Monday, September 13, 2021

Nakami Ka Khauf Kaise Door Karein??

 ناکامی کا خوف


   ہم اپنی زندگی میں ناکامی کے خوف کو کس طرح کم کرسکتے ہیں؟                 


از :عشرت انجم ڈاکٹر شیخ محمد شرف الدین ، بی۔ ایڈ۔ سال اول

                                                                                         کالج کا نام : مراٹھواڑہ کالج آف ایجوکیشن،اورنگ آباد


میرے قلم سے۔۔۔۔۔۔


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


زندگی میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں اپنے آپ پر اعتماد ہوتا ہے جب وہ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو اُنھیں اس بات کا پختہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اِس میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہم جو کرنے جارہے ہیں کیا ہم اُس میں کا میاب  ہوپائیں گے یا نہیں؟ایک دفعہ کی ناکامی کا تجربہ اُن کے دماغ میں حاوی ہوجاتا ہے اور وہ اس منفی خیال سے اُبھر ہی نہیں پاتے۔جب بھی وہ کوئی کام شروع کرتے ہیں تو وہی ناکامی کی دیوار ان کے آگے حائل ہوجاتی ہے۔


اگر انسان صحیح راستے کا انتخاب کرے اور مثبت سوچ کے ساتھ کامیابی کے لیے محنت کرتے رہے تو کامیابی کی منزل تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا ۔ کمزور انسان کامیابی کے لیے ہمیشہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں اس کے برخلاف باہمت لوگ کامیابی حاصل کرنے کے لیے خود مواقع  ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ زندگی میں کامیاب ہو، ترقی کرکے آگے جائے۔ لیکن ہمیں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ناکامی کو کامیابی کی پہلی سیڑھی کہا جاتا ہے۔ اگرکوئی اپنی پہلی کوشش میں ناکام ہو بھی جاتا ہے تو اسے ہمت کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا چاہیے  بلکہ اپنی ناکامی کی وجوہات کو تلاش کرتے ہوئے ایک نئی امنگ اور جستجو کے ساتھ کامیابی کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اس بات کا یقین کامل ہونا چاہیے کہ اگر انسان محنت کرے تو کامیابی ایک نہ ایک دن ضرور مل کر رہتی ہے۔

اگر پہلی کوشش میں انسان ناکام بھی ہوجائے تو اسے مثبت انداز سے یہ سوچنا چاہیے کہ ناکامی کہ بہت سے فائدے بھی ہیں۔عام طور پر ناکامی کسی کو پسند نہیں آتی لیکن ناکامی ایک ناکام شخص کے لیے اچھی چیز بھی ہو سکتی  ہے۔ناکامی اُسے حدود میں رکھتی ہے۔ناکامی اُسے سیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ ناکامی اُسے انسان بناتی ہے۔ ناکامی  اُسے احساس دلاتی ہے۔ناکامی اُسے تجربہ فراہم کرتی ہے۔ناکامی اُ س کے لیے نئی امید ثابت ہوتی ہے۔ سب سے اہم چیز ناکامی اُسے سجدوں کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شخص کامیاب نہیں ہو پاتا جس میں ناکامی کا خوف کامیابی کی چاہت سے ذیادہ ہو۔ جو لوگ خوف سے اپنے قدم نہیں اٹھاپاتے وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔


خوف پہ قابو پانا اُسے

 سنبھالنا  ہماری کامیابی کا سبب  ب سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خوف ہے۔خوف ہماری کاکردگی کو ایک حد میں رکھتا ہے۔ جب ہمارا ہنر ‘ ہماری کاکردگی ‘ ہماری قابلیت ایک حد تک آکر رک جاتی ہے تو تب ہم ایک محدود حد تک سوچتے  ہیں اور ایک محدود حد تک سوچنے سے ہمیں کسی بھی معاملے میں لامحدود نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔

                   کسی بھی انسان کی زندگی میں عام طور پر تین طرح کے خوف ہوتے ہیں۔





مثلا انسان کو یہ خوف ہوتا ہے کہ میں کہیں مر نہ جائوں۔۔۔اس لیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک نہ ایک دن ہر ایک کو  مرنا تو ہے ہی لیکن یاد رکھیے صرف ایک بارمرنا ہے۔لوگ بات بات پر کہتے ہے کہیں میں مر نہ جائوں۔ جب ہمارے اختیار میں پیداہونا نہیں ہے تو مرنا  بھی ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ہمیں  اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ انسان تبھی مرتا ہے جب اللہ کی مرضی ہو۔ 

          انسان کو دوسرایہ خوف ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟؟   بہت سے لوگ دنیا میں دیگر لوگوں کو راضی کرنے ‘ انھیں خوش کرنے میں اپنے آپ کو غرق کر دیتے ہیں۔

      اگر ہمیں ناکامی کے خوف کے  ساتھ ساتھ دیگر خوف  سے اُبھرنا ہے تو سب سے  پہلے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی ناکامی کے خوف کا تذکرہ کرتے نہ رہیں کیونکہ ہم  جتنا ناکامی کے خوف کا تذکرہ کرتے ہیں اتنا ہی وہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس طرح ایک پودے کو پانی ملتا ہے ‘روشنی ملتی ہے تو وہ درخت بنتا چلا جاتا ہے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح خوف کا بار بار تذکرہ کرنے سے اس کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہےاور وہ ہم پر غلبہ طاری ہوجاتا ہے۔

دوسرے یہ کہ کسی ہمدرد ‘ انسانی نفسیات جاننے والے سے  اپنے ناکامی کے خوف کا  تذکرہ کرنا چاہیے۔ ہمیں ایسے کسی شخص سے  ہی مشورہ کرنا چاہیے جو ہمارے خوف کو جانتا ہو، یا اُسے سمجھتا ہو ۔خوف کی موجودگی کے باوجود اپنے قدم اُٹھاکر چلنے والا انسان ہی منزل کو پاسکتا ہے۔

تیسرے یہ کہ ہمیں  خوف  سے متعلق خود یہ سوچنا ہوگا کہ خوف دراصل کیا ہے؟  خوف کی بنیاد کیا ہے؟ خوف کی وجہ سے ہماری کا رکردگی  متاثر کیوں ہورہی ہے ؟خوف کس وجہ سے پیدا ہو رہا ہے؟ خوف کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں ؟؟ وغیرہ وغیرہ  یعنی جب ہم خوف پر سوال اٹھاتے ہیں تو آہستہ آہستہ ہمارا خوف کمزور ہوجاتا ہے

   


        

   یاد رکھیئے۔۔۔ جسے اللہ  کا خوف ہوتا ہے اُسے دوسری کسی چیز کا کوئی خوف نہیں ہوسکتا۔جس شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ مجھے بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ مجھے اللہ کو راضی کرنا ہے توخوف اُ س کے قریب ہو کر بھی نہ گذرے گا۔ عام طور پر انسان ساری زندگی اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ کوئی اس کے بارے میں کیا سوچے گا؟  لیکن  اُسے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اُس کا رب اس کے کام سے متعلق کیا سوچتا ہے۔

No comments:

Post a Comment