اللہ کی مخلوق
ازقلم: کوثر حیات۔اورنگ آباد
فلک بے صبری سے گرما کی چھٹیوں کا انتظار کررہی تھی ۔ابا جی نے کہا تھا اس بار چھٹیوں میں خالہ بی کے یہاں جاے گے۔خالہ بی کا گھر کچا چھپر والا تھا مگر ان کا صحن بہت بڑا تھا۔فلک کی سب سے پسندیدہ جگہ وہی صحن ہوتا اسے یاد آیا جب رانی آپی اور بسمہ کے ساتھ وہ صحن میں گھروندا بناتی اور چھوٹے چھوٹے مٹی کے برتن بھی بڑا مزہ آتا۔
رانی اور بسمہ امی کی بڑی بہن کی بیٹیاں تھی ان کا گھر نانا کے گاؤں میں ہی تھا اور فلک کے ابو شہر میں کام کرتے اس لیے وہ اور اس کی امی شہر میں ہی رہتے تھے مگر گاؤں کا کھلا صحن فلک کو اکثر یاد آتا۔اسی لیے ابا جی کے بولتے ہی وہ خوش ہو گئ اور جلدی سے خالہ بی کے گھر جانے کی تیاری کرنے لگی۔
امی جان ہم کب جانیں گے رانی آپی اور بسمہ کے پاس اس نے معصومیت سے پوچھا ۔امی بولیں کل تمھارے ابا کام سے آجانے کے بعد ہم رات کو بس سے جائیں گے ۔فلک خوشی خوشی اپنی گڑیا کے بال بنانے لگی۔
بس میں سارا وقت اس کی نظریں خالہ بی کا گھر تلاش کر رہی تھیں۔ کہ کب میں وہاں پہنچ جاؤں۔
بس سے اتر کر ابا نے سائیکل رکشہ والے کو پتہ بتایا اور اس پر تینوں بیٹھ گئے ۔
گھر پہنچتے ہی فلک دوڑ کر خالہ بی سی لپٹ گئی رانی آپی اور بسمہ اندر سے دوڑ کر آگئے ۔دوسرے دن صبح ہی سے تینوں نے صحن میں ڈیرا ڈال دیا اور ان کے کھیل شروع ہوگۓ۔رانی آپی اور فلک گھروندا بنانے بیٹھی ہی تھی کہ بسمہ فلک کو کھینچ کر لے گئ آؤ فلک یہ دیکھو چڑیا کا انڈا گھونسلے کی طرف انگلی سے اشارہ کرکے بسمہ بولی۔چھوٹا سا انڈا فلک غور سے اور خوشی سے دیکھنے لگی۔اب تو روز ان کا معمول بن گیا اٹھتے ہی چڑیا کے گھونسلے کی طرف دوڑ پڑتی اور انتطار کرتی چھوٹی سی چڑیا کو دیکھنے کا۔
خالہ بی نے بتایا تھا اس انڈے سے چھوٹی سی چڑیا نکلے گی اسے ہاتھ نہ لگانا ۔روز کھیلتے ہوئے بار بار فلک گھونسلے کے پاس جاتی کہ کب وہ بچہ انڈے سے باہر آے گا اور وہ اسے دیکھے گی۔
ایک دن جب وہ صبح اٹھی رانی آپی اس کا ہاتھ پکڑ کر گھونسلے کے پاس لے گئ اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا چڑیا گھونسلے میں ننھی سی چڑیا کے منہ میں کچھ ڈال رہی تھی۔فلک آنکھیں بڑی کرکے دیکھنے لگی ننھی چڑیا اس کی ماں کا دیا دانہ اپنی چونچ میں پکڑ لیتی اسی طرح چڑیا اونچا اڑتی پھر کچھ منہ میں دباکر گھونسلے کی طرف اڑتی ہوئی آتی ۔ نھنی چڑیا اپنا منہ کھول کر اوپر کرلیتی یہ نظارہ فلک بڑے شوق سے دیکھتی۔اب تو روز کا معمول ہوگیا صبح اٹھتے ہی فلک اور بسمہ نھنی چڑیا کے پاس پہنچ جاتیں اور بڑی دلچسپی سے چڑیا کو دیکھتی اس کا بار بار اڑ کر دانہ تلاش کرکے لانا اور اپنے بچہ کی کھلی ہوئی چونچ میں ڈال دینا۔
چند دنوں بعد ایک دوپہر موسم ٹھنڈا تھا زور کی ہوا چلی اور چڑیا کا بچہ گھونسلے سے صحن میں گر پڑا فلک پاس ہی تھی اس پر نظر پڑتے ہی ننھی چڑیا کو اپنے چھوٹے سے ہاتھ پر اٹھاکر رکھا ۔چڑیا بڑی خوبصورت تھی اس کی چونچ کے پاس کا حصہ پیلا تھا وہ باربار اپنا منہ کھولتی۔فلک نے اس پر دھیرے سے ہاتھ پھیرا ۔ بسمہ کو آواز دی۔ بسمہ ننھی چڑیا کو فلک کے ہاتھ پر دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی اور ہاتھ لگاکر خوشی سے بولی اب ہم کیا کریں گے ۔
فلک بولی تم کوئی ڈبہ لے آؤ ہم اپنی چڑیا کو اس میں رکھیں گے۔بسمہ اندر سے ایک ڈبہ لے آئئ دونوں نے اسے بڑی احتیاط سے اندر رکھا یہ کام دونوں بڑی خاموشی سے کر رہی تھی کیونکہ دوپہر کا وقت تھا گھر میں سبھی سوۓ ہونے تھے کوئی بڑا جاگ نہ جاۓ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے دونوں نے اس ڈبے کو جھاڑ کے نیچے رکھ کر اس پر ایک کاغذ ڈھانک دیا اور وہیں بیٹھ گئیں۔
دوپہر سے شام ہوگئی دونوں وہی بیٹھی رہیں ۔ دونوں کو بلانے رانی آپی صحن میں آئی ۔رانی آپی نے دیکھا چڑیا دونوں کے سر کے اوپر گول گول چکر لگارہی ہے ایسا لگ رہا تھا وہ تڑپ کر بے چینی سے دونوں کے گرد گھوم کر کچھ تلاش کر رہی ہے۔ چڑیا کو اس طرح دیکھ وہ پریشان ہوکر اپنی امی کو آواز دینے لگی ۔خالہ بی باہر آئیں اور فلک کے قریب جاکر دیکھا وہ دونوں ہاتھوں سے ڈبے کو ڈھانپنے کی کوشش کررہی تھیں۔
خالہ بی سمجھ گئیں۔ اس ڈبے میں چڑیا کا بچہ ہے اور اس کے ماں تڑپ کر ان کے سر پر گھوم رہی ہے تاکہ اپنے بچہ کو آزاد کراے ۔خالہ بی دونوں کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے اٹھا لائی اور اس بچہ کو ڈبہ سے نکال کر جھاڑ کے آلے میں رکھ دیا ۔
فلک منہ بسور کر رونے لگی خالہ بی میری چڑیا مجھے دے میں اسے پنجرہ میں پالونگی۔ابا سے کہہ کر اچھا سا پنجرہ منگواؤں گی۔
فلک کے رونے کی آواز سن کر سبھی صحن میں جمع ہوگئے۔
ابا جی اور امی فلک کو سمجھانے لگے کہ بچہ کو ماں سے دور کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اسے ہمارےپیارے نبی کریم نے بھی پسند نہیں کیا ہے۔
ابھی وہ سمجھارہے تھے کہ خالہ بی نے فلک کو قریب لیکر بتایا غور سے دیکھو چڑیا اپنے بچے کو اڑنے کے لیے تیار کر رہی ہے یہ سن کر فلک بول پڑی بھلا اتنی چھوٹی سی چڑیا کیسے اڑ پاے گی۔
ابھی فلک کا سوال ختم ہی ہوا تھا کہ چڑیا کا بچہ اپنے گرد اڑتی ہوئی اپنی ماں کو دیکھ کر اپنے پر پھیلائے لگا اور اڑان بھر کر تھوڑا سا پھدکا یہ دیکھ فلک اور بیمہ ہنس پڑی۔
پھر کیا تھا بچوں کے ساتھ ساتھ صحن میں موجود سبھی لوگ غور سے چڑیا اور اس کے بچے کو دیکھنے لگے ۔چڑیا اڑتے ہوے قریب کی ڈالی پر جاتی پھر اوپر اڑ جاتی اسے دیکھ بچہ اس قریب کی ڈالی تک اڑان بھرتا اس طرح تھوڑا تھوڑا کر کے بچہ جھاڑ کی بڑی ڈالی تک پہنچ گیا پھر چڑیا اپنے گھونسلے کے قریب گئی اسے دیکھ بچہ بھی اڑا آخر کار گھونسلے تک پہنچ گیا ۔ابا جی بولے ماں کی تڑپ اور بچہ کی کوشش نے بچہ کو بچالیا اور اڑنا بھی سکھا دیا۔چڑیا کے بچہ کو اڑتا دیکھ کر بچے خوش ہوگۓ ۔ابا جی نے تینوں بچیوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا اللہ اپنی کسی مخلوق کو بھی تکلیف دینے والے کو پسند نہیں فرماتے اس لئے ان بے زبان پرندوں اور جانوروں سے ہمیں ہمدردی کا رویہ رکھنا چاہئے نہ کہ انہیں تکلیف دیکر ان پر ہنسا چاہیے ۔یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ اس بات کو فلک ۔رانی آپی اور بسمہ نے سمجھ لیا اور اپنا سر ہلا کرر ابا جی سے وعدہ بھی کیا کہ ہم کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچایں گے۔وہ سمجھ گئے کہ بچہ ماں کے ساتھ ہی خوش رہ سکتا ہے ۔۔نہ کہ پنجرے میں۔
No comments:
Post a Comment