ٹیپو کی پھر ایک کہانی
محمد سراج عظیم
ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ٹیپو ہمارے محلے کے ایک دلچسپ کردار تھے۔ ہر ایک کے لئے دلچسپی کا سامان چلتا پھرتا کھلونا، یہ روز کا معمول تھا جب تک ٹیپو کو چھیڑ چھاڑ نہ لیں۔ ان کی حماقتوں سے بھری حرکتیں نہ دیکھ لیں ہمیں اور ببّو کو کبھی چین نہیں پڑتا تھا، کبھی کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اب اس طرح کے جو بھی محاورے ہوں وہ سمجھ لیجئیے بس ہمارے ساتھ وہ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے دادا پر ایک عجیب طرح کی کیفیت سوار رہتی تھی چونکہ ہم ایک لکھپتی گھرانے کے بچے تھے اس لیے دادا ہم لوگوں کو یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے اندر زرا سا بھی غرور تکبر آئے یا ہم انسانیت سے دور ہوجائیں۔ حالانکہ گھر میں نوکروں کی بھرمار تھی لیکن دادا چھوٹے چھوٹے کام بھی ہم لوگوں سے کراتے تھے۔ کبھی گھر کا کوڑا ہم لوگوں سے پھنکواتے تھے، ٹرک پر مال لادا جاتا تو ہم لوگوں کو دیکھ بھال کے لئے کھڑا کردیتے۔ گھر میں مہمان آتے تو ہم لوگ کھڑے رہتے سب چیزیں ہم لوگ لاتے ، نوکر کمرے یا ہال کے باہر رہتے۔ ہماری عمر اس وقت گیارہ بارہ سال تھی لیکن روز سبزی منڈی جاکر سودا لانا ہمارا کام تھا۔ ہم نے بتایا نا نوکروں کے باوجود سارا سودا ہم ہی لاتے تھے۔ کیسے لوگ تھے بزرگ، نسل نو کی تربیت کا کیسا خیال رکھتے تھے۔ دادا کے اس سخت رویہ سے ہمیں بہت فائدہ ہوا اور ہماری نشونما تہزیب اور انسانیت کے سائہ میں ہوئ۔جس کا اثر ہمارے اوپر آج تک ہے۔بہرحال۔
ٹیپو محلے کا کھلونا تھے۔ ہم نے ٹیپو کو بس ہمیشہ باہر کسی نہ کسی ضرورت کے تحت دیکھا۔ بے چارے ٹیپو کیا تھے کو لہو کا بیل تھے، جو بس ایک ہی محور پر گھومتا رہتا ہے۔ ٹیپو بھی بس لال کوٹھی کے زینے پر چڑھتے یا اترتے رہتے۔ پتہ نہیں لال کوٹھی والے خود کوئی کام کرتے بھی تھے کہ نہیں۔ خیر۔
ٹیپو گرمی جاڑا یا برسات کوئی بھی موسم ہو دوپہر تین بجے کے آس پاس کندھے پر بینت کی کنڈیا ٹانگے خراما خراما سودا لینے سبزی منڈی جاتے ہوتے تھے۔ وہی وقت ہم لوگوں کا بھی ہوتا تھا ہماری دادی بھی اسی وقت شام کی ہنڈیا اور صبح کے لئے سودا منگاتی تھیں۔ اس وقت ہم گھر کے لئے سبزی ترکاری سے لیکر ناشتہ کا سامان پنساری کے یہاں سے سامان غرض دنیا بھر کا سامان لاتے تھے۔ ہمیں آج بڑی حیرت ہوتی ہے اس وقت پچیس تیس روپے میں پورے گھر کا سامان آجاتا تھا۔ بہت سستا زمانہ تھا۔
گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ لو چل رہی تھی دادی نے پیسے دیکر ہم لوگوں کو ساری سبزی اور سامان کے بارے میں بتایا۔ دادا خاموشی سے سنتے رہتے تھے یہ وہ روز کرتے تھےپھر جب ہم چلنے کو ہوتےتو وہ گویا ہوتے۔ اے لڑکو سنو دہی دھوما مل حلوائی کے یہاں سے لینا اس سے کہنا تلاؤ پر کھال والے حاجی جی نے منگایا ہےاچھا دہی دینا ، کھٹہ نہ ہو۔ اور سنو گرم مسالہ تنویر پنساری کے یہاں سے لینا کہہ دینا حاجی جی نے منگایا ہے نیا گرم مسالہ دینا پرانا نہ ہو ، کہہ دینا۔ اگر پرانا ہوا تو واپس کر دیں گے۔ اور ہاں جمتوا شلجم (یہ ایک طرح کے چھوٹی پتیوں اور چھوٹے سے دانے کی طرح گلابی شلجم کی ساگ کی گڑیاں ہوا کرتی تھیں، بکری کے گوشت میں اس کا ساگ بہت لذیذ بنتا ھے۔ اس کے ہم لوگ اس قدر شوقین ہیں کہ آج بریلی چھوڑے ہوئے تقریباً پینتالیس سال ہورہے ہیں مگر آج بھی اس کے موسم میں اگر کوئی دہلی آتا ہوا ہوتا ہےہم لوگ بریلی سے جمتوا شلجم منگاتے ہیں اور اس کے پکنے کا خاص اہتمام ہوتا ہے) کی گڑییں چارآنے کی پچاس ٹھیرا کے لیجیو۔ یہ روز کا معمول تھا، آدھا گھنٹہ دادی لگاتی تھیں اور اتنی ہی دیر دادا سب سمجھانے اور بتانے میں لگاتے تھے۔ ہم لوگ شریر بے انتہا تھے گھر سے نکلتے نکلتے بھی دادا باہر بیٹھک میں بیٹھے کہتے رہتے کرائے کی سائیکل لیکر بازارمت جانا، رکشہ بھی مت کرنا، پیدل کنارے کنارے جانا اور دیر مت لگانا جلدی لوٹ کر آنا ۔ کھیلتے ہوئے مت جانا۔یہ بزرگوں کی باتیں تھیں جو آج یاد آتی ہیں۔ خیر لو چلتی دوپہر میں ہم اور ببو کنڈیا تھامے گلی میں نکلے اور دادا خاص انداز میں یہ سب باتیں کہتے رہے ہم نکل کر گلی کے نکڑ سے مڑ گئے۔ جیسے ہی گلی سے مڑے نظر ٹیپو پر پڑ گئی بس ہماری شرارت کی رگ پھڑکنے لگی بازار جاتے ہوئے کھیلنے کے لئے جھنجھنا مل گیا تھا۔ ٹیپو نے بھی ہمیں دیکھ لیا اور انکی پوری بتیسی کھل گئی۔ " بھائی!!! بھائی بب بازار چَلَّئے ہو! " "ہاں!! آؤ بازار چل رہے ہو چلو آؤ" " ہاں بائ!! آلا ہوں" ٹیپو نے چیختے ہوئے کہا اور جلدی جلدی تیزی سےقدم بڑھاتے ہوئے ہمارے پاس آگئے۔ ٹیپو بڑے خوش تھے بڑے ہنس رہے تھے جیسے ان کو ان کی مرغوب شئے مل گئی ہو۔ بالکل بچوں کی طرح خوش، ایسی معصومیت کہ بیان سے باہر ہے۔
ٹیپو وہی میلے کچیلے، پائجامہ کا ایک پائنچہ اوپر چڑھا ہوا ایک ٹخنے تک لٹکتاہوا۔ ایک پیر میں پلاسٹک کی کالی بڑی سی چپل دوسرے چھوٹی سی عجیب ہئیت تھی۔ اتنے امیر لوگ اور نوکر کو ایک جوڑی چپل بھی ڈھنگ کی نہیں دلا سکتے۔ یہ سوچ کر مجھے بڑا رنج ہوتا تھا۔
اس زمانے میں سڑکوں پر دیوانے، پاگل مجذوب وغیرہ راستے میں بہت ملتے تھے۔ ان سے عجیب کہانیاں جڑی ہوتی تھیں۔ جنھیں سن کر ایک ہیبت ہوجاتی اور ڈر لگتا تھا۔ سبزی منڈی اور ہمارے گھر کے درمیان کئی پاگل ملا کرتے تھے۔ ایک بابو پاگل تھا بڑا گھناونا سا سر اور ڈاڑھی کے بڑھے بال اس کو سب بابو پاگل کہتے کچھ عقلمند بوڑھے کہتے وہ سی آئی ڈی کا آدمی ہے۔ ایک ننُّو دہی کا لپسی تھے ان کی عجب کہانی تھی بہت خوبصورت آدمی تھے ایک بار کلکتہ گھومنے چلے چار پانچ مہینے بعد واپس آئے تو لوگوں کو جتانے کے لئے کہ وہ کلکتہ گھوم کر آئے ہیں ٹیڈی پینٹ(اس زمانے پتلی مہری اور ٹائٹ پینٹ کو ٹیڈی پینٹ کہتے تھے. شرفاء کے خاندان میں ٹیڈی پینٹ پہننا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا) گلے میں رومال باندھے ہوئے محلے کی حلوائی کی دوکان پر جاکر بولے۔ لَلّو بھائی ہم کو ایک دہی کا لپسی(لسی) مانگتا۔ بس اس دن سے پورے شہر میں نَنُّو دہی کا لپسی ہوگئے اور لوگوں پر غصہ کر کر کے دیوانے ہوگئے۔ ایک پاگل تھا ٹھگنا سا ہاف آستین کی شرٹ اور خاکی بڑا سے نیکر پہنے۔ آنکھیں ڈھیری بڑی خطرناک لگتی تھیں۔ وہ کیا کرتا تھا کہیں چھپا ہوا کرتا تھا۔ بس ایک دم نکلتا اور پیچھے آکر بڑی بھیانک آواز میں کھی کرتا اور پھر جب کوئی ڈر کے بھاگتا تو دو تین بار پھر کھی کرتا اور پھر وہ وہیں کھڑا ہوا کسی جانور کی طرح کھڑا ہوا غرَّاتا رہتا اور پھر اچانک بےہوش ہوجاتا اور زمین پر چت گر جاتا اور اس کے منہ سے بہت سے جھاگ نکلتے رہتے۔ گھنٹوں بعد ٹھیک ہوجاتا پھر نا جانے کہاں چلا جاتا۔
ہم لوگ لو کی گرمی میں تفریح ہنسی مذاق کرتے ہوئے بازار کی طرف جارہے تھے۔ کبھی ٹیپو کے چپت لگادی۔ "بھائی بائی کون مالا۔ " "ارے پگلے ہو ٹیپو کون مارے گا" " نئیں!! نئیں! بائ سچی، کوئی مالا میلی چاند پے" ٹیپو کہتے۔ " اماں ہاں ٹیپو گپ مار رہے ہو کون مارے گا ہم تو تمہارے ساتھ چل رہے ہیں" " الے سچ کہہ لا ہوں" "اماں ہاں یار ٹیپو چھوڑو" ٹیپو خاموش ہوجاتے۔ چلتے چلتے پھر شرارت ہوجاتی۔ " دیکھو بھائی بائ پھل چاند پے مالا" "ارے کون مار رہا ہے یار ٹیپو کیا کوئی بھوت ووت آگیا ہے کیا" "الے بھگ!! بھوت لات مین آتا ہے۔ تم مال لے ہو جھوٹ مت بولو" ٹیپو بالکل معصوم بچوں کی طرح کہتے۔ ہم ہنستے تو اب ٹیپو ہم سے زیادہ ہنس رہے ہیں۔ سڑک پر چلتے چلتے یہ سب شرارتیں کرتے ہوئے ہم سبزی منڈی کے طرف بڑھ رہے تھے۔ سرائے خام سے تھوڑا آگے بڑھ کر بتاشے والی گلی کے پاس ایک چھوٹا سا چوک تھا اس کے تین طرف دوکانیں تھیں۔ وہیں ایک ٹھیلے والا بڑے سے ڈرم میں چسکی والی برف لئے کھڑا تھا۔ اس وقت ٹھیلوں پر جمی ہوئی سنترے کے ذائقے والی برف کے ٹھیلے جگہ جگہ کھڑے ہوتے تھے مٹی کی چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں اوپر تک برف بھرکر پانچ پیسے کا ملتا تھا بہت مزہ آتا تھا اس کو چوسنے میں۔ ہم لوگ اس ٹھیلے پر برف کھانے کے لیے رک گئے۔ ہم لوگوں نے اپنے لیے پیالی لی ایک پیالی ٹیپو کو لیکر دی۔ ابھی ہم پیسے دے ہی رہے تھے کہ کھی پتہ نہیں کہاں سا آگیا اور اس نے جو ٹیپو کے پیچھے آکر ڈراونے انداز میں زور سے کھی کیا۔ ہم تو ﷲ ﷲ کہتے ہوئے چیخ کر جو بھاگے تو ہماری پیالی گر گئ ہم تو ایک دوکان میں گھس گئے بَبُّو بتاشے والی گلی کی طرف بھاگ گئے۔ ٹیپو بیچارے چیختے ہوئے بھائی بھائی کہتے ہوئے ایک اونچی سی دوکان کے باہر نکلے ہوئے لینٹر کے نیچے گھس گئے۔ اس کے نیچے نالی بہہ رہی تھی۔ ٹیپو جو لینٹر کے نیچے گھسے جگہ کم تھی پتہ نہیں پائنچہ الجھ گیا یا سیدھے پیر کی بڑی چپل سے پھسل گئے ٹیپو نالی ایسے گرے جیسے کسی جگہ پالتی مار کر بیٹھے ہوں۔ ادھر برف والا اپناٹھیلا چھوڑ کر دور سے کھی کو کہہ ہٹ ہٹ کھی اب وہاں کھڑا ہوا غُرَّا رہا تھا چوک پر سارے دوکاندار نکلے ہوئے چلاَّ رہے تھے۔ ارے یار کچھ نہیں کرے گا وہ ابھی چلا جائے گا۔ ہم دوکان میں سے جھانک رہے تھے ڈر کے مارے برا حال تھا بَبُّو بتاشے والی گلی میں کھڑے اپنی برف چوس رہے تھے۔ آخر کھی دھڑ سے زمین پر گر کر بےہوش گیا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ ہم سے دوکاندار نے کہا جاؤ گھر جاؤ اب کچھ نہیں کرے گا بَبُّو بھی پاس میں آگئے۔ ٹیپو لینٹر کے نیچے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا ٹیپو باہر آجاؤ اب ٹیپو سے اٹھا نا جائے۔ ایک تو وہ تھے ہی میلے کچیلے دوسرے نالی میں گر گئے ان کے پیچھے سے سارے کپڑے کیچڑ میں روند گئے۔ بَبُّو نے انکا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا وہ جو اٹھے تو سر لینٹر سے ٹکرا گیا۔ "ﷲ ﷲ مل دیا!! آئے آئے سل میں توت لگ گئی" ٹیپو چلا چلا کر رونے لگے۔ باہر نکلے تو عجیب حالت تھی۔ پورا پائجامہ کیچڑ میں روندا ہوا ٹیپو رو رہے۔ سارے دوکاندار ہنس رہے ایک عجب سماں تھا کوئی کہنے لگا۔ بیٹا ان کو گھر پہنچا دو۔ ہم کہاں سے گھر پہنچا دیں ہمیں اپنی فکر لگی سودا لینا ہے۔ ہم نے ٹیپو گھر جاؤ کپڑے بدل کر سودا لینا۔ " میں نئیں جاؤں گا گھل ڈاٹر صاب مالیں گے" ابے تو ہم کیا کریں کوئی ہم نے گرایا ہے۔ تم اپنے آپ تو گرے نالی میں۔ ہم نے ٹیپو کو گھڑکی دی۔ ٹیپو ڈر گئے۔ روتے ہوئے برَّاتے ہوئے واپس چل دئیے "میں ڈاٹر صاب سے شکات کلوں گا"۔ ہم ہنستے ہوئے سبزی منڈی کی طرف چلے گئے۔ سودا لے کر گھر لوٹے تو دیر ہوگئ تھی۔ ہماری پیشی دادا کے سامنے ہوگئ ہم نے کھی کی ساری کہانی دادا کو بتا دی دادا خاموش ہوگئے۔ ٹیپو کا کچھ پتا نہیں چلا کیا ہوا۔ دو تین دن بعد ٹیپو باہر مسجد کے پاس ملے۔ ہم ٹیپو کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ ٹیپو ہمیں گھورتے ہوئے بولے۔ " ابھی ابھی ڈاٹر صاب کو بلا تے لا لوں وہ تمالی پٹائی لگائنگے" اور ٹیپو تیزی سے لال کوٹھی کی طرف چلے گئے اور ہم ہنستے ہوئے اپنے گھر
No comments:
Post a Comment