Sunday, May 23, 2021

'Khuda Sab Dekh Raha Hai' by Khan Farheen Rifat


خدا سب دیکھ رہا ہے



        

 عصر کی اذان سُن کر نورعالم گھر سے نکلا اور مسجد کی طرف چل پڑا۔ گلی کے کونے سے مڑتے ہوئے اُسکے کانوں میں اک آواز ٹکرائی، "اِس لاک ڈاؤن میں کوئی نوکری بھی نہیں دے رہا کہاں سے لاؤں پیسے، بنا سحری کے روزہ تو رکھ لیا مگر افطاری کہاں سے لاؤں؟" گلی کے کونے میں ایک بوسیدہ مکان تھا۔ اس میں ایک غریب میاں بیوی رہتے تھے یہ آواز اُنہی کے گھر سے آ رہی تھی۔ پھر اس کی بیوی نے کہا،" کورونا کی وجہ سے اب لوگ گھروں میں کام نہیں کرواتے ورنہ میں ہی کُچھ کرتی۔" نورعالم نے اُن دونوں کی باتیں سنی اور آگے بڑھ گیا۔ لیکن اُس کے کانوں میں بار بار ان کی باتیں گونج رہی تھیں۔ وہ نماز پڑھ کر واپس آیا اور سیدھا اپنے کمرے میں گیا، اور سارا جمع کیا ہوا پیسہ جو اُس نے نیا سیل فون خریدنے کے لئے جمع کیا تھا،سارا پیسہ اپنی رومال میں باندھا اور گھر سے نکل گیا۔ اُس نے بازار سے کُچھ افطاری کا سامان خریدا اور اُن کے گھر آکر دروازے پر دستک دی۔ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے دروازہ کھولا۔ نورعالم نے کہا۔ "یہ افطاری کے کُچھ سامان اور چند پیسے رکھ لیجئے۔" وہ آدمی جھکجھکاتے ہوئے بولا،" آپ کون اور یہ سب کی کیا ضرورت تھی۔" نورعالم نے کہا،" میں اِس گلی کے آگے اُس مکان میں رہتا ہوں،آپ کا پڑوسی، اور مسلمان،مسلمان کا بھائی ہوتا ہے اِس لحاظ سے آپ کا بھائی بھی ہوں۔" وہ آدمی ذرا سا مسکرایا اور شکریہ ادا کرکے اسے دعائيں دینے لگا اور خدا کا شکر ادا کرکے گھر میں چلا گیا۔

 جب وہ پیسے لے کر گھر سے نکل رہا تھا تبھی بڑے بھائی نے اسکا تعاقب کیا اور جب انہوں نے یہ دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ جب گھر میں یہ بات بتائی تو امّی کو اپنے بیٹے اور بہت ناز ہوا اور ابّو کا سر فخر سے اونچا ہوگیا کہ کسطرح سے خاموشی سے انکے بیٹے نے ایک ضرورت مند کی مدد کی اور انسانیت اور ہمدردی کا جذبہ دکھایا۔

  " مدد کیجئے، ضرورت مندوں کی، غریبوں کی،اور سب سے بڑھ کر اُن لوگوں کی جو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرمندہ ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ خاموشی سے مدد کیجئے کیوں کہ" خدا سب دیکھ رہا ہے۔"

 

✍🏻 خان فرحین رفعت

      ممبئی

 

Thursday, May 20, 2021

Latest Article by Iftekharuddin Anjum, Pakistan

 *برصغیر کی دونوں ایٹمی طاقتیں کرونا کے آگے بے بس کیوں؟؟

تحریر:  افتخار الدین انجم


Email: iftikharuddin467@gmail.com



برصغیر جو بعد تقسیم ہندوستان و پاکستان بن گیا ہر طرح کے قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال خطے ہیں مگر بدقسمتی سے دونوں ممالک کی عوام کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ان دونوں ممالک کے انفرادی رقبے کے عشرہ عشیر بھی نہیں اپنی جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں ان دونوں ممالک سے کئی گنا آگے ہیں۔ بیلجیم، ناروے،آئرلینڈ، ہالینڈ جیسے کئی ممالک جو ہندوستان اور پاکستان کے ایک صوبے کے برابر بھی آبادی و رقبہ نہیں رکھتے مگر ترقی کے میدان میں ان دونوں ممالک سے کوسوں آگے ہیں اور کئی گناہ زیادہ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔

جبکہ وسائل کی بات کی جائے تو وسائل میں ان دونوں ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔کسی ملک کے پاس اپنی ذاتی بندرگاہ نہیں تو کسی کو گرم پانیوں میں دسترس نہیں تو کسی کے پاس سال بھر میں صرف دو ہی موسم ہوتے ہیں اور کئی ممالک ایسے بھی ہیں دنیا میں جن کے پاس اپنی آرمی تک موجود نہیں۔مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان جسے برصغیر کے زمانے میں یعنی تقسیم سے پہلے وسائل کے لحاظ سے سونے کی چڑیا کے نام سے مغرب موسوم کیا جاتا تھا۔کیا آپ نے سوچا تقسیم کے بعد وہ سونے کی چڑیا کہاں اڑ گئی؟ یقینا انہیں دونوں ممالک میں بٹ گئی انہیں دونوں ممالک کے پاس ہے وہ سونے کی چڑیا آج بھی ہماری زمینیں دنیا بھر میں سب سے بہترین اور زیادہ زرخیز تصور کی جاتی ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا وسیع و عریض زرخیز میدانی علاقہ موجود ہے،ہمارے پاس جنگلات کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

ہمارے پاس بہترین صحرا ہیں،ہمارے پاس گلیشرز اور بلند و بالا پہاڑوں کے ہمالیائی سلسلے ہیں،ہمارے پاس گرم پانی کی کئی بندرگاہیں ہیں۔ہمارے پاس ہر طرح کی معدنی دولت ہے مگر کیا وجہ ہے ہم آج بھی ترقی میں ان مفلوک الوسائل ممالک سے پیچھے ہیں جن کے پاس ہماری نسبت آدھے وسائل بھی نہیں کیا کبھی سوچا آپ نے؟

آئیے دیکھتے ہیں ہم کیوں غریب ہیں؟ جس ملک کے پاس اپنی عوام کے لیے پینے کو صاف پانی دینے کے وسائل نہیں وہ کروڑوں کا غوری بنا رہا ہے۔جس ملک کی آدھی سے زائد عوام کے پاس شوچالے(واش روم) نہیں وہ کئی ہزار کروڑ کا اگنی بنا رہا ہے۔جس ملک کا غریب اپنی چار بیٹیوں کو عید کے کپڑے مانگنے پر ندی برد کر رہا وہ کئی ارب کے جے ایف 17 تھنڈر بنا رہا ہے۔

جس ملک(ہندوستان) کے اعداد و شمار کے ادارے این سی آر بی کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق ہر روز 381 افراد خودکشی کرتے ہیں یعنی ہر چار منٹ بعد ایک شخص خودکشی کرتا اور وجہ کیا ہے غربت۔وہیں ملک کئی ارب ڈالر کے رافیل طیارے خرید رہا ہے۔کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے پاس آج کرونا سے لڑنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ پاکستان اور بھارت دنیا کی دو ایسی ایٹمی طاقتیں ہیں جن میں سے ایک کے پاس کرونا ویکسین نہیں ہے تو دوسرے کے پاس آکسیجن سلنڈرز مقفود ہیں جبکہ دونوں نے آخری مزائل تجربہ غالباً اسی ماہ کیا ہے۔معلوم یہ پڑا کہ ہماری ترجیحات میں انسانیت اور عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ انسانیت کی تباہی اور جنگ و جدل ہمارا مقصد اور نصب العین ہے

کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم لوہے اور بارود پر یہ پیسہ خرچ کرنے کے بجائے اپنی اپنی عوام پر خرچ کریں 150 کروڑ لوگوں کو کب عقل آئے گی کہ ہم دونوں ملک اگر یہ پیسہ بارود پر لگانے کے بجائے اپنے لوگوں پر لگائیں تو ہم امریکہ، برطانیہ، چین اور روس جیسے ترقی یافتہ ممالک سے بھی ترقی میں کئی گنا آگے نکل سکتے ہیں دنیا بھر کی معاشی پالیسیوں کے آج ہم غلام بنے ہیں اگر ہم صرف یہ ایک فیصلہ کریں تو تمام دنیا کی معاشی پالیسیاں ہماری غلام بن سکتی ہیں۔

 پاکستان اور بھارت دنیا کی سب سے غریب ترین ایٹمی طاقتیں ہیں جو اپنے دفاع پر تو پیسہ پانی طرح بہائے جارہی ہیں مگر صحت و ترقی پر پیسہ ندارد۔صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک میزائل کم کریں تو کئی گاؤں میں ہم اسی پیسے سے اسکول بنا سکتے ہیں۔ صرف ایک مزائل کے کم کرنے سے ذرا سوچیں!

ہم ایک رافیل کم کر کے کئی یونیورسٹیاں اور ہسپتال بنا سکتے ہیں صرف ایک رافیل کم کرنے سے ذرا سوچیں!۔ایک جے ایف 17 کم کر کے کئی دیہاتوں کو پانی مہیہ کر سکتے ہیں۔صرف ایک جے ایف 17 کم کرنے سے ذرا سوچیں!۔ ہم ایک ارجن ٹینک کم کر کے کئی ہزار شوچالے بنا سکتے ہیں۔صرف ایک ٹینک کم کرنے سے ذ را سوچیں! ہم دونوں ممالک کو من الحثیث القوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں بارود چاہیے یا قلم؟ہمیں ایک روشن مستقبل چاہیے یا جنگوں کی گھن گرج؟

 ہمیں دنیا پر اپنی معاشی برتری قائم کرنی ہے یا دنیا کی معاشی پالیسیز کے رحم و کرم پر رہنا؟ ہمیں دنیا بھر کے اسلحے کا خریدار بن کر انہیں نئی معاشی بلندیوں سے ہم کنار کرنا ہے یا ہمیں دنیا کے بہترین دماغ خرید کر اپنی سائنسی برتری اور معاشی طاقت کا لوہا منوانا ہے۔

کچھ لوگ ہندوستان اور پاکستان کشیدگی پر اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں تو کچھ لوگ بھاری بجٹ لیکر اسلحے کے نام پر پر اپنا کمیشن بناتے ہیں جبکہ یہ لوگ چند سو یا چند ہزار ہی ہیں اور 150 کروڑ لوگوں کو گزشتہ 70 سال سے اسی مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے کہ پاکستان سب سے بڑا دشمن ہے،ہندوستان سب سے بڑا دشمن ہے اور ہم اپنے مستقبل سے بے خبر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جارہے ہیں۔پاکستان سب سے بڑا دشمن نہیں ہے بھوک سب سے بڑی دشمن ہے، غربت سب سے بڑی دشمن ہے۔ 

کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ آپ کو بھی امریکہ اور دیگر ممالک کی طرح جب آپ بیمار ہوں تو آپ کی حکومت مفت علاج کروائے آپ گھر کے تمام اخراجات چلانے کے لیے تادمِ تندرستی وظیفہ مقرر کرے؟ کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ جب آپ کا بیٹا ڈگریاں لینے کے بعد بھی بے روزگار رہے تو آپ کی حکومت دیگر ممالک کی طرح آپ کے بچے کی خوداری برقرار رکھتے ہوئے اسے سکالرشپ مقرر کرئے تاکہ وہ کہیں کوئی غلط کام یا کہیں اپنی عزت نفس کا سودا نہ کر بیٹھے؟

کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ آپ اپنے بچوں کی شادیاں کروانے سے اگر غربت کی وجہ سے قاصر ہیں تو حکومت آپ کی معاونت کریں اور آپ کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے؟کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ آپ اگر اپنے ضعیف العمر والدین کا علاج نہ کر سکیں تو حکومت انکے علاج معالجہ کی ذمہ داری اٹھائے؟کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ جب آپ کی نوکری چلی جائے یا آپ کا کاروبار بند ہو جائے تو آپ کے گھر کا خرچ حکومت چلائے؟

امریکہ، برطانیہ، چین،فرانس،روس جو آپ کو دھڑا دھڑ اسلحہ بیچ رہے ہیں ان سب ممالک میں اپنی عوام کو وہ یہ سب سہولیات دے رہیں۔مگر آپ کو یہ حق یہاں ملا؟نہیں؟وجہ؟ہم ابھی بارود خرید رہے ہیں۔ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا بارود یا قلم۔۔ بارود یا سائنس بارود یا ٹکنالوجی بارود یا عوام کی فلاح و بہبود؟

فیصلہ آپ کا؟  فیصلہ ہندوستان کا!  فیصلہ پاکستان کا!   فیصلہ عوام کا۔


……………………

Monday, May 17, 2021

Palestine, Oh Palestine!! by Moniba

Palestine, Oh Palestine!! 


There is this place
It’s called Palestine
It used to be pretty
And peaceful and lively
The people lived as they do
Everywhere else.

Then there came to be this place
It’s called Israel
Which is basically Palestine
But mercilessly occupied
It attacked Palestine
And took over most of its land.

So now in Palestine
Or what’s left of it
Where there used to be quaint houses
There’s just a lot of rubble
With broken and burnt doors, utensils and limbs
Jutting out from underneath.

Where there used to be bright smiles
That could light up the world
There now are tears,
burn marks and bloodied cuts
That can rend any human heart
Except those that are not human.

It is a war, not between states
Not between races, nor between fates
Nay, this is a bigger war, one of faith
At least, that is how it started
But now, it is between
human and non-human.

Tell me, please
Is it human to **** innocent people
For the sake of self, and the sake of  hate?
Is it human then also, to remain quiet
And watch such tyranny be?
It must also be human, to  point guns at 4 year olds.

And by this definition,
Humans of this world, humans that feel
Are not humans at all, because they care
And those that don’t, well
They’re humans at their prime
The most evolved of them all.

Israel, I salute you, a salute full of mock
At your utter humanity, and benevolence
Your bombs when they land
With the cheers of your people,
And your guns when they point
At 4-year old terrorists; surely they can ****.

Palestine, I stand with you, sincerely
Your children, your people, your land and your peace
Are my children, my people, my land and my peace
Their bombs when they land, make my prayers fiercer
Their guns when they shoot, make my eyes water
But know this, Palestinians, we are one.

So when they shoot you, I bleed
And when they bomb you, I ache
When they hurt you, I feel the pain
And when you cry for help, I pray
We are blood, we are one body
We are the Ummah, we will rise.

Until then we pray, we pray and we try
Dear Palestine, stay strong, stay firm…
Help shall come, in ways unimaginable
Do not weaken, and do not grieve
You will overcome them, if you are true believers

Allah has promised, and His promise he upholds.

~Moniba.
Special thanks to Hello Poetry. Com

'Bhook' by Khan Farheen Rifat

بھوک


     دو دن کی لگا تار بارش نے سارے گاؤں کو پریشان کر رکھا تھا۔ بوڑھے بابا کے گھر کی چھت ٹپ ،ٹپ، ٹپ، مسلسل ٹپک رہی تھی۔ کھانے کے سارے سامان تقریباً ختم ہو چکے تھے۔ کچھ بچے کچے دال چاول ڈبّے میں پڑے ہوئے تھے۔ بوڑھے بابا اور اُن کی بیوی نے سوچا اسے پکا کر کھا لیا جائے، لیکن بارش کی وجہ سے لکڑیاں گیلی ہو چکی تھی اور جلانے کے قابل نہیں تھی۔ بھوک بڑھ رہی تھی۔ انہوں نے سوچا کچّے ہی کھا لیے جائیں تاکہ بھوک کی شدت کم ہوجائے اور پیٹ میں تھوڑی راحت ہو جائے۔ لیکن بڑھاپے میں اُن کے دانت گر چکے تھے اور جو باقی بچے تھے وہ بھی کمزور ہو چکے تھے، سخت چیزیں کھانے میں اُنہیں پریشانی ہوتی۔ پھر بوڑھے بابا کی بیوی نے سوچا اسے پتھر پر پیس کر باریک کیا جائے پھر کھایا جائے لیکن ان بوڑھے ہاتھوں میں اتنا دم کہاں جو پیس سکے۔ بھوک کی شدت بڑھتی ہی گئی۔ پھر انھوں نے سوچا کہ اسے بارش کے پانی میں بھگو کر نرم کر لیا جائے پھر کھایا جائے۔ انہوں نے اناج بارش کے پانی میں بھگو دیا۔

رات بھر بھیگنے کے بعد اناج نرم ہو چُکے تھے، بارش بھی تھم گئی تھی، ہلکی ہلکی سورج کی روشنی اُن کی جھونپڑی کے چھت پر پڑ رہی تھی،لیکن،،، اس بھیگے ہوئے اناج کو کھانے والا کوئی نہیں تھا۔

گاؤں والوں نے اس بھیگے ہوئے اناج کو دور کہیں پہاڈی پر  پھنکوا دیا کیوں کہ گاؤں والوں کا یہ ماننا تھا کہ اسی کو کھا کر ان لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ لیکن یہ کسے پتا تھا کہ اُن کی موت کھا کر نہیں بلکہ " بھوک " سے ہوئی ہے۔


✍️ خان فرحین رفعت

Saturday, May 15, 2021

Main Ghazi Banjau'n Naa!! By Sarfaraz Bazmi

 مسجد اقصی کے تناظر میں یہ نظم  ملت کے معصوموں کی ترجمانی 


پیار سے کہدے چپکے سے ماں ! میں غازی بن جاؤں نا

______________________________________________


ارض    مقدس   ارض  مبارک   ذلت   خوردہ  پیر تلے 

کیا    دیکھوں آباد   سڑک     پر    اوراق    قرآن   جلے

کابل  سے    کشمیر  تلک   معصوموں   پر بندوق چلے

کیسے  دیکھوں خون  برستے   کیسے  دل  بہلاؤں  نا

پیار سے کہدے چپکے سے  ماں میں غازی بن جاؤں نا

               میں غازی بن جاؤں نا


ارض  حرم   للکار   رہی ہے و ارض مقدس   روتی ہے 

خون  کے  آنسو غیرت  مسلم مسجد اقصی روتی ہے 

حفظ  حرم  پر  مرنے   والی   ملت  بیضا   سوتی  ہے 

اپنے  گرم  لہو  سے  ملت   میں  احساس  جگاؤں  نا

ارمانوں کی دنیا چھوڑوں  سپنوں  کو  سمجھاؤں نا

پیار سے کہدے چپکے سے ماں میں غازی بن جاؤں نا

                  میں غازی بن جاؤں نا


وہ   ننھے  غازائی   بچے   شعب  ابی  طالب کے اسیر

مجرم  دنیا  دیکھ  رہی  ہے  بیت   الابیض کی زنجیر

لگنے  لگی  ہے   ساری  دنیا  پانچ  خداؤں   کی جاگیر

کیسے بھولوں کیسے کھیلوں کیسے میں سو جاؤں نا

توڑ  کے  اپنے سارے  کھلونے  ان کی مدد کو جاؤں نا

پیار سے کہدے چپکے سے ماں میں غازی بن جاؤں نا

                  میں غازی بن جاؤں نا


چیچن خوں سے سرخ جزیروں میں ویرانی چھائےگی

کابل  میں  کڑکی   بجلی  بیت  الابیض  تک  جائے گی

شعب  ابی   طالب  سے  گزر   کر   فتح  مکہ   آئے گی

ان شاء اللہ آئے  گی ماں    !     ان  شاء  اللہ  آئے   گی

اپنی  رگوں کے پاک  لہو  سے  جبر کی آگ  بجھاؤں نا 

پیار سے کہدے چپکے سے  ماں میں غازی بن جاؤں نا

                 میں غازی بن جاؤں نا


بارودوں  سے  جلتے  بدن  کی جب میدان سے بو آۓ

مظلوموں  کی  آہوں  سے  جب  عرش الٰہی  ہل جاۓ

معصوموں کی  جلتی لاشیں  دیکھ کے دھرتی تھراۓ

"خذهم اخذ عزيز"   کہہ کر   تو  سجدے میں گرجاۓ

سبز  پرندہ   بن   جاؤں  میں  جنت  کو   اڑ جاؤں  نا

پیار سے کہدے چپکے سے  ماں میں غازی بن جاؤں نا

                    میں غازی بن جاؤں نا


آنکھ  نہ  اپنی  بھرنے  دینا  لاش  مری  جب  گھر آئے

ٹکڑے  ٹکڑے  دیکھ کے مجھ کو جب تیرا دل  بھر آیے

میرے  لہو  کا  قطرہ  قطرہ  حفظ  حرم  کے   کام آئے

اس سے بڑھ کر اس دنیا  میں اور سعادت بھی کیا ہے 

خلد  بریں  سے  پست  زمیں  کو دیکھوں نا اتراؤں نا

پیار سے کہدے چپکے سے ماں میں غازی بن  جاؤں نا


                   سرفراز بزمی

                راجستھان بھارت

Wednesday, May 12, 2021

''IDENTITY CARD' by MEHMOOD DERVESH (Palestine): Urdu Translation by Hammad Niyazi, Lahor

شناخت نامہ
 
 
لکھو
!!
میں عرب ہوں
 
اور میرا شناختی نمبر پچاس ہزار ہے
 
میرے آٹھ بچے ہیں
 
اور  گرمیوں کے بعد  نواں ہوگا 
 
کیا تم غضبناک ہو گے؟
 
لکھو
 
میں عرب ہوں
 
میں ایک کان میں مزدوری کرتا ہوں
 
 ہمراہ دوست کارکنوں کے
 
آٹھ بچے ہیں میرے
 
مہیا کرتا ہوں میں انہیں
 
چٹانوں سے
 
 روٹی،لباس اور کتابیں 
 
میں منت سماجت نہیں کرتا تمہارے دروازوں پر
 
بھیک اکٹھی کرنے کے لیے
 
نہ خود کو زلیل کرتا ہوں
 
تمہارے ایوانوں کے چوکھٹ پر
 
تو کیا غضبناک ہو جاؤ گے تم؟
 
لکھو
 
میں عرب ہوں
 
میری ایک شناخت  ہے بغیر کسی نام کے
 
ضبط کیے ہوئے ہوں ایک سرزمین پر
 
خود کو طیش زدہ لوگوں کے درمیان
 
میری  جڑیں پھیل چکی تھیں
 
وقت کی  نمود اور قرن نمائی سے پہلے
 
زیتوں اور انناس کے بور اور سبزے کی دمیدگی سے قبل
 
میرا باپ ہاریوں کی قبیل سے ابھرا
 
طبقہ جلیل سے نہیں
 
 
اور میرا دادا دہقان تھا
 
نہ ٹھیک سے جنما نہ ٹھیک سے پلا
 
مجھے پڑھایا جاتا ہے سورج کا غرور
 
قرات سیکھنے سے پہلے
 
 میرا گھر ہے پہرےدار کے جھونپڑے کے مانند
 
بانس اور شاخچوں سے   تعمیر شدہ
 
کیا یہ تعارف کافی ہے تمہارے لیے؟
 
میری ایک شناخت ہے بغیر کسی نام کے
 
لکھو
 
میں عرب ہوں
 
چوری کر لیے ہیں تم نے میرے اجداد کےباغات
 
اور وہ کھیت  جنہیں میں نے زرخیز رکھا
 
اپنی اولاد کے ساتھ
 
اور تم نے کچھ نہیں چھوڑا ہمارے لیے
 
ان چٹانوں کے سوا
 
تو کیا ریاست  قابض ہو جائے گی ان پر
 
جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے؟
 
خیر
!!
 سرنامے پر تحریر کر دو
 
میں عداوت نہیں کرتا
 
نہ مداخلت کرتا ہوں
 
لیکن جب مجھے بھوک لگی
 
تو میں نوچ کھاؤں گا غاصبوں کا ماس۔۔۔۔
 
آگاہ رہو
 
خبردار رہو
 
میری بھوک سے
 
اور میرے غصے کی تھوک سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
محمود درویش ؛ فلسطین
ترجمہ :حماد نیازی
 
 
''IDENTITY CARD'
 
Write down !
I am an Arab
And my identity card number is fifty thousand
I have eight children
And the ninth will come after a summer
Will you be angry?
.
Write down!
I am an Arab
Employed with fellow workers at a quarry
I have eight children
I get them bread
Garments and books
from the rocks..
I do not supplicate charity at your doors
Nor do I belittle myself at the footsteps of your chamber
So will you be angry?
.
Write down!
I am an Arab
I have a name without a title
Patient in a country
Where people are enraged
My roots
Were entrenched before the birth of time
And before the opening of the eras
Before the pines, and the olive trees
And before the grass grew.
My father.. descends from the family of the plow
Not from a privileged class
And my grandfather..was a farmer
Neither well-bred, nor well-born!
Teaches me the pride of the sun
Before teaching me how to read
And my house is like a watchman's hut
Made of branches and cane
Are you satisfied with my status?
I have a name without a title!
.
Write down!
I am an Arab
You have stolen the orchards of my ancestors
And the land which I cultivated
Along with my children
And you left nothing for us
Except for these rocks..
So will the State take them
As it has been said?!
.
Therefore!
Write down on the top of the first page:
I do not hate poeple
Nor do I encroach
But if I become hungry
The usurper's flesh will be my food
Beware..
Beware..
Of my hunger
 And my anger!
 
---------------
MEHMOOD DERVESH

Sunday, May 9, 2021

Allah Ki Makhlooq by Kausar Hayat

 اللہ کی مخلوق 


    ازقلم: کوثر حیات۔اورنگ آباد


        فلک بے صبری سے گرما کی چھٹیوں کا انتظار کررہی تھی ۔ابا جی نے کہا تھا اس بار چھٹیوں میں خالہ بی کے یہاں جاے گے۔خالہ بی کا گھر  کچا چھپر والا تھا مگر ان کا صحن بہت بڑا تھا۔فلک کی سب سے پسندیدہ جگہ وہی صحن ہوتا اسے یاد آیا جب رانی آپی اور بسمہ کے ساتھ وہ صحن میں گھروندا بناتی اور چھوٹے چھوٹے مٹی کے برتن بھی بڑا مزہ آتا۔
رانی اور بسمہ امی کی بڑی بہن کی بیٹیاں تھی ان کا گھر نانا کے گاؤں میں ہی تھا اور فلک کے ابو شہر میں کام کرتے اس لیے وہ اور اس کی امی شہر میں ہی رہتے تھے مگر گاؤں کا کھلا صحن فلک کو اکثر یاد آتا۔اسی لیے ابا جی کے بولتے ہی وہ خوش ہو گئ اور جلدی سے خالہ بی کے گھر جانے کی تیاری کرنے لگی۔
          امی جان ہم کب جانیں گے رانی آپی اور بسمہ کے پاس اس نے معصومیت سے پوچھا ۔امی بولیں کل تمھارے ابا کام سے آجانے کے بعد ہم رات کو بس سے جائیں گے ۔فلک خوشی خوشی اپنی گڑیا کے بال بنانے لگی۔
بس میں سارا وقت اس کی نظریں خالہ بی کا گھر تلاش کر رہی تھیں۔ کہ کب میں وہاں پہنچ جاؤں۔
بس سے اتر کر ابا نے  سائیکل رکشہ والے کو پتہ بتایا اور اس پر تینوں بیٹھ گئے ۔
گھر پہنچتے ہی فلک دوڑ کر خالہ بی سی لپٹ گئی رانی آپی اور بسمہ اندر سے دوڑ کر آگئے ۔دوسرے دن صبح ہی سے تینوں نے صحن میں ڈیرا ڈال دیا اور ان کے کھیل شروع ہوگۓ۔رانی آپی اور فلک گھروندا بنانے بیٹھی ہی تھی کہ بسمہ فلک کو کھینچ کر لے گئ آؤ فلک یہ دیکھو چڑیا کا انڈا گھونسلے کی طرف انگلی سے اشارہ کرکے بسمہ بولی۔چھوٹا سا انڈا فلک غور سے اور خوشی سے دیکھنے لگی۔اب تو روز ان کا معمول بن گیا اٹھتے ہی چڑیا کے گھونسلے کی طرف دوڑ پڑتی اور انتطار کرتی چھوٹی سی چڑیا کو دیکھنے کا۔
خالہ بی نے بتایا تھا اس انڈے سے چھوٹی سی چڑیا نکلے گی اسے ہاتھ نہ لگانا ۔روز  کھیلتے ہوئے بار بار فلک گھونسلے کے پاس جاتی کہ کب وہ بچہ انڈے سے باہر آے گا اور وہ اسے دیکھے گی۔
ایک دن جب وہ صبح اٹھی رانی آپی  اس کا ہاتھ پکڑ کر گھونسلے کے پاس لے گئ اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا چڑیا گھونسلے میں ننھی سی چڑیا کے منہ میں کچھ ڈال رہی تھی۔فلک آنکھیں بڑی کرکے دیکھنے لگی ننھی چڑیا اس کی ماں کا دیا دانہ اپنی چونچ میں پکڑ لیتی اسی طرح چڑیا اونچا اڑتی پھر کچھ منہ میں دباکر گھونسلے کی طرف اڑتی ہوئی  آتی ۔ نھنی چڑیا اپنا منہ کھول کر اوپر کرلیتی یہ نظارہ فلک بڑے شوق سے دیکھتی۔اب تو روز کا معمول ہوگیا صبح اٹھتے ہی فلک اور بسمہ نھنی چڑیا کے پاس پہنچ جاتیں اور بڑی دلچسپی سے چڑیا کو دیکھتی اس کا بار بار اڑ کر دانہ تلاش کرکے لانا اور اپنے بچہ کی کھلی ہوئی چونچ میں ڈال دینا۔
چند دنوں بعد ایک دوپہر موسم ٹھنڈا تھا  زور کی ہوا چلی اور چڑیا کا بچہ گھونسلے سے صحن میں گر پڑا فلک پاس ہی تھی اس پر نظر پڑتے ہی ننھی چڑیا کو اپنے چھوٹے سے ہاتھ پر اٹھاکر رکھا ۔چڑیا بڑی خوبصورت تھی اس کی چونچ کے پاس کا حصہ پیلا تھا وہ باربار اپنا منہ کھولتی۔فلک نے اس پر دھیرے سے ہاتھ پھیرا ۔ بسمہ کو آواز دی۔ بسمہ ننھی چڑیا کو فلک کے ہاتھ پر دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی اور ہاتھ لگاکر خوشی سے بولی اب ہم کیا  کریں گے ۔
فلک بولی تم کوئی ڈبہ لے آؤ ہم اپنی چڑیا کو اس میں رکھیں گے۔بسمہ اندر سے ایک ڈبہ لے آئئ دونوں نے اسے بڑی احتیاط سے اندر رکھا یہ کام دونوں بڑی خاموشی سے کر رہی تھی کیونکہ دوپہر کا وقت تھا گھر میں سبھی سوۓ ہونے تھے کوئی بڑا جاگ نہ جاۓ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے دونوں نے اس ڈبے کو جھاڑ کے نیچے رکھ کر اس پر ایک کاغذ ڈھانک دیا اور وہیں بیٹھ گئیں۔
دوپہر سے شام ہوگئی دونوں وہی بیٹھی رہیں ۔ دونوں کو بلانے رانی آپی صحن میں آئی ۔رانی آپی نے دیکھا چڑیا دونوں کے سر کے اوپر گول گول چکر لگارہی ہے ایسا لگ رہا تھا وہ تڑپ کر بے چینی سے دونوں کے گرد گھوم کر کچھ تلاش کر رہی ہے۔ چڑیا کو اس طرح دیکھ وہ پریشان ہوکر اپنی امی کو آواز دینے لگی ۔خالہ بی باہر آئیں اور فلک کے قریب جاکر دیکھا وہ دونوں ہاتھوں سے ڈبے کو ڈھانپنے کی کوشش کررہی تھیں۔
خالہ بی سمجھ گئیں۔ اس ڈبے میں چڑیا کا بچہ ہے اور اس کے ماں تڑپ کر ان کے سر پر گھوم رہی ہے تاکہ اپنے بچہ کو آزاد کراے ۔خالہ بی  دونوں کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے اٹھا لائی اور اس بچہ کو ڈبہ سے نکال کر جھاڑ کے آلے میں رکھ دیا ۔
فلک منہ بسور کر رونے لگی  خالہ بی میری چڑیا مجھے دے میں اسے پنجرہ میں پالونگی۔ابا سے کہہ کر اچھا سا پنجرہ منگواؤں گی۔
فلک کے رونے کی آواز سن کر سبھی صحن میں جمع ہوگئے۔
ابا جی اور امی فلک کو سمجھانے لگے کہ بچہ کو ماں سے دور کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اسے ہمارےپیارے نبی کریم نے بھی پسند نہیں کیا ہے۔
ابھی وہ سمجھارہے تھے کہ خالہ بی نے فلک کو قریب لیکر بتایا غور سے دیکھو چڑیا اپنے بچے کو اڑنے کے لیے تیار کر رہی ہے یہ سن کر فلک بول پڑی بھلا اتنی چھوٹی سی چڑیا کیسے اڑ پاے گی۔
ابھی فلک کا سوال ختم ہی ہوا تھا کہ چڑیا کا بچہ اپنے گرد اڑتی ہوئی اپنی ماں کو دیکھ کر اپنے پر پھیلائے لگا اور اڑان بھر کر تھوڑا سا پھدکا یہ دیکھ فلک اور بیمہ ہنس پڑی۔
پھر کیا تھا بچوں کے ساتھ ساتھ صحن میں موجود سبھی لوگ غور سے چڑیا اور اس کے بچے کو دیکھنے لگے ۔چڑیا اڑتے ہوے قریب کی ڈالی پر جاتی پھر اوپر اڑ جاتی اسے دیکھ بچہ اس قریب کی ڈالی تک اڑان بھرتا اس طرح تھوڑا تھوڑا کر کے بچہ جھاڑ کی بڑی ڈالی تک پہنچ گیا پھر چڑیا اپنے گھونسلے کے قریب گئی اسے دیکھ بچہ بھی اڑا آخر کار گھونسلے تک پہنچ گیا ۔ابا جی بولے  ماں کی تڑپ اور بچہ کی کوشش نے  بچہ کو بچالیا اور اڑنا بھی سکھا دیا۔چڑیا کے بچہ کو اڑتا دیکھ کر بچے خوش ہوگۓ ۔ابا جی نے تینوں بچیوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا اللہ اپنی کسی مخلوق کو بھی تکلیف دینے والے کو پسند نہیں فرماتے اس لئے ان بے زبان پرندوں اور جانوروں سے ہمیں ہمدردی کا رویہ رکھنا چاہئے نہ کہ انہیں تکلیف دیکر ان پر ہنسا چاہیے ۔یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ اس بات کو  فلک ۔رانی آپی اور بسمہ نے سمجھ لیا اور اپنا سر ہلا کرر ابا جی سے وعدہ بھی کیا کہ ہم کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچایں گے۔وہ سمجھ گئے کہ بچہ ماں کے ساتھ ہی خوش رہ سکتا ہے ۔۔نہ کہ پنجرے میں۔