چھوٹی خالہ کی اردو کلاس
سید اسد تابش
شناس نامہ
نسید اسد علی ولد سید علی کا تعلق ضلع بارسی ٹاکلی مہاراشٹر سے ہے ۔ بارسی ٹاکلی میں ہی پچھلے بیس برسوں سے پیشہُ درس و تدریس سے وابستہ ہیں.آپ نثر نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں. ساتھ ہی بچوں کے لیے کہانیاں اور ڈرامے لکھتے ہیں. بچوں کے رسالے گل بوٹے ممبئی، بچوں کا امنگ دہلی، بچوں کی دنیا دہلی اور الفاظِ ہند کامٹی میں ان کی کہانیاں اور ڈرامے شائع ہوتے رہتے ہیں.
چھوٹی خالہ کی اردو کلاس
سیداسد تابش
اسلام پور ایک چھوٹا گاؤں ہے. میرا بچپن وہیں گزرا. ہم ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام پور جاتے. ہم دوبہنیں اور ایک بھائی ہیں. ہمارے علاوہ دو خالائیں اور تھیں، ان کے بھی چار بچے تھے. یعنی ہم کل سات خالہ زاد بھائی بہن تھے. آگے پیچھے ہم ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں اسلام پور میں ہی گزارتے. جب اسلام پور پہنچتے تو نانی اماں کے بڑے سے مکان میں کہرام مچ جاتا. نانا جان بڑے زمیندار تھے.ملنے جلنے والے لوگ، مزدور آتے جاتے رہتے . رات میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے جب لیٹے باتیں کرتے تو ٹھنڈی ہوا چلتی جو قلب و روح کو مسحور کر دیتی. آنگن میں ہی گھر کا سارا کنبہ دسترخوان بچھا کر رات کا کھانا کھاتا.
نازیہ خالہ جنھیں سب بچے چھوٹی خالہ کہتے گھر کا سارا کام بڑی خوش مزاجی سے کرتی. ان کی ابھی ابھی ہی بارہویں کلاس ختم ہوئی تھی. امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ چھوٹی خالہ پڑھائی میں بھی بہت ذہین اور محنتی تھی. دراصل چھوٹی خالہ بچوں کے ساتھ ساتھ سب کی لاڈلی تھی. ان سے ہر وقت کوئی نہ کوئی مذاق کرتا رہتا، جسے وہ اپنی حاضر دماغی اور خوش مزاجی سے نہ صرف قبول کرتی بلکہ اس مذاق کا مقابلہ بھی کرتی.
ایسے ہی تینوں بیاہی بہنیں بیٹھی ایک دوپہر کو اہنے گھروں کی باتیں کررہی تھیں کہ بچوں کا شور ان کی گپ شپ میں خلل ڈالنے لگا. میری امی تو ھما... ھما.... ھما، کرتی ہوئی میرے پیچھے پڑ گئی. صفیان (خالہ زاد بھائی) کو ہم نے لگورچی کھیل میں ہرا دیا تھا. وہ ہار برداشت نہ کر پایا اور رونے لگا. ہارنے کے بعد اس نے ہار کا ذمہ دار مجھے بنا دیا. روتے ہوئے بار بار "ھما باجی نے ہرائے، ھما باجی نے ہرائے...." کی رٹ لگا دی. جب امی نے مجھے ڈانٹا تو چپ ہوا. میں دوڑ کر چھوٹی خالہ کے پیچھے چھپ گئی. مگر اب ہماری شرارتیں اور دن رات کی دھینگا مشتی ناقابلِ برداشت ہو گئی. اس لیے تینوں بہنوں نے چھوٹی خالہ کو ڈانٹنا شروع کر دیا." تم نے بگاڑ رکھا ہے ان سب کو.... خود بھی ان کے ساتھ بچی بن جاتی ہو.... اب تم ہی سنبھالو..... "
چھوٹی خالہ نے بھی اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے کہا "ٹھیک ہے، اب میں ہی سدھاروگی انھیں.... کل سے دیکھو، کیسے ان سب کی کلاس لیتی ہوں....."
چھوٹی خالہ کی اس بات نے ہم سب کو دم بخود کر دیا... ہم سارا دن چھوٹی خالہ کے آس پاس ہی منڈلانے لگے کہ کچھ اشارہ ملے، آخر چھوٹی خالہ کیا کرنے والی ہے... کہیں اپنے ساتھ گھر کا کام کرائے... یا.... ہم سے بات بند کردے... ایسے ہی اندیشوں میں جوں توں رات کٹی...
اگلے دن ہم سب کے چہرے بجھے بجھے تھے.... ناشتے کے بعد نانی جان نے مزدرو کو کہہ کر آنگن کے ایک طرف جہاں لان نما گارڈن تھا، کو صاف کرنے لگایا.... گیارہ بجے دو آدمی اور آئے جنھوں نے ٹینوں کی چھت تیار کی... چھوٹی خالہ نے آ کر معائنہ کیا اور نانی جان سے" ٹھیک ہے" کہا....
ہماری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تبھی چھوٹی خالہ اپنے صندوق سے کچھ کتابیں نکال لائی اور سب بچوں کو بلا کر کہنے لگی.... سنو ھما، شیرین، صفیان ،تحریم.... سب سنو آج سے میں تمھاری اردو کی کلاس لوگی....
ہم سب کے چہرے کھل کر تمتما اٹھے.... ہمیں پتہ تھا کہ چھوٹی خالہ کی اردو کافی اچھی ہے. ان کی خوش خطی تو پورے کنبے میں مشہور تھی. گاؤں کے شادی کے رقعوں پر نام ان کے ہی ہاتھوں لکھے جاتے.
ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی. اردو کے علاوہ چھوٹی خالہ نے قرآن مجید بھی تجوید کے ساتھ پڑھا تھا. ذاتی مطالعے سے قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیریں بھی پڑھتی تھی. کلاس کے پہلے دن ہی دس بچے مختلف کلاسوں کے ہوگیے. دو بچے ہمارے اکلوتے ماموں جان کے اور ایک بچہ محلے کا. کلاس کے پہلے دن چھوٹی خالہ نے ٹائم ٹیبل بتایا. گیارہ بجے سے ایک بجے تک کلاس میں اردو پڑھائی جائے گی. ایک بجے سے تین بجے تک کھانا، کھیلنا، ظہر کی نماز اور کچھ دیر آرام. پھر تین سے پانچ بجے تک کلاس ہوگی. عصر کی نماز کے بعد گارڈن میں کھیل کود.... مغرب سے عشاء تک قرآن مجید پڑھایا جایے گا... جمعہ کے دن آدھا دن ہی کلاس، جس میں قرآن مجید کی صورتیں اور کچھ دعائیں یاد کرائی جائے گی. اتوار کو چھٹی ہوگی جو چھوٹی خالہ کے ساتھ نانا جان کے کسی کھیت میں پارٹی کے طور پر انجوائے کرائی جائے گی...
کلاس کے ٹائم ٹیبل میں ہر بات کا دھیان رکھا گیا تھا. ہم بہت خوش تھے. چھوٹی خالہ بچوں کی دنیا، امنگ، گل بوٹے اور بچوں کے دیگر رسالوں سے نظمیں اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتی. بچے انھیں دہراتے. بچوں کو ان کی عمر اور صلاحیت کے مطابق کاپی پر اردو رائٹنگ کے لیے لکھ کر دیتی. ہم ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک لائن کی نقل کر کے مشق کرتے. لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور پرندے کی فریاد وغیرہ نطمیں ہمیں یاد کرائی جاتی. اردو کا ایک پیراگراف تختہُ سیاہ پر لکھ کر چھوٹی خالہ صحیح لب و لہجے سے پڑھتی، پھر باری باری ہمیں پڑھانے کا حکم ہوتا ... بتول جو ہمارے خالہ کی بیٹی تھی اور سب بچوں میں چھوٹی، جب تختہُ سیاہ پر پڑھانے جاتی تو اس کی بھولی صورت دیکھنے کے قابل ہوتی. وہ چھڑی بورڈ پر رکھتی اور چھوٹی خالہ کی طرف دیکھتی جاتی. اسے الفاظوں کی پہچان کہاں تھی. چھوٹی خالہ سے سنے ہوئے الفاظ دہراتی... کبھی کبھی چھوٹی خالہ بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر کی بجائے دل سے کہتی "بتول بہت ذہین لڑکی ہے. بتول کو کچھ بھی نہیں آتا. بتول جیسا بولو ویسا ہی بولتی...." بتول سمجھتی کہ وہ بورڈ پر لکھا ہوا پڑھ رہی ہے جبکہ دیگر بچے اس شائستہ مذاق سے دل ہی دل میں ہنسنے لگتے...
ایسا نہیں ہے کہ معصوم سی بتول کو اس کلاس میں کچھ سیکھنے نہیں ملا... اسے بھی پہاڑے اور گنتی یاد ہورہے تھے جبکہ ابھی وہ صرف تین سال کی ہی تھی. ہمارے ساتھ نماز پڑھتی. جس کے بازو کھڑی ہوتی اس کی دیکھا دیکھی رکوع سجدے کرتی... مگر بار بار کھڑی رہتی. صفیان نماز میں ہی ہنسنے لگتا. جب چھوٹی خالہ نے دیکھا کہ بتول کی نماز بچوں کے لیے ہنسی مذاق کا موضوع بن رہی ہے تو اسے اپنے ساتھ کھڑا کرنے لگی....
اتوار کے دن تو ہم خوب کھیلتے..... چھٹیاں ایسے گزرتیں کہ پتہ نہ چلتا. گھر میں شور بھی بند ہوگیا تھا. چھوٹی خالہ نے کلاس لے کر ہماری رائٹنگ بھی بہتر کر دی. جب ہم اپنے شہر میں آتے اور اسکول جاتے تو ہمارے اساتذہ ہماری اردو کی رائٹنگ دیکھ کر شاباشی دیتے
✍🏼سید اسد تابش
بارسی ٹاکلی ،ضلع اکولہ
مہاراشٹر
موبائل :8421427654
عمدہ مضمون اسد تابش صاحب
ReplyDeleteShoaib jamal shaikh
ReplyDeleteSchool name:shaikh misri secondry mun.urdu school
Great article
ReplyDelete