Thursday, June 25, 2020

Juma Nama: Duniya O Akhirat Ki Bhag Daud by Dr Saleem Khan

جمعہ نامہ : دنیا  و آخرت  کی بھاگ دوڑ
ڈاکٹر سلیم خان
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب ؓ  کا قول ہے’’ دنیا پیٹھ پھیرکر بھاگ  رہی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے ‘‘،  یہ دنیا  و آخرت کی ایسی عکاسی  ہے کہ  جس کاا نکار کسی فردِ بشر کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ زندگی کی ریت گھڑی کا ایک  ذرہ ہر لمحہ نیچے گر  جاتا ہے اور انسان ہرلحظہ موت سے قریب تر ہوتاجاتا ہے۔ اس معاملے میں  شاہ و گدا سب بے اختیار ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت اس  عمل میں خلل نہیں ڈال سکتی۔ زندگی اور موت کایہی   دلچسپ اور عجیب و غریب رشتہ  ہے ۔موت سے قبل عرصۂ حیات میں انسان کو  اپنا سمتِ سفر طے کرنے کی  مکمل آزادی ہے۔  وہ چاہے تو بھاگنے والی کے پیچھے بھاگے یا آنے والی کی طرف دوڑے ۔ اس بابت یہ رہنمائی  بھی دی  گئی ہے کہ  ’’ اور دنیا وآخرت  ہر ایک کے بیٹے ہیں ، تو تم آخرت کے بیٹے بنو ،دنیاکے بیٹے نہ بنو‘‘۔ یعنی دنیاوی عیش طرب کے بندے بن کر  اس  کو اپنا مائی باپ نہ بنالو بلکہ آخرت کی کامیابی کو اپنا مقصد حیات بناو۔ 
فلاح آخرت کو  اپنا مطمح نظر بنانے والے اہل ایمان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کامیابی  و کامرانی کی جانب ذوق و شوق سے رواں دواں ہوتے ہیں اور ہنستے کھیلتے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔  دنیا ان کا تعاقب کرتی رہتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کا مقدر کررکھا ہے وہ بھی انہیں حاصل ہوجاتا ہے دنیائےفانی  ان کا کچھ نہیں بگاڑپاتی ۔ اس کے برعکس جو لوگ دنیا وی کامیابی کو اپنا نصب العین بناکر اخروی نجات  سے غافل ہوجاتے ہیں انہیں ملک الموت  پیچھے سے دھر دبوچ   کرآخرت کی دہلیز پر لے جاتا ہے اور وہ کفِ افسوس ملتے ہوئے بادلِ ناخواستہ اس مقام پر پہنچا دیئے جاتے ہیں جس سے وہ عمر بھر بھاگتے رہے اور اس کی کوئی تیاری نہیں کی۔   غفلت کا شکار عالم انسانیت کو خبردار کرتے  ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہ ُ   فرماتے ہیں  ’’آج عمل کا دن ہے  کوئی حساب وکتاب نہیں،اور کل حساب کا دن ہوگا عمل کا نہیں ‘‘ ۔ یعنی مہلت عمل کے  خاتمہ پر اعمال کی سزا یا جزا سے دوچار ہونا ہی پڑےگا۔ 
دنیاوی کا میابی کو اپنی زندگی کا مقصد اس لیے بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ عالم شہود میں ہے اور آخرت عالم غیب میں ہے ۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان دنیا  کی چکا چوند کے فریب میں مبتلاء ہوکر اس کی قدرو قیمت کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہو کر اس  کے پیچھے بگ ٹٹ    بھاگتا  رہتا ہے۔ وہ دنیا جس کی بابت  بکری کے مردہ بچہ کا کان  پکڑ کر نبیٔ پاک ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کون ہے جو بکری کے اس چھوٹے کانوں والے مردہ  بچہ کو ایک درہم میں خریدنے کے لئے آمادہ وتیار ہے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ہم بکری کے اس مردہ بچہ کو جس کے کان بھی چھوٹے ہیں ایک درہم میں تو کیا مفت لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں  اور اس کو ہم لے کر کیا کریں گے ؟‘‘
  آپ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا : کیا تم اس کو لینا گوارہ کروگے؟ صحابہ ؓ نے کہا اے  اللہ کے رسول ﷺ  اللہ کی قسم  اگر یہ زندہ ہوتا   تب بھی  عیب دار تھا کیونکہ اس کے دونوں کان چھوٹے ہیں  اب  جب کہ  وہ مرچکا ہے تو ہم اس کو کیسے خریدنا گوارہ کریں گے‘‘، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم  تمہارے نزدیک  اس چھوٹے کانوں  والے  بکری کے  مردہ بچہ کی جو حیثیت ہے اللہ کے یہاں دنیاکی حیثیت اس سے بھی کمتر ہے ‘‘۔جس دنیا کے پیچھے پڑ کر انسان اپنی  آخرت  بگاڑ لیتا ہے ان کا  موازنہ کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا’’اللہ کی قسم!آخرت (کے مقابلے) میں دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں  کہ جیسے کوئی شخص اپنی ایک انگلی سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے وہ (انگلی) اس میں سے کیا (نکال کر) لاتی ہے‘‘۔سوال یہ ہے کہ دنیائے فانی کی حیثیت کو جان لینے کے بعد اس کے حصول کی  خاطر اپنے آپ کو آخرت کے  دائمی خسارے میں ڈال لینا کیسا ہے؟  آخرت پر دنیا  کی  فوقیت کا اعلان کرنے والا مسلمان تو شاید  ہی کوئی ہومگر عملاً  آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے والے کم ہی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’اگر اللہ کے یہاں دنیا کی حیثیت  مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالی کافر کو اس دنیا سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں کرتا‘‘۔

Saturday, June 20, 2020

Our Guide



Khan Hasnain Aaqib
Member of Balbharti Pune, Translator
Moderator,Writer, Poet

Thursday, June 11, 2020

Juma Nama : Khud Agahi Hai Khuda Shanasi by Dr. Saleem Khan

جمعہ نامہ: خود آگہی ہے خدا شناسی 

ڈاکٹر سلیم خان

خالق کائنات اپنی کتاب میں اولادِ آدم کو ابتدائے آفرینش کا ایک عہد یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اور (یاد کیجئے!)
 جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ‘‘ رب ذوالجلال جب  ازخود سوال کرے تو کس کی مجال ہے کہ انکار کا خیال بھی دل میں لائے۔   اس لیے سب ایک آواز میں : ’’ بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے،) ہم گواہی دیتے ہیں‘‘۔ اس عہد و پیمان کی غرض و غایت  یہ بیان کی گئی کہ:’’ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے‘‘۔  عہد الست کی خوبی یہ ہے کہ اس سے  بنی نوعِ انسان کو   عظمت و بلندی کا ایک نادر  موقع بھی عطا کیا گیا   اور  ساتھ ہی اس کو ایک  خطرے سے  بھی  وابستہ کردیاگیا  ۔ ارشادِ ربانی ہے  :’’ بیشک ہم نے (اِطاعت یا خلافت  کی) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس (بوجھ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ (اپنی جان پر) بڑی زیادتی کرنے والا (ادائیگئ امانت میں کوتاہی کے انجام سے) بڑا بے خبر و نادان ہے،‘‘۔  اس سے پتہ چلتا ہے انسانی فطرت  چیلنج کو قبول کرنے والی ۔ وہ اگر پنی فطرت سے برگشتہ نہ  ہوتو خطرات  سے گھبرانے کےبجائےنبردآزما ہونےکو ترجیح دیتا ہے ۔
زمین پر اللہ کے خلیفہ کی نگاہ  اپنی کمزوریوں کے بجائے رحمت الٰہی کی جانب نہیں  ہوتی   تو وہ کبھی بھی  اس بارِ امانت کو اٹھانے کی جرأت نہیں کرپاتا ۔  اسے یقین تھا کہ جو عظیم   ہستی کی   اس  کو اس  ذمہ داری  پر فائز فر ما رہی ہے وہ اس کو ادائیگی کے قابل بھی بنائے گی اور تاریخ گواہ ہے کہ خدائے رحمٰن و رحیم نے اپنے بندے کو اس کے گمان و توقع سے   زیادہ نوازہ ۔ ارشادِ قرآنی  ہے:’’یقیناً انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت گزرا جبکہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا‘‘۔ یہ عہد الست کے بعد جہانِ فانی  میں آنے تک  کا طویل  زمانہ  ہے ۔ اس کے بعد مقصدِ تخلیق  یعنی آزمائش کا ذکر  اس طرح کیا گیا کہ  : ’’بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کیلئے پیدا کیا ‘‘۔اس  کے بعد ان صفات کو بیان کیا گیا جو اس  امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے عطا کی گئیں  یعنی’’ اس کو سننے و دیکھنے والا بنایا ‘‘ ۔ ان صلاحیتوں کے بعد اس پر مزید یہ احسان کیا گیا  کہ :’’ ہم نے اسے راہ دکھائی‘‘ اور  اس کے ساتھ اختیار و عمل کی آزادی سے نواز کر فرمایا’’  اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا‘‘۔   یہ حسنِ تخلیق ہے کہ دیگر مخلوقات کے مقابلے انسانی  امتیازکو  خالق کائنات نے اس کی آزمائش   کا سامان بھی بنادیا ۔دنیوی  امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کی خاطر’’ انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ‘‘ ۔
 فرشتوں پر آدم کی  برتری کا منظر یہ ہے کہ ’’( وہ وقت یاد کرو ) جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ، سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں ، پھر اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑو‘‘۔  دنیا میں انسانی عز و شرف کو اس طرح بیان کیا کہ ’’اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی و تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اوراپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ‘‘۔ طبعی برتری کے بعد روحانی احسان کا ذکر اس طرح فرمایا کہ ’’اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا ۔پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی‘‘۔  اس عظیم داخلی نوازش کے بعد خارج میں  ہدایت کے لیے انبیائے کرام کا سلسلہ شروع کرکے ان کے ذریعہ اعلان کرایا گیا کہ ’’ اے لوگو ! اپنے پروردگار کی ہی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘ اور کامیابی کا  یہ نسخۂ کیمیا عطا کیا گیا کہ :’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو، وہ تمہارے لئے تمہارےاعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لئے بخش دے گا، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بےشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا‘‘۔  اس قدر احسانات کے بعد تو ہمیں اپنے آپ کو  ابدی جنت کا مستحق بنا ہی لینا چاہیے ۔

Monday, June 8, 2020

Mujtaba Husain Ek Munfarid Shakhsiyat : Kausar Hayat, Aurangabad

*مجتبیٰ حسین ایک منفرد شخصیت* 

 *کوثر حیات، اورنگ آباد* 


الگ تھا تیرا انداز سب سے الگ تھا تیرا مزاج بھی 
تو  غالب  نہ  تھا فقط تو  سب پر غالب ہے آج بھی

مجتبیٰ حسین طنز و مزاح نگار'  کالم نگار 'خاکہ نگار ' سفر نامہ نگار اور انشائیہ نگار تھے ساتھ ہی ان کی تحریر میں واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمال فن عروج پر نظر آتا۔
ان کی ادبی زندگی چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ 
مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936 میں ضلع گلبرگہ (کرناٹک) میں پیدا ہوئے ۔1956 میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ۔اے کیا۔1962 میں محکمہ اطلاعات میں ملازمت کا آغاز کیا۔ 1972 میں دلی میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔ دلی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوئے اور بعد ازاں مستقلاً حیدرآباد میں اپنی اصل رہائش گاہ کو لوٹ آئے اور تاوفات ان کا قیام حیدرآباد میں رہا۔
انہوں نے کالم نگاری سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے لئے وہ برسوں روزانہ کالم لکھتے رہے۔
مجتبیٰ حسین کے فن کی ایک عمومی خوبی یہ ہے کہ وہ عام سنجیدہ مظاہر میں ایک مَضحک پہلو ایک دیکھ لیتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے مجتبیٰ حسین کی جن تین خوبیوں کا ذکر کیا ہے کہ" قلم برداشتہ لکھتے ہیں۔ اُن کے ہاں تکرار کا عمل نہیں ہے اور اُن کی تحریروں میں تر و تازگی ہوتی ہے تو میری رائے میں ان تینوں خوبیوں کا راز اُن کے ذہن کی زر خیزی اور طباعی میں مضمر ہے۔"
مجتبی حسین کی تحریر میں ہندوستان کی تہذیب ' ثقافت' مشرقی نظریات  مزاح کے ساتھ ملتے ہیں ان کی تحریریں شگفتہ دلکش اور پر مزاح مگر اعتدال پسندی پر مبنی ہےان کی یہ خوبیاں اور فن ہی انہیں ممتاز بناتی ہیں۔مجتبیٰ حسین کے انشائیوں میں مزاح کا اسلوب غالب ہے۔ان کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔مجتبیٰ حسین کے اشائیوں میں معاشرے کے مجبور وبے بس اور دبے کچلے انسانوں کے تئیں دردمندی اور ہمدردی کا احساس دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے انشائیہ’’یہ رکشا والے‘‘
قصہ داڑھ کے درد کا‘‘مجتبیٰ حسین کا ایک دلچسپ اور مشہورانشائیہ ہے۔انسان اپنی زندگی میں بہت ساری بیماریوں سے دوچار ہوتا ہے اور تکلیفیں برداشت کرتا ہے۔کچھ بیماریوں کا درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان کو اسے برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ایسا ہی ایک درد داڑھ کادرد ہے۔جو ناقابل برداشت ہے۔اسی داڑھ کے درد کو دھیان میں رکھتے ہوئے مجتبیٰ حسین نے اپنا یہ انشائیہ تحریرکیا ہے۔اس انشائیہ میں جہاں اس درد سے پیدا ہونے والی ذہنی وجسمانی کیفیات کا انوکھے انداز میں ذکر کیا گیا ہے وہیں پر اس سے ہونے والی پریشانیوں کوبھی شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے۔اس انشائیہ کایہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

جب داڑھ کا درد اپنی حدوں کوپھلانگ کر کائنات کی وسعتوں میں پھیلنے کی کوشش کرنے لگتا ہے تو آدمی اس درد کی وسعت کے آگے ایک ادنیٰ سا ذرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔جب پہلے پہل ہمارے سیدھے جبڑے والی داڑھ کا درد حدسے سوا ہوگیااورہم سیدھی جانب زیادہ جھکائو محسوس کرنے لگے تو اس عدم توازن کے احساس نے ہم میں بڑی بے چینی پیدا کردی۔آئینہ میں صورت دیکھی توپتہ چلا کہ آئینہ میں ہماری جگہ ایک بھوت کھڑا ہے۔ہم گھبراکر فوراًدانتوں کے ایک ڈاکٹر کے پاس بھاگے وہ ہمیں پہلے سے جانتے تھے لیکن داڑھ کے درد کے ساتھ انھوں نے ہمیں پہچاننے سے انکار کردیا۔ہم نے اس بات کی شکایت کی توبولے’’بھائی صاحب!داڑھ کے درد کے بعد آدمی کی پہچان بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔مجھے تو اپنے سارے ہی مریض’’ہم شکل ‘‘نظرآتے ہیں۔کس کس کوکہاں تک پہچانوں۔‘‘یوں بھی آپ کے سامنے اگربہت ساری ڈبل روٹیاں ایک ساتھ رکھ دی جائیں تو آپ ان ڈبل روٹیوں کو کیسے پہچانیں گے یہ ڈبل روٹی زیدہے اور وہ ڈبل روٹی بکر ہے۔داڑھ کے درد کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ آدمی کے چہرے کودیکھئے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آدمی کا چہرہ ڈبل روٹی بنانے کی مشین سے ڈھل کر نکلا ہے۔‘‘
مجتبیٰ حسین کے مضامین میں بے رغبتی کا احساس نہیں ہوتا ہے اس میں آذاد فضا ملتی ہے دلنواز رنگینی اور خوبصورتی ملتی ہے اپنے منفرد انداز سے وہ تحریر میں مسرت آمیز ماحول پیدا کردیتے ان کی اہم تصنیفات میں تکلف برطرف 1968' قطع کلام 1969'قصہ مختصر 1972' بہرحال 1974' آدمی نامہ 1981'   بالاآخر 1982 '   جاپان چلو جاپان چلو 1983'  الغرض 1987' سوہے وہ بھی آدمی 1987' چہرہ در چہرہ 1993' سفر لخت لخت 1995' آخرکار 1997' ہوے ہم دوست جس کے 1999 ' میرا کالم 1999' مجتبیٰ حسین کے سفرنامے 2003 شامل ہیں۔
مجتبیٰ حسین نے اپنے مضامین میں تشبیہات واستعارات کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ان کی تشبیہات میں بڑی تازگی اور انفرادیت ہوتی ہے۔۔ مجتبیٰ حسین کے اب تک کے تحریر کردہ تمام پر لطف سفرناموں (جاپان، یوروپ، سابق سوویت یونین، مسقط، سعودی عرب، دوبئی اور امریکہ) کو حسن چشتی (شکاگو، امریکہ) نے 'سفرناموں کی کلیات' کی صورت میں مرتب کیا ہے۔
مجتبیٰ حسین ملک میں طنز و مزاح کے پہلے ادیب تھے جن کو مرکزی حکومت نے بحیثیت مزاح نگار باوقار اعزاز پدم شری سے نوازا۔ اسکے علاوہ دیگر اعزازات :
اڑیہ ادیبوں کی تنظیم سرس ساہتیہ سمیتی۔کٹک کی جانب سے" ساہتیہ رتن " کا خطاب 1980
غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کا پہلا غالب ایوارڈ برائے " اردو طنز و مزاح " 1984
ایوارڈ برائے " تخلیقی نثر  " اردو اکادمی' دہلی ۔ 1990
کل ہند مخدوم محی الدین ادبی  ایوارڈ۔ آندھراپردیش اردو  اکادمی۔ 1993
کل ہند کنور مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ برائے "۔ اردو طنز و مزاح " ہریانہ اردو اکادمی ۔1999
کل ہند ایوارڈ برائے " مجموعی خدمات " کرناٹک اردو اکادمی ۔ 2002
اس کے علاوہ تمام تصانیف کو مختلف اکادمیوں کی جانب سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔
 مجتبیٰ حسین کے مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی 7 کتابیں ہندی زبان میں شائع ہوئیں۔ جاپانی اور اڑیہ زبان میں بھی ایک ایک کتاب شائع کی گئی۔


اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ لوگ تھے ایسے کہ جو کھونے کے نہیں تھے

   کوثر حیات
   اورنگ آباد
khwaja.kauser@gmail.com

Quiz Competition-COVID-19

MEYAAR ASSOCIATION 
Organised
Quiz Competiton 
on 
Covid-19 Awareness




Saturday, June 6, 2020

Art Work - Deepti V Barwal

Art Work Videos For Students






Art Work Videos Made By Deepti Vikram Barwal (Drawing Teacher MCGM)
Video Uploaded With Certain Permissions
Copying Content From this website is Prohibited
And Such Persons will liable for neccessary action under Copy Right Act 1957

Thursday, June 4, 2020

'Juma Nama : Iman, Taqwa aur Neki' by Dr. Saleem Khan

جمعہ نامہ: ایمان ، تقویٰ اور نیکی
ڈاکٹر سلیم خان

 ایمان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق، اعضاء وجوراح سے عمل کرنے کانام ہے۔ زبانی اقرارکی تصدیق اگر دل سے نہ ہو تو وہ نفاق ہے۔ایمان بلا عمل فسق ہے ۔ اس سے بچنے کے لیے دل میں تقویٰ ہوناچاہیے تاکہ اعضاء و جوارح کے لیےاعمال صالحہ کا ارتکاب آسان ہوجائے۔ نیکی سےایمان بڑھتا ہے اور گناہ سے کم ہوجاتا ہے۔ایمان کو جانچنے کا پیمانہ اگر نیکی ہے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیکی کیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’اصل نیکی حسن اخلاق ہے‘‘۔ عام طور احادیث میں قرآن حکیم کی آیات کی تفسیر ہوتی ہے لیکن یہ حدیث دراصل آیت البر کا خلاصہ ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو‘‘۔ عام طور انسان چونکہ نیکی اور بدی کو چند علامات سے منسوب کرکے مطمئن ہوجاتا ہے اس لیے خیر کیا ہے یہ بتانے سے پہلے بتایا گیا کہ کیا نہیں ہےکیونکہ نیکی کے جعلی تصور ات کی جھاڑ جھنکاڑ سے جب تک قلب و ذہن پاک صاف نہ ہوجائے اس وقت تک اس میں حقیقی خیر کا تخم پروان نہیں چڑھ سکتا ۔ اس کے بعد اعمال بیان کرنے بجائے ایمانیات کا ذکر فرمایا گیا اس لیے کہ ایمان کے بغیر عمل معتبر نہیں۔ فرمایا ’’بلکہ اصل نیکی اُس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر ‘اور یومِ آخر پر‘ اور فرشتوں پر ‘اور کتابوں پر اور انبیاء پر‘‘۔ ایمان کے بعد جب اعمال کا ذکر آئے تو بندۂ مومن توقع کرتا ہے کہ عبادات مثلاً نماز روزے کا ذکر ہوگا لیکن چونکہ نیکی حسن اخلاق ہے اس لیے حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد کی تلقین فرمائی گئی ’’ اور دیا اس نے مال اس کی محبت کے علی الرغم رشتے داروں کو‘اور یتیموں کو‘اور محتاجوں کو‘اور مسافرکو‘اور سائلوں کواور گردنوں کے چھڑانے میں‘‘۔ ایسے ایمان والے کا تصور محال ہے جو عبادات کو اولین نیکی نہ سمجھتا ہو لیکن حقوق العباد کو بھی عین خیر سمجھنے والے کم ہوتے ہیں ۔ اس کا ذکرنے کے بعد فرمایا گیا ’’ا ور قائم کی اس نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ‘‘۔دین فطرت میں یہ ترتیب و توازن ہے کہ انسان خدمت خلق کو سب کچھ کر عبادات سے بے نیاز نہ ہوجائے ۔باہمی رشتوں کی بنیاد ایفائے عہد پر ہوتی ہے۔ اہل ایمان جہاں اپنے رب سے کیے گئے ’عہدِ الست‘ کی پاسداری کرتے ہیں وہیں بندوں کے ساتھ بھی وعدہ کرکے نبھاتے ہیں۔ آیت کے اگلے حصے میں اس کا ذکر ہے فرمایا ’’ اور پورا کرنے والے اپنے عہد کے جبکہ کوئی باہم معاہدہ کرلیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ خالص منافق ہے جب بات کرتا ہےتو جھوٹ بولتاہے، وعدہ کرکے خلاف ورزی کرتاہے، عہدو پیمان باندھ کر توڑ دیتاہے اور جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ کرنے لگتا ہے۔ گویا یہ گناہ ایمان کو نفاق میں بدل دیتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا اور مختلف النوع ابتلاء اس کا مقدر کردی گئیں۔ ان میں صبر و استقامت کا مظاہرہ بھی نیکی ہی ہے اس لیے کہ آگے فرمانِ ربانی ہے’’اوربالخصوص صبر کرنے والے فقروفاقہ میں‘تکالیف و مصائب پراور جنگ کے وقت.یہی ہیں وہ لوگ کہ جو واقعتاً راست باز ہیں‘اور یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقتاًمتقی ہیں ‘‘ ۔ آزمائشوں میں سے کچھ تو انفرادی ہوتی ہیں مثلاًغربت و مصیبت وغیرہ مگر کچھ اجتماعی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے لیے مل جل کر جہاد و قتال کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بغیرنہ تو ظلم و جبر کا خاتمہ ہوتا اور نہ عدل و قسط کا قیام ممکن ہے۔ اس کے لیے بھی صبرو استقامت کے مظاہرے کو نیکی کی اس وسیع تعریف میں شامل کرکے یہ بتا دیا گیا کہ یہ کوئی سیاست نہیں بلکہ خیر مجسم کا جزو لاینفک ہے۔ آیت کے اختتام فرمایا ’’ یہی ہیں وہ لوگ کہ جو واقعتاً راست باز ہیں‘اور یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقتاً متقی ہیں ‘‘۔ یعنی حقیقی تقویٰ ان تمام پہلووں کا احاطہ کرتا ہے ۔ تقویٰ کی اس ہمہ گیر تعریف کی روشنی میں ہمیں اپنے قلب کو ٹٹول کر دیکھنا چاہیے۔ ابھی رمضان تازہ ہے ہمیں اپنے روزوں کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم وہ تقویٰ حاصل کرسکے جو ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے میں ہمارا معاون و مدد گا رہو یا ہم نے بھی اپنی پسند کی مطابق نیکی کے تصور کو چند لگے بندھے رسوم ورواج اور علامات سے وابستہ کرکے اپنے آپ کو مطمئن کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی تقویٰ اور نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔