کہانی نمبر 1:
"مصلحت"
راج محمد آفریدی
شناس نامہ
بقول سراج عظیم
" نسل نو کی کردار سازی کا بنیاد گذار راج محمد آفریدی۔ "
اردو کے ایک بے لوث خدمت گار جناب راج محمد آفریدی صاحب کا تعلق پشاور پاکستان سے ہے۔
آپ ایک معروف ادیب اورریسرچ اسکالر ہیں. آپ کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔
مشاہیر ادب کی گم گشتہ جہتیں
(تحقیقی مضامین کا مجموعہ)
اور
سورج کی سیر
(بچوں کے لیے کہانیاں)
آپ افسںانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے ساتھ مختلف اخبارات کے لیے ادبی کالم اور مضامین لکھتے ہیں. علاوہ از ایں روزنامہ چارسدہ نیوز کے ادبی صفحے 'برگ ادب' کی تدوین و ترتیب بھی آپ کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
کہانی نمبر 1:
"مصلحت"
راج محمد آفریدی
ایک ساعت کا ذکر ہے کہ کسی غار میں ایک فقیر رہتا تھا۔ ایک روز وہ تھکا ہارا بڑی تکلیف سے غار پہنچا تاکہ تھوڑا آرام کرسکے۔اس نے جیسے ہی آنکھیں بند کیں، وہاں سےایک سانپ کا گزر ہوا۔ سانپ نے فقیر کو دیکھ کر اپنی عادت کے مطابق اسے ڈسنے کا ارادہ کیا۔ وہ فقیر کے قریب آیا ۔ جب اسے پوری طرح تسلی ہوئی کہ فقیر سو رہا ہے تب اس نے عادت سے مجبور ہوکر اسے کاٹنا شروع کیا۔ فقیر کو بہت تکلیف ہوئی۔ وہ بلبلا کراٹھا۔ اس نےسانپ کو کئی بار ڈسنے سے منع کیا لیکن جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو اس نے ہاتھ اٹھا کرخدا کے حضور دعا کی ۔
"اے رب کائنات! دنیا جہاں کے تمام سانپ انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔ اے اللہ! سانپوں سے ڈسنے کی صلاحیت چھین لے تاکہ اس آفت سے زندہ روح محفوظ رہ سکے۔"
فقیر کی دعا فوراً قبول ہوئی اور دنیا کے تمام مار اس لیاقت سے معذور قرار پائے۔سانپوں کو اپنی اس صلاحیت کھو جانے کا سخت افسوس ہوا۔
دیگر حیوانات کو جب سانپ کی اس کمزوری و بے بسی کا علم ہوا تو انہیں بڑی مسرت ہوئی ۔ رفتہ رفتہ ان کی دنیا میں سانپوں کا رعب، دبدبہ اور خوف کم ہونے لگا۔ یہاں تک کہ اگلی دہائی تک روئے زمین پر سانپوں سے ڈرنے والا کوئی نہ رہا ۔
بچے سانپوں سے ڈرنے کی بجائے ساتھ کھیلنے لگے۔وہ کودنے اچھلنے کے لیے رسی کی جگہ سانپ کا استعمال کرنے لگے۔ اس سے جھولا جھولتے۔ گھروں کی خواتین اور کسان رسی کی جگہ سانپوں سے گھٹڑی باندھتے۔ درزیوں نے سانپ پر نشانات لگائے اور اسے پیمائش کے کام لائے۔ چیل آرام سے ان کا شکار کرنے لگے ۔ بڑے سانپوں کو چوہے کاٹنے لگے اوراپنا پرانا حساب برابر کرنے لگے ۔
ظاہر ہے فقیر کی اس بددعا سے فائدوں سمیت کافی مسائل نے بھی جنم لیا۔ اس سبب رسی بنانے والوں کا دھندا ماند پڑ گیا۔ شہباز کو سانپ کے شکار میں مزا نہ آتا، وہ اب بکریوں،مرغیوں اور دیگر مفید جانوروں کا شکار کرنے لگا ۔سانپ کو مارنے میں کسی جانور کو مزا نہ آتا جس سے سانپوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔چوہے اور کیڑے مکوڑے بھی تعداد میں بہت زیادہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہ ایک منٹ میں منوں اشیائے خور و نوش چٹ کھاتے ۔ ان سے گھر کی کوئی چیز محفوظ نہ رہی ۔ چوہے بلا خوف و خطر ہر جانب منڈلانے لگے۔
فقیر جس غار میں رہتا تھا، وہاں بھی چوہوں نے خوب اودھم مچا رکھا تھا۔ فقیر پر جب یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ سانپ کی بے ڈسی سے یہ کیفیت رونما ہوئی ہے تو اسے اپنی بددعا پر شرمندگی کا احساس ہوا ۔ وہ خدا سے معافی کا طلب گار ہوا اور کہا۔
" اے خدا ! تو مطلق ذات ہے ، ہر چیز کے نفع و نقصان سے باخبر اور قدرت رکھنے والا ہے ۔ دنیا کی ہر شے، ہر فعل میں تیری مصلحت شامل ہوتی ہے ۔ ہم بے علم ہیں۔ہمیں کسی چیز کے نفع و نقصان کی خبر نہیں۔ میں نے جذبات میں آکر سانپ سے ڈسنے کی صلاحیت چھیننے کی درخواست کی تھی جس پر میں شرمندہ ہوں۔ یا اللہ! تُو سانپ کو ڈسنے والی طاقت سے پھر نواز دے ۔کیونکہ کائنات کا نظام درہم برہم ہونے والا ہے۔ "
ایک بار پھرفقیر کی دعا قبول ہوئی اور دنیا کے تمام سانپ دوبارہ پرانی روش پر آگئے ۔ جس سے سارا نظام دوبارہ درست سمت میں چلنے لگا ۔ بے شک کائنات کے ہر فعل میں خدا تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرورکارفرماہوتی ہے۔
ماشاءاللہ بہت عمدہ سلیس زبان میں رواں تحریر کی پر خلوص مبارکباد قبول فرمائیں راج آفریدی صاحب۔
ReplyDeleteکوثر حیات
بڑی شستہ اور برجستہ تحریر ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ReplyDeleteعمدہ پیغام
ReplyDeleteآپ سب کی حوصلہ افزائی سے خاکسار کو لکھنے کی طاقت ملتی ہے۔ سلامتی
ReplyDeleteعمدو
ReplyDeleteboht achee kahani thee
ReplyDelete