کہانی 11 :
کھلونا بندوق
کتاب : سورج کی سیر
مصنف: راج محمد آفریدی
"ڈز ڈز۔۔۔۔۔ڈز ڈز۔۔۔۔۔ " سارے بچے ہنستے ہوئے ماسٹر صاحب کے پاس سے دوڑتے ہوئے گزر گئے۔ سب کے ہاتھوں میں کھلونا بندوقیں تھیں ۔ وہ ایک دوسرے پر بندوق تان کر منہ سے "ڈز ڈز" کی آوازیں نکال کر یہاں وہاں بھاگ کر کھیلتے رہے۔ ماسٹر صاحب خاموشی سے گزرنے لگے کہ اس کی نظر اپنے یتیم بھتیجے سدیس پر پڑی جو ایک طرف سب سے انجان کھڑا ہوا تھا۔
ایک سال قبل سدیس کا باپ اصلی بندوق صاف کرتے ہوئے گولی چلنے سے مر گیا تھا۔اس کے بعد ماسٹرصاحب نے اس کی پرورش کا ذمہ اٹھایا۔سدیس ایک طرف افسردہ کھڑا کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ رہا تھا ۔ اپنے چچا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک بھر آئی۔ اس نے فخریہ انداز میں دوستوں سے کہا۔
"چچا جان آگئے۔میرے پیارے چچا آگئے۔ اب میرے ہاتھ میں بھی بندوق ہوگی۔اب میں چور سپاہی والا کھیل کھیلوں گا۔آہا !کتنا مزا آئے گا۔ اب ہم سب مل جل کر کھیلیں گے۔"
ماسٹر صاحب قریب آئے تو سدیس نے بغور ان کا جائزہ لیا۔ ماسٹر صاحب کے خالی ہاتھ دیکھ کر اس کی چہچہاہٹ افسردگی میں تبدیل ہوئی۔ اس نے ناخوش ہوکر چچا سے شکایت کے انداز میں کہا۔
"چچا جان! آپ تو خالی ہاتھ لوٹ آئے ، میں نے آپ کو بندوق لانے کا کہا تھا اور آپ نے کہا کہ مجھے بندوق سے بھی اچھا تحفہ لاکر دیں گے۔ دیکھو!محلے کے سارے بچوں کے ساتھ کھلونا بندوقیں ہیں، میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کہتے ہیں تیرے ابا نہیں ہیں اس لیے کوئی تجھے بندوق لاکر نہیں دیتا۔" وہ تقریباً رونے لگا۔
ماسٹر صاحب نے سدیس کے سر پرشفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے تسلی دی۔"نہیں بیٹا ! ایسا نہیں کہتے۔میں ہوں نا۔ میں نے صبح تحفہ لانے کا کہا تھا اور وہ میں لے کر آیا ہوں۔ میں نے کہا تھا بندوق سے اچھا تحفہ ہوگا۔میں اپنے وعدے کو پورا کرچکا ہوں۔میں تمہارے لیے بندوق سے اچھا اور طاقت ور تحفہ لایا ہوں۔"
"لیکن مجھے کھیلنے کو بندوق ہی چاہیے۔اور وہ آپ کے ہاتھ نظر نہیں آرہی۔ مجھےدیکھو سب کے پاس بندوقیں ہیں۔ اور سب کتنا خوش ہیں۔" سدیس نے بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اب باقی بچوں نے دوڑنا بند کرکے ان دونوں کی طرف دیکھنا شروع کیا تھا۔ان میں چند شریر لڑکے سدیس کو تنگ کرنے کی نیت سے بار بار اپنی بندوقیں ہوا میں لہرا رہے تھے۔
ماسٹر صاحب نےسدیس کو مطمئن کرنے کی غرض سے کہا۔" بیٹا ! بندوق بری چیز ہے۔اس عمر میں بچوں کے ہاتھ میں بندوق نہیں دینا چاہیے ، یہاں تک کہ کھلونا بندوق بھی نہیں۔ میں اس حق میں نہیں ہوں۔" سدیس پر اس تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
" ٹھیک ہے جو تحفہ آپ لائے ہو، وہ دکھاؤ پہلے۔ اگر مجھے پسند نہ آیا تو پھر مجھے بندوق لاکر دو گے۔" ماسٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر اس نے دیگر بچوں کو اپنی جانب بلاتے ہوئے آواز دی۔ "سب بچے ادھر آئیں۔ میں آج تم سب کے لیے بندوق سے بھی اچھا اور طاقت ور تحفہ لے کر آیا ہوں۔" بچے بڑے شوق سےبھاگتے ہوئے ماسٹر صاحب کے قریب آگئے۔ ماسٹر صاحب نے بڑے پیار سے بچوں کے ہاتھوں سے کھلونا بندوقیں لے کر ایک طرف رکھنا شروع کیں۔اس کے بعد ہر بچے کو کھلونا بندوق کے بدلے ہاتھ میں ایک ایک قلم دیتے ہوئے کہا۔
"یہ بندوق سے زیادہ اہم ہے۔آج دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو قلم کے سہارے کرنا ہوگا ، نہ کہ بندوق کی مدد سے۔اسی سے قومیں بنتی ہیں۔"
No comments:
Post a Comment