Tuesday, December 21, 2021

Weekly MEYAAR Mumbai 19.12.2021 Sunday

Click the link to download pdf 

https://drive.google.com/file/d/1ldS8qK9bt8sAdkOcsyD9Sa3FK7xij7Kh/view?usp=drivesdk


Page No 1 


Page No 2


Page No 3


Page No 4


Monday, November 22, 2021

Weekly MEYAAR Mumbai 21.11.2021

 Click the link to download pdf

https://drive.google.com/file/d/1bLCIzflufiI_vbweeL4Pu2WeyDHR33si/view?usp=drivesdk


Page No 1


Page No 2


Page No 3


Page No 4

Sunday, November 14, 2021

Weekly MEYAAR Mumbai 14.11.2021

CLICK THE LINK TO DOWNLOAD PDF

https://drive.google.com/file/d/1Zq2qbshNIykY0LiUUepGGqHCI0YucSAl/view?usp=drivesdk


Page No. 1


Page No. 2



Page No. 3


Page No. 4


Tuesday, November 2, 2021

Weekly MEYAAR Mumbai 31.10.2021 Sunday

Page No. 1



Page No. 2


Page No. 3


Page No. 4

CLICK THE LINK TO DOWNLOAD PDF FILE

https://drive.google.com/file/d/1UUCgvmntV4yePFtw3eYuetQcMTkJtzYF/view?usp=drivesdk

Sunday, October 3, 2021

'Anokhi Saza' by Raj Mohammed Afridi

 کہانی : انوکھی سزا


کتاب : سورج کی سیر


مصنف : راج محمد آفریدی





نجادنے گھر آکر ماں سے شکایت کی ،" نجم نے مجھے پھر سے گالیاں دیں۔ میں نے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا کیونکہ ابو نے کہا تھا  کہ کسی کو گالیاں نہیں دینی چاہیے۔ "ماں نے بیٹے کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،" بہت اچھا کیا بیٹا !، بے فکر رہو میں ابھی جاکرتیرے ابا کو نجم کی شکایت لگاتی ہوں۔وہ اسے خوب سزا دیں گے۔"

اس نے کمرے جاکر سارا قصہ اپنے شوہر کو سنایا۔سرفراز صاحب مطالعہ میں مصروف اپنی بیوی کی بات سن کر خاموش رہے تو بیگم نے دوبارہ ، سہ بارہ کہا۔ 

"جاکر یوسف میاں کے بیٹے کو سبق سکھا کر آئیں ۔وہ روزانہ میرے بیٹے کو چھیڑتا ہے۔زندگی اجیرن بنا رکھی ہے میرے بیٹے کی۔" سرفراز صاحب نے کتاب بند کرکے ایک طرف رکھ دی ۔پھر کچھ سوچ کر گھر سے نکلے تو ماں نے بچے کی جانب دیکھ کر کہا ، "رنجیدہ نہ ہو میرا بچہ! اب تیرے ابو نجم کو خوب سزا دیں گے ۔" اس پر نجادمطمئن نظر آنے لگا ۔

سرفراز گھر سے نکل کر نجم کے والد یوسف میاں کے گھر جانے لگے ۔ اتفاقاً انہیں راستے  ہی میں نجم مل گیا۔ انہوں نے نجم سے پیار بھرے لہجے میں اس کے ابو کے بارے دریافت کیا ۔نجم کو احساس ہوچکا تھا کہ اب اس کی کلاس لگنے والی ہے۔پھر بھی اس نے جھوٹ نہیں بولاکہ جھوٹ بولنا گناہ ہے۔

" ابو گھر پر ہیں۔آپ بیٹھک میں تشریف رکھیں، میں بلا کر آتا ہوں۔" نجم نے بیٹھک کا دروازہ کھولتے ہوئے سرفراز انکل کو بٹھایا۔ نجم گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے یہی سوچ رہا تھاکہ نجاد نے ضرور میری شکایت لگائی ہوگی تبھی تو انکل جی ابوسے ملنا چاہتے ہیں۔ اب میری خیر نہیں۔ ابو مجھے سخت سزا دیں گے۔

 یہی سوچتے ہوئے اس نے ابا جان کو سرفراز انکل کے آنے کابتایا ۔ اس کے ساتھ ہی اسے سرفراز انکل کے رویے پر بھی حیرت تھی۔ اس نے سوچا کہ سرفراز انکل نے مجھے برا بھلا تک نہیں کہابلکہ آج تو وہ اور بھی پیار اور نرمی سے پیش آئے۔

جب یوسف صاحب  سرفراز سے ملنے باہر آئے تو دونوں گلے ملے اور خوب باتیں کرنے لگے۔ نجم بیٹھک کے باہر اسی انتظار میں تھا کہ کب اصل بات یعنی میری شکایت شروع ہوگی۔ سرفراز  صاحب کو اندازہ ہوا کہ نجم باہر کھڑا ہے، انہوں نے نجم کو اپنے پاس بلایا۔اس کے چہرے پرشرمندگی کے واضح آثار تھے۔

 سرفراز نے کچھ نہیں کہا اور جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر نجم کوتھمایا کہ جاکر دکان سے کچھ خرید لے۔ یوسف صاحب نے منع کرنا چاہا تو سرفراز صاحب نےکہا ،"نہیں نہیں نجم تو میرے بیٹے جیسا ہے ۔ اس کا حق بنتا ہے اور یہ تو نجاد کا بہترین دوست بھی ہے۔ آج بھی نجاد اس کی بڑی تعریف کر رہا تھا۔"  یہ سن کر نجم کی شرمندگی میں مزید اضافہ ہوا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود سرفراز انکل نے پاپا کے سامنے اس کی عزت رکھی۔

اس نے باہر نکل کر سیدھا  نجاد کے گھر کی راہ لی۔ نجاد نے دستک پر دروازہ کھولا ۔ اس کی والدہ بھی دروازے تک آئی۔ جب انہوں نے نجم کو دیکھا تو غصے کا اظہار کرنے لگیں ۔ نجم نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا ،" نہیں آنٹی ! میں نجاد سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے اپنے کیے پر سخت پشیمانی ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں، آئندہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔"

نجاد کی ماں یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے دل ہی دل میں شوہر کی تعریف کی کہ انہوں نے جاکر نجم کو خوب ڈانٹ پلائی ہے۔ تبھی تو اس کی یہ حالت ہے ۔ اس نے نجم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔

" میرے میاں نے تمہیں سزا دے کر اچھا کیا ، اس لیے تو تم معافی مانگنے چلے آئے۔اب آئندہ مجھے شکایت کا موقع نہ ملے۔" نجم نے دھیمے لہجے میں کہا،" ہاں سرفراز انکل  نے مجھے بہت انوکھی سزا دی ہے جس کا زخم بھرنے میں کافی وقت لگے گا ۔" یہ کہہ کر وہ اپنےگھر کی جانب واپسی کے لیے مڑ گیا۔

Sunday, September 26, 2021

Mushkil Hai Phir Milein Kabhi Yarane Raftgaan organised by Urdu Caravan Mumbai

 *مشکل ہے پھر ملے کبھی یاران رفتگان*


اکبر الہ آبادی ، جگر مراد آبادی اور اختر شیرانی کے مشترکہ ماہ وفات کے موقع پر اردو کارواں کی جانب سے قومی سطح کے ویبنار میں خراج عقیدت.  

شعیب ابجی نائب صدر اردو کارواں نے اردو کارواں کا تعارف پیش کیا. 

فرید احمد خان صدر اردو کارواں نے پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی( صدر شعبہ اردو علی گڑھ) اور دیگر مقررین کا خیرمقدم کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بہت اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ اردو کارواں کے ذریعے اردو زبان ان کالجوں تک پہنچی ہے جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے طلبہ اور اساتذہ اردو زبان و ادب کی خدمات سے انجان تھے

 انہوں نے ولسن کالج، ایس این ڈی ٹی کالج، مٹھی بائی کالج اور ٹا ٹا انسٹیٹیوٹ کا بطور خاص  ذکر کیا. 

عرفان عارف (صدر تحریک بقائے اردو) جو نظامت کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے کہا کہ تینوں شعراء کی تاریخ وفات ایک ہی ہے مگر تینوں کی شاعری میں الگ الگ رنگ نظر آتا ہے

پروفیسر سلیم محی الدین نے اکبر الہ آبادی کے تعلق سے کہا کہ یہ وہ شاعر ہے جسے سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا ہے جبکہ ان کی شاعری دور حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے. 

ڈاکٹر پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی (صدر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ  اکبر الہ آبادی سر سید کے معاصرین میں سے تھے اکبر نےاپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعے اپنی بات کو پیش کیا، اور اپنی شاعری کے ذریعے سے کسی حد تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کی 

اختر شیرانی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ اختر شیرانی کے ہاں زندگی میں سکون نظر آتا ہے ان کی زندگی میں وہ جب پریشان ہوتے ہیں تو رومان کو ذہنی سکون کے لئے تلاش کر لیتے ہیں وہ نغمگی کی طرف آتے ہیں 

. جگر مراد آبادی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ  جگر بنیادی طور پر فارسی کے شاعر تھے وہ رومان کے شاعر تھے، 

اس موقع پر کفایت حسین کیفی نے اختر شیرانی کی نظم او دیس سے آنے والے بتا...

عظمیٰ فردوس نے جگر مراد آبادی کی غزل، جہانگیر روش اور عبدالرحمن نے اکبر الہ بادی اور جگر مراد آبادی کی غزلیں پیش کیں. گلواکارہ شبانہ شیخ نے اکبر الہ آبادی کی غزل کہوں سے قصہ درد و غم کوی ہمنشیں ہے نا یار ہے.. سنا کر سماں باندھ دیا اس کےے علاوہ انھوں نے اختر شیرانی اور جگر مراد آبادی کی غزلیں بھی پیش کیں.

اس نشست میں پروفیسر محمد کاظم دہلی یونیورسٹی، ڈاکٹر پروفیسر عبدالشعبان (ٹاٹا انسٹیٹیوٹ ممبیء)  طلباء و اساتذہ کے علاوہ اردو کارواں ممبیء و اورنگ آباد کے ممبران موجود تھے

رسم شکریہ شبانہ خان سیکرٹری اردو کارواں نے ادا کیا.

Wednesday, September 22, 2021

Jashn E Nurul Hasnain Aurangabad

 وارثان حرف و قلم و قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے اشتراک سے 


محفل طنز و مزاح بضمن جشن نورالحسنین کا شاندار انعقاد




نیوز بذریعہ : سید اطہر احمد 


اورنگ آباد۔ وارثان حرف و قلم کی جانب سے جشن نورالحسنین کے تحت مختلف ادبی پروگرام کاسلسلہ عظیم الشان طریقہ پر جاری ہیں۔ 


اردو ادب کی ترقی و ترویج اور اس کی بقاء کے لئے نئی نسل کو اردو کی جانب راغب کرنا اور اسی کے ساتھ ادب کے ستون سمجھے جانے والے فنکاروں، شعراء، ادیبوں کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ نئے لکھنے والوں کو پلیٹ فارم مہیاکرنا بھی ایک اہم مقصدہے۔اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر وارثان حرف وقلم اور قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے اشتراک سے محفل طنز و مزاح بضمن جشن نورالحسنین کا انعقاد بتاریخ 19/ستمبر 2021ء، بوقت دوپہر 2/بجے تا 5/ بجے، بمقام بیت الیتیم، قلعہ ارک، اورنگ آباد عمل میں آیا۔




 پروگرام کی صدارت معروف طنز و مزاح نگار جناب معز ہاشمی صاحب نے کی۔شرکا ء میں سعید خان زیدی، ابوبکر رہبر، تحسین احمد خان اور بطور مہمانان خصوصی نورالحسنین، ڈاکٹر قاسم امام اور سہیل قادری (قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد)موجود تھے۔

مزاح نگاری ایک بڑا مشکل فن جس میں مزاح نگار زندگی میں موجود ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اپنے انداز میں اس کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس سے ہنسی کو تحریک ملتی ہے۔ مزاح کا مقصد محض لطف اندوزی ہے تو طنز میں اصلاح کاجذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ خالص مزاح اعلی درجے کی چیز ہے اور قاری اس سے لطف و انبساط حاصل کرتا ہے۔ اس مشکل فن کے چند ماہرین شہر اورنگ آباد میں موجود ہیں جن کے مضامین قارئین کو مزاح فراہم کرتے ہیں اور ان سے قارئین بہت محظوظ ہوتے ہیں۔



پروگرام کا آغاز ابوبکر رہبر صاحب کے مزاحیہ مضمون ’بخت کے بدلتے روپ‘ سے ہوا۔ اس مضمون میں ابوبکر رہبر صاحب نے انسانی بخت پر بہترین روشنی ڈالی کہ کس طرح اور کس انداز کے بخت ہوتے ہیں جو انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ 

ابوبکر رہبر صاحب کے بعد تحسین احمد خان نے اپنے مزاحیہ مضمون جس کا موضوع ریٹائرمنٹ کے بعد ایک مرد کی زندگی کس طرح گزرتی ہے اس پر بڑے مزاحیہ انداز میں تحریر کی۔ جس میں میاں بیوی کی عام زندگی کا احاطہ بڑے مزاحیہ انداز میں کیا۔

سعید خان زیدی صاحب نے اپنے مزاحیہ مضمون جس کا عنوان ’شہر خوباں اورنگ آباد اسٹیٹ :  پردہ گرتا ہے‘۔ اپنے منفرد انداز میں شہر اورنگ آباد سے متعلق مٹتی تاریخی یادگار اسٹیٹ ٹاکیز سے متعلق معلومات ان کے اپنے انداز میں پڑھا۔جسے سامعین نے بہتر سراہا۔

ا س محفل میں شرکاء کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی اپنی تخلیق یعنی مزاحیہ مضمون سنانے کی اجازت تھی جس میں ڈاکٹر حسینی کوثر سلطانہ صاحبہ، پروفیسر ڈاکٹر رفیق زکریہ کالج فارویمن، اورنگ آبادکا مضمون ’بات کرنا ایک فن ہے محترمہ نکہت اشرف، معلمہ سروش اسکول نے اپنی بہترین آواز  اور اندھا ز میں سنایا۔

صدارتی مضمون پروگرام کے صدر جناب معز ہاشمی صاحب نے اپنے مزاحیہ انداز میں سنایا جس کا عنوان ’صدر جلسہ‘ تھا۔ اپنے مضمون میں معز ہاشی صاحب نے بہترین انداز میں یہ بتایا کہ کس طرح پروگرام کی صدارت کے لئے انسان بے چین رہتا ہے اور اس کے لئے وہ کچھ بھی کرگزرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ معز ہاشمی کا انداز بیان بڑا ہی مزاحیہ اور دلچسپ رہا۔ 



اس درمیان قاضی جاوید نے ایک پیروڈی سنائی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ پروفیسر قاضی نوید نے بھی پیروڈی اپنے بہترین انداز میں سنا کر سامعین کا دل موہ لیا۔خالد سیف الدین صاحب نے بھی اپنے منفردانداز سے سامعین کی دلچسپی کا سامان مہیا کراتے رہے اور سامعین کو اپنی نشستوں کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔

نورالحسنین صاحب نے اپنے خطاب میں فن طنز و مزاح سے متعلق فرمایا کہ یہ ایک بہت مشکل فن ہے اور اس فن میں کام کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اور اس فن میں اپنے جوہر بکھیرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابوبکر رہبر صاحب کے مضمون کے تعلق سے فرمایاکہ ابوبکر رہبر کا مضمون بڑا بہترین ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی شستہ زبان اور بیان جوبہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ 



تحسین احمد خان کے تعلق سے کہتے ہیں کہ تحسین برسوں سے آکاشوانی پر مزاحیہ تحریر کے لئے مشہور ہے اور ان کی تحریر میں گھریلو زندگی کے مسائل کو بہترین مزاحیہ انداز میں پیش کرنا فن انہیں آتا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

سعید خان زیدی صاحب کے لئے ان کا یہ کہنا کہ ان جیسا سنجیدہ مزاح نگار دیکھنے میں بہت کم آتا ہے۔ سعید خان زیدی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بڑے سنجیدہ سے انسان ہے لیکن ان کی تحریر سے کہیں بھی سنجیدگی نہیں جھلکتی۔ ویسے تو ان کے مضامین روزنامہ اردو اورنگ آباد کے توسط سے قارئین کو مسلسل پڑھنے ملتے ہیں لیکن آج باضابطہ خود انہوں نے قارئین کے روبرو اپنے انداز میں مضمون سنایا جسے بہت داد و تحسین ملی۔

معز ہاشمی کے مضمون پر اور ان کے فن پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ معز کافن اور ان کا انداز بیان اپنے پورے مزاح کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور سامعین کو نہ صرف ہنسنے پر بلکہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہی کیفیت آج بھی تھی سامعین کو ان کے بیان اور انداز سے بہت محظوظ ہوئے اور ان کے مضمون کو اور ان کے انداز بیان کو بہت پسند کیا۔


اس موقع پر نورالحسنین نے وارثان حرف و قلم اور خالد سیف الدین کو مبارکباد دی کہ وہ اردو ادب کی بقاء اور کی ترقی و ترویج کے لئے بہترین کوششیں جاری ہیں اور ان کی اس کوششوں سے اردو کا قاری اور اردوسے محبت کرنے والوں کا حلقہ بڑھتا جارہا ہے۔جو ایک خوش آئند بات ہے۔

جناب سہیل قادری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ سیاسی شخص ہے ساتھ ہی وہ اردو ادب کے طالب علم ہے اور اردو کے کاز کے لئے وہ ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں۔ اور جب جب شہر میں اردو کے پروگرام ہوتے ہیں اس میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کی اردو سے محبت کی مثال ہے۔ اس پروگرام میں اردو ادب کے شیدائی شہریان کثیر تعداد میں موجود تھے اور سب نے پروگرام کو بہت پسند۔


اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں وارثان حرف و قلم کی تمام ٹیم نے انتھک کوشش کی۔ پروگرام کا اختتام رازق حسین و پروگرام کنوئینر سید اطہر احمد کے کلمات تشکر سے ہوا۔ 

٭٭٭٭٭٭

Sunday, September 19, 2021

Important meeting organized by 'Meyaar'

 'معیار' کے ذریعے اہم میٹنگ کا انعقاد 


ممبئ میں تعلیمی و ادبی خدمات کے لیے کوشاں رہنے والی غیر سرکاری تنظیم 'معیار' کی ایک اہم میٹنگ گزشتہ شام گوونڈی کے ایک ریستوران میں منعقد کی گئ. اس میٹنگ کی صدارت 'معیار' کے نائب صدر جناب ابراہیم نجیب نے فرمائی. تنظیم کے تقریباً تمام ممبران نے میٹنگ میں شرکت کی.




 'معیار' کی گزشتہ سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اور مستقبل کے منصبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب محسن ساحل نے بتایا کہ حال ہی میں معیار کی ویبسائٹ اور بلاگ کی شروعات کی گئ ہے. بہت جلد اس ویبسائٹ کی ڈیزائننگ مکمل کردی جائے گی اور اسے تعلیمی و ادبی ڈیجیٹل پلیٹفارم کے طور پر پیش کیا جائے گا. کوشش رہے گی کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ و اساتذہ اس ویب سائٹ سے فائدہ اٹھا سکیں. طلبہ اور اساتذہ کے لیے تعلیمی  و ادبی مواد کا ذخیرہ محفوظ کرنا، تاکہ نئ نسل کے لیے جدید ٹکنالوجی کی مدد سے تعلیم اور زبان و ادب کی ترقی وترویج کے راستے ہموار ہوسکیں اس ویب سائٹ کا اہم مقصد ہے. یاد رہے کہ دو سال قبل معیار کا یو ٹیوب چینل بھی تشکیل دیا گیا تھاجس سے ہزاروں طلبہ و اساتذہ جڑے ہیں.  علاوہ از ایں حالات مناسب ہونے پر بہت جلد ایک اہم تقریب کا انعقاد بھی معیار کے منصوبے میں شامل ہے.




 جناب محمد ذیشان نے دوران میٹنگ اظہار خیال کیا. انھوں نے کہا کہ بی ایم سی کے طلبہ کی تعلیمی ترقی کے لیے غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنا تعاون پیش کرسکتی ہیں. طلبہ اور اساتذہ کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو کی تمام تنظیمیں باہمی روابط قائم کریں اور مختلف منصوبوں پر عمل کریں.




 جناب محمد مجاہد نےاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو اساتذہ نے لاک ڈاؤن کے دوران طلبہ کو آن لائن تعلیم سے جوڑنے کے لیےجتنی پریشانیاں جھیلیں اور جس قدر ابھی بھی سرگرم عمل ہیں، ان کارہائے نمایاں کے لیے اردو اساتذہ کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے.


 میٹنگ میں شریک جناب واصف احمد نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں طلبہ اور اساتذہ کے باہمی رشتے کو اور مضبوط بنانے کے لیے سخت کوششیں کرنی ہوں گی. 


جناب ظریف احمد نے کہا کہ ٹکنا لوجی کی معلومات حاصل کرنا طلبہ و اساتذہ کا حق ہے جس کے لیے اردو کی نجی تنظیموں کو بھی متحرک ہونا پڑے گا. 


جناب محمد عرفان نے وضاحت کی کہ وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بہت ساری نئ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں. ہمیں ان سے ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے. 


میٹنگ کے صدر جناب ابراہیم نجیب نے مجموعی تاثرات سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ و اساتذہ کو جدید ٹکنا لوجی کے ساتھ ساتھ ادب سے جوڑنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے. سرکاری اداروں اور اسکولوں کے علاوہ اردو کی ادبی تنظیموں کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ و اساتذہ کو ادب کی اہمیت سمجھاتے ہوئے انھیں اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے متحرک کریں.


 میٹنگ کے اختتام پر جناب محسن ساحل نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور نئے عزم و بلند حوصلوں سے سرگرم عمل رہنے کی گزارش کی. میٹنگ نہایت کامیاب رہی. 


Nasihat No. 4: Bhalai Phailao

 


حضرت لقمان کی نصیحت : 4


بھلائی پھیلاؤ 



اے مرے ابو نصیحت مجھ کو کوئی کیجیے 

آپ کچھ علم و ادب کا مجھ کو تحفہ دیجیے 

کیوں نہیں بیٹے نصیحت اک سناتا ہوں تمہیں

جو کہا لقمان نے وہ میں بتاتا ہوں تمہیں 

اس نصیحت کو کیا ہے نقل بھی قرآن نے 

جو نصیحت کی تھی بیٹے سے کبھی لقمان نے 

باپ نے بیٹے سے فرمایا مرے لخت جگر 

خیر پھیلایا کرو ہر اک گلی میں گھوم کر 

خود بھلائی پر رہو لوگوں میں پھیلایا کرو 

اس کی خاطر دوسروں کے گھر پہ بھی جایا کرو 

کہنے سننے کا یقیناً فائدہ پاؤگے تم 

بیج تم بوؤگے جیسا ویسا ہی کاٹوگے تم 

اے مرے ابو عمل تب پہلے کرنا چاہیے 

بعد میں لوگوں کو اس جانب بلانا چاہیے 

ہاں مرے بیٹے دیا تم نے ذہانت کا ثبوت 

ہے نصیحت اک امانت دو امانت کا ثبوت

Saturday, September 18, 2021

Story ' Picnic' by Shah Taj Khan

 کہانی 


پکنک


شاہ تاج خان 



شیر اور شیرنی کا چھوٹا بچہ جب اسکول سے واپس آیا تو وہ بہت خوش تھا۔ماسٹر صاحب کل انہیں ایک نئی جگہ دکھانے لے جانے والے تھے۔جب سے ان کے نئے ہاتھی ماسٹر صاحب آئے تھے بچوں کو اسکول جانے میں مزا آنے لگا تھا۔

پکنک پر جانے کے لئے فارم سائن کر تے ہوئے شیر نے پوچھا۔

اس بار ماسٹر صاحب کہاں لیکر جا رہے ہیں؟

بچہ۔ہیومن پارک

دستخط کرنے کے بعد شیر نے اپنی مسز سے کہا۔

میں ہاتھی ماسٹر صاحب سے ملنے جا رہا ہوں۔تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔

وہ پورے راستے یہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ کون سا پارک ہے جس کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ہے۔۔

ہاتھی ماسٹر صاحب کا گھر سامنے تھا،دروازہ کھٹکھٹانے پر مسز ہاتھی نے دروازہ کھولا۔جنگل کا راجہ شیر سامنے تھا ۔اندر آئیے۔کہتے ہوئے مسز ہاتھی نے پوچھا۔

کیسے آنا ہوا؟ 

مجھے ماسٹر صاحب سے بات کرنا ہے۔

تبھی پیچھے سے ماسٹر صاحب آگئے۔شیر نے سیدھے پوچھا

بچوں کو کہاں لیکر جا رہے ہو؟

ماسٹر صاحب۔محترم آپ بے فکر رہیں میں اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں۔آپ جنگل کے راجا ہیں تو میں اُن کا استاد ہوں۔ایک نیا پارک ہے۔زیادہ دن تک نہیں کھلا رہےگا۔اس لیے میں اپنے شاگردوں کو کل ہی اُس پارک کی سیر کرا نا چاہتا ہوں۔ جہاں انہیں کافی کچھ نیا سیکھنے کے لئے ملے گا۔

شیر،ہاتھی،چیتا،بندر سبھی بچے پکنک پر چلے گئے۔

نئے ماسٹر صاحب سے سبھی خوش تھے اُن کے پڑھانے کا طریقہ بہت الگ تھا۔بچے خوشی سے اسکول جاتے اور ہر دن کچھ نیا سیکھ کر آتے۔

شام کو جب بچے پکنک سے واپس آنے تو بہت خوش تھے۔آج انہیں ایک نیا تجر بہ ہوا تھا۔پکنک کی باتیں کرتے ہوئے شیر بچے نے اپنے ہاتھ پھیلا کر بتایا کہ اتنے بڑے بڑے پنجرے تھے۔ماسٹر صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ انسان ہیں۔وہ ہم سے ہاتھ جوڑ کر معافی کیوں مانگ رہے تھے؟ آپ تو کہتے تھے کہ انسان بہت خطرناک ہو تے ہیں! مگر وہ رو رہے تھے،ہم سے دوستی کرنا چاہتے تھے۔کیا ہمیں ان سے دوستی کرنا چاہئے؟ شیر بچہ اپنی روانی میں بولے جا رہا تھا اور شیر حیران پریشان اپنے بیٹے کو صرف دیکھ رہا تھا ۔بیٹے کے سوال کا اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

Wednesday, September 15, 2021

'Khilona Bandooq" by Raj Mohammed Afridi

 کہانی 11 : 

کھلونا بندوق


کتاب : سورج کی سیر


مصنف: راج محمد آفریدی





"ڈز ڈز۔۔۔۔۔ڈز ڈز۔۔۔۔۔ " سارے بچے ہنستے ہوئے ماسٹر صاحب کے پاس سے دوڑتے ہوئے گزر گئے۔ سب کے ہاتھوں میں کھلونا بندوقیں تھیں ۔ وہ ایک دوسرے پر بندوق تان کر منہ سے "ڈز ڈز" کی آوازیں نکال کر یہاں وہاں بھاگ کر کھیلتے رہے۔ ماسٹر صاحب خاموشی سے گزرنے لگے کہ اس کی نظر اپنے یتیم بھتیجے سدیس پر پڑی  جو ایک طرف سب سے انجان کھڑا ہوا تھا۔

ایک سال قبل سدیس کا باپ  اصلی بندوق  صاف کرتے ہوئے گولی چلنے سے مر گیا تھا۔اس کے بعد ماسٹرصاحب نے اس کی پرورش کا ذمہ اٹھایا۔سدیس ایک طرف افسردہ کھڑا کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ رہا تھا ۔ اپنے چچا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک بھر آئی۔ اس نے فخریہ انداز میں دوستوں سے کہا۔

 "چچا جان آگئے۔میرے پیارے چچا آگئے۔ اب میرے ہاتھ میں بھی بندوق ہوگی۔اب میں چور سپاہی والا کھیل کھیلوں گا۔آہا !کتنا مزا آئے گا۔ اب ہم سب مل جل کر کھیلیں گے۔" 

ماسٹر صاحب قریب آئے تو سدیس نے بغور ان کا جائزہ لیا۔ ماسٹر صاحب کے خالی ہاتھ دیکھ کر اس کی چہچہاہٹ افسردگی میں تبدیل ہوئی۔ اس نے ناخوش ہوکر چچا سے شکایت کے انداز میں کہا۔

 "چچا  جان! آپ تو خالی ہاتھ لوٹ آئے ، میں نے آپ کو بندوق لانے کا کہا تھا اور آپ نے کہا کہ مجھے بندوق سے بھی اچھا تحفہ لاکر دیں گے۔ دیکھو!محلے کے سارے بچوں کے ساتھ کھلونا بندوقیں ہیں، میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کہتے ہیں تیرے ابا نہیں ہیں اس لیے کوئی تجھے بندوق لاکر نہیں دیتا۔" وہ تقریباً رونے لگا۔

 ماسٹر صاحب نے سدیس کے سر پرشفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے تسلی دی۔"نہیں بیٹا ! ایسا نہیں کہتے۔میں ہوں نا۔ میں نے صبح تحفہ لانے کا کہا تھا اور وہ میں لے کر آیا ہوں۔ میں نے کہا تھا بندوق سے اچھا تحفہ ہوگا۔میں اپنے وعدے کو پورا کرچکا ہوں۔میں تمہارے لیے بندوق سے اچھا اور طاقت ور تحفہ لایا ہوں۔"

"لیکن مجھے کھیلنے کو بندوق ہی چاہیے۔اور وہ آپ کے ہاتھ نظر نہیں آرہی۔ مجھےدیکھو سب کے پاس بندوقیں ہیں۔ اور سب کتنا خوش ہیں۔" سدیس نے بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اب باقی بچوں نے دوڑنا بند کرکے ان دونوں کی  طرف دیکھنا شروع کیا تھا۔ان میں چند شریر لڑکے سدیس کو تنگ کرنے کی نیت سے بار بار اپنی بندوقیں ہوا میں لہرا رہے تھے۔

 ماسٹر صاحب نےسدیس کو مطمئن کرنے کی غرض سے کہا۔" بیٹا ! بندوق بری چیز ہے۔اس عمر میں بچوں کے ہاتھ میں بندوق نہیں دینا چاہیے ، یہاں تک کہ کھلونا بندوق بھی نہیں۔ میں اس حق میں نہیں ہوں۔" سدیس پر اس تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

" ٹھیک ہے جو تحفہ آپ لائے ہو، وہ دکھاؤ پہلے۔ اگر مجھے پسند نہ آیا تو پھر مجھے بندوق لاکر دو گے۔" ماسٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر اس نے دیگر بچوں کو اپنی جانب بلاتے ہوئے آواز دی۔ "سب بچے ادھر آئیں۔ میں آج تم سب کے لیے بندوق سے بھی اچھا اور طاقت ور تحفہ لے کر آیا ہوں۔" بچے بڑے شوق سےبھاگتے ہوئے ماسٹر صاحب کے قریب  آگئے۔ ماسٹر صاحب نے بڑے پیار سے بچوں کے ہاتھوں سے کھلونا بندوقیں لے کر ایک طرف رکھنا شروع کیں۔اس کے بعد  ہر بچے کو کھلونا بندوق کے بدلے ہاتھ میں ایک ایک قلم دیتے ہوئے کہا۔

"یہ بندوق سے زیادہ اہم ہے۔آج دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو قلم کے سہارے کرنا ہوگا ، نہ کہ بندوق کی مدد سے۔اسی سے قومیں بنتی ہیں۔"