Sunday, May 31, 2020

Membership Form

About Us

Aims & Objectives Of Meyaar Website

 

Meyaar Association Mumbai has established a free website www.meyaar.org with the objectives of promoting and disseminating Education & Literature, especially Urdu Literature to an audience beyond those conversant with the Urdu script.

 

This resource provides the works of the high number of students, teachers poets and writers. The site is the large online repository of educational and literary content .

 

It has a large number of features that make it extremely user-friendly and provides the reader unparalleled convenience in the ability to browse, search and find relevant content with its customized powerful search facility.

 

It has also started an initiative to digitize literature, both poetry and prose, in order to preserve rare and popular books.  Apart from sourcing books from personal collections of various people, it has also associated with reputed libraries and organizations to digitize their collections. 

 

The site has recently been made responsive which would enable users across all platforms including desktop and laptop computers, tablets as well as mobile phones to view and navigate the site with equal ease which would enable users even in remote locations to access the website.

 

-It has Provided simple, universal access to information and services for readers.

 

- It has provided more advanced web tools for the Educational   & Literary purpose.

 

 - It has Improved the online communications ability for individuals and groups associated with the Education & Literature.

 

- It has expanded and enhanced technology support tools to meet the Education's & Literature's current needs and expectations.

 

 - It has Obtained feedback from users on satisfaction levels of current services, as well as, new services and implement changes accordingly.


Tuesday, May 26, 2020

The Corona Warriors

Photo Gallary


Zerona Ki Eidi : Dr. Saleem Khan

ژیرونا کی عیدی

ڈاکٹر سلیم خان 


                                                        
            للن سنگھ نے کلن مشرا سے کہا یار آج مجھے اپنے سدھیر چودھری پر بہت غصہ آیا ۔
ارےتیرے کی ! یہ کیسے ہوگیا ۔ وہ تو تمہارا چہیتا صحافی ، سوری صحافی تو نہیں مگر اینکر ہے ۔
یہ اینکر کیا ہوتا ہے کلن بھیا ۔ میں نہیں سمجھا ۔
ارے اینکر یعنی لنگر اور کیا ۰۰۰۰۰ردیف قافیہ بھی یکساں ہے۔
لیکن کلن مشرا لنگر تو پانی کے جہاز میں ہوتا ہے ۔ ٹی وی کے پروگرام میں اس کا کیا کام ؟
ٹیلیویژن کا پروگرام بھی جہاز کی طرح ہوتا ہے ۔ اس میں ہونے والی بحث کی لہریں اسے بہا کرساتھ نہ لے جائیں اس لیے لنگر کی ضرورت ہوتی ہے۔
اوہو ! اب سمجھا یعنی اس کا کام لوگوں کو بہکنے سے روکنا ہے۔
جی ہاں للن مگر سدھیر چودھری جیسے اینکر خود بھی بہکتے ہیں اور دوسروں کو بھی بہکانے کا کام کرتے ہیں ۔ خیر تم اس سے ناراض کیوں ہوگئے؟
اس کو اپنے چینل پر عید کی مبارکباد دیتے ہوئے دیکھ کر میرا خون کھول گیا ۔
ارے سدھیر تو کیا اس کے باپ کو یہ کرنا پڑتا ۔ اگر وزیر اعظم کا پیغام پڑھ کر نہیں سناتا تو چینل کے اشتہار بند ہوجاتے اور اس کی چھٹی ہوجاتی۔
اچھا تو یہ بات ہے ۔ وہ تو امیت شاہ کے بارے میں بھی مبارکباد اور امن وشانتی جیسی نہ جانے کیا کیا باتیں بتا رہا تھا ۔
ارے بھائی اگر سدھیر نے شاہ جی کے بارے میںکچھ ایسا ویسا کہہ دیا تو سیدھاتہاڑ جیل کے اسی کمرے میں بھجوا دیا جائے گا جہاں وہ کبھی مقید تھے۔
لیکن ہمارے لوگوں کو کیا یہ ہوگیا ہے کہ جن لوگوں نے ملک بھر میں کورونا پھیلایا انہیں کو یہ مبارکباد دے رہے ہیں ۔ کمال ہوگیا؟
یہ تم کو کس نے بتایا کہ مسلمانوں نے ملک بھر میں کورونا کو پھیلایا ہے؟
اسی سدھیر چودھری نے اور کس نے لیکن اب سمجھ میں آگیا کہ کا اس بیچارے کا چہرہ اس قدر اترا ہوا کیوں تھا؟ تم دیکھتے تو پتہ چلتا ؟ ؟
کلن بولا بھائی میں اس کامنحوس چہرہ کیوں دیکھتا ۔ میری شامت آئی ہے کیا؟ چینل بدلتے ہوئے اس شکل نظر آجائے میری تو نیند اڑ جاتی ہے۔
کیوں؟ اس میں شامت کی کیا بات ہے ۔ مجھے تو اس کا پروگرام دیکھے بغیر نیند نہیں آتی ۔ وہی تو ہے سچا دیش بھکت ۔
بھائی ایسا ہے کہ تم تو اس کے عادی ہوگئے ہو۔ جیسے کسی چرسی کو دم مارے بغیر سکون نہیں ہوتا وہی تمہارا حال ہے ۔
فضول بکواس نہ کرو کلن ورنہ ۰۰۰۰۰۰
ورنہ کیا کروگے ؟ میرے خلاف بھی کورونا جہاد چھیڑ دو گے کیا ؟
ارے بھائی کورونا جہاد تو تبلیغیوں نے چھیڑ رکھا ہے ۔ سنا تم نے اپنے ژی چینل کا آدھے سے زیادہ عملہ کورونا سے متاثر پایاگیا ہے۔
مجھے پتہ ہے لیکن کیا اس کے لیے تبلیغی جماعت کے لوگ ذمہ دار ہیں ؟
جی ہاں اور نہیں تو کیا ؟ میں نے اپنے محلے کے جمن میاں سے پوچھا تو انہوں نے بھی تائید میں کہا ’’ اوپر والے کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے‘‘ ۔
اچھا تو تم اس کا کیا مطلب سمجھے ؟
یہی کہ تبلیغی جماعت والوں نے ژی ٹی وی کے لوگوں پر کوئی جادو ٹونا کردیا ۔
غلط سمجھے اس لیے کہ ژی چینل نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے ۔ میرا مطلب ہے کھوپڑی میں گوبر بھر دیا ہے ۔
یار کلن آج تو تم کچھ زیادہ ہی غصہ ہورہے ہو ۔ ایسی حالت تو سدھیر چودھری کا ڈی این اے دیکھنے کے بعد ہوتی ہے۔
جی ہاں سارا قصور اس کے ڈی این اے میں ہے لیکن افسوس کے اب وہ زہر تم جیسے لوگوں میں داخل ہوکر پورے سماج میں پھیل رہا ہے۔
یار تم تو تبلیغی والی زبان بول رہے ہو ۔ کیا تمہیں ژی کے نامہ نگاروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔
للن بھیا میں ان کی ہمدردی میں ہی کھول رہا ہوں ۔ ان لوگوں کی اس بدحالی کے لیے سدھیر اور شریواستو ہی تو ذمہ دار ہیں ۔
کیا بات کرتے ہیں کلن مشرا ؟ وہ اپنے ہی لوگوں کے دشمن کیسے ہوسکتے ہیں؟
ارے بھائی جو دوسروں کے لیے سفاک ہو وہ اپنوں کی خاطر رحمدل کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا سب سے بڑا ثبوت ژی چینل ہے۔
اچھا کلن بھیا ! وہ کیسے؟
دیکھو ژی کے دفتر میں کام کرنے والے51 میں سے 28 لوگ کورونا سے متاثر پائے گئے ۔
اچھا تو کیا لاک ڈاون کے بعد صرف ایک تہائی عملہ کو دفتر میں آنے کی جو اجازت تھی ژی انتظامیہ نے اس کی خلاف ورزی کی؟
جی ہاں للن ۔ ان لوگوں نے گھر سے کام کرنے اجازت نہیں دی ؟ زبردستی سب کو میدان میں دوڑاتے اور دفتر بلاتے رہے ۔
یہ نہیں ہوسکتا ۔ اگر یہ سچ ہے تو سدھیر پر عمداً قتل کا مقدمہ درج ہوجائے گا ۔
جی ہاں سدھیر چودھری نے خود یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے نامہ نگار میدان عمل میں رہے ہیں لیکن سرکاری داماد ہونے کے سبب وہ بچا ہواہے ۔
لیکن کلن بھیا اس بیچارے کو کیسے پتہ چلے کہ کوئی کورونا سے متاثر ہوچکا ہے ؟
کیوں ؟ کورونا کی علامات کا اشتہار دکھا دکھا کر روپیہ کمانے والا چودھری خود نہیں دیکھتا کہ اگر کسی کو بخار یا کھانسی آئے تو اس کا خطرہ ہے؟
ارے بھائی ٹھیک ہے لیکن کس کو بخار آرہا ہے اس کا اسے علم کیسے ہوگا؟
بتانے پر ہوگا اور کیسے؟ جو پہلا مریض سامنے آیا ۔ وہ نائٹ شفٹ میں کام کرتا تھا اور اس نے اس کی کئی بار شکایت کی تھی۔
تو کیا ژی انتظامیہ نے اس کی بات پر کان نہیں دھر ا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟؟
بالکل ممکن ہے۔ سدھیر نے اس کو بھی اپنے جیسا جھوٹا سمجھا اور دھمکی دی کہ بہانے بازی نہیں چلے گی ۔ کام کرے ورنہ ملازمت چلی جائے گی۔
تب تو وہ مسلمان رہا ہوگا ؟ اس لیے کہ کسی ہندو کے ساتھ اپنا سدھیر چودھری ایسا سلوک ہرگز نہیں کرسکتا۔
دیکھو بھائی پہلے تو کوئی مسلمان اس چینل میں جائے کیوں ؟ اور جائے بھی تو ژی والے اس کو رکھے کیوں ؟؟
للن نے کہا نہیں بھائی ایسی بات ، جب کوئی کام کا آدمی مل جاتا ہے تو اس کا دھرم نہیں دیکھا جاتا۔
اچھا چلو مان لیا کہ مسلمان تھا تب بھی کیا مسلمان انسان نہیں ہوتا ؟ اور اگر وہ آپ کے دفتر میں ملازم ہوتو اس کی ذمہ داری نہیں بنتی؟
ہاں ہاں کیوں نہیں بنتی ہے؟ اس ملازم کو علاج کےلیے دفتر والوں نے ہی بھیجا ہوگا ؟
جی نہیں وہ بیچارہ خود کوئی سفارش نکال کر اسپتال پہنچا اوراس کی حالت اس قدر خراب ہوچکی تھی کہ فوراً داخل کرنا پڑا ۔
تب تو یقیناً مسلمان رہا ہوگا کیونکہ ایسا ظالمانہ سلوک ہمارا سدھیر چودھری کسی ہندو کے ساتھ ہر گز نہیں سکتا ؟
اچھا چلو مان لیا کہ وہ مسلمان تھا لیکن اس کے بعد 27 مزید کورونا کے معاملات سامنے آئے تو کیا وہ سب بھی مسلمان تھے ؟
نہیں یہ ناممکن ۔ وہ سب یقیناً ہندو رہے ہوں گے اور ان کے علاج معالجہ کا خرچ ژی والوں نے برداشت کیا ہوگا ؟
دیکھو پہلے مریض نے اپنے خرچ پرٹسٹ کرایا اور بعد والوں کا مجبوراً دباو میں آکر ٹسٹ تو کرایا لیکن ایک اپنی والدہ کے بارے میں پوچھا تو انکار کردیا گیا۔
یار کلن قسم سے میں نہیں مان سکتا کہ سدھیر چودھری جیسا دیش بھکت یہ کرسکتا ہے؟
دیکھو للن تمہارے انکار سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی ؟ جو سچ ہے وہ میڈیا میں آچکا ہے چاہو تو نیوز لانڈری نامی ویب پورٹل پر جاکر دیکھ لو۔
کلن بھائی جس بات پر تبلیغی جماعت کا مرکز بند ہوگیا وہی الزام ژی والوں پر ہو تو اس پر بھی قفل لگ جانا چاہیے مگر وہ تو چالو ہے۔
ارے بھائی سدھیر چودھری جیسے تمہارا چہیتا ہے ویسے ہی سرکار کی بھی آنکھوں کا تارا ہے اس لیے اس کو کون آنکھ دکھا سکتا ہے؟
تو کیا اپنا جانباز چودھری اسی کورونا زدہ دفتر میں ڈٹا ہوا ہے؟
جی نہیں ۔ خود چند لوگوں کے ساتھ دوسرے محفوظ دفتر میں منتقل ہوگیا ہے باقی لوگ وہیں ہیں ۔
یار یہ تو بہت بری بات ہے اب مجھے اس چینل کو دیکھنے کے بارے میں سوچنا پڑے گا ؟ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آفت اسی پر کیوں آئی؟
ارے بھائی جمن میاں کے جملے پر غور کرو تو بات سمجھ میں آجائے گی ۔ اس دنیا میں جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتا ہے خود اسی میں جاگرتا ہے۔
ٹھیک ہے اب ژی کو گولی مارو یہ بتاو کہ اس کورونا کا کیا کریں یہ تو بہت تیزی سے پھیلنے لگا ہے ؟
اس کا جواب تو پردھان جی دے چکے ہیں ۔ ہمیں اب اس کے ساتھ جینا سیکھنا پڑے گا ۔
تو کیا وہ کورونا کو ہرانے والی بات ختم ہوگئی ؟ لیکن چودھری تو اسی سر ُمیں سرُملا کر تبلیغیوں میرا مطلب ہے مسلمانوں کو ہرانے کی بات کرتا تھا ۔
للن ٹھاکر وہ دونوں غلط تھے ؟ چار ٹھوکر کھانے کے بعد پردھان جی نے جوبات تسلیم کی وہی تمہارے چودھری کو کرنا ہوگا ۔
اچھا تو کیا ہم کورونا کی طرح ان 20 فیصد مسلمانوں کو بھی نہیں ہراسکتے ؟
بالکل نہیں ہراسکتے ۔اور ہرائیں بھی کیوں؟؟ ان چودھری جیسے لوگوں کی وجہ سے تم لوگوں نے اپنے ایک دوست کو دشمن سمجھ لیا ہے ۔
تو کیا ہم ان سے دوستی کرلیں ؟ یہ کیسے ممکن ہے؟؟
کیوں نہیں ممکن ؟ تم لوگوں نے اتنی دشمنی کی پھر بھی انہوں نے اپنے خون کا عطیہ ہمیں دیا ؟ ان کے لیے اگر یہ ممکن ہے توہمارے لیے کیوں نہیں؟
جی ہاں کلن لیکن یہ خبر ہمیں ژی پر دکھائی ہی نہیں گئی ۔ وہاں تو وہی تھوک اور پتہ نہیں کیا کیا دکھایا جاتا رہا لیکن اب میں اس چینل پر تھوکتا ہوں ۔
للن ٹھاکر یہ کافی نہیں ہے ۔ ان بدمعاشوں نے جو نفرت کا ژیرونا وائرس پھیلایا ہے اس کا تریاق ڈھونڈنا بھی ضروری ہے ۔
جی ہاں کلن میں سب سے پہلے تو اس ہندو دشمن پاکھنڈی سانپ کا سرمیں اپنے گھر میں کچل دوں گا ۔ یعنی آج سے اس کا داخلہ بندہی سمجھو ۔

کلن بولا جی ہاں للن انگریزی کہاوت ہے ۔Charity begins at home یعنی خیر کی ابتداء اپنے گھر سے ہونی چاہیے۔

Urdu Maqala l Mohsin Sahil

Eid Ul Fitr Mubarak

EID UL FITR MUBARAK

FROM 

MEYAAR ASSOCIATION & MEYAAR MEDIA





Saturday, May 23, 2020

Corona ke Sath Eid ke Shab o Roz: Dr Saleem Khan


کورونا کے ساتھ عید کے شب و روز




ازقلم: ڈاکٹر سلیم خان



عید کا کیا کہنا ؟ جو مسلمان کبھی خوش نہیں ہوتا وہ 
بھی عید کے دن خوش ہوجاتا ہے اور جو مسلمان جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتا وہ بھی نہا دھو کرعید گاہ میں پہنچ جاتا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ مسلمان عید کے دن خوش کیوں ہوتے ہیں ؟ اس کا جواب حدیث پاک میں یہ ملتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ہر قوم کے لئے عید اور خوشی کے دن ہیں اور آج( یعنی اختتام رمضان پر) ہماری عید کا دن ہے ‘‘َ َ َ َ۔اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اجٹماعی طور پر خوشی منانا انسان کی فطرت کا تقاضہ ہے۔ اس کو پورا کرنے کی خاطر دین اسلام میں یہ دن مقرر کیا گیا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ عید کے دن سارے مسلمان خوشیاں مناتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو فرمایا: ’’تم سال میں 2دن خوشی منایا کرتے تھے، اب اللہ نے تم کو ان سے بہتر2 دن عطا فرمائے ہیں( یعنی)عید 
الفطر اور عید الاضحیٰ۔‘‘

اسلامی تقویم میں دن سے پہلے رات آتی ہے ۔ عید الفطر کی ابتداء تو چاند کے نظر آتے ہی ہوجاتی ہے ۔ عید کے دن کی ایک ایک سنت ہمیں یاد ہے اور ہم اس پر عمل بھی کرتے ہیں ماشاء اللہ لیکن عید کی رات کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے جو کچھ فرمایا اسے بھول جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عید کی تیاری کے باقی ماندہ کاموں کو پورا کرنے کا یہی آخری موقع ہوتا ہے۔ اس بار کورونا کی وباء کے سبب دنیا کے بہت سارے مسلمان عید کے دن کیے جانے والے مستحب اعمال سے محروم رہیں گے لیکن یہی محرومی ہمیں عید کی رات کی جانے والی بہت ساری مصروفیات سے بے نیاز بھی کردے گی۔ عید کی رات کو ہمارا قیمتی وقت جن بازاروں کی نذر ہوجایا کرتا تھا وہ اس بار بند ہوں گے ۔ ہم لاکھ چاہ کر بھی وہاں نہیں جاسکیں گے ۔ اس لیے کیوں نہ یہ پتہ لگایا جائے کہ نبی مکرم ﷺ نے اس رات کے بارے میں کیا فرمایا :

عید کی رات کو فرشتوں میں خوشی کے سبب دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماکر دریافت کرتے ہیں کہ بتاؤ، مزدور اپنی مزدوری پوری کر چکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اجرت ملنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :فرشتوتم گواہ رہو! میں نے محمدﷺ کی امت کے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لئے جنت واجب کر دی اسی لئے اس رات کا نام فرشتوں میں ’’لیلۃ الجائزہ‘‘( یعنی) ’’انعام کی رات‘‘ ہے۔تو سوال یہ ہے کہ اس رات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھدونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا تو اس بندے کا دل نہیں مرے گاجس دن اور وں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔‘‘کورونا کی وباء سے متعلق کوئی بھی پابندی ہمیں عید کی شب عبادت و ریاضت سے نہیں روک سکتی ۔ اس سے پہلے چونکہ ہماری شب ِ عید بازاروں کی نذر ہوجاتی تھی اس دل مردہ ہوجاتے تھے لیکن اس بار مذکورہ حدیث کی روشنی میں اپنے قلب کو حیاتِ جاودانی عطا کرنے کا یہ نادر موقع موجود ہے ۔ سو کوئی ہے جو نصیحت قبول کرے ؟

اس بار عید کی صبح نماز عید کے لیے نہیں جاپانے کا قلق ان لوگوں کو بھی ہوگا جو آخری وقت میں مرتے پڑتے مسجد میں پہنچتے تھے کیونکہ نبیٔ پاک ﷺ نے فرمایا : ’’عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ بہت سارے فرشتوں کو شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ گلی کوچوں راستوں میں کھڑے ہو کر پکارتے ہیں جن کی پکار کو انسان اور جنات کے علاوہ سب سنتے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں: اے امت محمدیہ کے لوگو! تم اپنے رب کریم کی طرف نکلو، جو بہت انعام دیتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جب روزہ دار عید گاہ میں پہنچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے فرماتا ہے: ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہیئے جنہوں نے اپنے کام احسن طریقہ سے انجام دے دیا۔ فرشتے جواب دیتے ہیں: اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی پوری پوری مزدوری دیدی جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو اُن کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہو گیا اور ان کو بخش دیا ہے‘‘۔ اس طرح گویا جس نے شب میں اپنی بخشش کا موقع گنوادیا اس کو صبح میں دوسرا موقع دیا جاتا ہے ۔ اس سال جو لوگ دوسرے موقع سے محروم ہیں ان کے لیے پہلا موقع تو موجود ہی ہے۔

عید کے دن اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ : اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا و آخرت کی جو کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمہارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضگی سے ڈرتے رہوگے تمہاری خطاؤں اور لغزشوں کو درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے نہ تمہیں رسوا اور ذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمہاری رسوائی ہونے دوں گا۔ میں نے تم سب کو معاف کر دیا۔( اے بندے) تو نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی تومیں تجھ سے راضی ہو گیا۔ یہ اعلان اور انعام و بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘‘۔
یہ بشارت یقیناً ان بندوں کے لیے جو اللہ کی حمدوکبریائی بیان کرنے کے لیے عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں لیکن اگر وہ کسی مجبوری کے تحت یکجا نہیں ہوسکے اور انہوں نے اکیلے اکیلے اپنے گھروں میں بیٹھ کر وہی سب طلب کرلیا تو کیا رب العالمین انہیں دھتکار دے گا ؟ جبکہ ارشاد ربانی ہے ’’اور جب میرے بندے آپ (محمدؐ) سے میرے بارے میں سوال کریں تو (آپ ؐ کہہ دیں) میں یقینا قریب ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا و پکار کو سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ تو ان پر لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یقین رکھیں) تاکہ وہ نیک راستہ پر آجائیں‘‘۔ اتفاق سے یہ آیت روزوں سے متعلق احکامات سے بالکل متصل ہے اس لیے اگر ہم اپنے گھروں میں رب کائنات سے وہی سب مانگیں گے جو عام حالات کے اندرعید گاہ میں مانگتے ہیں تو وہ ہماری مجبوری کا لحاظ کرکے اپنی شانِ کریمی سے ہمیں نواز دے گا ۔ اس لیے کہ اس کا وعدہ ہے۔

عیدالفطر کی وجہ ٔ تسمیہ صدقہ فطر پر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ زکوٰۃ الفطر فرض ہے ۔وہ لوگوں کو ان گناہوں سے پاک کرے گی جو رمضان میں روزہ کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوگئے ہوں ۔ نماز عید سے پہلے جو اسے ادا کرے گا اس کی زکوٰۃ الفطر قبول ہو گی،جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب مل جائے گا۔ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے ‘‘۔ کورونا کی تمام تر پابندیوں کے باوجود ہمیں اس کی ادائیگی کا پوراا موقع میسر ہے۔ عید کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھا کر اپنے گھر سے عید گاہ کی جانب بلند آواز سے تکبیر پڑھتے ہوئے جانے کی سنتِ سے اس سال بہت سارے مسلمان محروم رہیں گے اور انہیں دوگانہ نماز کے بعد امام کے خطبہ کو نہیں سن پانے کا بھی افسوس ہوگا لیکن عید کے دن مندرجہ ذیل دعا نبی کریم ﷺ کیا کرتے تھے وہ تو ہم اپنے گھر پر بھی کر ہی سکتے ہیں :

’’یا اللہ!ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں،یا اللہ !ہمارا لوٹنا رسوائی اور فضیحتکا نہ ہو، اے اللہ! ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں،اے اللہ! ہم تجھ سےدعا کرتے ہیں کہ ہمیں حرام سے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی فضیحت سے بچا لے ،اے اللہ !ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی ،نفس کا استغناء، بقا، ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں، اے ہمارے رب!ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق، ریاء بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اے دلوں کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنا اور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرما ، بے شک توہی سب کچھ دینے والا ہے‘‘۔ عام طور پر عید کی گہما گہمی میں ہم میں سے کم ہی لوگوں نے شعور کے ساتھ یہ دعا مانگی ہوگی ۔ اس بار تنہائی میں یہ کرکے دیکھیں ۔ ہوسکتا ہے اسے خالق کائنات اس کو شرف قبولیت سے نوازدے ۔

صحابہ اور تابعین نے عید کی انفرادی خوشی کے کئی انوکھے پہلو بیان کیے ہیں مثلاً حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ مومن کی5 عیدیں ہیں (یعنی خوشی کے مواقع ہیں): پہلا تو یہ کہ ہر مومن جس دن گناہ سے محفوظ رہےیعنی اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو وہ اس کے لیے عید کا دن ہے۔ دوسراوہ دن کہ جب مسلم مرد و عورت دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے تو وہ بھی اس کی خاطر عید کا دن ہے۔ دنیا کو داغ مفارقت دینے والا دن بھی گویا عید سعید ہے۔ اس دارِ فانی سے کوچ کرجانے کے بعد عید کا تیسرا موقع اس دن ا ٓتا ہے جب کو اہل ایمان دوزخ کے پل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔ یقیناً اس دن مومنین کی خوشی کا کیا ٹھکانہ کہ وہ دوزخ کی آگ سے بچ گیا لیکن جو گرجائے اس کے لیے خوشی کا موقع چوتھے مرحلے میں ہے یعنی اس دن جب مسلمان دوزخ سے بچ کر(اپنی سزا پوری کرکے) جنت میں داخل ہو جائے۔ پانچواں اور سب زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہے جب مسلمان اپنے رب کی رضا کو پا لے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرلے۔ اس سے بڑا عید کا دن اور کون سا ہوسکتا ہے کہ اس کے آگے ساری خوشیاں ہیچ ہیں 

صحابۂ کرام نے ان باتوں کو اپنی زندگی میں برت کردکھایا ہے۔ حضرت علی ؓ کو کسی نے عید کے دن خشک روٹی کھا تے ہوئے دیکھ کر پوچھا :اے ابو ترابؓ!آج عید ہے۔ آپ ؓ نے فرمایا:ہماری عید اُس دن ہے کہ جس دن کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت انس ؓ نے سب پہلے ارشاد فرمائی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی خوشی اور غم کا تعلق مادی آسودگی مثلاً کھانے پینے وغیرہ کے بجائے روحانی ارتقاء سے ہے جو گناہوں سے بچنے کے سبب حاصل ہوتا ہے۔ حضرت وہب بن منبہ ؓ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھا تو کہا: اس مسرت و شادمانی کا دن ہے آپ کیوں رورہے ہیں تو حضرت وہبؓ نے فرمایا:یہ خوشی کا دن اُس کے لئے ہے جس کے روزے مقبول ہو گئے ہوں۔حضرت شبلیؒنے عید کے دن لوگوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ کر فرمایا تھا : ’’لوگ عید میں مشغول ہو کر وعید کو بھول گئے۔‘‘
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فضائلِ عیدبیان کرتے ہوئے نہایت دلچسپ موازنہ پیش کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے۔عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا بلکہ عید تو ان لوگوں کی ہے جنہوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔عید ان لوگوں کی نہیںجنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے پکائے بلکہ عید تو ان کی ہے جنہوں نے حتی الامکان نیک بننے کی کوشش کی اور نیک بنے رہنے کا عہد کیا۔عید اُن کی نہیں جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے بلکہ عید تو اس کی ہے جس نے تقویٰ و پرہیزگاری کو زادِ راہ بنایا۔عید اُن کی نہیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کے فرش سے (قالینوں سے) اپنے مکانوں کو آراستہ کر لیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پل سے کا میابی کے ساتھ گزر گئے۔عید ان کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہو گئے بلکہ عید ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کیا۔ ہم نے پہلے قسم کی عیدیں تو بہت ساری منائی ہیں۔ اس بار مجبوری میں سہی دوسری طرح کی عید منائیں ۔ بعید نہیں کہ قیامت کے دن میزانِ عمل میں یہ ہلکی پھلکی عید دیگر بھاری بھرکم عیدوں سے بھاری نکل جائے۔
(حوالہ جات ماخوذڈاکٹربشریٰ تسنیم،اردو نیوز )

Appointment Letters(Registered Only)


We are pleased to appoint following Person in Our NGO on different Post.

















Friday, May 22, 2020

Maharashtra Ka Siyasi Dangal : Dr Saleem Khan

مہاراشٹر کا سیاسی دنگل

از:ڈاکٹر سلیم خان

کورونا کی وباء کے پھیلاو پر نظر رکھنے والے ماہرین کو خدشہ تھا کہ جمعہ (۱۵مئی) کو اس معاملے میں ہندوستان  چین سے آگے نکل جائے گا۔ یہ پیشنگوئی سچ ہوئی ۔ملک بھر میں سب سے برا حال مہاراشٹر کا ہے جہاں متاثرین کی تعداد 41,642 ہو چکی ہے اور 1454لوگ لقمہٗ اجل بن چکے ہیں ۔ ہندوستان کی معاشی راجدھانی ممبئی میں مریضوں کی تعداد پچیس ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ پونے پانچ ہزار کی حد سے آگے جاچکا ہے۔ اسی لیے سرکار نے پورے صوبے میں 31 مئی تک لاک ڈاون کی توسیع کا اعلان کردیا ہے۔ یہ اعدادو شمار اس لیے پیش کیے گئے تاکہ ملک اور صوبہ مہاراشٹر میں حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس صورتحال میں بھی جو لوگ سیاست کھیل رہے ہیں ان کی ناپاک ذہنیت سے بھی واقفیت ہوجائے ۔
اس نازک صورتحال میں بی جے پی حکومت سے تعاون کرنے کے بجائے جمعہ ۲۲مئی کو پورے صوبے میں سیاہ لباس پہن کر تالی اور تھالی پیٹ کر مظاہرے کررہی ہے۔ جمعرات کو سابق وزیر اعلیٰ نے عوام سے کہا تھا کہ وہ کالے لپڑے پہن کر ادھو سرکار کے خلاف اپنے گھر کی گیلری میں احتجاج کریں کیونکہ وہ کورونا کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ ناگپور میں مظاہرین کو اتنا جوش آیا کہ انہوں نے ہنومان چالیسا پڑھنا شروع کردیا ۔ اس احتجاج میں ارکان پارلیمان اور اسمبلی بھی شامل تھے ۔ ممبئی میں تختی لے کر کھڑے ہونے والوں میں صوبائی صدر چندر کانت پاٹل اورونود تاوڑے دیویندر فردنویس کے ساتھ دکھائی دیئے۔ شیوسینا کے ترجمان منیشا پاینڈے نے اس مظاہرے کو مذاق قرار دے کر اس پر تنقید کی۔ کانگریس کے صوبائی صدر بالا صاحب تھورات نے اسے صوبے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا۔ اس مظاہرے کا ایک سیاسی پس 


منظر ہے۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے مہا وکاس اگھاڑی کے رہنما کی حیثیت سے 28 نومبر (2019)کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا تھا۔ اس وقت وہ کسی بھی ایوان کے رکن نہیں تھے۔ان کے لیے اقتدار پر بنے رہنے کے لئے 27 مئی تک مجلس قانون ساز کا رکن منتخب ہونا ضروری تھا۔ اس بیچ کورونا کی وباء کے سبب قانون ساز اسمبلی کے ضمنی انتخابابت کا انتخاب ناممکن ہوگیا ورنہ وہ اپنی مقبولیت کے سبب ممبئی کے کسی بھی احلقۂ انتخاب سے بڑی آسانی کے ساتھ الیکشن جیت جاتے۔ اس بیچ ریاست کے ایوان بالا میں 9 خالی نشستیں خالی ہوئیں جن پر قانون ساز اسمبلی کے 288 ممبران پر مشتمل انتخابی کالج کے ذریعے رائے شماریہونی تھی۔ اس پر صرف ۹ امیدواروں کے باقی بچنے کے باعث 59 سالہ شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے پہلی بار قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہو گئے ۔ان نازک حالات میں ان کا بلامقابلہ منتخب ہوجانا ریاست کے لیے اچھا شگون 

ہے۔
ریاستی الیکشن کمیشن کےمطابق ادھو ٹھاکرے کے علاوہ شیوسیناکی نیلم گورے ، بی جے پی سے رنجیت سنگھ موہتے پاٹل ،گوپی چند پڈلکر، پروین ڈاٹکے اور رمیش کراڈ بھی الیکشن جیت گئے۔ مہا وکاس اگھاڑی میں شامل این سی پی سے ششی کانت شندے اور امول مٹکاری جبکہ کانگریسکے راجیش راٹھوڑ بھی کونسل کے لئے منتخب ہوگئے۔ جمعرات (14مئی) کو کونسل کی امیدواری سے نام واپس لینے کا آخری دن تھا ۔ کونسل کی۹؍ سیٹوں کیلئے۱۴؍ امیدواروں نےدرخواست داخل کی تھی لیکن بی جے پیکے سندیپ لیلے اور اجیت گوپچاڑے کے علاوہ این سی پیکے کرن پاوسکر اور شیواجی رائو گرجے نے بھی اپنا نام واپس لے لیا تھا نیز آزاد امیدوارشہباز راٹھوڑ کے کاغذات کو جانچ کے بعد نا اہل قرار دیا گیا ۔ اس طرح جتنی نشستیں تھیں اتنے ہی امیدوار بھی تھے اس لیے الیکشن کی ضرورت ہی ختم ہوگئی ۔ انتخاب کی حاجت تو اس وقت ہوتی ہے جب ایک انار اور 


وبیمار ہوں یا تو سب کے صحتمند لوگ تھے۔
ادھو ٹھاکرے کی کاغذاتِ نامزدگی کے وقت مہا وکاس آگھاڑی میں شامل راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار، ریاستی کانگریس کے صدر اوروزیرِ محصول بالاصاحب تھوراٹ کی موجودگی نے میڈیا میں جاری ساری اختلاف کی افواہوں کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس موقع پر کہ شیو سینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے کہا تھا کہ ایم ایل سی کی 9 نشستوں پر انتخابات بلا مقابلہ ہوں گے کیونکہ کانگریس کی قیادتنے کووڈ- 19 کے پیش نظراپنے امیدوار راج کشور عرف پاپا مودیکا نام واپس لے لیا ہے ۔ اس طرح مہاراشٹرا میں کورونا کی وباء کے دوران ایک جعلی 


سیاسی بحران پیدا کرنے کی مذموم کوشش کا قلع قمع ہوگیا ۔
مہاراشٹرمیں سیاسی بحران کے ٹل جانے سے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس کے علاوہ ہر کوئی خوش ہے ۔ وہ بیچارے دن رات شیخ چلی کی مانند محوِخواب رہتے ہیں ۔ بلی کے خواب میں جس طرح چھیچھڑے دکھائی دیتے ہیں اسی طرح ان کے سپنوں میں وزارت اعلیٰ کی کرسی رقص کرتی رہتی ہے۔ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعدوہ ایک طویل سیاسی کوما میں چلے گئے تھے ۔ پالگھر کے سانحہ نے انہیں بیدار کیا تو پتہ چلا کہ جلد ہی ادھو ٹھاکرے کو دستیاب ۶ ماہ کی مدت ختم ہونے والی ہے ۔ کورونا کے سبب قانون ساز کاونسل کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے اس لیے انہوں نے سوچا کیوں نہ ماحول خراب کرکے ادھو سرکار گرادی جائے۔ اس کے بعد جوڑ توڑ کرکے شیوراج کی طرح اپنا اقتدار قائم کرلیا جائے ۔ بس پھر کیا تھا باسی کڑھی میں میں ابال آنے لگا اور وہ 


متحرک ہوگئے ۔
اس دوران حکومتِ مہاراشٹر نے گورنر کے کوٹے میں ادھو ٹھاکرے کو فوٹو گرافر کے طور پر نامزد کرنے کی درخواست کردی لیکن فردنویس نے گورنر پر دباو بنا کر اسے رکوا دیا۔ اس بابت جب ادھو ٹھاکرے نے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کی تو انہوں نے وزیر اعظم سے بات کرنے کے لیے کہا ۔ اس طرح مودی اور ادھو کے درمیان قانون ساز کاونسل کی ایک سیٹ پر سودہ طے ہوگیا اور دیویندر فردنویس کے دل کے ارماں پھر ایک بار آنسووں بہہ گئے۔کونسل کےانتخابی اکھاڑے میں اندر کانگریس کےاضافی امیدوار پاپا مودی کی موجودگی نے فردنویس اور ان کے حواریوں کو پھر سے مونگیری لال کے حسین سپنوں میں پہنچا دیا لیکن وہ 
اب بھی بہت جلد ٹوٹ کر بکھر گیا ۔
دیویندر فردنویس اگر انتخاب کے بعد ادیتیہ ٹھاکرے کو نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپ دیتے تو آج مہاراشٹر کا اقتدار ان کے قدموں میں ہوتا لیکن انہوں نے اپنے حلیف شیو سینا کے پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اپنے حریف اجیت پوار کو نائب وزیراعلیٰ کا حلف دلایا۔ اجیت پوار بڑی چالاکی سے دیویندر فردنویس کو ڈبل کراس کرکے ادھو سے جاملے اور اب نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا الٹا بدعنوانی کے مقدمات سے نجات مل گئی لیکن فرد نویس کا ایک تو اقتدار گیا اوپر سے رسوائی ہاتھ لگی ۔ اس کے باوجود رسی جل گئی بل نہیں گئے کی مصداق انہوں نے سبق نہیں سیکھا۔ وہ ہنوز خودساختہ تباہی کے راستے پر گامزن ہیں ۔ ویسے دیویندر فردنویس کا طریقۂ کار بھارتیہ جنتا پارٹی کی پرمپرا (روایت) کے عین مطابق ہے۔ اس پارٹی میں ہر رہنما اپنے پیش رو کو دھوکہ دے کر اپنی من مانی کرتا ہے۔ فردنویس کا تعلق چونکہ سنگھ کے گہوارےناگپور سے ہے اوروہیں تربیت پائی ہےاس لیے امید تھی کہ وہ نظم و ضبط کا پاس و لحاظ کریں گے اور اپنے ذاتی مفاد کو نظریہ اور جماعت پرقربان کردیں گے لیکن وہ توایک کانگریسی جیسی اطاعت شعاری کا مظاہرہ بھی نہیں کرسکے اور سنگھ پریوار کے ڈھو ل کا پول بھرے بازار میں کھول دیا ۔

Thursday, May 21, 2020

الوداع ماہِ رمضاں الوداع

الوداع ماہِ رمضاں الوداع 
ڈاکٹر  سلیم خان


ایسا لگتا ہے کہ ابھی  کل پرسوں    کی  بات ہے جب ہم لوگ مغرب  کی اذان کے ساتھ رمضان  کا استقبال کررہے تھے اور پھر فجر سے پہلے پہلی سحری  ہورہی تھی ۔ ایک نئی صبح طلوع ہورہی تھی،  سنہ 1441ہجری کے رمضان کی صبح ۔  ارشادِ ربانی ہے ’’ قسم ہے فجر کی‘‘۔  اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فجر کو ایک گواہ  کے طور پر پیش فرما کر اس کی قسم کھاتا ہے۔ نبیٔ پاک ﷺ نے رمضان کو تین عشروں میں تقسیم کرکے فرمایا اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے ، دوسرا مغفرت اور آخری جہنم سے خلاصی ۔ کلام ربانی ہے اور دس راتوں کی (قسم)۔ یعنی یہ  عشرے  بھی شاہد بن کرتیزی سے گزرتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم  اختتامی ایام  گن رہے ہیں جیسے ’’ اور جفت و طاق کی (قسم) ۔آگے فرمایا’’ اور رات کی جب وہ جانے لگے‘‘۔ لیلۃ القدر کی ایک ایک مبارک  رات جو ہزاروں مہینوں سے بہتر تھی ہماری مٹھی سے ریت کی مانند پھسل کر نکلتی چلی گئی ۔ اس کے بعد ایک اہم ترین سوال  کیا گیاکہ’’ کیا اِس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟‘‘ کوئی نشانی ہے ۔ کیا ہماری زندگی بھی اسی طرح نہیں گزر جائے گی اور پھر کیا ہوگا؟ 
عام طور پر مہینے کو ہفتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن رمضان کو عشروں میں تقسیم کرنے کی حکمت چاند کے  مختلف مراحل سےسمجھ میں آتی ہے۔ پہلی دس راتوں میں چاند  بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اس کو بچپن کا زمانہ سمجھ لیں کہ جو انسان کو جسمانی ، عقلی ، معاشی اور معاشرتی  طور پر طاقتور بناتا چلا جاتا ہے ۔ ابن آدم یا بنت حوا  کا دیگر لوگوں پر انحصار کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے  یعنی پہلے تو اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی وہ  دوسروں کا محتاج تھا پھر اپنے ہاتھ سے کھانے پینے لگا اور اپنے جسم کو پاک صاف رکھنے لگا۔ اس میں  چلنے پھرنے کی امنگ پیدا   ہوئی  تو سنبھل سنبھل کر قدم بڑھانے لگا ۔ پھر عقل  نے خطرات کے  شعور سے آگاہ کیا  ۔ اپنے آپ علم وہنر سے آراستہ کر کے معاشی میدان میں خود کفالت کی جانب قدم بڑھاتو  اپنی معاشرت کے خیال نے اسے ایک  خاندان کا سربراہ بنادیا۔ یہ تھا رحمت کا عشرہ جو  بہت تیزی کے ساتھ انسان کو   بے شمار تبدیلیوں سے ہمکنار کرکے گزر گیا۔   
جوانی  میں کل تک انحصار کرنے والا   اپنے   خاندان کا سہارا بن  چکاتھا ۔ یہ استحکام کا زمانہ ہے جس میں  جسمانی تبدیلی کی رفتارقدرے دھیمی ہوگئی۔ اس مرحلے کے پہلے نصف میں ترقی انتہا کو پہنچی  اور وہیں سے تنزل کا آغاز ہوگیا لیکن یہ سب اس قدر دبے پاوں ہوا ہے کہ انسان کو اس احساس نہیں ہوسکا۔ چاندی کی کیفیت کو دیکھیں کہ دوسرے عشرے  کے اندر اس ہئیت بہت زیادہ نہیں بدلتی۔ چودھویں  سے قبل اور بعد اس کی   آب و تاب میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن تبدیلی کا رخ بدل چکا ہوتا ہے ۔  غیر محسوس طریقہ پرنہایت آہستگی کےساتھ عروج کا سفر روبہ زوال ہوجاتا  ہے۔  اس قوت و شوکت کے مرحلے میں نفس کی  سرکشی کا امکان بہت  زیادہ  ہو جاتا ہےاور توبہ و استغفار یا مغفرت کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔
چاند کے سفر کا تیسرا عشرہ تبدیلی کی رفتارپھر سےبڑھاکرزوال کوروشن کردیتا ہے۔بچوں کی  خود کفالت معاشرت  و معیشت میں عدم  دلچسپی کاسبب بنتی  ہے۔  یادداشت اور جسمانی قویٰ  کا فقدان محسوس ہوتاہے۔ جسمانی انحصار کی دھمک سنائی دیتی  ہے۔ فرمانِ ربانی ہے’’اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری جان قبض کرے گا اور تم میں کوئی سب سے ناقض عمر کی طرف پھیرا جاتا ہے کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے ‘‘، دنیا سے بے رغبتی جب بڑھ جاتی ہے توبندۂ مومن   زندگی کے تیسرے مرحلے میں اخروی کامیابی اور جہنم کی خلاصی کا آرزو مند ہوجاتا ہے ۔ کورونا کے زمانے میں بھیگی پلکوں کے ساتھ ہم  ماہِ رمضان کو الوداع کررہے ہیں ۔ یہ ایسا رمضان تھا کہ جو کبھی دیکھا نہ کبھی سوچا تھا اور ایک ایسی ہی عید ہماری منتظر ہے ۔ اس رمضان میں ہم    نےاللہ کی مرضی کے آگے سپر ڈال کر راضی  برضا رہنا سیکھ لیا ۔ اپنی مرضی کو اللہ کی مشیت کے تابع بنا دینے کی اس مشق کے دوران  ہم  وہ سب نہیں کرسکے  جو ہمیں پسند تھا  لیکن و ہ سب  کرنے کی سعی  کی  جس کی گنجائش رب کا ئنات نے عطا کی ۔ اللہ قبول فرمائے کہ  اسلامی  فلسفۂ حیات یہی   ہے ۔

Dr Salim Khan Latest Article :


ہاتھی نما سنگھ پریوار کے مقابلے چیونٹی جیسا گاندھی خاندان

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

کورونا نے حکومت کے سارے اندازوں کو غلط ثابت کرکے اس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ سرکاری پیشنگوئی کے مطابق جس 17مئی کو کوویڈ 19 کے کیس کی تعداد صفر ہوجانی چاہیے تھی لیکن اس دن سب سے زیادہ معاملات سامنے آگئے۔ اس لیےحکومت ایسی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی کہ اس نے روزآنہ کی پریس بریفنگ کو پہلے ہفتے میں چار دن اور اب بند ہی کردیا ہے۔ وزارت صحت کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری ہوتا ہے اور اس پر سوال کرنے کا کسی کو موقع نہیں ملتا۔ فی الحال علاقائی جماعتوں کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں ؟ ایسے میں ہاتھی نما سنگھ پریوار کے سامنے چیونٹی جیسا تین نفری گاندھی خاندان آئے دن کوئی نہ کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیتا ہے اور ایوان اقتدار میں زلزلہ آجاتا ہے۔ کانگریس کی جانب سے چھوڑا جانے والا ہر شوشہ بی جے پی کے لیے عذابِ جان بنتا جارہا ہے اور بھگوا دھاری خود اپنے پیر پرکلہاڑی مار رہے ہیں ۔

سونیا گاندھی نے مزدوروں کی مدد کا اعلان کیا تو زعفرانی پریشان ہوگئے ۔ اس کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دینے کے لیے انہیں ایسے ایسے جھوٹ بولنے پڑے کہ نانی یاد آگئی۔ پہلے تو کہا گیا ٹکٹ کھڑکی نہیں کھلے گی، بعد میں پتہ چلا کہ ٹکٹ کی پیشگی قیمت صوبائی سرکار کے ذریعہ وصول کرلی جائے گی اس لیے ٹکٹ کھڑکی پر جانے کی ضرورت ہی نہیں ر ہے گی ۔ اس کے بعد ا اعلان ہوا کہ ریلوے 85فیصد رعایت دے چکا لیکن اس کا حکمنامہ ہنوز غائب ہے۔ راہل پیدل مزدوروں سے ملنے چلے گئے تو وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن کو کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے ڈرامہ بازی کرنے کے بجائے حکومت سے تعاون کی اپیل کرنے پر مجطور ہونا پڑا۔ اس کے جواب میں پرینکا نے یوگی کو 1000 بسوں کی پیشکش کی تو دو دن سناٹا رہا پھر بسوں اور ڈرائیوروں کی تفصیل مانگی گئی۔ انہیں جانچ کے لیے لکھنو طلب کیاگیا ۔ اس کے بعد فیصلہ بدلا گیا ۔ بسوں میں کچھ تعداد کو ایمبولنس وغیرہ قرار دے کرالٹا پرینکا کے نجی سکریٹری پر دھوکہ دھڑی کا مقدمہ ٹھونک دیا گیا ۔

یوگی جی کی ناٹک بازی نے تو نرملا سیتا رامن کو بھی شرمندہ کردیا ۔ فی الحال کانگریس کی جانب سے چھوڑا جانے والا ہر شوشہ بی جے پی کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے اور وہ اپنے پیر پرکلہاڑی مار لیتی ہے ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے راجستھان سے آنے والی بسوں کو روک کر مزدوروں کو کے ساتھ جو ناانصافی کی ہے اس کو ملک کی عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ سونیا گاندھی فی الحال سیتا رامن کے لیے ، پرینکا گاندھئ وزیر اعلیٰ یوگی کے لیے اور راہل گاندھی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ کورونا کے بعد جتنی بار مودی جی نے قوم سے خطاب کیا اتنی مرتبہ راہل گاندھی نے پریس سے خطاب کیا۔ راہل گاندھی کی پریس کانفرنس کا ذکرکرنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ گزشتہ ۶ سالوں کے دورِ اقتدار میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایک مرتبہ بھی کھلی پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کی جرأت نہیں کی۔

دوسری مرتبہ انتخابی کامیابی کے بعد جب ووزیر اعظم بی جے پی کے دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں آئے تو اخبارنویسوں نے سوچا کہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہونے جارہا ہے جس میں مودی جی ان کے سوالات کا برجستہ جواب مرحمت فرمائیں گے، لیکن جلسوں میں گرجنے والا وزیراعظم وہاں 17منٹ تک دم سادھے بیٹھا رہا ۔ اس پر ان کا اس قدر مذاق اڑایا گیا کہ دوبارہ انہوں نے یہ غلطی نہیں کی۔ اس وقت راہول گاندھی نے تمسخر اڑاتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’مودی جی مبارک ہو۔ شان دار پریس کانفرنس! آپ کا نظر آنا نصف جنگ ہے۔ اگلی بار مسٹر شاہ آپ کو ایک دو سوالوں کا جواب دینے کی اجازت ضرور دیں گے۔ شاباش!‘‘ اس وقت مودی جی حالت پر عندلیب شادانی کا یہ شعر ہو بہو صادق آگیا تھا؎

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

اس کے بعد ایک پریس کانفرنس کرکے راہل نے کہا تھا کہ ’’میں نے سنا کہ بعض صحافیوں کو وزیر اعظم کی پریس کانفرنس میں جانے نہیں دیا گیا، اس لیے میں یہیں سے ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ نے رفال پر میرے کسی سوال کا جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘ مودی جی پر تنقید کرنے والے راہل اکیلے نہیں تھے بلکہ کولکاتہ کے اخبار ’دی ا ٹیلی گراف‘ نے اپنے صفحہ اول پر جگہ خالی چھوڑ کر لکھا،’’یہ جگہ مختص ہے، اس کو وزیر اعظم نریندر مودی کی پریس کانفرنس میں سوالات کے جواب سےبھرا جائے گا‘‘۔ پہلے لاک ڈاون سے ایک دن قبل ۱۶ اپریل کو اپنی پہلی کووڈ پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نےواضح کیا کہ ان تبصروں کو تنقید نہیں بلکہ مشورہ سمجھا جائے ۔ یہ بات بہت اہم تھی ورنہ میڈیا تو باتوں کا بتنگڑ بنا نے پر تلا رہتا ہے۔

راہول گاندھی نے اس وقت لاک ڈاون کو پاز بٹن قرار دیتے ہوئے کہا تھا اس سے بات بنی نہیں ٹلی ہے۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ پر زور دے کر یاد دلایا کہ اُس وقت ملک میں جانچ کی شرح دس لاکھ میں صرف ۱۹۹ تھی۔ اس کے ساتھ ضلع اکائیوں کو مضبوط کرنے اور ریاستوں کو جی ایس ٹی کی رقم مہیا کرنے کا مطالبہ کیا ۔ وزیر اعظم کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا ہے کہ وہ ماہرین سے مشورہ نہیں کرتے ۔ اس پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے راہل گاندھی نے سابق آر بی آئی سربراہ رگھو رام راجن سے عوامی انٹرویو کیااور ان سے کورونا وائرس کے معاشی نقصانات اور ان پر قابو پانے کے لائحہ عمل پر گفتگو کی ۔ راہول نے راجن سے فوری توجہ طلب مسائل اور ملک کے غریبوں کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے کے لیے درکار وسائل وغیرہ پر استفسار کیا ؟

راہل گاندھی کے ذریعہ کیے جانے والے سوالات سے لوگوں اندازہ ہوا کہ انہیں قومی مسائل ادراک تو ہے ۔ ملک کو مختلف علاقوں میں تقسیم کرکے معاشی سرگرمیوں کا آغاز اور غریبوں پر تقریباً 65 ہزار کروڑ روپئے خرچ کردینا( جو 200 لاکھ کروڑ کی جی ڈی پی کا عشر عشیر بھی نہیں) جیسے مشورے سامنے آئے۔ اس کے بعد راہل نے دوسرا انٹرویو نوبل اعزاز یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ابھجیت بنرجی کے ساتھ کیا۔ انہوں نے بھی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر طلب بڑھانے پر زور دیا ۔ یہ ظاہر بات ہے کہ طلب و رسد کے بغیر معیشت کی گاڑی نہیں چل سکتی ۔ اسی کے ساتھ غریبوں اور مہاجر مزدوروں کو غیر علاقائی بنیاد پر راشن کارڈ دینا تاکہ جو جہاں ہے وہیں اناج حاصل کرسکے ایسے سجھاو سامنے آئے۔ اس کے علاوہ متوسط اور بڑی صنعتوں کی مدد کرنا تاکہ بیروزگاری دور ہوسکے اور مرکزیت کے بجائے علاقائی سطح پر فلاحی اسکیموں پر عمل کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ ان دونوں انٹرویوز میں ایسی باتیں نکل کر آگئیں کہ جو مرکزی حکومت کے طریقۂ کار سے متضاد ہیں ۔ مو جودہ سرکار پی ایم او کے اندر سے کام کرنے میں یقین رکھتی ہے اور ماہرین اسے ضلع کی سطح تک لے جانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ حکومت عوام اور صنعت کاروں پر روپیہ خرچ کرنے سے کترا رہی ہے اور مہاجر مزدوروں کے معاملے ناکام ہورہی ہے وغیرہ ۔ ان باتوں سے ملک کے دانشور، صنعتکار اور عام لوگوں نے بھی یہ محسوس کیا ہوگا کہ وزیراعظم کے عمومی و نمائشی مشوروں سے علی الرغم اس گفتگو میں فلاح و بہبود کی ٹھوس حکمت عملی پر غور ہورہا ہے۔ اس کے بعد راہل گاندھی نے جو اپنی دوسری پریس کانفرنس کی تو ان میں بلا کا اعتماد تھا ۔ اس میں لوگ کھل کر سوال کررہے تھے اور ان کا برجستہ جواب مل رہا تھا۔ یہ ان مصنوعی انٹرویوز کے مقابلے بالکل مختلف صورتحال تھی جو وزیراعظم کے ساتھ ہوتی ہے۔

راہل گاندھی سے گودی میڈیا کے اکثر سوالات حکومت کے خلاف تھے ۔ راہل کو سرکار ی مخالفت پر اکسا نے والی یہ ایک چال تھی لیکن انہوں نے اپنے آپ کو قابومیں رکھا تا کہ ان پر سیاست کرنے کا الزام نہ لگ سکے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس کا اعتراف بھی کرلیا کہ وہ اشتعال میں آکر ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ کسی رہنما کو اگر یہ اندازہ ہوجائے کہ اس کے کس بیان کا مخالفین بیجا استعمال کرکے اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں گا تو یہ سیاسی پختگی کی علامت ہے ۔ ماضی میں میڈیا نے آئی ٹی سیل کی مدد سے یہ کھیل بہت کھیلا ہے لیکن راہل نے اس کا موقع نہیں دیا اور متنازع سوالات کو بڑی خوبی سے ٹالتے رہے یہاں تک کہ پی ایم کیئر پر بھی آڈٹ کے مطالبے پر اکتفاء کیا۔ انہوں نے کم و بیش ۵۰ سوالات کے جواب دیئے اور عوام کے اندر اپنے اعتماد کا اظہار کیا جو ایک خوش آئند بات ہے نیز کورونا کی دہشت کو کم کرنے پر زور دیا۔راہل نے اپنی پریس کانفرنس میں مہاجرمزدوروں کی حالت زار کو شرمناک بتایا۔ کورونا سے جنگ جیتنے کی خاطر پی ایم کے ساتھ ساتھ سی ایم اور دی ایم کی اہمیت پر زور دیا ۔ کانگریس کے علاوہ بی جے پی کے وزیراعلیٰ کی مشکلات کا اعتراف کیا اور حکومت سے لاک ڈاون کھولنے کا تفصیلی لائحۂ عمل عوام کے سامنے پیش کرنے کی درخواست کی ۔ راہل نے متنبہ کیا کہ حکومت نے اگر فوری اقدامات نہ کئے تو ملک میں بے روزگاروں کی سونامی آجائے گی۔

 

راہل گاندھی نے جو ٹھوس مشورے دیئے ان میں سب سے پہلا ۱۳؍ کروڑ کنبوں کی فوری مالی مددہے ۔اس کے علاوہ منریگا کے تحت ۱۰۰؍ دنوں کےبجائے ۲۰۰؍ دن کام کی گارنٹی ، پی ڈی ایس اسکیم کے دائرے سے باہر ۱۱؍ کروڑ لوگوں کو بھی ۶ ماہ تک اشیائے خوردنی مہیا کرانا ، کسانوں کے لیے۲۲؍کروڑ پی ایم کسان کھاتوں میں ۱۰؍ ہزار روپے ڈال کر ان مالی مدد اور کم از کم قیمت پر زراعتی پیداوار کی خریداری کو یقینی بنانا ، زراعت میں کام آنے والےآلات پر جی ایس ٹی معطل کرنا ، چھوٹی اور متوسط صنعتوں کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے کی کریڈٹ گارنٹی اسکیم جاری کرنا کیونکہ ان سے ۱۱ کروڈ لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور تقریباً ۷؍ کروڑ دکانداروں کو دوبارہ تجارت شروع کرنے میں راحت دینا وغیرہ شامل تھے ۔ ان مشوروں پر عمل درآمد میں مشکلات ہوسکتی ہیں لیکن یہاں ایک لائحۂ عمل موجود توہے جس کو ترمیم وتنسیخ کے بعد حتمی شکل دی جاسکتی ہے ۔ اس پریس کانفرنس سے یہ ثابت ہوگیا کہ دلکش تقریروں سے رائے دہندگان کا دل جیت لینے میں اور عوام کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کی تدابیر کرنے میں کیا فرق ہے؟