بھوک
دو دن کی لگا تار بارش نے سارے گاؤں کو پریشان کر رکھا تھا۔ بوڑھے بابا کے گھر کی چھت ٹپ ،ٹپ، ٹپ، مسلسل ٹپک رہی تھی۔ کھانے کے سارے سامان تقریباً ختم ہو چکے تھے۔ کچھ بچے کچے دال چاول ڈبّے میں پڑے ہوئے تھے۔ بوڑھے بابا اور اُن کی بیوی نے سوچا اسے پکا کر کھا لیا جائے، لیکن بارش کی وجہ سے لکڑیاں گیلی ہو چکی تھی اور جلانے کے قابل نہیں تھی۔ بھوک بڑھ رہی تھی۔ انہوں نے سوچا کچّے ہی کھا لیے جائیں تاکہ بھوک کی شدت کم ہوجائے اور پیٹ میں تھوڑی راحت ہو جائے۔ لیکن بڑھاپے میں اُن کے دانت گر چکے تھے اور جو باقی بچے تھے وہ بھی کمزور ہو چکے تھے، سخت چیزیں کھانے میں اُنہیں پریشانی ہوتی۔ پھر بوڑھے بابا کی بیوی نے سوچا اسے پتھر پر پیس کر باریک کیا جائے پھر کھایا جائے لیکن ان بوڑھے ہاتھوں میں اتنا دم کہاں جو پیس سکے۔ بھوک کی شدت بڑھتی ہی گئی۔ پھر انھوں نے سوچا کہ اسے بارش کے پانی میں بھگو کر نرم کر لیا جائے پھر کھایا جائے۔ انہوں نے اناج بارش کے پانی میں بھگو دیا۔
رات بھر بھیگنے کے بعد اناج نرم ہو چُکے تھے، بارش بھی تھم گئی تھی، ہلکی ہلکی سورج کی روشنی اُن کی جھونپڑی کے چھت پر پڑ رہی تھی،لیکن،،، اس بھیگے ہوئے اناج کو کھانے والا کوئی نہیں تھا۔
گاؤں والوں نے اس بھیگے ہوئے اناج کو دور کہیں پہاڈی پر پھنکوا دیا کیوں کہ گاؤں والوں کا یہ ماننا تھا کہ اسی کو کھا کر ان لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ لیکن یہ کسے پتا تھا کہ اُن کی موت کھا کر نہیں بلکہ " بھوک " سے ہوئی ہے۔
✍️ خان فرحین رفعت
No comments:
Post a Comment