*برصغیر کی دونوں ایٹمی طاقتیں کرونا کے آگے بے بس کیوں؟؟
تحریر: افتخار الدین انجم
Email: iftikharuddin467@gmail.com
برصغیر جو بعد تقسیم ہندوستان و پاکستان بن گیا ہر طرح کے قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال خطے ہیں مگر بدقسمتی سے دونوں ممالک کی عوام کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ان دونوں ممالک کے انفرادی رقبے کے عشرہ عشیر بھی نہیں اپنی جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں ان دونوں ممالک سے کئی گنا آگے ہیں۔ بیلجیم، ناروے،آئرلینڈ، ہالینڈ جیسے کئی ممالک جو ہندوستان اور پاکستان کے ایک صوبے کے برابر بھی آبادی و رقبہ نہیں رکھتے مگر ترقی کے میدان میں ان دونوں ممالک سے کوسوں آگے ہیں اور کئی گناہ زیادہ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔
جبکہ وسائل کی بات کی جائے تو وسائل میں ان دونوں ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔کسی ملک کے پاس اپنی ذاتی بندرگاہ نہیں تو کسی کو گرم پانیوں میں دسترس نہیں تو کسی کے پاس سال بھر میں صرف دو ہی موسم ہوتے ہیں اور کئی ممالک ایسے بھی ہیں دنیا میں جن کے پاس اپنی آرمی تک موجود نہیں۔مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان جسے برصغیر کے زمانے میں یعنی تقسیم سے پہلے وسائل کے لحاظ سے سونے کی چڑیا کے نام سے مغرب موسوم کیا جاتا تھا۔کیا آپ نے سوچا تقسیم کے بعد وہ سونے کی چڑیا کہاں اڑ گئی؟ یقینا انہیں دونوں ممالک میں بٹ گئی انہیں دونوں ممالک کے پاس ہے وہ سونے کی چڑیا آج بھی ہماری زمینیں دنیا بھر میں سب سے بہترین اور زیادہ زرخیز تصور کی جاتی ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا وسیع و عریض زرخیز میدانی علاقہ موجود ہے،ہمارے پاس جنگلات کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
ہمارے پاس بہترین صحرا ہیں،ہمارے پاس گلیشرز اور بلند و بالا پہاڑوں کے ہمالیائی سلسلے ہیں،ہمارے پاس گرم پانی کی کئی بندرگاہیں ہیں۔ہمارے پاس ہر طرح کی معدنی دولت ہے مگر کیا وجہ ہے ہم آج بھی ترقی میں ان مفلوک الوسائل ممالک سے پیچھے ہیں جن کے پاس ہماری نسبت آدھے وسائل بھی نہیں کیا کبھی سوچا آپ نے؟
آئیے دیکھتے ہیں ہم کیوں غریب ہیں؟ جس ملک کے پاس اپنی عوام کے لیے پینے کو صاف پانی دینے کے وسائل نہیں وہ کروڑوں کا غوری بنا رہا ہے۔جس ملک کی آدھی سے زائد عوام کے پاس شوچالے(واش روم) نہیں وہ کئی ہزار کروڑ کا اگنی بنا رہا ہے۔جس ملک کا غریب اپنی چار بیٹیوں کو عید کے کپڑے مانگنے پر ندی برد کر رہا وہ کئی ارب کے جے ایف 17 تھنڈر بنا رہا ہے۔
جس ملک(ہندوستان) کے اعداد و شمار کے ادارے این سی آر بی کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق ہر روز 381 افراد خودکشی کرتے ہیں یعنی ہر چار منٹ بعد ایک شخص خودکشی کرتا اور وجہ کیا ہے غربت۔وہیں ملک کئی ارب ڈالر کے رافیل طیارے خرید رہا ہے۔کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے پاس آج کرونا سے لڑنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ پاکستان اور بھارت دنیا کی دو ایسی ایٹمی طاقتیں ہیں جن میں سے ایک کے پاس کرونا ویکسین نہیں ہے تو دوسرے کے پاس آکسیجن سلنڈرز مقفود ہیں جبکہ دونوں نے آخری مزائل تجربہ غالباً اسی ماہ کیا ہے۔معلوم یہ پڑا کہ ہماری ترجیحات میں انسانیت اور عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ انسانیت کی تباہی اور جنگ و جدل ہمارا مقصد اور نصب العین ہے
کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم لوہے اور بارود پر یہ پیسہ خرچ کرنے کے بجائے اپنی اپنی عوام پر خرچ کریں 150 کروڑ لوگوں کو کب عقل آئے گی کہ ہم دونوں ملک اگر یہ پیسہ بارود پر لگانے کے بجائے اپنے لوگوں پر لگائیں تو ہم امریکہ، برطانیہ، چین اور روس جیسے ترقی یافتہ ممالک سے بھی ترقی میں کئی گنا آگے نکل سکتے ہیں دنیا بھر کی معاشی پالیسیوں کے آج ہم غلام بنے ہیں اگر ہم صرف یہ ایک فیصلہ کریں تو تمام دنیا کی معاشی پالیسیاں ہماری غلام بن سکتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت دنیا کی سب سے غریب ترین ایٹمی طاقتیں ہیں جو اپنے دفاع پر تو پیسہ پانی طرح بہائے جارہی ہیں مگر صحت و ترقی پر پیسہ ندارد۔صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک میزائل کم کریں تو کئی گاؤں میں ہم اسی پیسے سے اسکول بنا سکتے ہیں۔ صرف ایک مزائل کے کم کرنے سے ذرا سوچیں!
ہم ایک رافیل کم کر کے کئی یونیورسٹیاں اور ہسپتال بنا سکتے ہیں صرف ایک رافیل کم کرنے سے ذرا سوچیں!۔ایک جے ایف 17 کم کر کے کئی دیہاتوں کو پانی مہیہ کر سکتے ہیں۔صرف ایک جے ایف 17 کم کرنے سے ذرا سوچیں!۔ ہم ایک ارجن ٹینک کم کر کے کئی ہزار شوچالے بنا سکتے ہیں۔صرف ایک ٹینک کم کرنے سے ذ را سوچیں! ہم دونوں ممالک کو من الحثیث القوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں بارود چاہیے یا قلم؟ہمیں ایک روشن مستقبل چاہیے یا جنگوں کی گھن گرج؟
ہمیں دنیا پر اپنی معاشی برتری قائم کرنی ہے یا دنیا کی معاشی پالیسیز کے رحم و کرم پر رہنا؟ ہمیں دنیا بھر کے اسلحے کا خریدار بن کر انہیں نئی معاشی بلندیوں سے ہم کنار کرنا ہے یا ہمیں دنیا کے بہترین دماغ خرید کر اپنی سائنسی برتری اور معاشی طاقت کا لوہا منوانا ہے۔
کچھ لوگ ہندوستان اور پاکستان کشیدگی پر اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں تو کچھ لوگ بھاری بجٹ لیکر اسلحے کے نام پر پر اپنا کمیشن بناتے ہیں جبکہ یہ لوگ چند سو یا چند ہزار ہی ہیں اور 150 کروڑ لوگوں کو گزشتہ 70 سال سے اسی مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے کہ پاکستان سب سے بڑا دشمن ہے،ہندوستان سب سے بڑا دشمن ہے اور ہم اپنے مستقبل سے بے خبر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جارہے ہیں۔پاکستان سب سے بڑا دشمن نہیں ہے بھوک سب سے بڑی دشمن ہے، غربت سب سے بڑی دشمن ہے۔
کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ آپ کو بھی امریکہ اور دیگر ممالک کی طرح جب آپ بیمار ہوں تو آپ کی حکومت مفت علاج کروائے آپ گھر کے تمام اخراجات چلانے کے لیے تادمِ تندرستی وظیفہ مقرر کرے؟ کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ جب آپ کا بیٹا ڈگریاں لینے کے بعد بھی بے روزگار رہے تو آپ کی حکومت دیگر ممالک کی طرح آپ کے بچے کی خوداری برقرار رکھتے ہوئے اسے سکالرشپ مقرر کرئے تاکہ وہ کہیں کوئی غلط کام یا کہیں اپنی عزت نفس کا سودا نہ کر بیٹھے؟
کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ آپ اپنے بچوں کی شادیاں کروانے سے اگر غربت کی وجہ سے قاصر ہیں تو حکومت آپ کی معاونت کریں اور آپ کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے؟کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ آپ اگر اپنے ضعیف العمر والدین کا علاج نہ کر سکیں تو حکومت انکے علاج معالجہ کی ذمہ داری اٹھائے؟کیا آپ کا حق نہیں ہے کہ جب آپ کی نوکری چلی جائے یا آپ کا کاروبار بند ہو جائے تو آپ کے گھر کا خرچ حکومت چلائے؟
امریکہ، برطانیہ، چین،فرانس،روس جو آپ کو دھڑا دھڑ اسلحہ بیچ رہے ہیں ان سب ممالک میں اپنی عوام کو وہ یہ سب سہولیات دے رہیں۔مگر آپ کو یہ حق یہاں ملا؟نہیں؟وجہ؟ہم ابھی بارود خرید رہے ہیں۔ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا بارود یا قلم۔۔ بارود یا سائنس بارود یا ٹکنالوجی بارود یا عوام کی فلاح و بہبود؟
فیصلہ آپ کا؟ فیصلہ ہندوستان کا! فیصلہ پاکستان کا! فیصلہ عوام کا۔
……………………
No comments:
Post a Comment