عصر کی اذان سُن کر نورعالم گھر سے نکلا اور
مسجد کی طرف چل پڑا۔ گلی کے کونے سے مڑتے ہوئے اُسکے کانوں میں اک آواز ٹکرائی،
"اِس لاک ڈاؤن میں کوئی نوکری بھی نہیں دے رہا کہاں سے لاؤں پیسے، بنا سحری
کے روزہ تو رکھ لیا مگر افطاری کہاں سے لاؤں؟" گلی کے کونے میں ایک بوسیدہ
مکان تھا۔ اس میں ایک غریب میاں بیوی رہتے تھے یہ آواز اُنہی کے گھر سے آ رہی تھی۔
پھر اس کی بیوی نے کہا،" کورونا کی وجہ سے اب لوگ گھروں میں کام نہیں کرواتے
ورنہ میں ہی کُچھ کرتی۔" نورعالم نے اُن دونوں کی باتیں سنی اور آگے بڑھ گیا۔
لیکن اُس کے کانوں میں بار بار ان کی باتیں گونج رہی تھیں۔ وہ نماز پڑھ کر واپس
آیا اور سیدھا اپنے کمرے میں گیا، اور سارا جمع کیا ہوا پیسہ جو اُس نے نیا سیل
فون خریدنے کے لئے جمع کیا تھا،سارا پیسہ اپنی رومال میں باندھا اور گھر سے نکل
گیا۔ اُس نے بازار سے کُچھ افطاری کا سامان خریدا اور اُن کے گھر آکر دروازے پر
دستک دی۔ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے دروازہ کھولا۔ نورعالم نے کہا۔ "یہ افطاری
کے کُچھ سامان اور چند پیسے رکھ لیجئے۔" وہ آدمی جھکجھکاتے ہوئے بولا،"
آپ کون اور یہ سب کی کیا ضرورت تھی۔" نورعالم نے کہا،" میں اِس گلی کے
آگے اُس مکان میں رہتا ہوں،آپ کا پڑوسی، اور مسلمان،مسلمان کا بھائی ہوتا ہے اِس
لحاظ سے آپ کا بھائی بھی ہوں۔" وہ آدمی ذرا سا مسکرایا اور شکریہ ادا کرکے
اسے دعائيں دینے لگا اور خدا کا شکر ادا کرکے گھر میں چلا گیا۔
جب وہ پیسے لے کر گھر سے نکل رہا تھا تبھی بڑے بھائی نے اسکا تعاقب کیا اور
جب انہوں نے یہ دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ جب گھر میں یہ بات بتائی تو امّی کو اپنے
بیٹے اور بہت ناز ہوا اور ابّو کا سر فخر سے اونچا ہوگیا کہ کسطرح سے خاموشی سے
انکے بیٹے نے ایک ضرورت مند کی مدد کی اور انسانیت اور ہمدردی کا جذبہ دکھایا۔
" مدد کیجئے، ضرورت مندوں کی، غریبوں کی،اور سب سے بڑھ کر اُن لوگوں کی جو
لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرمندہ ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ
خاموشی سے مدد کیجئے کیوں کہ" خدا سب دیکھ رہا ہے۔"
✍🏻 خان فرحین رفعت
ممبئی