*مجتبیٰ حسین ایک منفرد شخصیت*
*کوثر حیات، اورنگ آباد*
الگ تھا تیرا انداز سب سے الگ تھا تیرا مزاج بھی
تو غالب نہ تھا فقط تو سب پر غالب ہے آج بھی
مجتبیٰ حسین طنز و مزاح نگار' کالم نگار 'خاکہ نگار ' سفر نامہ نگار اور انشائیہ نگار تھے ساتھ ہی ان کی تحریر میں واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمال فن عروج پر نظر آتا۔
ان کی ادبی زندگی چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔
مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936 میں ضلع گلبرگہ (کرناٹک) میں پیدا ہوئے ۔1956 میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ۔اے کیا۔1962 میں محکمہ اطلاعات میں ملازمت کا آغاز کیا۔ 1972 میں دلی میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔ دلی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوئے اور بعد ازاں مستقلاً حیدرآباد میں اپنی اصل رہائش گاہ کو لوٹ آئے اور تاوفات ان کا قیام حیدرآباد میں رہا۔
انہوں نے کالم نگاری سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے لئے وہ برسوں روزانہ کالم لکھتے رہے۔
مجتبیٰ حسین کے فن کی ایک عمومی خوبی یہ ہے کہ وہ عام سنجیدہ مظاہر میں ایک مَضحک پہلو ایک دیکھ لیتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے مجتبیٰ حسین کی جن تین خوبیوں کا ذکر کیا ہے کہ" قلم برداشتہ لکھتے ہیں۔ اُن کے ہاں تکرار کا عمل نہیں ہے اور اُن کی تحریروں میں تر و تازگی ہوتی ہے تو میری رائے میں ان تینوں خوبیوں کا راز اُن کے ذہن کی زر خیزی اور طباعی میں مضمر ہے۔"
مجتبی حسین کی تحریر میں ہندوستان کی تہذیب ' ثقافت' مشرقی نظریات مزاح کے ساتھ ملتے ہیں ان کی تحریریں شگفتہ دلکش اور پر مزاح مگر اعتدال پسندی پر مبنی ہےان کی یہ خوبیاں اور فن ہی انہیں ممتاز بناتی ہیں۔مجتبیٰ حسین کے انشائیوں میں مزاح کا اسلوب غالب ہے۔ان کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔مجتبیٰ حسین کے اشائیوں میں معاشرے کے مجبور وبے بس اور دبے کچلے انسانوں کے تئیں دردمندی اور ہمدردی کا احساس دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے انشائیہ’’یہ رکشا والے‘‘
قصہ داڑھ کے درد کا‘‘مجتبیٰ حسین کا ایک دلچسپ اور مشہورانشائیہ ہے۔انسان اپنی زندگی میں بہت ساری بیماریوں سے دوچار ہوتا ہے اور تکلیفیں برداشت کرتا ہے۔کچھ بیماریوں کا درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان کو اسے برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ایسا ہی ایک درد داڑھ کادرد ہے۔جو ناقابل برداشت ہے۔اسی داڑھ کے درد کو دھیان میں رکھتے ہوئے مجتبیٰ حسین نے اپنا یہ انشائیہ تحریرکیا ہے۔اس انشائیہ میں جہاں اس درد سے پیدا ہونے والی ذہنی وجسمانی کیفیات کا انوکھے انداز میں ذکر کیا گیا ہے وہیں پر اس سے ہونے والی پریشانیوں کوبھی شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے۔اس انشائیہ کایہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
جب داڑھ کا درد اپنی حدوں کوپھلانگ کر کائنات کی وسعتوں میں پھیلنے کی کوشش کرنے لگتا ہے تو آدمی اس درد کی وسعت کے آگے ایک ادنیٰ سا ذرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔جب پہلے پہل ہمارے سیدھے جبڑے والی داڑھ کا درد حدسے سوا ہوگیااورہم سیدھی جانب زیادہ جھکائو محسوس کرنے لگے تو اس عدم توازن کے احساس نے ہم میں بڑی بے چینی پیدا کردی۔آئینہ میں صورت دیکھی توپتہ چلا کہ آئینہ میں ہماری جگہ ایک بھوت کھڑا ہے۔ہم گھبراکر فوراًدانتوں کے ایک ڈاکٹر کے پاس بھاگے وہ ہمیں پہلے سے جانتے تھے لیکن داڑھ کے درد کے ساتھ انھوں نے ہمیں پہچاننے سے انکار کردیا۔ہم نے اس بات کی شکایت کی توبولے’’بھائی صاحب!داڑھ کے درد کے بعد آدمی کی پہچان بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔مجھے تو اپنے سارے ہی مریض’’ہم شکل ‘‘نظرآتے ہیں۔کس کس کوکہاں تک پہچانوں۔‘‘یوں بھی آپ کے سامنے اگربہت ساری ڈبل روٹیاں ایک ساتھ رکھ دی جائیں تو آپ ان ڈبل روٹیوں کو کیسے پہچانیں گے یہ ڈبل روٹی زیدہے اور وہ ڈبل روٹی بکر ہے۔داڑھ کے درد کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ آدمی کے چہرے کودیکھئے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آدمی کا چہرہ ڈبل روٹی بنانے کی مشین سے ڈھل کر نکلا ہے۔‘‘
مجتبیٰ حسین کے مضامین میں بے رغبتی کا احساس نہیں ہوتا ہے اس میں آذاد فضا ملتی ہے دلنواز رنگینی اور خوبصورتی ملتی ہے اپنے منفرد انداز سے وہ تحریر میں مسرت آمیز ماحول پیدا کردیتے ان کی اہم تصنیفات میں تکلف برطرف 1968' قطع کلام 1969'قصہ مختصر 1972' بہرحال 1974' آدمی نامہ 1981' بالاآخر 1982 ' جاپان چلو جاپان چلو 1983' الغرض 1987' سوہے وہ بھی آدمی 1987' چہرہ در چہرہ 1993' سفر لخت لخت 1995' آخرکار 1997' ہوے ہم دوست جس کے 1999 ' میرا کالم 1999' مجتبیٰ حسین کے سفرنامے 2003 شامل ہیں۔
مجتبیٰ حسین نے اپنے مضامین میں تشبیہات واستعارات کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ان کی تشبیہات میں بڑی تازگی اور انفرادیت ہوتی ہے۔۔ مجتبیٰ حسین کے اب تک کے تحریر کردہ تمام پر لطف سفرناموں (جاپان، یوروپ، سابق سوویت یونین، مسقط، سعودی عرب، دوبئی اور امریکہ) کو حسن چشتی (شکاگو، امریکہ) نے 'سفرناموں کی کلیات' کی صورت میں مرتب کیا ہے۔
مجتبیٰ حسین ملک میں طنز و مزاح کے پہلے ادیب تھے جن کو مرکزی حکومت نے بحیثیت مزاح نگار باوقار اعزاز پدم شری سے نوازا۔ اسکے علاوہ دیگر اعزازات :
اڑیہ ادیبوں کی تنظیم سرس ساہتیہ سمیتی۔کٹک کی جانب سے" ساہتیہ رتن " کا خطاب 1980
غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کا پہلا غالب ایوارڈ برائے " اردو طنز و مزاح " 1984
ایوارڈ برائے " تخلیقی نثر " اردو اکادمی' دہلی ۔ 1990
کل ہند مخدوم محی الدین ادبی ایوارڈ۔ آندھراپردیش اردو اکادمی۔ 1993
کل ہند کنور مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ برائے "۔ اردو طنز و مزاح " ہریانہ اردو اکادمی ۔1999
کل ہند ایوارڈ برائے " مجموعی خدمات " کرناٹک اردو اکادمی ۔ 2002
اس کے علاوہ تمام تصانیف کو مختلف اکادمیوں کی جانب سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔
مجتبیٰ حسین کے مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی 7 کتابیں ہندی زبان میں شائع ہوئیں۔ جاپانی اور اڑیہ زبان میں بھی ایک ایک کتاب شائع کی گئی۔
اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ لوگ تھے ایسے کہ جو کھونے کے نہیں تھے
کوثر حیات
اورنگ آباد
khwaja.kauser@gmail.com
Ma sha allah
ReplyDeleteBohot achi maloomat thi allah aap k ilm me mazid izafa karen.Aameen