Tuesday, July 28, 2020
Friday, July 17, 2020
Juma Nama : Aala Zarfi Aur Kushada Dili Ke Sath Waba Ka Muqabla by Dr. Saleem Khan
جمعہ نامہ:اعلیٰ ظرفی اورکشادہ دلی کےساتھ وباء کامقابلہ
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
کورونا وبا کی بابت کچھ لوگ بہت زیادہ احتیاط پر زور دیتے ہیں تو کچھ تقدیر پر قناعت کے قائل ہیں ۔ صحابہ کے درمیان بھی 18 ہجری کے اندر بپا ہونے والےعمو اس کی وباء کے دوران ایسا اختلاف رونما ہوا تھا لیکن جس طرح آج کل احتیاط والوں کو بزدل اور مخالفین کو احمق سمجھا جاتا ہے ایسی کیفیت وہاں نہیں تھی۔ دورِ فاروقی میں جب شام، مصر اور عراق کے اندر وباپھیلی توحضرت ابوعبیدہؓ کی قیادت میں مسلمانوں کی بہت بڑی فوج مقیم تھی۔امیر المومنین نے اپنی فوج کی خبر گیری کےلیے خود رختِ سفرباندھا اوروہاں جاکر مہاجرین و انصار کے ساتھ مشورہ فرمایا۔ رائیں مختلف تھیں لیکن مہاجرین فتح نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سےاگلے دن کوچ کا اعلان کروادیا۔ اس پرحضرت ابو عبیدہؓ نے کہا:’’ اے عمر ! تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہو‘‘ ۔ توجواب دیا :’’ ہاں تقدیر الٰہی سے بھاگتا ہوں مگر بھاگتا بھی تقدیر الٰہی کی طرف ہوں‘‘ اور مدینہ لوٹ گئے لیکن اپنے سپہ سالار کو معزول نہیں کیا ۔ کشادہ دلی کے ساتھ اختلاف کو انگیز کرنے کی یہ بہترین مثال ہے۔
مدینہ آکر ابو عبیدہؓ کو بلوا بھیجا تو انہیں خیال ہوا وبا کے خوف سے بلایا جارہا ہے۔ جواب دیا جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ ’’ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے، اس لئے کوئی عمدہ مقام تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔‘‘اس حکم کی تعمیل میں حضرت ابوعبیدہؓ نے صحت افزاءجابیہ میں جا کر مقام کیا ۔ یہ اطاعت ہے کہ جتنا احتیاط ضروری تھا کیا۔ نہ ہر بات کی تائید اورنہ ہر حکم سے انکار کیا ۔جابیہ میں حضرت ابو عبیدہؓ بیمار ہوئے تو انتقال سے قبل معاذ بن جبلؓ کو جانشین مقرر کیا ۔ اس وقت حضرت عمرو بن العاص ؓ نے کہا کہ یہ وبا بنی اسرائیل پر مصر میں نازل ہونے والی بلاوں میں سے ہے اس لئے یہاں سے بھاگ چلنا چاہئے۔ حضرت معاذؓ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا کہ یہ وباء بلا نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا: ’’ اے فرزند! یہ اللہ کی طرف سے ہے، دیکھ شبہہ میں نہ پڑنا‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے‘‘ یہ کہہ کر انتقال کرگئے۔ حضرت معاذؓ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑے۔انہوں اختلاف رکھنے والے عمرو بن العاصؓ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ۔ اس کو اعلیٰ ظرفی کہتے ہیں ۔
حضرت عمرو بن العاصؓ نے کمان سنبھالنے کے بعد خطاب کرکے کہا وبا آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ ان کی رائےکو بعض صحابہؓ نے مسترد کیا تاہم حضرت عمروؓ نے اپنی رائے پر عمل کیااور فوج ان کے حکم کے تعمیل میں پہاڑوں پر پھیل گئی ۔ سوشیل ڈسٹنسنگ سے وباء کا زور ٹوٹ گیا۔ اس وباءمیں 25 ہزار مسلمان جن میں حضرات ابوعبیدہؓ، معاذ بن جبلؓ، یزید بن ابی سفیانؓ، حارث بن ہشامؓ، سہیل بن عمروؓاور عتبہ بن سہیلؓ جیسے بڑے صحابہ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا لیکن وہ کسی سازشی تھیوری کا شکار نہیں ہوئے ۔ قیامت خیز وباء نےاسلامی فتوحات کوعارضی طورپرروک دیا ۔ ہزاروں بچے یتیم اور خواتین بیوہ ہو گئیں۔ حضرت عمرؓ نے ان حالات میں پھرسے حضرت علیؓ کو مدینہ میں جانشین بناکرشام کاقصد کیا۔ اور اکثر اضلاع میں قیام کر کے فوج کی تنخواہیں اور وبائی مہلوکین کے وارثین کو میراث دلائی۔آسمانی آفات ووباء کا مقابلہ اس طرح میدان عمل میں اتر کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جس اعلیٰ ظرفی ، کشادہ دلی ، جوانمردی اور حکمت و فراست کے ساتھ وبا کا مقابلہ کیا وہ تاقیامت عالمِ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ ہم لوگ حضرت عمر ؓ سے متعلق گاندھی جی کا مقولہ تو خوب نقل کرتے ہیں لیکن ان کی پیروی کم ہی کرتے ہیں؟
Thursday, July 9, 2020
Koi Chara Nahi Dua Ke Siwa, Koi Sunta Nahi Khuda Ke Siwa by Dr. Saleem Khan
جمعہ نامہ : کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا ، کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے: ’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے‘‘نبی اکرم ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں:’ دعا ہی عبادت ہے‘ کہہ کر اسے تلاوت فرمایا۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ،وہ ہررات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر آکر فرماتاہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں‘‘۔ رات کے آخری پہر کی تسبیح و مناجات بندۂ مومن ا کو اس مقام بلند تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ رب کائنات سے نہایت قریب ہوجاتا ہے اور سرگوشی کرنے لگتا ہے۔ بندے کی اس حالت پر علامہ اقبال کے یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی اپنے بیٹے کے حق میں دعا ۔ اس حدیث میں سب سے پہلے مظلوم کو یقین دہانی کرائی گئی ہےکہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔ انسان جب کسی ظالم کی تعذیب کا شکار ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے دنیاوی سہاروں کی جانب لپکتا ہے لیکن جب ان سب سے مایوس ہوجاتا ہے تو بالآخر اپنے خالق و مالک کے آگے دست دعا پھیلا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اس کو ظلم و ستم سے نجات مل جائے ۔ مشیت الٰہی کے تحت جب اس میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے۔ وہ شیطانی وسوسوں کا شکار ہوکر طرح طرح کے گمان کرنے لگتا ہے ۔ ایسے میں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ کائنات کا خالق منصف بھی ہے۔ اس کا انصاف دنیا سے لے کر آخرت تک محیط ہے۔ کبھی نمرود پر ایک معمولی مچھر کے ذریعہ سزا دی جاتی ہے تو کبھی فرعون غرقاب کردیا جاتا ہے فی الحال کورونا نے اچھے اچھوں کے اقتدار کو ہلا دیا ہے مگریوگی ی رسوائی کے لیےتووکاس دوبے کافی ہو گیا ۔ یہ تو اس دنیا کی معمولی سزا ہے ،دائمی جہنم ظالموں کا آخری ٹھکانہ ہے ۔
نبی پاک ﷺ نےحضرت معاذ ؓ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجتے ہوئے ہدایت فرمائی:’’ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا‘‘۔اپنے جلیل القدر صحابی کو ایک خاص موقع پر یہ تلقین اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ حکمراں کے لیے اس خطرے کی سنگینی زیادہ ہوتی ہے۔ مظلوم کی داد رسی بلا تفریق مذہب و ملت ہوتی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے: ’’ مظلوم کی دعا قبول کی جاتی ہے، چاہے فاجر ہی کیوں نہ ہو، فجور(کا خمیازہ) اسی کی جان پر ہوگا‘‘۔دربار الہی میں ظلم وزیادتی کی سزا دنیا اور آخرت دونوں جگہ مل کررہتی ہے۔فرمانِ نبی ﷺ ہے:’’ ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لئے بھی اسے باقی رکھا جائے‘‘ ۔ اس حدیث میں کشمیر و فلسطین کے مظلومین اور ایغور و روہنگیا ئی مسلمانوں کی خاطر ڈھارس کا سامان ہے۔
نبی ٔ مکرم ﷺ کا فرمان ہے:’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالی دعا کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ، اللہ اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کو ناکام و نامراد واپس کر دے‘‘۔قبولیت دعا اس طرح ہوتی ہے کہ :’’جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو اسےاللہ ربّ العزت تین میں سے ایک نوازتے ہیں: دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے والا ہے۔ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے وہی دینے والاہے‘‘۔اللہ تعالیٰ ہماری دعاوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
Wednesday, July 8, 2020
Sunday, July 5, 2020
COVID-19 Awareness - Quiz Result
MEYAAR Association Organised
COVID-19 Awareness Quiz
Final Results
Category 1-Primary Schools
Students
Rank
|
Students Name
|
School
|
Class
|
1
|
Swara Chavhan
|
Goregaon Transit Camp
MPS
|
5th
|
2
|
Khan Farheen Zeeshan
|
A.K.I Urdu Primary
School
|
5th
|
3
|
Krish Ganesh Mendon
|
St John’s High Pri
School
|
5th
|
Category 2-Upper Primary
Schools Students
Rank
|
Students Name
|
School
|
Class
|
1
|
Ayush Pradeep Mishra
|
Pahadi High School
|
6th
|
2
|
Arohan Ajeet Tijore
|
St Joseph High School
Panvel
|
7th
|
3
|
Shaikh Tooba Vaseem
Ahmed
|
Shivaji Nagar Urdu
School No 7
|
7th
|
Category 3-High Schools
Students
Rank
|
Students Name
|
School
|
Class
|
1
|
Asma Shaikh Alauddin
|
Awami Girls High School
|
10th
|
2
|
Arya Vikas Sarfare
|
Parle Tilak Vidyalaya
|
10th
|
3
|
Shiddat
|
HMMS
|
9th
|
Category 4-Intermediate &
Above
Rank
|
Students Name
|
School
|
Class
|
1
|
Pranav Hotwani
|
VES College
|
FYBCOM
|
2
|
Shaikh Uzma Javed
|
Awami Girls Jr College
|
FYJC
|
3
|
Shabina Khan
|
Awami Girls Jr College
|
FYJC
|
For MEYAAR
Association.
Reg
No : G.B.B.S.D 2026/2019
Thursday, July 2, 2020
Juma Nama : Azabe Duniya, Muhlik Na Ho to Mauqa Hai by Dr. Saleem Khan
جمعہ نامہ : عذابِ دنیا، مہلک نہ ہو تو موقع ہے
ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے :’’کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ‘‘ اس سوال کا لازمی جواب ہے کہ ’’ ہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے‘‘۔ ان کا انجام ایک دوسرے سےمختلف ہے کیونکہ ’’ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے آرام کرنے کی جنتیں ہیں جو ان کے اعمال کی جزا ہیں‘‘۔ یہاں ایمان کے ساتھ عمل کا اضافہ کردیا گیا اورایمان کے بعد ایمان عمل کو جنت کی شرط قرار دیا گیا ۔ یعنی اہل ایمان اور فاسق کے انجام میں حد فاصل ’اعمال خیر‘ہوگا ۔ اس کے آگے فاسقین کا انجام بھی بتایا گیا ہے کہ :’’ اور جن لوگوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکاناجہنم ہے کہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ پلٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس جہنمّ کی آگ کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے ‘‘۔ فاسق چونکہ زبان سےسے اقرارکرنے کے بعد عملاً انکار کرتا ہے اس لیے اس کے انجام کو تکذیب سے جوڑ دیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ اہل ایمان کو چاہیے کہ عمل سے غافل نہ ہوں اور فاسقین کےلیے اپنے ایمان کے عملی انکار سے باز آنا لازم ہے ۔
مذکورہ بالا آیت میں دوزخ کے عذاب کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ جب جہنمی اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو انہیں دوبارہ پلٹا دیا جائے گا یعنی اس عذاب کی نوعیت دائمی ہوگی۔ اس کے بعد والی آیت میں فرمایا :’’اور ہم یقینا بڑے عذاب سے پہلے انہیں معمولی عذاب کا مزہ چکھائیں گے ‘‘۔ یعنی جہنم کا بڑا عذاب تو قیامت میں حساب کتاب کے بعد دیا جائے گا لیکن اس سے قبل اس دنیا میں بھی چھوٹی موٹی تعذیب سے گزارہ جائے گا اور اس کی غرض و غایت یہ بتائی گئی ہے ’’تاکہ شاید اسی طرح راہ راست پر پلٹ آئیں‘‘۔گویا انسانوں کو اس معمولی عذاب میں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے یا خبردار کرنے کی خاطر مبتلا کیا جائے گاتاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑ کر اپنا رویہ درست کرلیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ نعمت بن جائے گا۔ اس کے برعکس جو اس کو نظر انداز کردیں گے ان کی بابت فرمایا :’’ اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات ِالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں‘‘۔ یہ آیت دنیا اور آخرت کے عذاب کا فرق اور کورونا کی حقیقت واضح کرتی ہے ۔
دنیوی عذاب کی بابت ارشادِ قرآنی ہے :کہو، وہ اِس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، ‘‘۔ انسان جدید آلات کی مدد سے سمندری طوفان کی سمت اور رفتار کا پتہ لگا کر احتیاطی تدابیرتو کر سکتا ہے لیکن اسے روک دینا کسی کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے۔ اسی طرح زلزلہ کے مرکزہ اور شدت کی معلومات کا اندازہ تو ہوجاتا ہے لیکن اسے آنے سے روکنا تو دور وہ کب آئے گا اور کتنی تباہی لائے گا ؟ اس کا پتہ لگانا بھی انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔یہ آفاتِ ارضی و سماوی انسان کے غر ور کو پارہ پارہ کرکے اسے اپنے خالق و مالک کے آگے خود سپردگی کی جانب متوجہ کردیتی ہے۔ آگے انسان آزاد چاہے تو پلٹ آئے یا دائمی تباہی کی جانب بگ ٹٹ دوڑتا چلاجائے۔
مشیت الٰہی انسانوں کے ذریعہ بھی عذاب مسلط کرتی ہے۔فرمان قرآنی ہے :’’ تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ‘‘۔ یعنی لوگوں کو ایک دوسرے برسرِ پیکار ہوجانا بھی عذاب کی ایک شکل ہے۔ چین اور ہندوستان کی سرکاریں ایغور اور کشمیریوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کا اشتراک کرتی تھیں لیکن اب گلوان میں ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں ۔ مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں کی آپسی چپقلش ان کے لیے عذابِ جان بن گئی ہے فرمایا :’’ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ‘‘۔ اللہ کی یہ نشانیاں عذاب بن کر حقائق کا پردہ فاش کرکے غافل انسانوں کو بڑے عذاب سے خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ اتمام ِ حجت کا کام بھی کردیتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بنی نوعِ انسانی کوکورونا اور چائنا جیسی تنبیہات سے راہِ راست کی توفیق عطا فرمائے ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)