Tuesday, June 29, 2021

Story Series 2: 'Ahsaas' by Raaj Afridi

 

کہانی 2

احساس



کتاب : سورج کی سیر

مصنف: راج محمد آفریدی


بیل بجتے ہی سارے بچے سکول کے کھلے میدان میں اسمبلی کے لیے اکٹھے ہوئے۔ تلاوت اور قومی ترانے کے بعد  پی ٹی صاحب نے سارے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئےتحکمانہ انداز میں کہا۔

" جس بچے نے ماسک نہیں پہنا وہ باہر آ جائے ۔ آج سب کو سزا ملے گی ۔" یہ سن کر ان طلبہ میں کھلبلی مچ گئی جن کے پاس ماسک نہیں تھے۔اس دوران شرمندگی سے بچنے کے لیے ایک  شریر لڑکے (پرویز) نے اپنے ایک غریب کلاس فیلو (احمد) سے اس کا نیا ماسک چھیننے کی کوشش کی۔وہ پرویز کو اپنا ماسک نہیں دے رہا تھا۔ جس سے ان دونوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوئی۔ پی ٹی صاحب نے ان دونوں کو نوٹ کرکے باہر بلایا۔ جب تفصیل پوچھی تو  احمد نے شکایت بھرے انداز میں کہا۔

"پرویز مجھ سے میرا ماسک چھین رہا تھا۔ جبکہ میرے پاس یہ ایک ہی ماسک تھا جسےمیں نے دینے سے انکار کیا۔ تب ہم دونوں میں زور زبردستی  شروع ہوئی۔"

اس پر پی ٹی صاحب نے سارے بچوں کے سامنے پرویز کی خوب سرزنش کی ۔ احمد کے اس فعل پر پرویز کو بہت غصہ آیا ۔اس نے احمد سے بدلے کی ٹھان لی اور اسے سکول میں بدنام کرنے کا فیصلہ کیا۔

پرویز اپنی کوئی چیز گھر میں رکھ کر احمد پر الزام لگاتا کہ یہ اس نے مجھ سے چرائی ہے ۔ وہ ایک ایک کلاس فیلو کو فرضی کہانیاں سناتا ۔ " میں احمد کو لمبے عرصے سے جانتا ہوں،وہ کئی سال میرا پڑوسی رہا ہے۔ اس نے فلاں سے بھی چوری کی تھی اور فلاں دکان سے چوری کرتے ہوئے اسے ابو نے گھر سے بھی نکال باہر کیا تھا ۔" کلاس فیلو پرویز کی باتوں میں آنے لگے۔

ایک دفعہ پرویز نے کلاس میں بنچ فیلو کے بیگ سے پن  نکال کر احمد کے بیگ میں ڈال دیا ۔ بعد میں جب وہ لڑکا پن ڈھونڈنے لگا تو احمد کے بیگ سے نکل آیا ۔ احمد کو بہت شرمندگی ہوئی۔ پرویز نے سکول میں پہلے سے مشہور کر رکھا تھا کہ احمد چوری کرنے لگا ہے ۔ وہ  دوسرے لڑکوں کو متواتر احمد کے متعلق جھوٹی کہانیاں سناتا رہتا  اور انہیں تاکید کرتا کہ احمد پر کسی قسم کا اعتبار نہ کریں۔رفتہ رفتہ سکول کے دیگر لڑکوں، اساتذہ اور پرنسپل تک یہ بات پہنچ گئی کہ احمد کو چوری کی لت لگ چکی ہے۔ انہوں نے احمد کے والد کو بلایا اور اس کے مذکورہ فعل  بارے دریافت کیا ۔ اس کے والد کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے احمد سے کچھ نہیں کہا اور پرنسپل سے معافی مانگ کر گھر چلاگیا۔ 

احمد گھر آیا تو گھر کا ماحول عجب پایا ۔ اس نے ماں سے سب کچھ کہا ، "یہ سب پرویز کی شرارت ہے ۔ میں نے کوئی چوری نہیں کی ہے۔میں چوری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔" ماں نے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور کہا ،"مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے بیٹا!، اندر جاکر والد صاحب سے بات کرلو۔  "

جب وہ اندر گئے تو والد صاحب کسی میکینک سے فون پر بات کر رہے تھے۔ ان کی بات چیت احمد کی نوکری کے متعلق تھی۔ احمد کے پوچھنے پر اس کے ابو نے کہا، " کل سے تم سکول نہیں بلکہ دلبر خان کے ورک شاپ جاکر کام کروگے ۔" اسے سن کر دھچکا لگا۔اس نے احتجاج کیا  کہ وہ ابھی پڑھنا چاہتا ہے مگر والد نے حتمی انداز میں کہا، " مجھے علم ہے مگر ایک دفعہ بدنامی دامن داغ دار کرے تو دامن کی کترائی لازمی ہوجاتی ہے۔تعلیم چھوڑکر محنت کرو  اورگھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں میرا ہاتھ بٹاؤ۔" احمد نے سر تسلیم خم کیا اور اگلے روز سے دلبر خان کے ورک شاپ میں کام کرنے لگا ۔ 

ایک دفعہ پرویز اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں اس کی دکان چلا آیا۔ اس نے احمد کو پہچان کر سکول نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ احمد نے آنکھیں نیچے کرکے اسےپوری کہانی سنائی ،" تمہاری جھوٹی باتوں نے میری معصوم زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ تمہاری اس  ایک افواہ نے میری مسکراہٹ چھین لی ۔ اب میں کبھی سکول نہیں جا سکوں گا ۔ اب میں یہی کام کروں گا۔" 

پرویز کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ اسے احساس ہوا کہ میں نے  ہی بدلے کی آگ بجھانے کے لیے نہایت غلط قدم اٹھایا تھا ۔ اس نے احمد کے قریب ہوکر اس کا ہاتھ پکڑا اور دل سے معافی مانگی۔پرویز نے جاکر اپنے والد کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ اس کے والد نے  پہلے تو پرویز کو جلی کٹی سنائی۔لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اسے شاباش بھی دی کہ کم از کم اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ پرویز نے والد سے بھی معافی مانگی اور آئندہ ایسی حرکت سے توبہ کرلی ۔

چند روز بعد پرویز کے والد نے احمد کے والدسے مل کر دونوں کی آپس میں صلح کروائی،اس کے بعد انہوں نے سکول  پرنسپل سے بات کرکے احمد کو دوبارہ سکول میں داخل کروایا۔پرویز کے والد نے داخلہ فیس جمع کی اور احمد کے لیے نیا بستہ بھی لے لیا۔ اس دن سے احمد اور پرویز اچھے دوست ہیں۔اب سکول میں سب ان کی دوستی کی مثالیں دیتے  ہیں۔

Monday, June 28, 2021

' Na Mehram' By M. Saddam

نا محرم  

افسانہ

 ایم_صدام




کاش جاوید جلد از جلد اپنی تصویر

 بھیجے ۔۔۔۔

کاش میں اپنے جاوید کو دیکھ سکوں ؟اپنے خوابوں کے شہزادے کو ۔۔جاوید کاش تم اس وقت آن لائن آجاتے ۔۔۔کاش کاش کاش ۔۔آفرین  موبائل پر ٹکٹکی باندھے  اپنے محبوب جاوید کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔

 جاوید اس وقت آف لائن تھا ۔۔۔

لیکن اچانک آفرین کو میسج آیا ۔۔۔

کیسی ہو میری جان ۔۔؟

کہاں تھے جانو  ۔۔؟پتا ہے کتنا انتظار کر رہی تھی ہر پل بس آپ کی یاد ۔۔جانو اب تو آپ کے بنا جی نہیں لگتا کاش جاوید آپ میرے پاس ہوتے ۔۔۔

آفرین جذبات و احساسات کے طوفان میں اڑ کر بس اپنے جاوید کے پاس جانا چاہتی تھی ۔۔

جانو ۔۔آپ اپنی تصویر بھیجئے نا پلیز ۔۔

آفرین نے نہایت ہی عاجزانہ انداز میں جاوید سے کہا ۔۔۔

آفرین آج اپنے خوابوں کے شہزادے کو دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔

جاوید اپنی پک سینڈ کیجئے ۔۔پلیز ۔۔

اوکے بابا ابھی کرتا ہوں ۔۔جاوید نے مسکراتے ہوئے میسج کیا ۔۔ 

آفرین کے گوشہ قلب میں حیرت و تجسس کے بن بلائے مہمان دستک دے رہے تھے کہ ۔۔۔۔اسکا شہزادہ کیسا ہوگا ؟۔۔

عجیب و غریب لیکن خوبصورت جذبات کے موتی اسکی محبّت کی مالا کو مکمّل کرنے کی گاہے گاہے کوشش میں لگے تھیں ۔۔

اس نے اپنے دھڑکتے دل پر قابو پاتے ہوئے آنکھیں  بند کر لیں ۔

اور میسج رنگ  کی آواز سے اسے احساس ہوا کہ شاید جاوید نے اپنی تصویر بھیج دی ہے ۔۔

اور وہ دھیرے دھیرے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی آنکھیں کھول رہی تھی ۔۔

اور اس نے بڑی محبّت سے اپنے خوابوں کے  خوبصورت شہزادے کی تصویر دیکھی ۔۔۔

جاوید ۔۔۔۔جاوید ۔۔۔؟؟

یہ آپ ہو ؟

سچ یہ آپ ہو ؟

آفرین کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔۔۔۔

اسکے خوابوں کے خوبصورت نو تعمیر کردہ محل جیسے کسی نے بڑی بے رخی سے مسمار کر دیے ہوں ۔۔۔

جاوید ایک فربہ شخص تھا،  سیاہ رنگت، چشمش اور عام سے نقوش ،  متوسط طبقے کا نو جوان ! ۔۔

اور آفرین کی امید یں خوابوں کے حسین و جمیل راج کمار کی توقع میں ساتویں آسمان پر طواف کر رہی تھی ۔۔

اور اچانک جاوید کی تصویر نے آفرین کو خوابوں کے آسمان سے سچائی کی تلخ زمین پر لا کر پٹخ دیا ۔۔

کیا ہوا ۔۔۔؟؟

آفرین ؟؟؟

کیا ہوا آفرین ۔۔۔؟؟

جاوید مسلسل میسج کرتا جا رہا تھا اور آفرین نے بس 

ایک میسج کیا ۔۔۔۔

*میں نا محرم سے بات نہیں کرتی*


*ایم _صدام* ✒️

جلگاؤں شہر مہاراشٹرا (بھارت )

8237546104

Saturday, June 26, 2021

'Pal Pal Dilke Paas' by Zeenat Jabeen


پل پل دل کے پاس 


زینت جبین

آفس کے کام سے میں دو دنوں کے لۓ اُسی شہر میں آ گیا تھا۔جہاں کی کچھ تلخ یادیں آج بھی میرے ذہن میں تازہ تھیں۔میں اُس شہر سے اپنے وجود پر زخموں کا درد لںۓکبھی نہ آنے کا سوچ کر ہی تو چلا گیا تھا۔اپنی بے گناہی کا ثبوت دۓ بغیر۔

یہ یقین دلایا بغیر کہ میں بے گناہ ہوں۔ 

بحرحال میں آٹھ سالوں بعد پھر سے اپنے اُسی بےدردشہر میں آپہنچا تھا۔جہاں میں ایک مکان میں پینگ گیسٹ کے طور پر رہتا تھا۔ 

میٹنگ ختم ہونے پر ہوٹل جانے کے بجائے کندھے پر بیگ لٹکائے۔

ہاتھ میں موبائل پکڑے۔ 

دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے میں اُسی گلی میں چلا آیا۔ 

جہاں سے گیا تھا۔

برسوں پہلے ایسے ہی تو کندھے پر بیگ لٹکائے ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا پکڑے۔ 

پتہ پوچھتا میں اُس گلی میں آیا تھا۔

آج مجھے پتہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔

میں ایک ایک گھر کو پہچان رہا تھا۔

بہت سے چہرے جانے پہچانےتھے۔

مگر میں کسی کو ٹوک نہیں رہا تھا۔

لوگ پاس سے گزرتے ہوئے مجھے دیکھ بھی رہے تھے۔مگر مجھے پہچان نہیں پارہے تھے۔میں اب کہاں پہلے جیسا رہا تھا۔اب میں کسی بوڈی بیولڈر سے کم نہیں تھا۔اونچا لمبا مضبوط قد کاٹھ والا۔پہلے پتلا دبلا ڈرا سہما سا رہا کرتا تھا۔اس شہر میں نیا جو تھا۔کسی سے زیادہ جان پہچان بھی کہاں تھی۔صبح کالج چلا جاتا اور شام کو ڈانس کلاس کروایا کرتا بس۔ 

میں اس گلی نما سڑک پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتا رہا۔پھر سڑک کے نکڑ پر آ کر رک گیا۔بیگ کندھے سے اتار کر زمین پر رکھتا ادھر اُدھر کر یاد کر رہا تھا۔نکڑ پر ہی تو وہ مکان تھا جہاں میں رہتا تھا۔اب وہ مکان فلیٹ میں بدل گیا تھا۔میرے مکان کے سامنے بھیالال جی کا گھر اور اُس گھر میں پائل۔میں ان آٹھ سالوں میں انگینت بار پائل کو یاد کر چکا تھا۔اور ہر بار جب وہ یاد آتی میں سر جھٹک دیتا۔اب بھی میں سر جھٹک کر ادھر اُدھر دیکھنے تھا کہ میری نظر بھیالال جی کے مکان پر لگے بورڈ پر رک گئی۔

"روپم ڈانس کلاس" میں زیرلب بورڈ کو پڑھا پھر آنکھیں رگڑ رگڑ کر کئی بار دیکھا۔اور ہر بار مجھے روپم ڈانس کلاس ہی نظر آیا۔مگر میں تو اپنا ڈانس کلاس بند کر گیا تھا۔پھر یہ ڈانس کلاس؟ میں کچھ دیر سوچتا رہا پھر بیگ دوبارہ کندھے پر لٹکا کر اُس مکان کی طرف بڑھنے لگا۔دماغ کہہ رہا تھا۔مت جاؤ۔مگر میرا دل کہاں مان رہا تھا۔میرے قدم کہاں رک رہے تھے۔میں تیزی سے چلتا اس مکان کے گیٹ پر آکر رک گیا۔آ ٹھ سالوں بعد میں بیگ اُٹھائے اُس کے دروازے پر کھڑا تھا۔ 

بیل بجانے پر کسی نے گیٹ کھول کر مجھے سر سے پیر تک اس طرح دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کس سے ملنا ہے۔ 

و.....ہ..... وہ.... میں..... روپم..... ڈانس.... میں جملہ ادھورا چھوڑ کر چپ ہو گیا۔کیا بولوں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ 

اچھا۔۔ آپ اندر آجائیں۔میں بٹیا کو خبر دیتا ہوں۔میری بات کاٹ کر انہوں نے مجھے اندر آنے کا کہا تو میں اُس کے مکان میں داخل ہوا۔ 

یہ ایک بڑا سا ہال تھا۔ہال کے ایک طرف بڑا سا صوفا رکھا تھا۔میں اپنا بیگ سائیڈ پر رکھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔پائل کی چھم چھم کے ساتھ پائل میرے خیالوں سے نکل کر میرے اردگرد ڈانس کرنے لگی۔میں سر جھٹک کر اس کی یادوں کے حصار سے نکلنا چاہا۔مگر نکل نہ پایا۔

وہ میری سب سے اچھی اسٹوڈینٹ تھی۔جو بتاؤ سمجھ جاتی۔پائل ڈانس کلاس کے لئے آتی تو اُس کے بھیا آنکھیں نکالے، پان چباتے اس کے ساتھ میں آتے اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر آرام سے کرسی پر بیٹھ جاتے۔میں ڈرا سہما پائل کو ڈانس سیکھتا رہتا۔پائل کو کوئی اسٹیپ بتانا ہوتا تو میں کسی اور کو اُس کے سامنے کھڑا کردیتا اور اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر پائل کو بتاتا کہ اس طرح کمر پر ہاتھ رکھو۔اس طرح پیر آگے کرؤ۔اور اس طرح راونڈ گھومو۔کبھی کبھی جب پائل کو سمجھ نہیں آتا تو وہ چڑھ جاتی اور پیر پٹکتی ہوئی ایسے واپس جاتی جیسے پھر کبھی نہیں آۓ گی۔اس کے جانے کے بعد بھیا لال جی۔

 یہ بھیا صرف پائل کے تھے۔دوسروں کے لئے تو دبنگ تھے۔بھیا لال تھے۔کیا مجال کے کوئی انکی بہن کو دیکھ لے۔ 

ہاں تو بھیا لال جی دھیرے سے میرے ہاتھ پر سو دو سو روپے رکھ کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہتے۔شاباش دھیان رکھنا پائل میری بہن ہے۔ڈانس کا شوق ہے اس لئے تمہارے پاس آنے دیتا ہوں۔ورنہ..... تم تو سمجھ ہی رہے ہو....... پائل کو ڈانس آۓنا آئے۔ اُسے چھونے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔بھیا لال آنکھیں لال پیلی کرتے پائل کے پیچھے پیچھے نکل جاتے۔مجھے لگتا پائل اب کبھی نہیں آۓ گی۔

مگر دوسرے دن پھر سے پہلے بھیا لال جی اور انکے پیچھے پیچھے پائل کھانے کا ڈب٘ہ پکڑے حاضر رہتی۔ 

تمہارے لئے کھانا لائی ہوں۔وہ آتے ہی چہک کر کہتی تو میں چور نظروں سے بھیا لال کو دیکھنے لگتا۔ 

لائی ہے تو رکھ لو۔بعد میں کھا لینا۔وہ پان چبا چبا کر کہتے تو میں پائل سے کھانے کا ڈب٘ہ لے کر رکھ لیتا۔ 

بھیا لال جی ہر وقت سر پر سوار نہ ہوتے تو مجھے اُس پیاری سی لڑکی سے پیار ہو ہی جاتا۔مگر یہاں تو یہ حال تھا کہ پائل مجھے بہت اچھی لگنے لگی تھی۔مجھے ہر دن اُس کا انتظار رہنے لگا تھا اور میں خود سے یہ اعتراف بھی نہیں کر پا رہا تھا کہ مجھے پائل سے محبت ہو ہی گئی ہے۔اعتراف کیسے کر پاتا بھلا۔اُس خوبصورت سی پری کو پانے کے لئے ایک دیو کو برداشت کرنا میرے بس کے باہر کا کام جو تھا۔اس لئے میں خود کو یہ یقین دلاتا رہا کہ مجھے پائل سے محبت کا میم بھی نہیں ہے۔اور یہی میری غلطی تھی۔میں یہ سمجھا تھا اُس کے شہر کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔اُس سے دور ہو جاؤں گا تو میرا دل جو دھیرے دھیرے اُس کی طرف مائل ہو رہا ہے۔وہ اُس کے سحر سے نکل جائے گا۔بس اسی لئے میں اگزام کے ختم ہوتے ہی اپنا ڈانس کلاس بند کر کے گاؤں جانے کی سوچنے لگا۔ 

اور اُس دن میں دل کو سمجھا کر۔ 

دل کو منا کر۔ 

شام کی ٹرین سے گاؤں جانے کے لیے اپنا بیگ پیک کر رہا تھا کہ بھیا لال جی آئی دھماکے۔میرے بیگ کو پیروں سے ٹھوکر مار کر گرانے کے بعد میرا کالر پکڑ کر مجھے کمرے سے باہر لے آئے۔میں حیران تھا۔میں کچھ پوچھتا اس سے پہلے انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔میں گرتا رہا۔وہ مجھے اٹھاتے رہے۔مجھے وارنگ دیتے رہے کہ خبر دار جو پھر کبھی اس شہر میں دوبارہ آیا تو۔میں حیران تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔بھیا لال جی نے جاتے جاتے میری پسلی میں لات مارتے ہوۓ کہا تھا۔اتنی پہرے داری کے بعد بھی تو نے وہی کیا جس کے ڈر سے میں اپنی پائل کے ساتھ آیا کرتا تھا۔

مگر میں نے کیا کیا ہے۔میں کراہ کر انہیں دیکھنے لگا۔تو وہ جاتے جاتے رک گۓ۔اور آنکھیں نکال کر میری طرف دیکھ کر بولے۔ 

میری پائل کو اپنی جال میں پھنسا لیا ہے تم نے۔جب ہی تو کل سے کچھ کھا نہیں رہی ہے۔اور آج صبح سے بخار میں پڑی ہے۔ابھی میں دوا کھلا رہا تھا وہ غنودگی میں تمہیں آواز دے رہی تھی۔وہ ایک اور لات مجھے مار کر تیزی سے سیڑھیاں اترگئے۔میں سکتے کے عالم میں کچھ دیر فرش پر اوندھا پڑا رہا۔پھر دھیرے دھیرے اٹھا۔اپنا بیگ اٹھایا اور چپ چاپ کسی سے ملے بغیر وہاں سے چلا آیا۔پھر کبھی نہیں آنے کے لئے۔پائل کو بھول جانے کے لئے۔مگر پائل کو بھول نہیں پایا۔بار بار یہی لگتا کہ کیا پائل کو بھی مجھ سے محبت ہو گئی تھی۔اور ہر بار اُس کا پائل میرے خیالوں میں چھم چھم بج کر یہ یقین دلاتا رہتا کہ ہاں اُسے بھی تم سے محبت ہوگئی تھی۔تب ہی تو وہ غنودگی میں تمہیں پکار رہی تھی۔تب ہی تو بھیا لال جی نے تمہاری جم کر پٹائی کی تھی۔تب ہی تو بھیا لال جی نے وہاں آنے سے منع کر دیا تھا۔

دل جس سکون کی تلاش میں اُس کے شہر کو چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔وہاں سے آتے ہوئے اپنا سکون وہیں پائل کے پاس چھوڑ آیا۔وہاں سے آنے کے بعد مجھے سروس مل گئی۔میں نے گھر بنا لیا۔بینک بائلینس آگیا۔پہلے والا ڈرا سہما سا روپم اب ایک مضبوط جوان تھا۔ماں میری شادی کو لے کر بہت پریشان تھیں۔ہزاروں لڑکیاں دیکھا چکی تھیں  مجھے۔مگر مجھے کوئی پسند ہی نہیں آرہی تھی۔شادی کی بات شروع ہونے پر پائل کی پائل میرے کانوں میں اتنے زور سے بجتا کہ میں ماں کو یہ کہہ کر انکار کر دیتا کہ لڑکی مجھے پسند نہیں ہے۔ماں میرے انکار پر برا مان کر کہتیں۔جتنی مرضی اتنی لڑکیوں کو ناپسند کر دے۔مگر میں بھی چین سے بیٹھنے والی نہیں ہوں۔میں تجھے لڑکی دیکھا تھا رہوں گی۔تیری شادی دیکھے بغیر میں مرنے والی نہیں ہوں۔اور میں ہنس کر کہتا۔مریں تمہارے دشمن۔لڑکی پسند آجاۓ تو میں شادی بھی کر لوں گا۔ویسے بھی میں کون سا ابھی بوڑھا ہو رہا ہوں۔

تو بوڑھا نہیں ہو رہا۔مگر میں تو ہو رہی ہوں نہ بوڑھی۔اب مجھ سے گھر کے کام کاج نہیں ہوتے۔ماں پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیتی۔تو میں مسکرا کر چپ رہ جاتا۔ 

میں اکثر سوچتا۔ 

ایک بار اپنے پرانے شہر ہو آؤں۔ 

مگر پھر بھیا لال جی کی مار پٹائی یاد آ جاتی اور میں دل پر پتھر رکھ کر رہ جاتا۔ 

میں یہاں کیوں چلا آیا۔مجھے نہیں آنا چاہیے تھا۔

چلا گیا تھا تو چلا گیا تھا۔ 

اگر پائل کی شادی ہو گئی ہو تو۔ 

اس سوچ پر میں ہڑبڑاکرآنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ 

سائیڈ ٹیبل پر پانی کا بوتل رکھا تھا میں اٹھاکر پینے لگا کہ تب ہی سیڑھی پر ہلچل ہوئی اور میری نظریں اُس پر ٹک گئیں۔ 

میں بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

موبائل اسکرول کرتی وہ میرے پاس آکر رک گئی۔ 

ہاں بولیں کس سے ملنا ہے۔وہ پل بھر کو میری طرف دیکھی۔پھر اس کی نظریں موبائل پر واپس جم گئیں۔ 

تو میں وہ...... وہ.......جی...... آپ سے

روپم تم۔ وہ زور سے چلائی۔اور میرا جملہ بیچ میں رہ گیا۔

ہاں.... میں یہاں آفس کے کام سے آیا تھا۔روپم ڈانس کلاس دیکھ کر ادھر آ گیا۔میں صفائی دینے لگا۔ 

روپم... وہ میرا ہاتھ پکڑ کر رو پڑی۔ 

آ گۓ۔میرے لئے یہی کافی ہے۔کس کام سے۔مجھے یہ نہیں جاننا۔مجھے اپنی دعاؤں پر بھروسہ تھا کہ تم ایک دن ضرور آؤ گے۔کوئی اس طرح بھی جاتا ہے بھلا۔کبھی تو آتے۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

کیسے آتا؟بھیا لال جی نے تو سختی سے منع کر دیا تھا۔جب آنے کا سوچتا۔اپنی مار پٹائی یاد آ جاتی۔ 

زمینی لڑائی میں بھیا کو کسی نے گولی مار دی تھی۔ 

انہیں گزرےتو پانچ سال ہو گۓ ہیں۔بابا بھی اب نہیں رہے۔ اب ہوں اور گاؤں سے آۓ ہوۓ کاکا ہیں جنہوں نے گیٹ کھولا تھا۔میں ڈانس کلاس چلاتی ہوں۔وہ بغیر رکے بولے گئی۔ 

او شیٹ یہ تو بہت برا ہوا۔میں اسکے سر پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔ 

تو وہ اپنے آنسو پوچھنے لگی۔ 

 تم نےشادی نہیں کی اب تک؟ میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔

نہیں وہ نظریں جھکا کر بولی۔ 

کیوں۔میں نے اسکا جھکا ہو چہرہ دھیرے سے اوپر اٹھا یا۔ 

مجھے اپنی دعاؤں پر بھروسہ جو تھا کہ تم ایک دن ضرور آؤ گے۔اس لئے تو میں بھیا اور بابا کے لاۓ رشتوں پر انکار کرتی رہی تھی۔اسکے آنسو پھر سے گرنے لگے تھے۔ 

اگر میں شادی کر چکا ہوتا تو؟ میں نے شرارت سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

تو خود پچتاتے۔ تمہیں تم سے بھی زیادہ چاہنے والی لڑکی سے ہاتھ دھونا پڑتا۔وہ آنکھیں نکال کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی۔ 

مجھے لگا وہ بالکل سچ بول رہی ہے۔ 

مجھے بھی تو اُس سے بے پناہ محبت تھی۔میں بھی تو اُسے خود سے زیادہ چاہتا تھا۔تب ہی تو میٹینگ ختم ہونے پر میں ہوٹل نہ جا کر اُس گلی میں آ گیا تھا۔ 


Zeenat jabeen siddiquee

C/O   Nazir Hussain

H. No, 32

R/no, 15

Al Kabir polytechnic college road. 

Old purulia road(west) 

Zakir nagar. 

Mango. 

Jamshedpur. 

Jharkhand. 

Pin. 831020

India

Thursday, June 24, 2021

'Bal Ki Khal Nikalna' by Shah Taaj Bano


بال کی کھال نکالنا

  شاہ تاج  

شناس نامہ



شاہ تاج بانو اردو ادب کا جانا پہچانا نام ہے. آپ ایک معروف افسانہ نگار، صحافی اور کالم نگار ہیں. ملک و بیرون کا شاید ہی کوئی رسالہ یا اخبار ہوگا جس میں آپ کی تخلیقات شائع نہ ہوئی ہوں. بچوں کے ادب میں آپ منفرد شناخت رکھتی ہیں. شہر پونہ، مہاراشٹر کو آپ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے.



بال کی کھال نکالناٍٍٍ شاہ تاج  پونے


’’ امّاں! اتنے سارے بال۔۔۔ٹوٹ گئے۔‘‘ شبستا ںنے اپنی کنگھی کی جانب اشارہ کیا ۔

’’ ہاں! باجی کچھ روز میں گنجي ہو جائے گی۔‘‘ نفیس نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا۔

’’ اب کیا ہوگا؟ لوگ نفیس کو گنجی کا بھائی بلائیں گے ۔‘‘میں بھی اُن کی نوک جھونک میں شامل ہو گئی۔

شبستا ں پہلے ہی اپنے بالوں کو دیکھ کر پریشان تھی اس پر ہماری باتوں نے اُسے غصّہ ہی دلا دیا۔یہ دیکھ کرمیں نے اسے اپنے پاس بلالیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’اتنے بال جھڑنا نارمل ہے۔ ۵۰ ؍سے ۱۵۰ ؍بال جھڑنے سے آپ گنجی نہیں ہو جائیں گی۔‘‘

نفیس کو شرارت سوجھی اور وہ کنگھی میں موجود بالوں کی گنتی کرنے لگااور بولا، ’’ میں آپ کی کنگھی کے بالوں کو روز گن کر بتاؤںگا کہ ۱۵۱ بال کب ہو گئے!‘‘

مجھے ہنسی آ گئی۔میں نے کہا، ’’ اچھا دونوں ادھر آؤ۔بالوں کے جھڑنے سے متعلق کچھ باتیں کرتے ہیں۔‘‘ میں نے الماری سے سائنس کی ایک کتاب نکالی اور ہم تینوں دری پر بیٹھ گئے۔ کتاب میں تصاویر کے ذریعےبالوں سے متعلق مختلف باتیں سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔

جیسے ہی میں نے بات شروع کی دونوں نے کہا، ’’ پہلے آپ پڑھ لیجئے۔ پھر ہمیں آسان زبان میں سمجھا دیجئے گا۔‘‘

 یہ بات توحقیقت تھی کہ بچوں کے لئے کتاب کی زبان تھوڑی مشکل تھی،خیر! میں نے پہلےپڑھ کر اسےپورے طور پر سمجھا پھر بتانا شروع کیا۔

’’ یہ جو آپ کے سر پر بال ہیں انہیں شافٹ ( shaft) کہتے ہیں۔یہ ہمارے بالوں کے باہر کا حصّہ ہیں۔ان کی جڑیں ہمارے سر کی جلد کے اندر ہوتی ہیں بالکل پیڑ کی جڑوں کی طرح۔ یہ جڑیں بالوں کی مضبوطی کے لئے کام کرتی ہیں ۔ہمارے سروں پر موجود بالوں کو ہم چھو‘ سکتے ہیں اور ہمیں چھونے کا یا لمس کااحساس نہیں ہوتا کیونکہ یہ مردہ خلیات ہوتے ہیں۔ اس لیے جب آپ بال کٹواتے ہو تو درد نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے نفیس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔اور میری بات سے کچھ حیران ہو کر بولا۔

’’ اگر ہمارے بال مردہ خلیات ہیں تو ایک ساتھ ہی کیوں نہیں جھڑ جاتے؟‘‘

’’نہیں! نہیں! ہمارے بالوں کا ایک حیاتیاتی دور ( hair cycle) ہوتا ہے جو اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے۔اس لیے وقت پورا ہونے پر ہی کچھ بال جھڑتے ہیں اور ان کی جگہ نئے بال لیتے رہتے ہیں۔‘‘

’’اچھا! ‘‘ شبستا ں کو کچھ سکون ملا۔’’ امّاں!یہ ہیئر سائیکل کیا ہوتا ہے؟‘‘ شبستاں نے سوال کیا۔

’’ دنیا میں ہر جاندار یا چیز سے متعلق واقعات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو باقاعدگی سے اسی ترتیب میں دہرایا جاتا رہتا ہے۔اسے اِس جاندار یا چیز کا سائیکل کہتے ہیں۔ جیسے تم نے اسکول میں ’’ پانی کا چکر‘‘ پڑھا ہوگا۔یادیکھا ہوگا کہ ایک پیڑ پر نئے پتے آتے ہیں اور ایک مقررہ وقت یا موسم میں جھڑ جاتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح ہمارے بال بھی ایک سائیکل کے مطابق چلتے ہیں۔لیکن پیڑ اور ہمارے بالوں کے سائیکل میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ہر بال کا ایک انفرادی سائیکل ہوتا ہےجبکہ پیڑ کے پتے ایک ساتھ آتے ہیں اور ایک ساتھ ہی جھڑ جاتے ہیں۔‘‘

’’ امّاں! ہمارے بالوں کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے؟خاص طور پر ہمارے بالوں کی عمر کے متعلق۔‘‘شبستاں جو پڑھائی میں کافی دھیان دیتی ہے اُس کے سوال نے مجھے پھر کتاب پڑھنے پر مجبور کیا۔

’’ ایک منٹ رکیے ۔میں پڑھ کر پھر آپ کو بتاتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور کچھ ضروری باتوں کو نشان زد کیا اور پھر بچوں کی جانب متوجہ ہوئی۔

’’ ہمارے بال چار مرحلوں سے گزرتے ہیں۔جسے Anagen( ایناجین)، Categen (کیٹےجین)،telogen  (ٹیلوجین) اورexogen ( ایکزوجین) کہتے ہیں۔

اناجین Anagenکا مرحلہ سب سے لمبا ہوتا ہے یہ دو سے آٹھ سال پر محیط ہو سکتا ہے۔اس دوران ہمارے بال تیزی سے بڑھتے ہیں۔جس کے بالوں کا یہ دورانیہ لمبا ہوتا ہے اُن کے بال اتنے ہی زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔‘‘

’’ ہاں امّاں! آپ کے بال کتنے لمبے ہیں یعنی آپ کے بالوں کاایناجین دورانیہ ( Anagen phase )بہت لمبا ہے۔‘‘ شبستاں نے درمیان میں کہا۔

’’دوسرے مرحلے میں کیا ہوتا ہے؟‘‘ نفیس جلداز جلد سب جاننا چاہتا تھا۔

’’کیٹےجینCategen کو منتقلی مرحلہ ( transition phase) بھی کہتے ہیں۔اس دوران بالوں کا بڑھنا رک جاتا ہے۔یہ دورانیہ سب سے مختصر یعنی دو ہفتوں تک طویل ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد بال تیسرے دور(phase) میں پہنچ جاتے ہیں۔

ٹیلوجین دورانیہ Telogen phase    آرام کا مرحلہ ہوتا ہے ۔ اس میں ہمارے بال دو سے چار ماہ تک رہتے ہیں اور پھر جھڑ جاتے ہیں۔اس کے بعد نئے بالوں کی نشوونما کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

exogen ( ایکزوجین) کا چوتھا مرحلہ آرام کے مرحلے کا ایک حصہ ہے جہاں پرانے بالوں کے جھڑنے کا سلسلہ اور نئے بالوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

ایک بال کا سائیکل مکمل ہوا تو نئے بال کا سائیکل شروع ہو جاتا ہے اور کچھ وقت بعد ہمارے سروں پر چھوٹے چھوٹے بال دکھائی دینے لگتے ہیں۔‘‘

’’ہاں امّاں! مجھے جب بال کاٹ کرگنجا کیاگیا تھا تو کچھ دن بعد ہی میرے سر پر بال نظر آنے لگے تھے۔‘‘ نفیس نے یاد کرتے ہوئے کہا۔

’’ مضبوط اور خوبصورت بالوں کی نشو نما کے لئے خوراک پر دھیان دینا ہوتا ہے۔ وٹامن، پروٹین اور آئرن وغیرہ کو اپنی خوراک میں شامل کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بال نہ جھڑیں تو انڈے،سبزی،پھل اور دالوں کو کھاتے ہوئے ناک منہ نہیں بنانا ہے۔‘‘ میں نے شبستا ں کی ناک پکڑ کر کہا۔

’’ ہاں! میں سب چیزیں کھاؤ ں گی۔‘‘ شبستا ں کوسبزی بالکل پسند نہیں تھی لیکن آج اُس نے سبزی کے لئے بھی حامی بھر لی ۔

اچانک نفیس بولا،’’ باجی پریشان نہ ہو،اِن بالوں کی زندگی ہی اتنی تھی۔‘‘ اُس نے ابھی تک شبستاں کےبالوں کو اپنی مٹھی میں دبائے رکھا تھا۔جیسے ہی اس کی مٹھی کھلی سارے بال کمرے میں یہاں وہاں اڑنے لگے۔۔۔۔شبستاں نفیس کے پیچھے بھاگی اور میں کمرے میں اُڑتے بالوں کو پکڑنے میں لگ گئی۔

Wednesday, June 23, 2021

Story series - 1 'Maslehat' by Raj Mohammed Afridi


کہانی نمبر 1:

 "مصلحت"


راج محمد آفریدی


شناس نامہ



بقول سراج عظیم 

"  نسل نو کی کردار سازی کا بنیاد گذار راج محمد آفریدی۔ "

اردو کے ایک بے لوث خدمت گار جناب راج محمد آفریدی صاحب کا تعلق پشاور پاکستان سے  ہے۔

آپ ایک معروف ادیب اورریسرچ اسکالر ہیں. آپ کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ 

مشاہیر ادب کی گم گشتہ جہتیں

(تحقیقی مضامین کا مجموعہ)

اور

سورج کی سیر

(بچوں کے لیے کہانیاں)


آپ  افسںانہ نگاری  اور ڈرامہ نگاری کے ساتھ مختلف اخبارات کے لیے ادبی کالم اور مضامین لکھتے ہیں. علاوہ از ایں روزنامہ چارسدہ نیوز کے ادبی صفحے 'برگ ادب' کی تدوین و ترتیب بھی آپ کی ترجیحات میں شامل ہیں۔




کہانی نمبر 1:

 "مصلحت"


راج محمد آفریدی


ایک ساعت کا ذکر ہے کہ کسی غار میں ایک فقیر رہتا تھا۔ ایک روز وہ تھکا ہارا بڑی تکلیف سے غار پہنچا تاکہ تھوڑا آرام کرسکے۔اس نے جیسے ہی آنکھیں بند کیں، وہاں سےایک سانپ کا  گزر ہوا۔ سانپ نے فقیر کو دیکھ کر اپنی عادت کے مطابق اسے ڈسنے کا ارادہ کیا۔ وہ فقیر کے قریب آیا ۔ جب اسے پوری طرح تسلی ہوئی کہ فقیر سو رہا ہے تب اس نے عادت سے مجبور ہوکر اسے کاٹنا شروع کیا۔ فقیر کو بہت تکلیف ہوئی۔ وہ بلبلا کراٹھا۔ اس نےسانپ کو کئی بار ڈسنے سے منع کیا لیکن جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو اس نے ہاتھ اٹھا کرخدا کے حضور دعا کی ۔

"اے رب کائنات! دنیا جہاں کے تمام سانپ انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔ اے اللہ! سانپوں سے ڈسنے کی صلاحیت چھین لے تاکہ اس آفت سے زندہ روح محفوظ رہ سکے۔"

 فقیر کی دعا فوراً قبول ہوئی اور دنیا کے تمام مار  اس لیاقت سے معذور قرار پائے۔سانپوں کو اپنی اس صلاحیت کھو جانے کا سخت افسوس ہوا۔ 

دیگر حیوانات کو جب سانپ کی اس کمزوری و بے بسی کا علم ہوا تو انہیں بڑی مسرت ہوئی ۔ رفتہ رفتہ ان کی دنیا میں سانپوں کا رعب، دبدبہ اور خوف کم ہونے لگا۔ یہاں تک کہ اگلی دہائی تک روئے زمین پر سانپوں سے ڈرنے والا کوئی نہ رہا ۔

 بچے سانپوں سے ڈرنے کی بجائے ساتھ کھیلنے لگے۔وہ کودنے اچھلنے کے لیے رسی کی جگہ سانپ کا استعمال کرنے لگے۔ اس سے جھولا جھولتے۔ گھروں کی خواتین اور کسان رسی کی جگہ سانپوں سے گھٹڑی باندھتے۔ درزیوں نے سانپ پر نشانات لگائے اور اسے پیمائش کے کام لائے۔ چیل آرام سے ان کا شکار کرنے لگے ۔ بڑے سانپوں کو چوہے کاٹنے لگے اوراپنا پرانا حساب برابر کرنے لگے ۔

ظاہر ہے فقیر کی اس بددعا سے فائدوں سمیت  کافی مسائل نے بھی جنم لیا۔ اس سبب رسی بنانے والوں کا دھندا ماند پڑ گیا۔ شہباز کو سانپ کے شکار میں مزا نہ آتا، وہ اب بکریوں،مرغیوں اور دیگر مفید جانوروں کا شکار کرنے لگا ۔سانپ کو مارنے میں کسی جانور کو مزا نہ آتا جس سے سانپوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔چوہے اور کیڑے مکوڑے بھی تعداد میں بہت زیادہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہ  ایک  منٹ میں منوں اشیائے خور و نوش چٹ کھاتے ۔ ان سے گھر کی کوئی چیز محفوظ نہ رہی ۔ چوہے بلا خوف و خطر ہر جانب منڈلانے لگے۔ 

فقیر جس غار میں رہتا  تھا، وہاں بھی چوہوں نے خوب اودھم مچا رکھا تھا۔ فقیر پر جب یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ سانپ کی بے ڈسی سے یہ کیفیت رونما ہوئی ہے تو اسے اپنی بددعا پر شرمندگی کا احساس ہوا ۔ وہ خدا سے معافی کا طلب گار ہوا اور کہا۔

" اے خدا ! تو مطلق ذات ہے ، ہر چیز کے نفع و نقصان سے باخبر اور قدرت رکھنے والا ہے ۔ دنیا کی ہر شے، ہر فعل میں تیری مصلحت شامل ہوتی ہے ۔ ہم بے علم ہیں۔ہمیں کسی چیز کے نفع و نقصان کی خبر نہیں۔ میں نے جذبات میں آکر سانپ سے ڈسنے کی صلاحیت چھیننے کی درخواست کی تھی جس پر میں شرمندہ ہوں۔ یا اللہ! تُو سانپ کو ڈسنے والی طاقت سے پھر نواز دے ۔کیونکہ کائنات کا نظام درہم برہم ہونے والا ہے۔ "

ایک بار پھرفقیر کی دعا قبول ہوئی اور دنیا کے تمام سانپ دوبارہ پرانی روش پر آگئے ۔ جس سے سارا نظام دوبارہ درست سمت میں چلنے لگا ۔ بے شک کائنات کے  ہر فعل میں خدا تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرورکارفرماہوتی ہے۔

Tuesday, June 22, 2021

'Choti Khala Ki Urdu Class' by Syd Asad Tabish

 چھوٹی خالہ کی اردو کلاس

سید اسد تابش


شناس نامہ





نسید اسد علی ولد سید علی کا تعلق ضلع بارسی ٹاکلی مہاراشٹر سے ہے ۔ بارسی ٹاکلی میں ہی پچھلے بیس برسوں سے پیشہُ درس و تدریس سے وابستہ ہیں.آپ نثر نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں. ساتھ ہی  بچوں کے لیے کہانیاں اور ڈرامے لکھتے ہیں. بچوں کے رسالے گل بوٹے ممبئی، بچوں کا امنگ دہلی، بچوں کی دنیا دہلی اور الفاظِ ہند کامٹی میں ان کی کہانیاں اور ڈرامے شائع ہوتے رہتے ہیں.



چھوٹی خالہ کی اردو کلاس

سیداسد تابش



اسلام پور ایک چھوٹا گاؤں ہے. میرا بچپن وہیں گزرا. ہم ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام پور جاتے. ہم دوبہنیں اور ایک بھائی ہیں. ہمارے علاوہ دو خالائیں اور تھیں، ان کے بھی چار بچے تھے. یعنی ہم کل سات خالہ زاد بھائی بہن تھے. آگے پیچھے ہم ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں اسلام پور میں ہی گزارتے. جب اسلام پور پہنچتے تو نانی اماں کے بڑے سے مکان میں کہرام مچ جاتا. نانا جان بڑے زمیندار تھے.ملنے جلنے والے لوگ، مزدور آتے جاتے رہتے . رات میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے جب لیٹے باتیں کرتے تو ٹھنڈی ہوا چلتی جو قلب و روح کو مسحور کر دیتی. آنگن میں ہی گھر کا سارا کنبہ دسترخوان بچھا کر رات کا کھانا کھاتا.

نازیہ خالہ جنھیں سب بچے چھوٹی خالہ کہتے گھر کا سارا کام بڑی خوش مزاجی سے کرتی. ان کی ابھی ابھی ہی بارہویں کلاس ختم ہوئی تھی. امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ چھوٹی خالہ پڑھائی میں بھی بہت ذہین اور محنتی تھی. دراصل چھوٹی خالہ بچوں کے ساتھ ساتھ سب کی لاڈلی تھی. ان سے ہر وقت کوئی نہ کوئی مذاق کرتا رہتا، جسے وہ اپنی حاضر دماغی اور خوش مزاجی سے نہ صرف قبول کرتی بلکہ اس مذاق کا مقابلہ بھی کرتی.

ایسے ہی تینوں بیاہی بہنیں بیٹھی ایک دوپہر کو اہنے گھروں کی باتیں کررہی تھیں کہ بچوں کا شور ان کی گپ شپ میں خلل ڈالنے لگا. میری امی تو ھما... ھما.... ھما، کرتی ہوئی میرے پیچھے پڑ گئی. صفیان (خالہ زاد بھائی) کو ہم نے لگورچی کھیل میں ہرا دیا تھا. وہ ہار برداشت نہ کر پایا اور رونے لگا. ہارنے کے بعد اس نے ہار کا ذمہ دار مجھے بنا دیا. روتے ہوئے بار بار "ھما باجی نے ہرائے، ھما باجی نے ہرائے...." کی رٹ لگا دی. جب امی نے مجھے ڈانٹا تو چپ ہوا. میں دوڑ کر چھوٹی خالہ کے پیچھے چھپ گئی. مگر اب ہماری شرارتیں اور دن رات کی دھینگا مشتی ناقابلِ برداشت ہو گئی. اس لیے تینوں بہنوں نے چھوٹی خالہ کو ڈانٹنا شروع کر دیا." تم نے بگاڑ رکھا ہے ان سب کو.... خود بھی ان کے ساتھ بچی بن جاتی ہو.... اب تم ہی سنبھالو..... "


چھوٹی خالہ نے بھی اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے کہا "ٹھیک ہے، اب میں ہی سدھاروگی انھیں.... کل سے دیکھو، کیسے ان سب کی کلاس لیتی ہوں....."


چھوٹی خالہ کی اس بات نے ہم سب کو دم بخود کر دیا... ہم سارا دن چھوٹی خالہ کے آس پاس ہی منڈلانے لگے کہ کچھ اشارہ ملے، آخر چھوٹی خالہ کیا کرنے والی ہے... کہیں اپنے ساتھ گھر کا کام کرائے... یا.... ہم سے بات بند کردے... ایسے ہی اندیشوں میں جوں توں رات کٹی...


اگلے دن ہم سب کے چہرے بجھے بجھے تھے.... ناشتے کے بعد نانی جان نے مزدرو کو کہہ کر آنگن کے ایک طرف جہاں لان نما گارڈن تھا، کو صاف کرنے لگایا.... گیارہ بجے دو آدمی اور آئے جنھوں نے ٹینوں کی چھت تیار کی... چھوٹی خالہ نے آ کر معائنہ کیا اور نانی جان سے" ٹھیک ہے" کہا....


ہماری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تبھی چھوٹی خالہ اپنے صندوق سے کچھ کتابیں نکال لائی اور سب بچوں کو بلا کر کہنے لگی.... سنو ھما، شیرین، صفیان ،تحریم.... سب سنو آج سے میں تمھاری اردو کی کلاس لوگی....


ہم سب کے چہرے کھل کر تمتما اٹھے.... ہمیں پتہ تھا کہ چھوٹی خالہ کی اردو کافی اچھی ہے. ان کی خوش خطی تو پورے کنبے میں مشہور تھی. گاؤں کے  شادی کے رقعوں پر نام ان کے ہی ہاتھوں لکھے جاتے.

   ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی. اردو کے علاوہ چھوٹی خالہ نے قرآن مجید بھی تجوید کے ساتھ پڑھا تھا. ذاتی مطالعے سے قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیریں بھی پڑھتی تھی. کلاس کے پہلے دن ہی دس بچے مختلف کلاسوں کے ہوگیے. دو بچے ہمارے اکلوتے ماموں جان کے اور ایک بچہ محلے کا. کلاس کے پہلے دن چھوٹی خالہ نے ٹائم ٹیبل بتایا. گیارہ بجے سے ایک بجے تک کلاس میں اردو پڑھائی جائے گی. ایک بجے سے تین بجے تک کھانا، کھیلنا، ظہر کی نماز اور کچھ دیر آرام. پھر تین سے پانچ بجے تک کلاس ہوگی. عصر کی نماز کے بعد گارڈن میں کھیل کود.... مغرب سے عشاء تک قرآن مجید پڑھایا جایے گا... جمعہ کے دن آدھا دن ہی کلاس، جس میں قرآن مجید کی صورتیں اور کچھ دعائیں یاد کرائی جائے گی. اتوار کو چھٹی ہوگی جو چھوٹی خالہ کے ساتھ نانا جان کے کسی کھیت میں پارٹی کے طور پر انجوائے کرائی جائے گی...


کلاس کے ٹائم ٹیبل میں ہر بات کا دھیان رکھا گیا تھا. ہم بہت خوش تھے. چھوٹی خالہ بچوں کی دنیا، امنگ، گل بوٹے اور بچوں کے دیگر رسالوں سے نظمیں اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتی. بچے انھیں دہراتے. بچوں کو ان کی عمر اور صلاحیت کے مطابق کاپی پر اردو رائٹنگ کے لیے لکھ کر دیتی. ہم ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک لائن کی نقل کر کے مشق کرتے. لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور پرندے کی فریاد وغیرہ نطمیں ہمیں یاد کرائی جاتی. اردو کا ایک پیراگراف تختہُ سیاہ پر لکھ کر چھوٹی خالہ صحیح لب و لہجے سے پڑھتی، پھر باری باری ہمیں پڑھانے کا حکم ہوتا ... بتول جو ہمارے خالہ کی بیٹی تھی اور سب بچوں میں چھوٹی، جب تختہُ سیاہ پر  پڑھانے جاتی تو اس کی بھولی صورت دیکھنے کے قابل ہوتی. وہ چھڑی بورڈ پر رکھتی اور چھوٹی خالہ کی طرف دیکھتی جاتی. اسے الفاظوں کی پہچان کہاں تھی. چھوٹی خالہ سے سنے ہوئے الفاظ دہراتی... کبھی کبھی چھوٹی خالہ بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر کی بجائے دل سے کہتی "بتول بہت ذہین لڑکی ہے. بتول کو کچھ بھی نہیں آتا. بتول جیسا بولو ویسا ہی بولتی...." بتول سمجھتی کہ وہ بورڈ پر لکھا ہوا پڑھ رہی ہے جبکہ دیگر بچے اس شائستہ مذاق سے دل ہی دل میں ہنسنے لگتے...

ایسا نہیں ہے کہ معصوم سی بتول کو اس کلاس میں کچھ سیکھنے نہیں ملا... اسے بھی پہاڑے اور گنتی یاد ہورہے تھے جبکہ ابھی وہ صرف تین سال کی ہی تھی. ہمارے ساتھ نماز پڑھتی. جس کے بازو کھڑی ہوتی اس کی دیکھا دیکھی رکوع سجدے کرتی... مگر بار بار کھڑی رہتی. صفیان نماز میں ہی ہنسنے لگتا. جب چھوٹی خالہ نے دیکھا کہ بتول کی نماز بچوں کے لیے ہنسی مذاق کا موضوع بن رہی ہے تو اسے اپنے ساتھ کھڑا کرنے لگی....


اتوار کے دن تو ہم خوب کھیلتے..... چھٹیاں ایسے گزرتیں کہ پتہ نہ چلتا. گھر میں شور بھی بند ہوگیا تھا. چھوٹی خالہ نے کلاس لے کر ہماری رائٹنگ بھی بہتر کر دی. جب ہم اپنے شہر میں آتے اور اسکول جاتے تو ہمارے اساتذہ ہماری اردو کی رائٹنگ دیکھ کر شاباشی دیتے



✍🏼سید اسد تابش


بارسی ٹاکلی ،ضلع اکولہ

مہاراشٹر

موبائل :8421427654

Sunday, June 20, 2021

'Shams Jalnavi Ki Adabi Tamazat' By Kausar Hayat

 


شمس جالنوی کی ادبی تمازت 

کوثر حیات، اورنگ آباد۔(دکن)


شناس نامہ




کوثر حیات کا اصل نام خواجہ کوثر جبین ہے لیکن ادب میں وہ کوثر حیات کے نام سے معروف ہیں. ان کا تعلق شہر خجستہ بنیاد اورنگ آباد (دکن) سے ہے جہاں وہ گزشتہ ربع صدی سے پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں. ان کی تعلیمی اور درسیاتی و نصابی نیز ہم درسی سرگرمیوں کا دورانیہ کافی طویل ہے. ادب میں وہ تحقیق کے علاوہ بچوں کا ادب، افسانہ نگاری  اور مضمون نگاری جیسی اصناف میں طبع آزمائی کرتی ہیں. بحیثیت ممتحن انھوں نے کئی ادبی، ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں میں شرکت کی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے. ان کی تحریریں تسلسل اور تواتر کے ساتھ ملک و بیرون ملک کے موقر رسائل و اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں. سوشل میڈیا پر بھی وہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے مسلسل کوشاں نظر آتی ہیں. انھیں مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ایوارڈس سے بھی نوازا گیا ہے.



شمس جالنوی کی ادبی تمازت

  کوثر حیات، اورنگ آباد۔(دکن)

Email: khwaja.kauser@gmail.com


علاقہ دکن ملک میں غزل کی بدولت اپنی مخصوص شناخت رکھتا ہے۔ دکن کے پہلے مشہور و معروف شاعر ولی دکنی جنہوں نے غزل لکھی۔ سرزمین دکن نے اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ادب کی مسلسل کی ابیاری کی۔ سرزمین دکن سے غزل کی آبیاری کرنے والے شمس جالنوی غزل گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ 

انسانیت، بھائی چارگی، حب الوطنی عام انسان کی ضرورتیں و تڑپ اور خارجی عوامل جیسے اقدارو روایتوں کی تبدیلیاں، نا اتفاقی، ریاکاری و فساد جیسے حساس موضوعات کو اپنی غزلوں سے آراستہ کرکے بر صضیر کے نامور شعراء میں اپنا نام درج کروانے والی ناقابل فراموش ہستی غزلوں کا شمس، شمس جالنوی جو اپنے کلام کو سننے والے کو سحر انگیز ترنم سے سحر زدہ کردیتے تھے۔ 

شہر جالنہ سے شمس کی غزلوں کی تمازت بین الاقوامی سطح پر روشناس ہوئی و اعلی پائے کہ غزل گو شاعر تھے۔ انہوں نے دھولیہ کے قریب اماپور کے خوفناک فساد سے متاثر ہوکر اپنے کرب و اضطراب کو نظم میں پیش کیا جسے عالمی شہرت ملی۔ یہ نظم پڑھنے اور سننے والے کے روبرو اس سانحہ کو لاکھڑا کرتی ہے۔ 

زرد زرد چہرے ہیں زخم دل کے گہرے ہیں 

وقت ہے تماشائی وقت ہے تماشائی 

وہ تسلی دیتے ہیں زخم پر نمک رکھ کر

خوب ہے مسیحائی خوب ہے مسیحائی 

بزم عیش و فرصت میں جب ملے چلے آنا

بے کسوں کی دنیا میں بے کسوں کی دنیا میں 

وقت کے مسیحاؤں ناپ کر بتا دینا

تم غموں کی گہرائی تم غموں کی گہرائی 

روح چیخ چیخ اٹھی دل کی بڑھ گئی دھڑکن

اشک آنکھ سے ٹپکے اشک آنکھ سے ٹپکے


تم نے کیوں ورق الٹے ماضی کے 

درد نے لی انگڑائی درد نے لی انگڑائی 

شمس جالنوی کا نام محمد شمس الدین تھا۔ وہ ۹۲۹۱ء کو ریاست مہاراشٹر کے ضلع جالنہ میں پیدا ہوئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم جالنہ ہی میں ہوئی اور اس کے بعد فاضل منشی کا امتحان میں پاس کیا تھا۔ انہوں نے فارسی سے ایم اے کیا تھا۔ادب کی دنیا میں انہیں شمس جالنوی سے جانا جاتا ہے۔ زندگی میں بہت تکالیف اور سختیاں جھیلی تھی۔ اس کا عکس ان کے کلام میں جا بجا ملتا ہے۔ ان کے کلام میں جہاں زندگی کی تلخی جھلکتی ہے وہیں اللہ سے قربت بھی عیاں ہوتی ہے جیسے 

شیشہ ہوں پتھر کا جگر دے یا اللہ 

پھر مجھ کو جینے کا ہنر دے یا اللہ 

سرکش، سنگ دل، موم کی مورت بن جائے 

میری زبان میں ایسا اثر دے یا اللہ 

شمس جالنوی کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے رہا۔ انہوں میں اپنی پہلی غزل ۰۲/ سال کی عمر میں کہی۔ ان کا ماننا تھا کہ شاعر کا مطالعہ گہرا اور وسیع ہونا چاہئے۔چونکہ آج پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ کی ترقی کے باعث چھپنا چھپانا بڑا آسان ہوگیا ہے۔ پہلے یہ دشوار مرحلہ تھا اس لئے یہ عموماً شمس جالنوی جب بھی غزل کا شعر لکھتے سب سے پہلے اپنے دوست احباب کو سنادیا کرتے تھے اور ساتھ ہی غزل یا شعر جو پسند آجائے لکھ کر تحفہ کے طور پر بانٹ دیا کرتے تھے۔ بنیادی طور پر وہ شہرت یا نمود و نمائش کے خواہاں نہیں تھے۔ اور دوسری وجہ ان کی معاشی حالت بھی رہے جو انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ مرزا غالب سے بہت متاثر تھے۔اپنے کلا م میں وہ کہتے ہیں 

صحرا کو گلزار بنانا پڑتا ہے 

پتھر پتھر پھول کھلانا پڑتا ہے 

شہرت یارو ملتی نہیں بازاروں میں 

ہستی کو مٹی میں ملانا پڑتا ہے 

پہن کے کھادی دیش بھکت نہیں بن جاتے 

راہ وفا میں جان گنوانا پڑتا ہے 

آج کے نیتا گونگے بہروں کی سنتان

دل نہیں ملتا ہاتھ ملانا پڑتا ہے 

جس پر بھی انعام کی بارش ہوتی ہے 

اس کے پیچھے شمس زمانہ پڑتا ہے 

شمس جالنوی کو ذمہ داریوں اور فکر معاش نے ہمیشہ سرگرداں رکھا۔غریبی و مفلسی کی بناء پر وہ اخبار ات تقسیم کرنے کا کام کرتے تھے۔اس سے پہلے انہوں نے بیڑ میں ایک بیٹری کے کارخانہ میں لمبے عرصہ تک بطور مینجر کام کیا جہاں انہیں یومیہ بارہ سے پندرہ گھنٹے کام کرنا ہوتا تھا۔ بہر کیف ان کے حالات زندگی نے غزلوں کو صرف محبوب کی تعریف تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے وسعتیں دے کر اپنی غزلوں میں انہوں نے زندگی کی صعوبتوں، کرب اور تکالیف کو اپنے کلام میں پیش کیا۔

دل بھی ان سے لگا کے دیکھ لیا 

عشق کی چوٹ لگا کے دیکھ لیا

اپنا سویا ہوا مقدر ہے 

بارہا آزما کے دیکھ لیا 

خو نا بدلے گی اہل الفت کی 

وقت نے آزما کے دیکھ لیا

خیر ہو آشیانہ دل کی 

برق نے مسکرا کے دیکھ لیا

زندگی کیوں نہ لے گی انگڑائی

آپ نے مسکراکے دیکھ لیا

پردہ دوستی فریب ہے شمس

سب کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

شمس جالنوی کے اعزاز میں بہت سے پروگرام منعقد ہوئے۔کئی ادبی انجمنوں کی جانب سے ان کی ادبی خدمات پر انہیں میمنٹو اور سپاس نامہ سے نوازا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انہیں دو مرتبہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ کے تاریخی مشاعرے میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ شمس جالنوی بہت سے طرحی مشاعروں میں شرکت کی۔ علاقہ مراہٹواڑہ میں منعقد ہونے والے بیشتر مشاعرے ان کے کلام کے پڑھے بغیر مکمل نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستان کی کئی ریاستوں میں مشاعرے پڑھے ان کے کلام کے ساتھ ساتھ سامعین ان کی غزل گوئی کے حصار میں بند جاتے۔ 

ایک وقت ممبئی میں ایس اے سندھو صاحب کی صدارت میں مشاعرہ ہونا تھا۔ اس وقت بیکل اتساہی، شہریار اور دیگر نامور شعراء بھی تھے اور شمس جالنوی کو مشاعرے سے پہلے پڑھنے کے لیے کہا گیا انہوں نے بلا جھجک پڑھنا شروع کردیا۔ سامعین ان کی شاعری میں اتنے منہمک ہوگئے تھے کہ شمس جالنوی کو مغالطہ ہوا کہ سامعین ان کی شاعری سے اکتا تو نہیں رہے ہیں اور رکنے کے لیے بول نہیں پا رہے ہیں۔ آخر میں انہوں نے سامعین سے پوچھ لیا ”معاف کرنا آپ کو میری شاعری پسند آرہی ہے۔“تبھی سب نے ایک آواز میں کہا”ارے ہم تو آپ کی شاعری میں ڈوب گئے تھے آپ نے درمیان میں رک کر ہمیں کنارہ پر لادیا۔“  شمس جالنوی کے کلا م میں تعریف و مدح نہیں ہے بلکہ زندگی کا تناؤ، کلام میں اذیت کا اظہار ہے۔ جیسے یہ اشعار 

دستگیری وہ سب کی کرتا ہے 

اور احسان بھی جتاتا ہے 

کرکے احسان جو شرمسار کرے

ہم کو اس آدمی سے کیا لینا

شمس کی ذاتی زندگی تلخیوں، محرومیوں سے بندھی تھی۔ کسمپرسی اس پر جواں بیٹے کی موت ان سب نے انہیں زمانہ کی قدر شناسی سکھا دی۔ ان محرومیوں کی تصویر ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے   ؎

راس آئے نہ آئے صحن چمن

میں نا بدلوں گا اپنا طرز سخن

پیکر حق ہوں سچ ہی بولوں گا

وقت کی برہمی سے کیا لینا

ایک غنچہ کی زندگی کتنی

ایک تبسم نصیب ہے جس کا

شمس جالنوی کے مجموعہ کلام ”تمازت“جو ۰۹۹۱ء میں شائع ہوا جس کا اجراء منجلہ گاؤں میں ہوئے مشاعرے میں بشیر بدر کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس مجموعہ کلام نے نے اہل ذوق و اہل ادب سے بہت داد و تحسین حاصل کی۔ اور بعد میں اسے ”مدھیہ نائک کا سوریہ“ کے نام سے جسے جالنہ ضلع کے کلکٹر ڈاکٹر نیلما کیرکیٹا اور جناب اجیت کمار شریواستو جی نے ہندی زبان میں شائع کروایا۔ ادب کی اس خدمت پر شمس جالنوی دونوں کے لیے رقمطراز ہیں    ؎

نوازا ہے آپ دونوں نے اس قدر شمس کو

بعد شمس کے زمانہ یاد کرے گا شمس کو

آخری وقتوں میں بھی ان کے حالات موافق نہیں ہوئے۔ عمر کے ۱۹/ سال تک وہ غم روزگار سے الجھے رہے۔ان کے کلام کا ہر لفظ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو چیخ چیخ کر آشکارا کرتا نظر آتا ہے۔ کروٹ کروٹ درد سموئے ہوئے شمس جالنوی اپنے کلام میں زندگی کی حقیقتوں کا اس طرح پردہ چاک کرتے کہ پڑھنے والے کی آنکھیں درد کے احساس سے ڈبڈبا جاتیں۔اپنے حالات پر وہ برملا کیا خوب کہہ گئے کہ      ؎

 ذہنوں پہ پردے پڑ گئے، معذور ہوگئے 

ہم خواہشوں میں ہی محصور ہوگئے 

اس نے کس اس ادا سے جھوٹی تسلیاں 

ہم دل کی بات کہنے پہ مجبور ہوگئے 

آیا مریض غم کا مسیحا کو کب خیال

جب زخم رسنے لگ گئے، ناسور ہوگئے 

سچائی اب ترستی ہے انصاف کے لیے

مکر و فریب آج کے دستور ہوگئے 

انسانیت، خلوص و وفاء، پیار و دوستی 

الفاظ یہ کتابوں سے کافور ہوگئے 

روئے زمین پہ کوئی جنہیں جانتا نہ تھا

وہ بھی ہمارے نام سے مشہور ہوگئے 

جن کے دلوں سے گزری انا لحق کی روشنی

وہ لوگ اپنے وقت کے منصور ہوگئے

الٹی نقاب شمس نے چہرے سے جس گھڑی 

جلتے ہوئے چراغ بھی بے نور ہوگئے 

شمس صاحب کا کہنا تھا کہ غریبی صرف پیسے نہ ہونے کا نام نہیں ہے۔ عقل اور تعلیم کا نہ ہونا ایک زیادہ بڑی اور افسوسناک غریبی ہے۔ ان کا کلام بے باک اور سچائی کا آئینہ ہوتا۔ حقیقتوں کی منظر کشی الفاظ میں کرنا انہیں بدرجہ اتم آتا تھا۔ ساتھ ہی ان کا کلام سلیس زبان میں پراثر اور دل کو چھو لینے والا ہوتا۔ ماحول کا درد ان کی رگ و پئے میں سرایت کرگیا جس کا تریاق ان کی شاعری میں پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ بے شک شمس آج ہمارے درمیان نہیں ہے مگر ان کے کلام کی تمازت آنے والی نسلوں کو تابناک کرتی رہے گی۔

  

………………………………

Saturday, June 19, 2021

'Aadhe zinda, aadhe murda jism' by Gulshan Gul


آدھے زندہ آدھے مردہ جسم

(افسانچہ) 

گلشن گل



تعارف:

'گلشن گل' ایک نوخیز شاعرہ اور افسانہ نگار ہیں. ان کا آبائی وطن میرٹھ ہے البتہ طویل عرصہ گزرا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ممبئ میں مقیم ہیں. گل، نوعمر ہونے کے باوجود بہت متحرک تخلیق کار ہیں. حال ہی میں ان کا شعری مجموعہ'محسوس کرو تو' شائع ہواہے. علاوہ ازیں ان کی بیشتر غزلیں اور افسانے بین الاقوامی اخبارات اور رسائل کی زینت بن چکے ہیں. انھیں کا افسانچہ ' آدھے زندہ آدھے مردہ جسم' پیش خدمت ہے. 



آدھے زندہ آدھے مردہ جسم 



بہت خواہش تھی اس کے سینے پر سر رکھنے کی۔تمنا تھی اس کے مضبوط ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیلنے کی۔حسرت تھی اس کے شانے پر سر رکھ کر دل میں چھپی ہر بات بتانے کی۔اس سے بار بار اظہار محبت کرنے کی اور اس کے لبوں سے بے تابیاں سننے کی۔ہاتھ پکڑ کر  خاموش سڑک پر اس کی باتوں پر مسکراتے ہوئے دور تک چلنے کی۔اس کا  ساتھ روح سے محسوس کرنے کی۔اسکی محبت اوڑھ کر سونے کی،اس کے عشق کے خواب  دیکھ کر اسی کے پیار کی روشنی میں اٹھنے کی۔ان تمناؤں کا پودا میرے دل کی زمین پر اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا اور ایک تناور درخت کی صورت میرے دل کی زمین کو اپنی آغوش میں لے چکا تھا۔لیکن میں نے ایسا کب سوچا تھا کہ یہ جس کی محبت میں میں نے ایک خوبصورت گلشن آباد کیا تھا۔در اصل وہ ایک گہرا جنگل تھا۔جس سے باہر آنا مشکل تھا۔ایسا ہی تو ہم کرتے ہیں۔ہم اپنی فیلنگس اور جذبات کو لے کر زندگی میں آگے بڑھتے ہیں اور جب کبھی کوئی ہماری عادتوں سے تھوڑا بھی میچ ہوتا ہے تو سمجھتے ہیں۔۔لو مل گئی منزل۔یہ جانے بنا کہ یہ میچ اتفاقا بھی ہو سکتا ہے۔اور اگلا انسان بلکل انجان ہے۔ اور ہم خود ہی اپنا خوابوں کا محل تیار کر لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جو میں نے سوچا بلکل ایسا ہی اس نے بھی سوچا ہے۔جب کہ معاملہ بلکل برعکس ہوتا ہے۔دوسرے انسان کی اپنی سوچ اور فیلنگس ہیں۔وہ ہم سے بلکل بر عکس سوچتا ہے۔اس نے تو ابھی پہلی سیڑھی ہی پر قدم نہیں رکھا اور ہم نے اس کے ساتھ سارا سفر صرف خیالوں میں طے کر لیا اور پھر یا تو دوسرا  انسان  تمہاری محبت سے محبت کرے گا "محبت سے محبت" تمہارے وجود سے نہیں یا پھر تمہاری خود ساختہ محبت سے بیزار ہو جاۓ گا اور تم  تنہا اپنے ہی بناۓ ہوئے جنگل میں بھٹکتے رہو گے۔  اور اوڑھ لیں گے چپ کی چادر اپنے پورے وجود پر۔ہاں میرے ساتھ بھی یہی ہوا ۔۔۔میں نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔کیوں کہ اسے نہ میرے وجود سے محبت ہوئی نہ میری محبت سے محبت ہوئی۔اب میں نے اپنی  تمناوں ،خواہشوں ،حسرتوں  پاگل پن،دیوانہ پن سارے احساسات کی  قبر بنا دی۔  اسی خود ساختہ جنگل میں۔اور یہ جذبات و احساسات ہی تو رشتوں کی بنیاد ہوتے ہیں اور یہی مر جاۓ تو باقی رہتے ہیں  بس احساسات سے عاری دو جسم ۔  آدھے زندہ ۔آدھے مردہ  جسم۔


گلشن انصاری گل 

ممبئی

Friday, June 18, 2021

'Sethani' by Zabeehullah Zabeeh

سیٹھانی
(افسانہ) 


ذبیح اللہ ذبیح، نئ دہلی



تعارف :( ذبیح اللہ ذبیح کا تعلق دہلی سے ہے. ذبیح، نوجوان شاعر اور اچھےافسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالر بھی ہیں. انھوں نےحال ہی میں دہلی یونیورسٹی سےایم فیل مکمل کیا ہے. بطور محقق، اردو ادب میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں. ان کی تخلیقات ملک اور بیرون ممالک کے ادبی رسائل اور اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں.) 



سیٹھانی


مسلسل چار روز سے وہ فجر کی اذان کے بعد نیند کے آغوش میں جاتا۔رات بھر اچھا مضمون لکھنے کا مشق کرتا۔پوری پوری رات کتاب کے مطالعہ کے بعد بھی کبھی دلچسپ تحریر وجود میں نہیں آتی۔بعض اوقات غصے کی زد میں پاس میں رکھی چائے کی پیالی آجاتی۔اور چائے کی چسکیوں کو پودوں کو لینے پڑ جاتے۔اور غصے میں بالکنی میں رکھے پودوں سے خوب باتیں کرتا۔اور کبھی کبھی اللہ سے بھی مخاطب ہو تا۔اور پودوں سے تو پوری رات لڑتا۔جس کسی دن بھی اس کی تحریر اچھی نہیں ہوتی۔
یار ! تم لوگوں کے ہی مزے ہیں۔ہر کوئی تم سب کی خوشبو کا قائل ہوتا ہے۔بارہا ایسا ہوتا ہے کہ میرے دوست مجھ سے ملنے آتے ہیں۔اور تم سب کی خوشبو پاتے ہی فوراً بالکنی میں آجاتے ہیں۔دنیا کے ازل سے تم سب کا انسانوں کے مزاج پر قبضہ ہے۔حسد کرتا ہوں کبھی کبھی میں تم سب کی زندگی سے۔اللہ نے ہماری تمہاری تخلیق میں تفریق کیا ہے۔تم لوگ بنا کسی محنت،مشقت کے بھی پوری دنیا میں معتبر ہو۔ہر کوئی تمہارا منتظر ہے۔اور مجھے دیکھو یہاں دنیا میں آئے ہوئے سالوں ہو گئے۔لیکن ہمارا کوئی مشتاق ہی نہیں۔میں منتظر ہوں کسی کی محبت کا۔لیکن افسوس محبت ہمارا مقدر نہیں۔تذلیل ہمارا وجود ہے۔جس کے زیر سایہ زندگی کٹ رہی ہے۔آنکھیں ترس گئیں ہیں شاہین کے نظر کو۔فطرت کچھ کہتی ہے،زندگی کچھ سمجھاتی ہے،اپنوں کی منافقت لے ڈوبی ہے،ملک کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ہر وقت یہاں جان خشک رہتی ہے۔کہ ہندوستان میں کوئی ہندو مسلم کا فساد تو نہیں ہواہوگا۔
اور ادھر ہر وقت سیٹھانی کی آنکھیں مجھے گھورتی رہتی ہیں۔مجھ سے کچھ جیسے شکایتیں کرتی ہیں۔وہ مجھے آواز دیتی ہیں۔نیند آتی نہیں۔قلم ساتھ دیتے نہیں۔دن میں دفتر۔بچوں کی فرمائیشیں،بیگم کی بے حسی،میری بوڈھی ماں کی چند بچی کچی سانسیں،بڑی آپا کے اپنے گھر کے معاملات،بھانجی کی ایم۔بی۔بی۔ایس کی فیس۔چھوٹی بہن کی شادی۔یہ ساری پریشانیاں ایک طرف۔اور دوسری طرف سیٹھانی ہر وقت میرے سر پہ مسلط رہتی ہیں۔میں یہاں تن تنہا گوروں کے ملک میں کیا کیا کروں۔بچپن سے خواہش تھی۔عصمت آپا اور سعادت حسن منٹو جیسا بے باک افسانہ نگار بنوں۔سر سید احمد خان جیسا قوم کا مجاہد بنوں۔لیکن میں،میں تو ان گوروں کا غلام بن کر رہ گیا۔سائنس ابا نے پڑھایا کہ میں بڑا دانشور بنوں گا،ملک کا نام روشن کروں گا۔دانشور بنا تو۔۔۔ لیکن ان گوروں کے ملک کے لئے۔اب میں بھی کیا کرتا۔پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لئے ہوئے گیارہ سال گذر گئے تھے۔ملازمت ملتی نہ تھی۔پھر مجبوراً مجھے امیریکہ آنا پڑا۔یہاں سب کچھ اچھا ہے۔پیکیز بھی بہت اچھا ہے۔بلکہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ۔یہاں آنے کے بعد گھر کے حالات بہتر ہیں۔
راحل! راحل!
جی خان صاحب
بیئر کی بوتل ہوگی کیا؟ اگر ہو تو ایک بوتل ہمیں بھی دے دو۔
جی بالکل خان صاحب! حاضر ہے آپ کی خدمت میں۔
نہیں راحل!تمہارا بہت شکریہ۔چلو میں چلتا ہوں۔Good Night
Pansy!دیکھا تم نے؟۔اور مجھے بہت نصیحت کیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں اپنی تہذیب مت بھول جانا۔رات میں پاجی اور دن میں حاجی بن جاتے ہیں۔
Roseیہ بتاؤ میں کیسے کچھ لکھوں؟ ظاہری طور پر خان صاحب روز اسی وقت نازل ہو جاتے ہیں۔اور باطنی طور پر سیٹھانی آہیں لگاتی ہیں۔
اوہ ! خدا یا ! دیکھو ! دیکھو! کیسے سیٹھانی مجھے گھور رہی ہیں۔مجھ سے یہ کہتی ہیں کہ میں ان کی روداد لکھوں۔
اب Jasmine بھلا تم ہی بتاؤ! آج کے زمانہ میں کوئی کسی کی روداد پڑھتا یا لکھتا ہے؟ آج کل تو دور Brendan Green کا ہے۔ جس نے PUBG Game کا ایجاد کیا ہے۔ سیٹھانی بھی حد کرتی ہیں۔اب مجھے انسیت ہو سکتی ہے ان سے۔کیوں کہ میں ان کا کبھی کسی زمانہ میں ہم سایہ تھا۔وہ بیوہ تھیں۔اپنی بیٹیوں کے ساتھ مختلف گھروں میں برتن دھل کر گزارا کرتی تھیں۔ان کے بیٹے اپنی بیویوں کے غلام تھے۔انہیں اپنی ماں یا بہنوں سے کوئی انسیت نہ تھی۔انہیں تو بس اپنی بیویاں عزیز تھیں۔اب بھلا تم سب یہ سوچوں کہ جس سیٹھانی کو ان کے اپنے بچے کبھی آنکھ بھر کرنہیں دیکھے۔تو دنیا کیا خاک ان کی روداد پڑھے گی۔نئی نسلوں کو PUBG سے فرصت نہیں۔اور ہماری ماں بہنوں کو ڈراموں سے فرصت نہیں۔آج کے زمانہ میں ادب سے کس کو شغف ہے۔اب یہ علی گڑھ تحریک،ترقی پسند تحریک کا زمانہ تو نہیں َ؟ جہاں با ذوق لوگ ہوا کرتے تھے۔
میری دادی کہاں کرتی تھیں۔کہ بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ وفا شعار ہوتی ہیں۔اب میری رافعہ کو ہی دیکھو! وہ مجھ سے کتنی محبت کرتی ہے۔میں تو جنت اسی کے ساتھ جاؤں گی۔ہا۔۔ہا۔۔ہا۔۔ہا۔۔۔ Daisy! سیٹھانی کی بیٹیاں تو بالکل دادی کے تجربے کے برعکس نکلیں۔ بڑی بیٹی نے تو ان کی عزت کو خوب چار چاند لگایا۔وہ اپنی ماں بہنوں کو چھوڑ کر کسی شادی شدہ مردکے ساتھ بھاگ گئی۔اس انسان کی بیوی نے سیٹھانی کی کیا درگت کی تھی۔ہائے اللہ! سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا میری اماں کے بقول۔میں نے نہیں دیکھا ہے یہ سب۔یہ سب تو اماں نے بتایا ہے۔
ہاں لیکن انکی دوسری اور تیسری بیٹیوں کی شادی دیکھی ہے میں نے۔دوسری بیٹی کی شادی اتنے امیر گھر میں ہوئی کہ وہ تو اپنی اوقات ہی بھول گئی۔وہاں اپنے سسرال میں وہ اب سیٹھانی بن گئی تھی۔وہ بڑے بڑے چابی کے گچھے لے کر گھوماکرتی تھی۔گہنوں سے ہمیشہ لدی ہوتی تھی۔اور پھر ان گہنوں اور چابی کے گچھوں کے ساتھ کھو ہی گئی۔اس کی اما یعنی کی سیٹھانی آواز دیتی رہ گئیں۔کرن!۔۔۔۔کرن!۔۔۔ کرن!۔۔۔۔
لیکن کرن تو اس محل میں کھو ہی گئی۔اور واپس اماں کے پاس کبھی نہیں لوٹی۔
اور پھر سیٹھانی کی بڑھتی بیماری،عمر کے تقاضے،پنکی کی شادی کی فکر انہیں جھک جور رہی تھی۔آخر کار پنکی کی شادی بھی ایک شرابی سے ہو گئی۔جو روز پنکی کو مارتا تھا۔پنکی چلاتی تھی۔اماں!۔۔۔۔اوشا دی دی!۔۔۔۔ کرن دی!۔۔۔۔۔۔مجھے بچا لو ! اپنے پاس بلا لو!
لیکن پنکی کو کو کون بلاتا،کون بچاتا،وہ بھائی جنہوں نے سدا اپنی ماں بہنوں کے سامنے بیویوں کو ترجیح دی۔وہ اوشا دی جس نے اپنی ماں کو
جیتے جی مار دیا۔اور وہ کرن دی جو شادی کے بعد دولت کے نشے میں ڈوب گئی۔اور آخر کار جب سیٹھانی سے یہ سب دیکھا نہیں گیا۔تو وہ گھر سے نکل گئییں۔ادھر ان کے بیٹے تھاوے والی ماتا کی پوجا کر رہے تھے۔اور سیٹھانی بھگول جی

کے بغیچے میں چراغ سحری کی مثال تھیں۔

ذبیح اللہ ذبیح ؔ
ریسرچ اسکالر،

دہلی یونیو رسٹی،دہلی

Thursday, June 17, 2021

'Kangan' By Wasi Shah

 کنگن



ﮐﺎﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺣﺴﯿﻦ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎ ﮐﻨﮕﻦﮨﻮﺗﺎ

ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﭼﺎﺅ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﻣﺎﻥ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ

ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﺯﮎ ﺳﯽ ﮐﻼﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﮍﮬﺎﺗﯽﻣﺠﮫ ﮐﻮ

ﺍﻭﺭ ﺑﮯﺗﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﻗﺖ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﮞ ﻟﻤﺤﻮﮞﻣﯿﮟ

ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﯽ ﺟﻮ ﮔﮭﻤﺎﺗﯽﻣﺠﮫ ﮐﻮ

ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﻣﮩﮏﺳﺎ ﺟﺎﺗﺎ

ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻮﮈ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﻮﻣﺎﮐﺮﺗﯽ

ﺗﯿﺮﮮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﺕ ﺳﮯ ﺩﮨﮏﺳﺎ ﺟﺎﺗﺎ

ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮﺟﺎﺗﯽ

ﻣﺮﻣﺮﯾﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎ ﺍﮎ ﺗﮑﯿﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ

ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﮓ ﮐﺮ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟﮐﺮﺗﺎ

ﺗﯿﺮﯼ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺮﮮ ﮔﺎﻝ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﺎ ﮐﺮﺗﺎ

ﺟﺐ ﺑﮭﯽ تو ﺑﻨﺪ ﻗﺒﺎ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺟﺎﻧﺎﮞ

ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺮﮮ ﺣﺴﻦ ﺳﮯ ﺧﯿﺮﮦﮐﺮﺗﺎ

ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺗﺎﺏ ﺳﺎ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎﻧﺸﮧ

ﻣﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﺭﻭﺡ ﮐﮯ ﮔﻠﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﮑﺘﺎﺭﮨﺘﺎ

ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻨﮑﺘﺎﺭﮨﺘﺎ

ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﺎ ﺑﻨﺪﮬﻦﮨﻮﺗﺎ

ﮐﺎﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺣﺴﯿﻦ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎ ﮐﻨﮕﻦﮨﻮﺗﺎ


وصی شاہ


Wednesday, June 16, 2021

“The Last Leaf” (O. Henry) :Urdu Translation "Aakhri Patta" by Faisal Nazeer

 

آخری پتّہ

O. Henry

کا مشہور افسانہ 

“The Last Leaf”

کا اردو ترجمہ

 

فیصل نذیر

 

واشنگٹن شہر کے مغرب کی جانب ایک علاقہ بستا ہے، وہ بہت ہی تنگ اور غیر منظم ہے، راستے ایک جگہ سے شروع ہو کر نہ جانے کن گلیوں میں ختم ہوجاتے ہیں، اور پھر اچانک کہیں سے ابھر آتے ہیں. کئی مصوروں نے بھی ان البیلی گلیوں کی تصویر بنائی ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر کوئی پینٹر کسی دکان سے پینٹنگ کا سامان لائے اور اسے یہ پتہ دےاور دکان کا مالک وصولی کے لیے آئے تو یہ گلیاں اتنی گنجلک اور شکوک پیدا کرنے والی ہیں کہ اس آدمی کی ملاقات کچھ گلیوں کے بعد خود سے ہی ہوجائے گی. اور پینٹر بھی پیسہ دینے سے بچ جائے گا،شہر کے اس علاقے کو “گرین وِچ” کہا جاتا ہے، اس پرانے علاقے میں بہت سارے پینٹر اور آرٹس بہترین مستقبل اور حسین مناظر کی تلاش میں آکر بس گئے تھے، زیادہ تر پینٹر یہاں ملنے والے سستے کمرے اور بہترین مناظر کی طرف کُھلنے والی کھڑکیوں کی وجہ سے یہاں رہنا پسند کرتے تھے. یہیں محترمہ سُو اور محترمہ جونسی بھی ایک تین منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر رہتی تھیں. ان میں سے ایک کا تعلق انگلینڈ سے تھا تو دوسرے کا امریکہ ہی کے کیلیفورنیا سے. ان کی ملاقات ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی تھی۔


 

ان کی دوستی اس بات پر مزید پختہ ہوگئی کہ ان کو ایک ہی طرح کا آرٹ، ایک ہی طرح کا کھانا، اور ایک ہی طرح کا کپڑا پسند تھا. لہٰذا دونوں نے ساتھ میں رہنا اور ساتھ میں کام کرنا شروع کر دیا.یہ موسمِ بہار کی بات ہے، لیکن اسی سال ٹھنڈی کا موسم اپنے ساتھ ایک تباہی لیتے آیا.یہ تباہی دیکھتے ہی دیکھتے “گرین وِچ” علاقے میں بھی داخل ہوگئی، یہ اپنے ٹھنڈے ہاتھ جس پر رکھ دیتی وہ پہلے بخار میں مبتلا ہوتا پھر موت کی نیند سوجاتا. لوگوں میں اس کی دہشت بڑھنے لگی. مگر ان تنگ گلیوں اور پیچیدہ راستے والے علاقے پر اس کا اثر اتنا زیادہ نہیں دکھ رہا تھا. اس تباہی کو لوگ”نمونیا” کے نام سے بلاتے تھے. نمونیا کسی رحمدل بزرگ وار کی طرح تو نہیں تھا مگر اس نے کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی دبلی پتلی سُو پر شفقت دکھائی اور اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، مگر جونسی کو اپنی آغوش میں لے لیا. وہ اس قدر بیمار اور کمزور ہوگئی کہ چلنا پھرنا دو بھر ہوگیا. اور وہ بسترِ مرگ پر لیٹ گئی. اور بیماری کی حالت میں وہ بستر پر لیٹے ہمیشہ کھڑکی کے باہر سامنے والے گھر کی دیوار کو دیکھتی رہتی۔

 

ایک صبح مصروف ڈاکٹر نے جونسی کی دوست اور ہم کمرہ سُو سے اکیلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: جونسی کے بچنے کی امید بہت کم ہے، مگر ایک طریقہ ہے جس سے وہ ٹھیک ہو سکتی ہے، اگر وہ سچ میں جینا چاہے، در اصل اس میں جینے کی امنگ نہیں ہے اور ایک ڈاکٹر اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا، جب تک کہ مریض میں جینے کی امنگ اور صحت مند ہونے کی خواہش نہ ہو. آپ کی دوست نے یہ طے کر لیا ہے کہ ٹھیک ہونا ہی نہیں ہے. کیا اسے کوئی تکلیف ہے یا کوئی صدمہ پہنچا ہے.یا کوئی پریشانی ہے؟

 

سو نے تھوڑا سوچنے کے بعد کہا: اس کی ایک ہی خواہش تھی، وہ اٹلی جا کر وہاں سمندر کے کنارے کے خوبصورت منظر کی پینٹنگ کرنا چاہتی تھی۔

 

ڈاکٹر: پینٹنگ!!! نہیں. نہیں. پینٹنگ کا کوئی مسئلہ نہیں دکھ رہا ہے، اس کی زندگی میں سخت غم یا عاشقی کا تو کوئی چکّر نہیں ہے؟ جیسے کہ وہ کسی لڑکے سے محبت کرتی ہو یا کوئی اور معاشقہ اور ناکام ہوگئی ہو؟

 

سو: لڑکا!!! نہیں، کیا آج کل کے دو کوڑی کے عاشق اس لائق ہیں کہ ان کے لیے جان دی جا سکے نہیں، ایسا تو کوئی معاملہ نہیں ہے۔

 

ڈاکٹر: اچھا، تب کمزوری ہی ایک وجہ ہے، میرے بس میں جو بھی ہے وہ کر دوں گا مگر ایک بیمار انسان جب سوچ لے کہ اسے مرنا ہی ہے تو ڈاکٹر کا آدھا کام بیکار ہوجاتا ہے اور دوا بے اثر ہو جاتی ہے۔

 

اس سے کچھ ایسی باتیں کرو کہ اس کے اندر جینے کی خواہش اور امنگ پیدا ہوجائے. جیسے کہ اس کو بتاؤ کہ مارکٹ میں ٹھنڈی کے اچھے اچھے کپڑے آئیں ہیں، تو جلدی ٹھیک ہوجا پھر ساتھ چلیں گے کپڑے لینے اور پارک میں گھومیں گے. اگر وہ آنے والے کل میں دلچسپی دکھائے گی اور جینا چاہے گی تبھی اس کے جینے کی امید کی جا سکتی ہے۔

 

سو اپنے کمرے میں گئی اور رونے لگی. پھر وہ جونسی کے کمرے میں گئی.اور ساتھ میں پینٹنگ کے ساز و سامان بھی ساتھ لے گئی، اور مسکرا کر گانا گاتے ہوئے داخل ہوئی. مگر جونسی بے جان اور خاموش پڑی تھی، اور اس کا چہرہ کھڑکی کی طرف جھکا ہوا تھا. سو نے گانا گانا بند کر دیا یہ سوچ کر کہ شاید جونسی سو رہی ہے۔

 

سو اپنا کام کرنے لگی، اسے کچھ بولنے کی مدھم آواز آئی، وہ آواز بار بار سنائی دے رہی تھی۔

 

جونسی کہہ رہی تھی “بارہ”، پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا “اگیارہ”، پھر “دس” پھر “نو” اور پھر “آٹھ، سات” ایک ساتھ کہا۔

 

سُو نے کھڑکی سے باہر دیکھا، یہ کیسی گنتی چل رہی ہے، اس نے دیکھا تو وہاں کچھ دور پر موجود ایک مکان کی دیوار تھی، اس دیوار میں کھڑکی نہیں تھی، اور دیوار سے سٹا ہوا ایک پرانا درخت تھا، جس کی ٹہنی اوپر تک گئی تھی، جو سو اور جونسی کے کمرے سے نظر آتی تھی، اس ٹہنی پر موجود پتیاں برفیلی ہواؤں کی وجہ گر رہی تھیں. اور تقریباً ٹہنی پتوں سے خالی ہوگئی تھی۔

 

سو نے جونسی سے پوچھا: کیا گن رہی ہو؟

 

جونسی بہت ہی دھیمی آواز میں: چھے، سب جلدی جلدی گر رہے ہیں، بس تین دن پہلے سو سے زیادہ تھیں. پہلے گننے میں ساری گنتی گڑ بڑ ہوجاتی تھی، اور میرا سر بھی دکھنے لگتا تھا، مگر اب آسانی سے گن لیتی ہوں، دیکھو! دیکھو! ایک اور گیا. اب صرف پانچ بچ گئے۔

 

سو حیرت سے: ارے کیا پانچ بچ گئے؟ مجھے بھی بتاؤ!!!۔

 

جونسی: پتے، سامنے والے درخت پر. اور جب آخری پتہ گرے گا تو میں بھی مر جاؤ گی. مجھے تین دن سے ایسا لگ رہا ہے کہ بس ان پتوں کے ساتھ میرا بھی کام ختم. ڈاکٹر تمہیں بتائے نہیں کہ میں مرنے والی ہوں؟

 

سو: یہ کیا بکواس ہے! میں نے اس طرح کی واہیات کبھی نہیں سنی، ایک پرانے درخت کے پتوں میں تمہاری جان تھوڑی ہے! اور ان پتوں سے تمہاری صحت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور تم تو اس درخت سے بہت پیار کرتی ہو، بھلا وہ تمہاری جان کیوں لے گا! تم آج کل عجیب احمقانہ باتیں کرنے لگی ہو. ڈاکٹر کا یہ کہنا ہے کہ تم اچھی ہو رہی ہو،انہوں نے آج صبح ہی یہ بات کہی، اب تم تھوڑا تھوڑا کھانا بھی شروع کر دو.پھر مجھے پینٹنگ بنانی ہے، جسے بازار میں بیچنے بھی جانا ہے اور اسے بیچ کر تمہارے لیے طاقت کے سامان لانا ہے تاکہ تم اسے کھا کر جلد از جلد ٹھیک ہو جاؤ۔

 

جونسی: میرے لیے کچھ مت لانا۔

 

وہ اب تک گھر کے باہر دیکھ رہی تھی، “ایک اور پتہ گرا”، مجھے کچھ بھی کھانے کا من نہیں ہے، “اب چار پتے بچ گئے”، آج رات سے پہلے میں آخری پتے کو بھی گرتا دیکھنا چاہتی ہوں، پھر اس کے بعد میں بھی مر جاؤں گی۔

 

سو: میری جان جونسی، تم آنکھ بند کر کے آرام کرو، اور وعدہ کرو کہ تم اس کھڑکی کی طرف نہیں دیکھو گی، میں صبح تک اپنا کام ختم کر لیتی ہوں، مجھے اس پینٹنگ کو کل شام تک ختم کرنا ہے، اور چونکہ مجھے روشنی کی ضرورت ہے اس لیے میں کھڑکی بند نہیں کر رہی ہوں۔

 

جونسی نے سرد لہجے میں کہا: ارے یار! تم دوسرے کمرے میں بھی تو کام کر سکتی ہو۔

 

میں تمہارے سامنے رہنا چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ تم ان پتوں کی طرف نہ دیکھو۔

 

جونسی: اچھا چلو! جب تمہارا کام ہوجائے تو بتا دینا. اس نے آنکھیں بند کر لی، اور خاموش ہو گئی. اور ہلکی آواز میں کہنے لگی: میں نے اس پتے کے بارے میں بہت سوچا، اور بہت انتظار کیا، میں بالکل اس پتے کی طرح اڑتے اور مست ہوا میں لہراتے ہوئے یہ دنیا چھوڑنا چاہتی ہوں.سو غصے میں: منہ بند رکھو اور سونے کی کوشش کرو، میں نیچے روم والے چچا بہرمن کو بلا کر لاتی ہوں، مجھے ان کی طرح ایک عمر رسیدہ انسان کی پینٹنگ بنانی ہے، میں یوں گئی اور یوں آئی، تم ہلنے کی کوشش بھی مت کرنا۔

 

بہرمن چچا، یہ ساٹھ سال کی عمر کے ایک ناکام پینٹر تھے، جو اسی بلڈنگ میں پہلی منزل پر رہتے تھے، ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ وہ ایک دن عالمی شہرت یافتہ مصور بنیں گے، مگر ان کی یہ خواہش، خواہش ہی رہ گئی تھی، وہ ہمیشہ کہتے کہ میں ایک دن ایسا ماسٹر پیس اور شاہکار پینٹنگ بناؤں گا کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی،مگر لوگ حیران تھے کہ وہ ایسا ماسٹر پیس اور اعلی پینٹنگ بنانا شروع کیوں نہیں کرتے؟

 

بہرمن بال بڑھا کر مکمل ایک آرٹسٹ کی ہیئت بنائے ہوئے تھے، اور وہ اس عمر میں دوسروں کو اپنی تصویر بنانے کی اجازت دیکر کچھ پیسے کما لیتے تھے. پینٹر کے سامنے مجسمہ بن کر بیٹھے رہتے اور اس کی انہیں کچھ رقم مل جاتی. شراب کے عادی تھے، اور لاچاری کی حالت میں بھی وہ اپنے شاہکار تصویر کو نہیں بھولے تھے، اب تک اس کا ذکر ان کی زبان پر رہتا ہی تھا. کچھ لوگ انہیں سنکی ناکام بڈھا سمجھنے لگے تھے۔

 

بہرمن چچا سو اور جونسی سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور اکثر یہ کہتے تھے کہ بیٹا کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا، تم میرے بچوں کی طرح ہو اور میں تمہارے گارجین کی طرح، اور یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھوں۔

 

سو ان کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ مکمل اندھیرا تھا، وہ سمجھ گئی کہ بہرمن چچا شراب پی کر مست اندھیرے میں کہیں پڑے ہیں، اور شراب کی مہک سے بھی وہ سمجھ گئی.اس نے بہرمن سے جونسی کی بگڑتی حالت اور گرتے ہوئے پتوں کی کہانی سنائی، اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اسے خوف کہ کہیں سچ میں آخری پتہ گرتے گرتے جونسی بھی نا کہیں دنیا کو الوداع کہہ دے. دنیا سے اس کی دلچسپی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔

 

بہرمن جونسی کی طبیعت کے بارے میں جان کر سخت غمزدہ ہوئے اور پتّوں والی بات سن کر غصے میں چلائے : کیا بک رہی ہو! کیا آج تک کسی پتے کے گرنے سے بھلا کوئی انسان مرا ہے؟ میں نے اپنی زندگی میں آج تک ایسی الول جلول بات نہیں سنی.میں نہیں آرہا تمہارے روم میں کہ تم میری پینٹنگ بنا سکو، لیکن تم کیسی روم میٹ ہو! تم جونسی کو ایسی اناپ شناپ بات سوچنے ہی کیوں دیتی ہو؟ کتنی پیاری بچی ہے۔

 

سو: ارے میں تو اسے ایسی باتیں سوچنے سے روکتی ہوں، مگر اس بیماری میں وہ بہت کمزور ہوگئی ہے اور اس اس لاچاری کی وجہ سے اس کے ذہن میں ایسے عجیب خیالات آرہے ہیں۔

 

چچا اگر آپ میری پینٹنگ کے لیے نہیں آرہے ہیں تو کوئی بات نہیں مگر میری بات ٹھکرا کر آپ میرا دل دکھا رہے ہیں۔

 

بہرمن: کیا آفت ہے یہ لڑکی! میں نے کب کہا کہ میں نہیں آرہا ہوں، چلو چلتا ہوں تمہارے ساتھ، اتنی دیر سے میں کہہ رہا ہوں کہ چلو چلتے ہیں مگر تم ہی عجیب و غریب قصے سنا رہی ہو، کہ پتّے میں جان ہے، تو طوطے میں جان ہے۔

 

ان کہانیوں سے مجھے غصہ چڑ رہا ہے، اور ایک بات اور ہے یہ کچرے والا علاقہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہے، یہاں صفائی کا بھی صحیح انتظام نہیں ہے، اس میں جونسی اور پریشان ہو جائے گی. گھر سے بھی وہ دور ہے۔

 

کسی دن دیکھنا میں اپنی شاہکار تصویر بناؤں گا اور اسے بیچ کر بہت پیسے کماؤں گا اور اس بے ہنگم علاقے سے نکل جاؤں گا۔

 

جب یہ دونوں اوپر والے کمرے میں گئے تو جونسی سو رہی تھی، سو نے کھڑکی بند کی اور بہرمن چچا کو دوسرے کمرے میں لے گئی.اس کمرے سے انہوں نے کھڑکی کے باہر دیکھا، اور وہ دونوں اس ڈراؤنے اور خوفناک درخت کو دیکھنے لگے جس کے پتے گر رہے تھے،دونوں نے ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھا اور پھر درخت کی طرف دیکھنے لگے، بارش بہت تیز ہورہی تھی اور برف بھی گر رہی تھی، بہرمن بیٹھ گئے اور سو ان کی تصویر بنانے لگی، اس نے پھر رات بھر کام کیا. صبح میں وہ صرف ایک گھنٹہ سو کر جونسی کے پاس گئی، اس نے دیکھا کہ جونسی آنکھ کھولے کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی، اس نے سو سے کہا: “مجھے پتّہ دیکھتا ہے”۔

 

سو نے شیشے کی کھڑکی پر لگے پردوں کو ہٹا دیا۔

 

مگر رات بھر برفیلی بارش اور سخت طوفان کے باوجود ایک پتّہ اب تک نظر آرہا تھا جو کہ آخری پتہ تھا. اس کا رنگ اب تک گہرا ہرا لگ رہا تھا، کنارے کی طرف سے وہ پیلا ہو رہا تھا، مگر اب تک لٹکا ہوا تھا اور ہوا کے جھوکے کھا رہا تھا۔

 

جونسی نے پوچھا: اچھا! یہ آخری والا اب تک بچا ہوا ہے، گرا نہیں؟ مجھے لگا رات کے طوفان اور بارش میں ضرور گر گیا ہوگا. میں تیز ہوا کی آواز رات بھر سنتی رہی تھی، کوئی بات نہیں، آج گر جائے گا، میں بھی اسی وقت اس دنیا سے چلی جاؤں گی۔

 

سو نے پیار سے کہا: ارے میری پیاری سہیلی، کیا بَک رہی ہو، اگر تمہیں اپنا خیال نہیں ہے تو میرے بارے میں سوچو، میں تمہارے بغیر کیسے جیوں گی؟ اور کیا کروں گی؟

 

جونسی یہ سن کر خاموش پڑی رہی۔

 

دنیا میں سب سے تنہا چیز روح ہے، جب روح ہی اس دنیا کو چھوڑ کر کسی لمبے سفر پر جانے کا تہیہ کر لے تو زمین اور اہل زمین پر موجود ساری دوستی اور رشتہ داری کی ڈرو ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔

 

دیکھتے دیکھتے وہ دن بھی گذر گیا، جیسے جیسے اندھیرا چڑھا، وہ دیوار سے لگا پتّہ اب تک نظر آرہا تھا، رات نے اپنا تاریک سایہ دنیا پر پھیلانا شروع کر دیا، پُرویّا ہوا پھر سے تیز بہنے لگی، بارش اور طوفان سے کھڑکی پر بار بار زور کا شور ہو رہا تھا۔

 

اگلی صبح جب سویرا پھوٹا، جونسی پھر سے وہ پتہ دیکھنے کی ضد کرنے لگی: حیرت ہے! وہ پتہ اب تک وہی ہے!!!جونسی لیٹے ہوئے لمبے وقت تک اس پتے کو تکتی رہی، پھر اس نے سُو کو آواز دیا، جو کچن میں اپنے کھانے کے لیے کچھ بنا رہی تھی.

 

جونسی نے سو سے کہنا شروع کیا: میں بہت بُری لڑکی ہوں نا؟ مجھے موت بھی پسند نہیں کرتی، اسی لیے وہ پتہ اب تک وہاں لٹکا ہوا ہے، لگتا ہے وہ پتہ لٹکا ہی رہے گا اور مجھے جینا ہی پڑے گا. شاید موت کی مزید امید اور انتظار اچھی بات نہیں، اب میں کچھ کھانے کی کوشش کرتی ہوں، مگر پہلے تم آئینہ بڑھاؤ، ذرا دیکھو کیسی بھوتنی لگ رہی ہوں، اور پھر میں بیٹھ کر تمہیں کھانا بناتے دیکھوں گی۔

 

کچھ گھنٹے بعد جونسی نے کہا: سو، میری بڑی خواہش ہے کہ کسی دن اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے کی پینٹنگ بناؤں. جونسی نہا دھوکر فریش ہوگئی اور سو کے ساتھ کھانا بھی کھایا۔

 

دوپہر میں ڈاکٹر چیک اپ کے لیے آئے، سو ان کے پیچھے پیچھے آئی تاکہ کچھ بات کر سکے۔

 

ڈاکٹر نے کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے، اب جونسی جیے گی، کیونکہ اب اس کے اندر جینے کی امنگ جاگ گئی ہے. ڈاکٹر نے شفقت سے سو کا دبلا، پیلا اور کانپتا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا: جونسی ٹھیک ہو رہی ہے اس کا بہترین خیال رکھو، وہ جلد پہلے جیسی ہوجائے گی، اب میں نکلتا ہوں، آج ذرا جلدی ہے، اسی بلڈنگ میں ایک اور مریض دیکھنا ہے، اس کا نام شاید بہرمن ہے، وہی جو پینٹر ہے، مجھے لگتا ہے وہی وائرل نمونیا ہے، ساٹھ سال عمر ہوچکی ہے، دبلا پتلا آدمی ہے، اور بہت زیادہ بیمار ہے، اس کے بچنے کی امید کم ہی ہے. ابھی ہم لوگ اسے ہاسپٹل لے جا رہے ہیں، ہم ان کا مکمل خیال رکھنے کی کوشش کریں گے.

 

دوسرے دن ڈاکٹر آئے اور سو سے کہا: جونسی اب بالکل ٹھیک ہے، تم نے جس طرح ہر طریقے سے خیال رکھا وہ قابلِ داد ہے، تم نے کمال کر دیا. بس اب وہ کھاتی پیتی رہے سب ٹھیک ہوجائے گا. اب میرے آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے.

 

دوپہر میں سو جونسی کے بستر کے پاس گئی اور اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر بولی: بہن، مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے، بہرمن چچاکا نمونیا سے آج ہاسپٹل میں انتقال ہوگیا، بیچارے، صرف دو دن میں ہی قصہ تمام ہوگیا، ایک روز پہلے ہی اپنے کمرے میں گرے ہوئے ملے تھے، وہ سخت درد میں تھے، ان کا جوتا اور کپڑا مکمل تر تھا، اور برف کی طرح سرد پڑے ہوئے تھے۔

 

سب آج تک یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ وہ اس ٹھنڈی اور بارش میں آخر کہاں گئے تھے، اور ان کی پینٹنگ کے سامان برش، کلر بوکس، ہرا پینٹ، پیلا پینٹ اور بھی دوسرے سامان گھر کے باہر پڑا ہوا ملا۔

 

میری پیاری جونسی باہر دیکھو، اس دیوار پر جو آخری پتہ نظر آرہا ہے، کیا تمہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ آخر اتنی طوفانی بارش میں ہلا اور گرا کیوں نہیں؟ ارے میری پیاری دوست، یہ بہرمن چچا کا ماسٹر پیس اور شاہکار ہے، تمہارے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اور طوفان میں بھیگ کر انہوں نے یہ پتی دیوار پر اس کاریگری سے بنائیکہ ہمارے کمرے سے وہ اصلی لگے. وہ زندگی بھر جس ماسٹر پیس کی بات کرتے تھے وہ یہی تو ہے۔

 

سو کے آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہنے لگی۔۔۔۔

 ........................

Special Thanks To Mr. Faisal Nazeer ( J.M.I)