کاج نہیں ہوتے۔ماں پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیتی۔تو میں مسکرا کر چپ رہ جاتا۔
میں اکثر سوچتا۔
ایک بار اپنے پرانے شہر ہو آؤں۔
مگر پھر بھیا لال جی کی مار پٹائی یاد آ جاتی اور میں دل پر پتھر رکھ کر رہ جاتا۔
میں یہاں کیوں چلا آیا۔مجھے نہیں آنا چاہیے تھا۔
چلا گیا تھا تو چلا گیا تھا۔
اگر پائل کی شادی ہو گئی ہو تو۔
اس سوچ پر میں ہڑبڑاکرآنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
سائیڈ ٹیبل پر پانی کا بوتل رکھا تھا میں اٹھاکر پینے لگا کہ تب ہی سیڑھی پر ہلچل ہوئی اور میری نظریں اُس پر ٹک گئیں۔
میں بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
موبائل اسکرول کرتی وہ میرے پاس آکر رک گئی۔
ہاں بولیں کس سے ملنا ہے۔وہ پل بھر کو میری طرف دیکھی۔پھر اس کی نظریں موبائل پر واپس جم گئیں۔
تو میں وہ...... وہ.......جی...... آپ سے
روپم تم۔ وہ زور سے چلائی۔اور میرا جملہ بیچ میں رہ گیا۔
ہاں.... میں یہاں آفس کے کام سے آیا تھا۔روپم ڈانس کلاس دیکھ کر ادھر آ گیا۔میں صفائی دینے لگا۔
روپم... وہ میرا ہاتھ پکڑ کر رو پڑی۔
آ گۓ۔میرے لئے یہی کافی ہے۔کس کام سے۔مجھے یہ نہیں جاننا۔مجھے اپنی دعاؤں پر بھروسہ تھا کہ تم ایک دن ضرور آؤ گے۔کوئی اس طرح بھی جاتا ہے بھلا۔کبھی تو آتے۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
کیسے آتا؟بھیا لال جی نے تو سختی سے منع کر دیا تھا۔جب آنے کا سوچتا۔اپنی مار پٹائی یاد آ جاتی۔
زمینی لڑائی میں بھیا کو کسی نے گولی مار دی تھی۔
انہیں گزرےتو پانچ سال ہو گۓ ہیں۔بابا بھی اب نہیں رہے۔ اب ہوں اور گاؤں سے آۓ ہوۓ کاکا ہیں جنہوں نے گیٹ کھولا تھا۔میں ڈانس کلاس چلاتی ہوں۔وہ بغیر رکے بولے گئی۔
او شیٹ یہ تو بہت برا ہوا۔میں اسکے سر پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
تو وہ اپنے آنسو پوچھنے لگی۔
تم نےشادی نہیں کی اب تک؟ میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔
نہیں وہ نظریں جھکا کر بولی۔
کیوں۔میں نے اسکا جھکا ہو چہرہ دھیرے سے اوپر اٹھا یا۔
مجھے اپنی دعاؤں پر بھروسہ جو تھا کہ تم ایک دن ضرور آؤ گے۔اس لئے تو میں بھیا اور بابا کے لاۓ رشتوں پر انکار کرتی رہی تھی۔اسکے آنسو پھر سے گرنے لگے تھے۔
اگر میں شادی کر چکا ہوتا تو؟ میں نے شرارت سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔
تو خود پچتاتے۔ تمہیں تم سے بھی زیادہ چاہنے والی لڑکی سے ہاتھ دھونا پڑتا۔وہ آنکھیں نکال کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی۔
مجھے لگا وہ بالکل سچ بول رہی ہے۔
مجھے بھی تو اُس سے بے پناہ محبت تھی۔میں بھی تو اُسے خود سے زیادہ چاہتا تھا۔تب ہی تو میٹینگ ختم ہونے پر میں ہوٹل نہ جا کر اُس گلی میں آ گیا تھا۔
Zeenat jabeen siddiquee
C/O Nazir Hussain
H. No, 32
R/no, 15
Al Kabir polytechnic college road.
Old purulia road(west)
Zakir nagar.
Mango.
Jamshedpur.
Jharkhand.
Pin. 831020
India
بہترین تحریر
ReplyDeleteBahtreen
ReplyDelete👌🏻👌🏻waah waahhhhh
ReplyDelete