Thursday, August 26, 2021

' Naseehat' by Hina Rahat

  نصیحت 




ازقلم: حناء راحت قصور 

 


ولید نے روز کی طرح آج بھی کھانے کی میز پر بیٹھتے ہی کھانے کو دیکھ کر برا سا منہ بنا لیا۔

ماما۔۔۔!!

مجھے نہیں کھانا یہ۔


بیٹا میں نے آج آپ کے لیے پالک بنائی ہے۔ ولید کی امی بولی:

میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے کھلاوں گی۔

امی مجھے نہیں کھانا یہ گھاس پھوس۔ 

ولید چڑ کر بولا:


اس بار ولید کی امی بہت پیار سے اس کے پاس آکر بیٹھی اور بولی :


بیٹا اللہ پاک نے یہ سب سبزیاں بنائی ہیں۔ ہم انہیں ایسے نہیں بول سکتے

اور پالک میں تو بہت آئرن ہوتا ہے وہ ہمارے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ 


امی میں نے بولا ہے نہ مجھے نہیں کھانا یہ سب۔

آپ میرے لئے باہر سے کچھ کھانا آرڈر کر دیں میرے پسندیدہ فاسٹ فوڈ۔


ولید کا روز کا معمول بن گیا تھا اس کی امی جو بھی سبزی بناتی وہ اسے کھانے سے انکار کر دیتا۔ وہ باہر سے برگر ، پیزہ ، فرائز اور سموسےکھانے کی ضد کرتا۔ 


ولید چونکہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اس کی ہر فرمائش اس کے امی ابو پوری کرتے۔ وہ جو بھی چیز مانگتا اس کے ماں باپ فورا اسے لا کے دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے کھانے میں بھی اپنی من مانی کرنا شروع کر دی تھی۔ اس اپنا گھر کا بنا کھانا پسند نہیں آتا تھا۔اور وہ بازار کی چٹ پٹی چیزیں کھانے کی فرمائش کرتا۔ اور اس کی امی کو مجبورا اس کی بات ماننی پڑتی۔


آج مسلسل سات دن سے ولید باہر کا کھانا کھا رہا تھا ۔اس بات کی ولید کی امی کو بھی بہت پریشانی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ ولید گھر کا بنا کھانا کھائے لیکن سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس طرح ولید کو کھانے کے لیے تیار کرے۔ ولید کی امی کی اس کی صحت کی بہت فکر تھی اس لیے وہ ولید کی طرف سے بہت پریشان تھی ۔


 رات کا کھانا باہر سے منگوا کے کھانے کے بعد ولید اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔ رات کو ولید کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی اس کے پیٹ میں بہت درد اٹھا۔ اور ساتھ میں اسے مسلسل قے بھی آ رہی تھی۔ ولید کی امی اسے جلدی سے اسپتال لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کرنے کے بعد بتایا کہ اسے فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہے اسے فورا ڈرپ لگے گئی۔ کیونکہ بہت زیادہ قے کی وجہ سے اس کے جسم میں بہت کمزوری ہو گئی تھی۔ اور اس کا معدہ بھی خراب ہوچکا ہے۔



ڈرپ کا نام سنتے ہی ولید بہت گبھرا گیا اسے تو انجیکشن اور سوئی کے نام سے بھی ڈر لگتا تھا۔ لیکن اب مجبوری تھی اسے یہ ڈرپ لگوانی پڑی۔ ولید اپنی ماما کی گود مِیں لیٹا بہت رو رہا تھا۔


ولید کی امی اسے سمجھا رہی تھی کہ بیٹا یہ سب باہر کا کھانا کھانے  کی وجہ سے ہوا ہے۔ جو کھانا ہم گھر میں بناتے ہیں وہ کھانا ہماری صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے اور باہر کا غیر صحت بخش کھانے سے ہم بیمار ہوجاتے ہیں جیسے آج آپ یہاں پر ہو۔ اللہ پاک نے سبزیوں اور گوشت میں بہت فائدے رکھے ہیں جنہیں آپ کھانے سے ہمیشہ انکار کرتے ہو۔


  ولید اپنی امی کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں مِیں آنسو تھے۔ ڈاکٹر نے اسے باہر کی چیزیں کھانے سے بالکل منع کردیا تھا۔اب وہ جب تک مکمل ٹھیک نہیں ہو جاتا اسے سادہ کھانا اور پھل ہی کھانے تھے۔


ولید نے اپنی امی سے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی بھی ضد کر کے باہر کا کھانا  نہیں کھائے گا اور جو کھانا وہ گھر پر بنائے گی وہ وہی کھانا کھائے گا

Wednesday, August 25, 2021

' Aab-E-Hayat Ki Talash' Mohammed Raj Afridi

 کہانی : 


آب حیات کی تلاش


کتاب: سورج کی سیر


مصنف: راج محمد آفریدی





ایک لڑکے کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنا اس کا معمول تھا۔ اسے کتابوں کی دنیا میں کھو جانا بہت پسند تھا۔اس نے ایک دفعہ کسی کتاب میں آب حیات کے متعلق پڑھا ۔وہ یہ جان کر کافی حیران ہوا کہ آب حیات پینے سے انسان ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ آب حیات کوپینے والے سے موت منہ موڑ لیتی ہےجس کے باعث کئی صدیوں تک وہ انسان زندہ رہتا ہے۔

یہ پڑھ کراس لڑکے کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ  بھی آب حیات کے چند گھونٹ پی لے تاکہ لمبی عمر جیے۔آب حیات پینے کے بعد وہ اپنی دوسری خواہش یعنی پوری دنیا گھومنا پوری کرسکتا تھا۔

اس نے آب حیات والی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے معمولاتِ زندگی ترک کرکے اس مقدس پانی کی تلاش شروع کردی۔ اس نے آب حیات کی تلاش  میں مختلف لٹریچر پڑھا پھر  ہر جگہ  گھومتے ہوئے اس کی تلاش جاری رکھی ۔اس سلسلے میں اس نے ہر اس شخص سے ملاقات کی جو آب حیات کے متعلق کچھ بھی جانتا تھامگر اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

اپنی  اس تگ و دو کےدوران لڑکےنے آب حیات کے متعلق کافی کتابوں کا مطالعہ  کیا۔جب کئی سالوں کی مسلسل محنت سے اسے کامیابی نہ ملی تو اس نے خود ہی آب حیات بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں اس نے ملک کے نامور کیمیا دانوں کی شاگردی اختیار کی اور ان سے مختلف فارمولوں کا علم حاصل کرکے تجربے بھی کیے مگر اس کے باوجود آب حیات کے متعلق اسے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوا۔

اسی طرح وقت گزرتا گیا۔ ڈھلتی عمر میں اس پر مایوسی کے سائے پھیلنا شروع ہوئے۔مگر اس نے اپنی جدوجہد نہیں چھوڑی۔ ایک دن وہ ایک ویران سی جگہ پریشان بیٹھا ہوا آب حیات ہی کے متعلق سوچ رہا تھا کہ ایک بزرگ کی نگاہ میں آگیا ۔بزرگ نے قریب آ کر اس سے پریشانی کا سبب پوچھا تو وہ گویا ہوا۔

 "میرا مسلہ  بہت بڑا اور پیچیدہ ہے۔اصل میں مجھے لڑکپن سے آب حیات کی تلاش ہے مگر ابھی تک مجھےاپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملی اور نہ ہی اس کے بارے میں کسی نے درست معلومات دیں۔میں در در کی خاک چھانتا ہوا لڑکپن سے بڑھاپے میں داخل ہوا۔"بزرگ نے اس سے پوچھا۔" آب حیات کے لیے اتنی محنت کس سلسلے میں کر رہے ہو؟ کیا فائدہ ہے آب حیات کا ؟"

 "میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں اور یہ صرف آب حیات سے ممکن ہے۔" اس نے فوراً جواب دیتے ہوئے کہا ۔ بزرگ یہ سن کر مسکرایا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا ۔ "اگرہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے آب حیات سے آسان نسخے کا بتاؤں تو عمل کرو گے؟"

 اس کی آنکھوں میں چمک بھر آئی ۔اس نے خوشی کے عالم میں ہامی بھر لی۔ تو بزرگ نے کہا، " نیک کام کرو ، معاشرے کے کام آؤ، انسانیت کی خدمت کرو، کتابیں لکھو، مدرسہ، سکول،کتب خانہ  یامسجد تعمیر کرو ۔ اس کی بدولت تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہو گے۔لوگ صدیوں تک تمہیں  یاد کریں گے۔ تمہاری اولاد تم پر فخر کرے گی۔بلکہ معاشرہ  صرف تمہیں نہیں تمہاری نسل تک کو یاد رکھے گا۔یعنی اس کا فائدہ آب حیات سے بھی زیادہ ہوا۔کیونکہ آب حیات کا فائدہ صرف تمہاری ذات تک محدود ہوتا جبکہ اس کا فائدہ تمہاری آنے والی نسل کو بھی ملے گا۔

بزرگ کی باتیں سن کر اسے کافی سکون ملا کیونکہ اصل آب حیات اسے مل گیا  تھا۔اب اس کی زندگی کا مقصد تبدیل ہوچکا تھا۔اب اس نے اپنے مطالعے کی مدد سے کتابیں لکھنے سے نئی زندگی کا آغاز کیا۔

'Wo Khas Dn' By ShahTaj Khan


 وہ خاص دن




✒️ شاہ تاج  پونے




سانپ کی چال دیکھی ہے..! دوسروں سے ایک دم مختلف۔۔۔لہراتا۔۔جھومتا۔۔۔مانو اُسے سیدھا چلنا تو آتا ہی نہیں۔میں جب دوسری جماعت میں تھی تو سوچتی تھی کہ یہ سیدھا کیوں نہیں چلتا۔۔! اس کے پیر کہاں ہیں۔۔؟ سانپ کے آگے بڑھنے کے بعد بنے مٹی پر ڈیزائن میرے تجسس کو مزید بڑھا دیتے تھے۔


حیران نہ ہوں۔۔۔میں نے اپنے گھر میں سانپ نہیں پالے تھے۔۔۔اور نہ ہی میں سپیروں کی فیملی سے ہوں۔ہوا یوں۔۔۔کہ۔۔ایک مرتبہ ہماری سوسائٹی میں سانپ نکل آیا تھا۔۔۔اور اُسے پکڑنے کے لئے   "سرپ متر" بلائے گئے تھے۔تب میں نے پہلی بار اتنے قریب سے سانپ دیکھا تھا۔۔۔۔بس وہ دن ہے اور آج کا دن۔۔۔۔سانپ میرے چاروں طرف ہیں۔۔۔اب میں herpetologist ہوں


اب آپ پوچھیں گے کہ ماہر حشرات الارض کیا ہے۔۔۔؟ماہر حشرات الارض یا ہرپٹولوجسٹ وہ ہوتا ہے جو رینگنے والے جانوروں اور جل تھلیوں (خشکی اور پانی میں رہنے والے جاندار جیسے مینڈک اور آبی چھپکلی وغیرہ) سے متعلق اسٹڈی کرتا ہے اور ان کے مطالعہ میں مہارت رکھتا ہے۔


وہ بہت خاص دن تھا جب میں نے یہ طے کر لیا تھا کہ میں سانپ کے بارے میں سب کچھ جان کر رہوں گی۔۔ ایک بات اور۔۔۔۔ میری امی کو سانپ سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔لیکن میرے شوق اور تجسس کو دیکھ کر وہ مجھے پونے کے راجیو گاندھی چڑیا گھر لیکر گئی تھیں۔جہاں ایک بہت بڑا کاترج سنیک پارک بھی ہے۔جہاں سیکڑوں کی تعداد میں سانپ موجود ہیں۔بڑے- چھوٹے،موٹے- پتلے،کالے- سفید اور کچھ سانپ تو بہت خوبصورت ہیں۔


سانپوں سے میری پہلی اور یادگار ملاقات میری امی نے کرائی۔۔۔مجھے آج بھی یاد ہے جب میں سانپوں کو دیکھنے کے لیے کبھی یہاں تو کبھی وہاں۔۔۔دوڑ رہی تھی۔۔۔اتنے سارے سانپ۔۔۔۔دیکھ کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور میری امی مجھے دیکھ کر دھیرے دھیرے مسکرا رہی تھیں۔


وہاں الگ الگ پنجروں میں،اور کچھ تو اوپر سے کھلی چار دیواری میں رینگ رہے تھے۔۔اُن کے بارے میں مختصر معلومات وہاں پر لگے بورڈ پر موجود تھیں۔۔۔لیکن مجھے میرے سوال کا جواب کہیں نہیں مل رہا تھا کہ سانپ سیدھے کیوں نہیں چلتے۔۔؟


اس وقت snake park میں زیادہ لوگ نہیں تھے۔۔۔اور میرا جوش دیکھ کر وہاں موجود لوگ محظوظ ہو رہے تھے۔اپنے کیبن میں بیٹھے ہوئے پارک کے انچارج مجھے دیکھ رہے تھے،وہ باہر آئے اور مجھ سے بات کرنے لگے۔۔۔۔! مجھے اُن کا نام تو یاد نہیں لیکن میرے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا جواب انہوں نے ہی دیا تھا اور میں نے وہ تمام معلومات اپنی چھوٹی سی ڈائری میں ٹوٹے پھوٹے انداز میں نوٹ بھی کی تھی۔انہوں نے آتے ہی مجھ سے پوچھا۔۔۔


" بیٹا آپ کو سانپ سے ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔؟ آپ کو سانپ پسند ہیں۔ ؟" 


" جی انکل..! مجھے سانپ بہت پسند ہیں اور مجھے اُن سے ڈر بھی نہیں لگتا۔۔۔! مجھے اُن کا لہرا لہرا کر چلنا بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔!" میں نے خوش ہو کر اُنہیں بتایا۔وہ مسکرائے اور انہوں نے میرا نام پوچھا۔۔


" میرا نام لبیقہ ہے۔" میں نے اُنہیں اپنا نام بتایا۔


پھر انہوں نے مجھے بتانا شروع کیا۔میری امی میرے ساتھ کھڑی تھیں اور ہمارے درمیان ہونے والی باتوں کو بہت دھیان سے سن رہی تھیں،


" سانپ کے لہرا کے چلنے کو surpentine movement 


کہتے ہیں۔سانپ ایک ہی طرح سے نہیں چلتے بلکہ وہ آگے بڑھنے کے لیے پانچ مختلف طرح کی حرکات کا سہارا لیتے ہیں۔" پارک والے انکل نے بتایا۔


میں نے ایک سانپ کے ذگ ذیگ چلنے کے انداز کو دیکھ کر کہا" اس طرح چلنے کو lateral undulation کہتے ہیں نہ۔۔؟


پارک والے انکل بہت حیران ہوئے کہ مجھے یہ بات معلوم ہے۔۔۔! تب میری امی نے ہماری سوسائٹی میں ملنے والے سانپ کے بارے میں بتایا،یہ بھی کہا کہ یہ معلومات " سرپ متر" مجھے دے کر گئے تھے۔


مجھے شاباشی دینے کے بعد انہوں نے اپنی بات آگے بڑھائی۔۔


" سانپ کے پیر نہیں ہوتے،سانپ کے spinal column ہو تے ہیں۔جس سے متعدد ہڈیاں جڑی ہوتی ہیں۔۳۰۰ سے ۴۰۰ تک یہ تعداد ہو سکتی ہے۔یہ سانپ کی لمبائی پر منحصر ہے۔(ribs ) 


پسلیاں اس ہڈی سے آکر ملتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سانپ صرف دائیں اور بائیں ہی حرکت کر سکتا ہے۔یہ جو پھن والا حصّہ آپ دیکھ رہی ہو۔۔۔سانپ اسے ہی سیدھا اٹھا سکتا ہے۔zig Zag 


انداز میں چلنے کے لئے سانپ کے muscle اورscales  


 سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔"


" انکل آپ نے بتایا پانچ طرح کے انداز میں سانپ چلتے ہیں، مجھے اس بارے میں بتائیے۔۔!" میں نے پوچھا


" جی لبیقہ ! سانپ کو پہاڑ، کھردری جگہ،پیڑ اور اونچی نیچی  جگہوں پر رینگنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی لیکن چکنی جگہ جیسے کانچ یا شیشے پر آگے بڑھنا اُس کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے۔" میں نے فوراً پوچھا۔۔


" تو کیا سانپ شیشے پر نہیں چل سکتا۔۔۔؟"


" نہیں۔۔! ایسا نہیں ہے۔ایسے وقت میں سانپ کی رفتار ذرا سست اور چلنے کا انداز بھی بدل جاتا ہے۔سانپ آگے بڑھنے کے لیے پانچ طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔lateral undulation   (surpentine method)،concertina method،sidewinding، rectilinear method اور  slide pushing کہتے ہیں۔" میرے لئے اُس وقت سمجھنا تھوڑا مشکل تھا لیکن انکل نے مجھے اسپیلنگ بتائی تو میں نے اپنی ڈائری میں سب نوٹ کر لیا۔ 


پارک والے انکل نے آگے بتایا۔۔۔


Lateral undulation 


میں زگ زیگ اور مکمل" s" 


زمین پر بنتا ہے۔۔یہ آپ جانتے ہو۔"


" جی انکل! میں نے یہاں کئی سانپوں کو دیکھا ہے جو ایس بناتے ہوئے ہی چل یا رینگ رہے تھے۔"


پارک والے انکل نے آگے بتانا شروع کیا۔۔۔" concertina method  تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔سانپ یہ طریقہ تنگ جگہ پر آگے بڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس طریقے میں صرف اتنا جان لیجئے کہ اگلا حصّہ خود کو آگے بڑھاتا ہے اور پچھلا حصّہ دھکا دے کر سانپ کو آگے بڑھنے میں مدد کرتا ہے۔تیسرا طریقہ یعنی sidewinding کو ریگستان میں سانپ اپناتے ہیں۔جہاں (loose ) ڈھیلی اور پھسلنے والی سطح ہے۔جیسے ریت اور کیچڑ ۔۔۔ جہاں سانپ سیدھے نہیں بلکہ side


 یعنی صرف دائیں یا صرف پھر بائیں جانب رینگتے ہیں۔چوتھا طریقہ بہت ہی سست ہوتا ہے۔کیونکہ سانپ کے لیے سیدھا چلنا  آسان نہیں ہوتا اُن کے جسم کی بناوٹ ایسا کرنے میں حائل ہوتی ہے ۔پھر بھی rectilinear method  کئی مرتبہ سانپ اپناتے ہیں۔سانپ اپنے scale اور belly کو زمین پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے اور خود کو آگے بڑھاتا ہے۔ایسے میں اُس کے scales بالکل کشتی کے چپپو کی طرح کام کرتے ہیں۔" مجھے کچھ سمجھ آ رہا تھا اور بہت کچھ نہیں بھی۔۔۔لیکن مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔جیسے ہی انکل تھوڑا رکے تو میں نے کہا۔۔


"اور پانچواں طریقہ۔۔۔" انکل تھوڑا مسکرائے تھے اور انہوں نے کہا۔۔


" ہاں ہاں بتاتا ہوں۔slide pushing میں سانپ کی رفتار نہ کے برابر ہوتی ہے۔زمین کی ایسی سطح جہاں سانپ کو grip نہ مل پا رہی ہو تب وہ اس طریقے کو اپناتا ہے۔خود کو لمبے پھیلاؤ کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے۔" میں نے فوراً پوچھا"۔ لمبا پھیلاؤ کیا۔۔؟"


انکل نے ایک سانپ کی طرف اشارہ کیا اور کہا" عام طور پر سانپ "s "بناتا ہے اور جہاں اُسے آگے بڑھنے میں مشکل آتی ہے تو وہ بہت بڑا سا " s"بناتا ہے ۔پھسلنے اور چکنی جگہوں پر خود کو بچانے کی کوشش میں یہ طرز عمل اپناتا ہے۔" انکل نے مجھے سمجھا تے ہوئے کہا


" ابھی آپ بہت چھوٹی ہیں،اس لیے اتنی معلومات کافی ہیں جب تھوڑی بڑی ہو جاؤ گی تب آنا،میں آپ کو اور بھی بہت سی باتیں بتاؤں گا۔میں نے ہاں میں سر ہلایا اُن کا شکریہ ادا کیا اور ہم پھر پارک میں گھومنے لگے۔


میرے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا جواب دینے والے پارک والے انکل مجھے دوبارہ کبھی نہیں ملے۔میں آج بھی اکثر katraj snake park میں جاتی ہوں اور برسوں پہلے کے اپنے پہلے سبق کو اپنی ڈائری سے پڑھتی ہوں۔۔۔۔! اور ان باتوں کو یاد کرکے کچھ نیا سیکھنے کا جوش اپنے اندر محسوس کرتی ہوں۔۔۔!

Wednesday, August 18, 2021

Story Series No 8 : Apni Apni Khwahish by Raj Mohammed Afridi

 کتاب: سورج کی سیر 

مصنف: راج محمد آفریدی

کہانی8:


 اپنی اپنی خواہش




ایک سکول میں تین دوست تھے۔ وہ سکول سے چھٹی ہونے کے بعد پنجرے بنانے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں اکٹھے کام کرتے تھے۔ ان میں ایک عامر کام چور اور آرام طلب تھا ۔ دوسرا موٹا زاہد ہر وقت کھانے پینے کی باتیں کرتا تھا۔ تیسرا حسنین سبق پڑھنے کا شوقین تھا۔ 

کارخانے کے مالک نے تینوں کو روزانہ کی بنیاد پر کم از کم پانچ پانچ پنجرے بنانے کا کام سونپ دیا تھا۔ عامر تھوڑا کام کرکے گھنٹہ بھر آرام کرتا،  زاہد دو پنجرے بنا کر کچھ نہ کچھ کھانے لگتا جبکہ حسنین وقفہ کرکے اپنے ساتھ سکول سے لائی ہوئی کتاب پڑھتا۔ شام تک یہ تینوں اپنے اپنے شوق بھی پوری کر لیتے اور کسی نہ کسی طرح پانچ پانچ پنجرے بنا کر مالک سے دیہاڑی بھی وصول کر لیتے تھے۔ 

ایک دفعہ وہاں سے ایک جادوگر کے سادہ لوح بیٹے کا گزر ہوا۔ اس نے جب تینوں کو پنجرے بناتے ہوئے دیکھا تو جا کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ جادوگر کے بیٹے کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بنا رہے ہیں۔ اس نے سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تینوں سے سوالات پوچھنا شروع کیے۔

  اس نے پہلے عامر سے پوچھا۔ "یہ کیا بنا رہے ہو اور کس مقصد کے لیے بنا رہے ہو؟" عامر نے پنجرہ ایک طرف رکھ  کر انگڑائی لی اور لڑکے کوجواب دیا " یہ پنجرہ ہے۔ اس میں پرندے دیگر پرندوں سے چھپ کر آرام کرتے ہیں۔جب ان کا دل کسی کام میں نہیں لگتا تو اپنے والدین سے چھپ کر پنجرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔" جادوگر کا بیٹا یہ سن کر  متاثر ہوا۔ 

اس نے پھر زاہد سے وہی سوال دہرایا۔ زاہد نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، " میں یہ پرندوں کے لیے بنا رہا ہوں تاکہ وہ اس میں آرام سے کھانا کھا سکیں اور اپنے بچوں کی خوب پرورش کرسکیں۔" وہ زاہد کے جواب سے بھی متاثر ہوا۔ حسنین اس لڑکے کی سادہ لوحی پر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔ اس نے جادوگر کے بیٹے کے ساتھ مذاق کرنے کا ارادہ کیا۔

جب جادوگر کے بیٹے نے حسنین سے وہی سوال پوچھا تو اس نے شرارتی انداز میں جواب دیا۔ "ہم یہ پنجرے اس لیے بناتے ہیں تاکہ آپ جیسے شریر بچوں کو اس میں بند کرسکیں تاکہ وہ لوگوں سے سوالات نہ پوچھا کریں۔" 

یہ سنتے ہی جادوگر کے بیٹے کی سیٹی گم ہوگئی۔ اس کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہوئے۔ اس نے فورا کہا،"نہیں مجھے اس میں بند مت کرو، میں آئندہ کسی سے کوئی سوال نہیں پوچھوں گا۔بلکہ میں صرف ابو سےپوچھا کروں گا۔ اس کے پاس سارے سوالات کے جوابات ہیں کیونکہ وہ اس شہر کے مشہور جادوگر ہیں۔"

جادوگر کا سن کر تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ عامر نے جادوگر کے بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا۔" ٹھیک ہے۔ہم تمہیں اس پنجرے میں بند نہیں کریں گے مگرایک شرط پر کہ تم ابو سے کہہ کر اسے یہاں لاؤگے تاکہ وہ ہم سب کی ایک ایک خواہش پوری کرسکے۔"لڑکے کو سن کر تسلی ہوئی ۔اس نے خوش ہوکر کہا۔"بالکل۔ میں ابو سے کہہ کر تم سب کی ایک ایک خواہش پوری کر لوں گا۔" یہ سن کر وہ تینوں بھی خوش ہوئے۔

 اگلے روز جادوگر کا بیٹا حسب وعدہ اپنے باپ سمیت تینوں کی خواہشات پوری کرنے آ پہنچا۔ سب سے پہلے تو جادوگر نے تینوں کو سمجھایا کہ بچوں کے ساتھ اس طرح کا مذاق نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر حسنین نے اس سے معافی مانگی۔ جادوگر نے سب کو معاف کیا اور پھر باری باری ان کی خواہشات پوچھنے لگا۔ 

اپنی خواہشات کا سن کر تینوں سوچنے لگے کہ ایسا کیا مانگا جائے جس سے ہمیں فائدہ ملے۔سب سے پہلے عامر نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ "جادوگر صاحب! مجھ سے روز پانچ پانچ پنجرے نہیں بنائے جاتے۔ آپ ایسا کرو میرے لیے پچاس پنجرے تیار کرلو تاکہ میں دس دن خوب آرام کرسکوں۔" جادوگر کو اس کے بھولے پن کا اندازہ ہوا۔ اس نے حسب وعدہ عامر کی خواہش پوری کرتے ہوئے فوراً پچاس پنجرے بنائے۔ پنجروں کو دیکھ کر عامر کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ 

اس کے بعد زاہد گویا ہوا۔"مجھے ڈھیر ساری مٹھائی، پکی پکائی دس مرغیاں اور چاول کی ایک دیگچی چاہیے۔" جادوگر اس سے بھی متاثر نہ ہوا۔ پھر بھی پلک جھپکتے یہ ساری چیزیں اس کے سامنے پیش کردیں۔ 

اس کے بعد حسنین کی باری تھی۔ حسنین نے کافی سوچ بچار کے بعد کہا۔" میں چاہتا ہوں میرا ذہن تیز ہو تاکہ مجھے جلد سبق یاد ہو اور ہر سال سکول میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہوں۔ اگر میں لکھ پڑ گیا تو پھر میرے پاس کھانے کی چیزیں بھی ہوں گی اور آرام کرنے کے لیے وقت بھی ہوگا۔ " یہ سن کر جادوگر نے اسے شاباشی دی۔ اسے اندازہ تھا کہ دنیا میں کامیاب انسان بننے کے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ اس نے حسنین کی مذکورہ خواہش پوری کی اور اپنے بیٹے سمیت وہاں سے چلتا بنا ۔

Saturday, August 14, 2021

'Jang-E-Aazadi me Muslaman Aur Urdu Zaban' : Kausar Hayat


 جنگ آزدی میں مسلمان اوراردو زبان

 

از قلم :  خواجہ کوثر حیات،اورنگ آباد (دکن) بھارت




جدوجہد آزادی میں آبادی کے لحاظ سے کم تناسب ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیابلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جان و مال کی بیش قیمت قربانیوں کے ذریعہ ملک عزیز کی آزادی کیلئے تحریکیں چلائیں تختہئ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو خوشی خوشی حوصلہ اور بہادری کے ساتھ گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھیلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے۔جدوجہد کو ایک تحریک کی شکل دی اور تحریک بھی ایسی جس نے انگریزوں کو بھی خوف میں ڈال دیا۔جن میں سب سے قد آور شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کی رہی جو ایک ممتاز عالم دین اور ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران انڈین نیشنل کانگریس کے ایک سینئر مسلم رہنما تھے۔ جن کی بے لوث جدوجہدکو بھلایا نہیں جاسکتا۔

انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر ور فورٹ ولیم انگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔

حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے یہ جملے تاریخی سند رکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں؛

”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جنہوں نے اپنی دور اندیشی اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے“۔

دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ 

اسی طرح بیگم حضرت محل وہ پہلی مسلم خاتون جنگ آزادی کی مجاہدہ تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857 ء کو چن پاٹ کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔

آج بھی جبکہ ملک کو آزاد ہوئے 75/سال کا عرصہ ہوچکا ہے مگر یوم آزادی کا دن جیسا جیسا قریب آتا ہے غیر ارادی طور پر ذہن عجیب سرشاری و مسرت محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ طویل غلامی کی صعوبتوں کے بعدحاصل ہوئی ہماری آزادی ہمارے لئے آج بھی سب سے بڑا جشن ہے۔ اور جب آزادی کے بات کہی جائے لوک مانیہ تلک، مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد، ولبھ بھائی پٹیل، راجندر پرساد، ٹیپو سلطان، نانا علی وردی خان، حیدرعلی، ٹیپو سلطان اور بیگ حضرت محل کے ناموں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ وہیں جوش  اور ولولہ والے نعرے اشعار گیت اور اخبارات کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ایک لیڈر ایک جماعت تیار کرسکتا ہے مگر جب ایک شاعر کہتا ہے کہ وہ عوام کی آواز اور عوام کی زبان بن جاتا ہے۔ اسی طرح اخبار اپنے ہر پڑھنے والے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ چونکہ بھارت مشترکہ تہذیبوں کا گہوارہ ہے اس لئے ہر زبان کی طرح اردو زبان نے بھی آزادی کی جدوجہد میں انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

’انقلاب زندہ باد‘، ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں‘ یہ وہ نعرے ہیں جو آج بھی کانوں میں پڑ جائے تو جوشیلے آزادی کے متوالو ں کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اردو زبان کا کردار آزادی میں کیا رہا دیکھتے ہیں۔تحریک آزادی کے لئے ہر نعرہ وہ جذبہ ہوتا تھے جو کمزور سے کمزور انسان کو جوش و ولولے اس قدر چاق و چوبن کردیتا کہ وہ ایک سچا سپاہی بن جاتا۔ان نعروں میں آزادی کے متعتلوں کی قرابانیں کی طوی داستان ہے۔

کیا خوب منظر تھا سوچے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھانسی کا پھندہ سامنے ہو،موت یقینی ہو، پھر بھی وطن کے سپاہی شہید اشفاق اللہ، بھگت سنگھ جیسے جاں باز 

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہیں 

دیکھنا ہے کہ زور کتنا بازو قاتل میں ہے 

گن گناتے ہوئے پھانسی پر چڑھ جا تے ہیں۔ ان کا یہی جوش و ولولہ انگریزوں کو ناصرف حیران کردیتا بلکہ خوف میں بھی ڈال دیتا۔

طویل غلامی نے اچھے اچھوں کی ہمتوں کو توڑ دیا اور دلوں میں نا امیدی پیدا کردی ان حالات میں یہی نعرے، یہی اشعار و اردو کے اخبارات ورسائل جن میں قابل ذکر نام دہلی اردو اخبار، سراج الاخبار، تہذیب الاخلاق، اردو معّلٰی، البلاغ، الہلال، ہمدرد، صادق الاخبارنے نا امیدی کو امید،کمزوری کو طاقت میں تبدیل کردیا۔ سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑا بلا تفریق مذہب و رنگ عوام نے رہنماؤں، ادیب، صحافی و شعراء کی آواز پر لبیک کہا جیسے حسرت موہانی کا یہ شعر

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی 

وللہ کبھی خدمت انگریز نہ کرتے 

اسی طرح پنڈت برج نارائن چکبست کے اشعار بھی جوش و ولولہ کا باعث بنے 

دکھا دو جوہر اسلام اے مسلمانوں!

وقار قوم گیا قوم کے نگہ بانوں!

ستون ملک کے ہو قدر قومیت جانوں!

جفا وطن پہ ہے، فرض وفا کو پہچانوں!

نہیں علق و مروت کے ورثہ دار ہو تم 

عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم 

مجاز کے اشعار کا کیا کہنا جیسے انقلاب کی روح پھونک دی ہو   

جلال آتش برق شہاب پیدا کر

ازل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر 

تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر

جو ہوسکے تو خود انقلاب پیدا کر

جنگ آزادی کی جدوجہد میں جس طرح مسلمانوں کی کوششوں اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اسی طرح زبان اردو کے منظم خدمات کو بھی یکسر نظرانداز کرنا زبان اردو کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔بے شک اردو زبان جدوجہد آزادی میں مجاہدین آزادی کے ساتھ کمر بستہ کھڑی رہی۔ کبھی نعرہ بن کر، کہیں نغمہ بن کرماند پڑتے ہوئے حصولوں کو سربلندی عطا کی کہ نا تواں بھی خودکو رستم سمجھنے لگا۔اخبارات و رسائل کی تحریروں نے ہلکی ہلکی بغاوت کی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرکے آزادی تحریک کو مزید قوت بخشی۔



٭٭٭٭٭

Thursday, August 12, 2021

Zaban Sambhal Ke... By Shah Taj Khan

 زبان سنبھال کے۔۔۔

✒️ شاہ تاج, پونہ




کلاس میں داخل ہوتے ہی ٹیچر نے ایک چارٹ بورڈ کے آگے لٹکا دیا۔۔جس پر لکھا تھا" زبان کی ساخت اور بناوٹ" ۔نیچے ایک تصویر تھی۔فوراً سمجھ آ گیا کہ آج زبان کی اے،بی،سی ،ڈی سیکھنے کا دن ہے۔بورنگ عنوان اور اس پر نئی ٹیچر۔۔۔۔آج ہم پر بہت ظلم ہونے والا تھا۔۔۔۔اس خالی پیریڈ میں ایک ہفتے سے ہم سب کتنا مزا کر رہے تھے۔مگر۔۔۔آج سب ختم۔۔۔

ٹیچر نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا" میرا نام صبیحہ ہے۔میں آپ کو سائنس پڑھاؤنگی۔ ہمارا آج کا سبق زبان کے متعلق ہے۔چارٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زبان کچھ اس طرح کی دکھائی دیتی ہے۔" اُس کے بعد ٹیچر نے چارٹ کو لپیٹ کر رکھ دیا۔ہم سب ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے کہ آج کا سبق،شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔۔۔!

اچانک صبیحہ باجی نے بولنا شروع کیا۔"finger print نشان انگشت کے بارے میں تو آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ہر انسان کے الگ ہوتے ہیں۔"

" یہ تو مجرموں کو پکڑنے کے لئے پولیس والے استعمال کرتے ہیں۔" پیچھے سے آواز آئی تو صبیحہ باجی مسکرائیں۔۔۔۔اور کوئی ٹیچر ہوتیں تو ڈاٹ پڑنا طے تھا۔۔خیر انہوں نے آگے کہا کہ" ہماری زبان کے نشانات بھی ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے بلکہ ایک دم منفرد ہوتے ہیں۔" ہم سب کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔کیا ایسا بھی ہوتا ہے۔۔؟ صبیحہ باجی نے ہماری نیند بھگا دی تھی اور ذہن میں سوالات نے کلبلانہ شروع کر دیا تھا۔میں نے پوچھا

" زبان ہمارے کس کام کی ہوتی ہے؟" میرا بولنا تھا کہ صبیحہ باجی نے مجھے کلاس کے سامنے آنے کے لئے کہا۔۔میں سوچ رہا تھا کہ کیا کوئی غلطی ہو گئی۔۔۔ڈرتے ڈرتے سامنے جاکر کھڑا ہوا۔

" ہم کلاس میں ہیں۔۔۔،یہ جملہ زبان کو حرکت دیئے بنا بولیے۔" صبیحہ باجی نے کہا

یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔سوچ کر میں نے بولنا چاہا۔۔۔مگر یہ کیا۔۔۔؟ منہ سے صرف ہوا نکل رہی تھی۔۔میں الفاظ ادا نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔باجی نے مجھے واپس بیٹھنے کے لئے کہا

میں لگاتار کوشش کر رہا تھا مگر۔۔ ناکام۔۔۔۔

" ہم زبان کا استعمال کیے بنا بول نہیں سکتے۔" صبیحہ باجی نے بتایا

پھر باجی نے عقیل کو کھڑا کیا۔ اور اُسے ایک ٹشو پیپر دیتے ہوئے کہا کہ اس سے اپنی زبان کو سکھا لیجئے۔۔ مجھ سے کہا کہ عقیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیجئے۔ ۔۔ اس کے بعد باجی نے عقیل سے کہا کہ" جو بھی میں آپ کے منہ میں رکھوں گی آپ کو اس کا ذائقہ فوراً بتانا ہے۔۔ "باجی نے چینی عقیل کی زبان پر رکھی لیکن اس نے تھوڑی دیر بعد مٹھاس کو پہچانا۔۔۔پھر باجی نے عقیل کو پانی پینے کے لئے دیا اور پھر زبان پر چینی رکھی۔۔ اس مرتبہ فوراً عقیل نے جواب دے دیا۔باجی نے ہم دونوں کو بیٹھنے کے لئے کہا۔۔۔اور سمجھانا شروع کیا..." ہماری زبان محض0.0015 سیکنڈ میں ذائقہ پہچاننے کے قابل ہے،لیکن صرف اس صورت میں جب زبان نم ہو۔۔  لعاب دہن(saliva) زبان پر موجود ہو۔"

"اچھا تبھی مجھے saliva زبان پر موجود نا ہونے کے سبب ذائقہ پہچاننے میں دشواری ہوئی تھی۔۔۔پانی پینے کے بعد میں نے پلک جھپکنے سے بھی پہلے ذائقہ پہچان لیا تھا۔," عقیل کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی بہت اچھی طرح سمجھ آگیا تھا۔ 

"ہماری زبان ذائقہ کیسے پہچان لیتی ہے۔۔۔؟" عالیہ نے پوچھا

" ہماری زبان پر taste bud ذائقہ مہرہ ہوتے ہیں۔ان کی تعداد 3000سے10000 تک ہو سکتی ہے۔عام طور پر زبان کی لمبائی 3 انچ ہوتی ہے اور یہ ٹیسٹ بڈز پوری زبان پر موجود ہوتے ہیں۔" باجی نے بتایا

" زبان پر جو گول گول اُبھرے نشان نظر آتے ہیں،کیا یہی ذائقہ مہرہ ہیں؟" جاوید نے سوال کیا

" نہیں۔۔۔۔ یہ گول اُبھرے نشان یا tiny bumps  

کو papillaeکہتے ہیں۔ان کے اندر ٹیسٹ بڈس ہوتے ہیں۔" باجی نے بتایا

" ہماری زبان کتنی طرح کے ذائقے پہچان سکتی ہے؟" رخسانہ کا سوال عام سا تھا لیکن باجی نے کہا کہ آپ نے بہت اہم سوال کیا ہے انہوں نے رخسانہ کو شاباشی بھی دی۔۔۔ پھر بتانا شروع کیا

"1990 سے پہلے عام طور پر صرف چار ذائقے۔۔۔میٹھا،نمکین،ترش اورکڑوا۔۔۔لیکن بعد میں umami  ذائقہ کو بھی شامل کیا گیا ۔اس ذائقے میں میٹھا،نمکین،ترش اورکڑوا سبھی ذائقے موجود ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ کا چائنیز فوڈ۔۔۔"

"ایک بات اور۔۔۔۔ کسی بھی ذائقہ کو پہچاننے میں زبان کے ساتھ ہماری ناک بھی بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب آپ کی ناک بند ہو تو زبان کا ذائقہ بہت خراب ہو جاتا ہے۔۔۔۔

تبھی گھنٹی بج گئی۔۔۔ میں حیران تھا کہ پورا پیریڈ میں نے صبیحہ باجی کی باتوں کو دھیان سے سنا تھا۔۔۔یہ تو کمال ہوگیا۔,۔۔اور آج تو زبان کی علم الاعضاء ( anatomy )بھی کچھ کچھ سمجھ آ گئی تھی۔۔۔۔میں خود کو شاباشی دوں۔۔۔یا۔۔۔صبیحہ باجی کو۔۔۔۔

Tuesday, August 10, 2021

'Zameen Doz' by Iqbal Niyazi


افسانچہ

 زمین دوز



 

اقبال نیازی 


*ثمینہ کا اچانک اسکول سے فون آیا۔ملنے کے لیے بلا رہی تھی...اور میں عجیب اُلجھن میں تھا آج اچانک30 برسوں بعد؟

ثمینہ کالج کے زمانے میں بہت تیزطرار لڑکی تھی، بغیر دوپٹہ لیے پورے کالج میں تتلی کی طرح اُڑتی پھرتی تھی۔صرف لڑکوں سے دوستی ،کھلے عام سگریٹ نوشی۔بیئر کی بوتلیں پی کر دور اُڑا دینا اور چّھن کی آواز پر فلک شگاف قہقہے لگانا۔ اس کا دلچسپ مشغلہ تھا۔کالج کے سارے لڑکے لڑکیاں اس کو دیکھ کر بُرابُرا منھ بناتے اور اس سے دور رہتے، صرف میری اس سے خُوب جمتی تھی۔اس نے میری ڈائریکشن میں میرے ایک play میں کام کیا تھا۔

30 برسوں تک اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا، آج اس اُردو اسکول کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ ثمینہ یہاں کیا کر رہی ہے؟

پہلے منزلہ پر پہنچتے ہی ثمینہ نے میرا پرجوش استقبال کیا۔میں تو اسے پہچان بھی نہ سکا۔سر کے بالوں کو پوری طرح ڈھانکا ہوا اسکارف۔جسم پورا عبایہ میں چھپا ہوا۔ہاتھوں میں سفید دستانے۔

’’آؤ آدم...میں تمھارا ہی راستہ دیکھ رہی تھی...‘‘

وہ مجھے لے کر ایک شاندار، سجے سجائے روم میں داخل ہوئی جس کے دروازے پر ہیڈ مسٹریس کی تختی لگی تھی۔میں حیران سا... یہ سب دیکھتا رہا۔

’’آدم...میں نے بڑی مشکلوں سے تمھارا نمبر حاصل کیا ہے یار...، دراصل مجھے وھی پلے اپنی اسکول کے Annual day میں کروانا ہے جس میں میں نے تمہارے ساتھ کام کیا تھا۔‘‘ وہ مسکراہٹ کے تیر پھینک رہی تھی۔میں نے ان تیروں سے بچتے ہوئے کہا

’’ثمینہ...تُم یہاں پرنسپل ہو؟‘‘

’’تو تم کیا سمجھے تھے...کلرک ہوگی؟‘‘

وہی فلک شگاف قہقہہ...

’’مگر تمھارا یہ حلیہ...یہ اسلامی لباس اور یہ ساری تبدیلی؟ یہ سب کب کیسے ہوئی؟؟‘‘ تعجب سے ابھی بھی میری آنکھیں پھٹی ہی تھیں۔

’’کچھ نہیں یار! سب ڈرامے بازی ہے یہ۔اسکول منیجمنٹ مذہبی لوگوں کا ہے سب مولانا ہیں ،اُن کی شرط تھی کہ میں برقعے کی پابندی کروں گی تو ہی وہ مجھے ہیڈ مسٹریس بنائیں گے۔میں نے ان کی شرط مان لی۔‘‘ ثمینہ نے ایک آنکھ دبا کر کہا...اور پھر ایک تیر تیزی سے میری طرف لپکا

’’مگر سمی...تمھارا مزاج تو...‘‘

’’آج بھی وہی ہےڈیر... اس عبایہ کے اندر جینز اور ٹاپ ہی پہنتی ہُوں... نو دوپٹہ ووپٹہ...اور گھر جا کر یہ  اسکارف اور عبایہ سب اُتار کر پھینک دیتی ہوں... میرے ہسبنڈ کنال کو بھی یہ سب پسند نہیں ہے...‘‘ ثمینہ نے ایک بار پھر اپنی ایک آنکھ دبا دی، ایک اور تیر لپکا

اور میں اسکول سے نیچے سیڑھیاں اترتے ہوئے بے خیالی میں بہت نیچے اتر گیا...بیسمنٹ میں جہاں ہر طرف اندھیرا تھا...قبر سے گہرا اندھیرا...


✍️✍️✍️

Friday, August 6, 2021

'Qudrat Ka Anmol Tohfa' by Shah Taj

 ڈرامہ


قدرت کا انمول تحفہ


شاہ تاج، پونہ 



کردار  :۔۔۔۔۔۔۔

عبدالباری- عمر ۶ سال

عبدلآرب- عمر ۵ سال

خطیب-  عمر ۹ سال

نسرین- عمر ۶ سال

مریم- عمر ۷ سال 

ثقلین - عمر ۱۰ سال

بھابھی- تقریباً ۳۵ سالہ خاتون

(پردہ اٹھتا ہے)

( ایک بڑے سے ہال میں سارے بچے ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں۔بھابھی باورچی خانے میں کھانا بنانے میں مصروف ہیں۔گرمی کی چھٹیوں میں اُن کی دیورانی اور نند اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔گھر میں کافی ہلچل ہے۔)

عبدالباری- ( خطیب کو چڑھاتے ہوئے) خطیب بھائی رو رہے ہیں۔۔۔خطیب بھائی رو رہے ہیں۔۔لڑکیوں کی طرح رو رہے ہیں۔۔۔

مریم- دیکھو !دیکھو !خطیب بھائی کے تو آنسو بھی بہہ رہے ہیں۔۔( تالی بجا بجا کر ہنستی ہے)

( بچوں کا شور سن کر بھابھی اپنا کام چھوڑ کر جلدی سے آتی ہیں ۔)

بھابھی- ( خطیب کو گلے لگاتی ہیں) خطیب حساس بچہ ہے،دوسروں کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔۔۔اس لیے رو دیتا ہے۔

خطیب- ( تھوڑا جھینپتے ہوئے)بڑی امّاں۔۔! دیکھئے نا! یہ سب مجھے چڑا رہے ہیں۔۔ میں رو نہیں رہا تھا،وہ تو کارٹون دیکھتے ہوئے میں تھوڑا جذباتی ہو گیا تھا۔۔۔

بھابھی- بیٹا آنسوؤں سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ تو سوچے سمجھے بغیر لاشعوری طور پر بہہ جاتا ہے۔

خطیب- لیکن میں جلدی رو دیتا ہوں۔۔۔سب مجھے چڑاتے ہیں کہ میں لڑکیوں کی طرح روتا ہوں۔( خطیب نے اپنی پریشانی بیان کی)

مریم- خطیب بھائی ۔۔۔میں بھی روتی ہوں مگرآپ سے کم ہی روتی ہوں۔۔۔

نسرین- ( نسرین مریم کا ساتھ دیتے ہوئے) میں کبھی کبھی روتی ہوں۔۔۔پر کارٹون دیکھ کر تو ہنستی ہوں۔۔۔

( نسرین کی بات پر بھابھی مسکرانے لگیں)

خطیب- دیکھیے یہ سب میرے رونے پر کیسی بات کر رہے ہیں۔۔۔

( دونوں کے پیچھے بھاگتا ہے)

بھابھی-  اِدھر آئیے خطیب ۔۔۔یہ جو آپ کی آنکھوں سے پانی بہہ کر باہر آیا۔۔۔آپ اُس سے پریشان ہو۔۔۔؟ تو بیٹا یہ جان لیجئے کہ یہ پانی ہر آنکھ میں ہوتا ہے۔۔۔مگر دل میں جذبات کسی کسی کے پاس۔ ۔مجھے تو آپ پر فخر ہے کہ آپ دوسروں کی تکلیف محسوس کرتے ہو۔۔۔۔!  اور آپ دونوں ۔۔۔ بھائی کو پریشان مت کریے۔۔۔ خطیب! ۔۔۔۔شاباش منہ دھو کر آئیے۔۔کھانا کھانے کے بعد میں آپ سب کو آنسوؤں کی کچھ سائنس بتاؤں گی۔۔۔

( بچے خوش ہو جاتے ہیں۔)

ثقلین- ہماری سائنس کی کتاب میں تو آنسو کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔۔۔کیا آنسو بھی کچھ کمال دکھاتے ہیں۔۔۔۔؟(وہ کافی حیران تھا)

بھابھی- جی صاحبزادے۔,۔,۔۔

(اسٹیج کی روشنی مدھم ہوتی ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(دوسرا منظر)

(پردہ اٹھتا ہے)

( بڑے سے کمرے میں بستر لگے ہوئے ہیں۔۔۔بچوں کے شور میں کولر کی تیز آواز بھی  سنائی نہیں دے رہی ہے۔ایک ٹرے میں پانی کی بوتل اور کچھ گلاس رکھے ہوئے ہیں۔  بچے اپنا اپنا تکیہ ہاتھ میں لیے کولر کی سب سے زیادہ ہوا والی جگہ پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔بھابھی کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔۔وہ ایک پلیٹ میں خربوزہ اور آم لے کرآئی ہیں۔۔۔بچے اُنہیں چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔۔عبدل آرب مامی کی گود میں بیٹھ جاتا ہے۔)

نسرین- بڑی امّاں۔۔! پھپھو اور امی کب آئیں گی۔۔۔؟

بھابھی- وہ بڑی پھپھو کے گھر گئی ہیں ۔۔تھوڑی دیر میں آ جائیں گی۔۔( بچوں کو پھل دیتی ہیں)

بھابھی- ہاں بھئی۔۔۔! عبدالباری۔۔۔ سب سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ سے کس نے کہا کہ صرف لڑکیاں روتی ہیں۔۔؟

عبدالباری- مامی۔۔۔! ابو کہتے ہیں کہ لڑکے نہیں روتے۔۔۔(اس نے پورے اعتماد سے وضاحت کی)

مریم- غلط غلط۔۔۔۔کل جب آپ گر گئے تھے تب کون چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔۔۔۔؟ 

(عبدالباری وہیں سے مریم کو تکیہ کھینچ کر مارتا ہے)

بھابھی- بیٹا۔۔۔!آنسوؤں اور لڑکیوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری آنکھوں کو نم کرنے کے لیے آنکھوں میں آنسو تومسلسل بہتے رہتے ہیں۔اگر ہماری آنکھیں نم نہیں ہوں گی تو پلکوں کے رگڑنے سے اُنہیں نقصان ہو جائے گا۔۔۔

ثقلین- امی !اس وقت تو کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔!

( سب کی آنکھیں دیکھتا ہے۔)

بھابھی- ( مسکراتی ہیں )جی ہیرو ۔۔۔۔!جو آنسو ہر وقت ہماری آنکھوں میں بہتے رہتے ہیں اُن کی مقدار اتنی نہیں ہوتی کہ وہ آنکھ سے باہر نکل آئیں۔۔ اُنہیں بنیادی آنسو( basal tears )کہتے ہیں ۔

خطیب- آنکھ میں پانی آتا کہاں سے ہے!!!

بھابھی - ہماری آنکھ کے اوپر بائیں طرف ایک غدود ہے جس کا نام اشکوں کے غدود (lacrimal gland )ہے۔ وہاں سے آنسو نکلتے ہیں۔یہ آنکھ کی دائیں جانب دیکھئے ۔ (اپنی آنکھ پر انگلی سے اشارہ کرکے بتاتی ہیں)یہاں اوپر اور نیچے دو باریک سوراخ ہوتے ہیں انہیں puncta  کہتے ہیں۔یہ یہ ہماری آنکھ میں جمع ہوجانے والےزائد آنسوؤں کو اکٹھا کرتا ہے اور ہماری آنکھ سے یہ آنسو باہر نہیں آپاتے۔جب ہم پلک جھپکتے ہیں تو یہ آنسو پوری آنکھ میں پھیل جاتے ہیں ۔ یہ ہماری آنکھوں کی حفاظت اور اُن کی صفائی پر ہر وقت لگے رہتے ہیں۔آنسو تو ہمارے لیے تحفہ ہیں۔۔

ثقلین- پھر آنسو باہر کیسے آ جاتے ہیں۔۔؟ اگر یہ اندر ہی رہیں تو ان کو کیا پریشانی  ہے ۔۔۔؟( ثقلین حیران تھا)

بھابھی- کیوں کہ ہماری آنکھ میں تین طرح کے آنسو ہوتے ہیں۔بنیادی آنسو( basal tears ) ،ردِ عمل والے آنسو( reflex tears) اور جذباتی آنسو (  psycho - emotional tears ) ۔ ۔ ۔ ہر قسم کےآنسو کا کام اور مقدار الگ ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ہیرو۔۔۔

نسرین- خطیب بھائی کی آنکھوں سے کون سے آنسو باہر نکل آئے تھے۔۔ ؟

بھابھی- اُن کی آنکھوں سے جذباتی آنسو باہر نکل آئے تھے۔یہ آنسو تب نکلتے ہیں جب ہم کوئی واقعہ یا کوئی بات برداشت نہیں کر پاتے۔۔۔جیسے جب ہم بہت تکلیف میں ہوں،جیسے عبدالباری کی آنکھوں سے آئے تھےیا بہت دکھی ہوں۔۔۔مایوس ہوں۔۔بس یوں سمجھ لیجئے کہ غیر اختیاری طور پر یہ آنسو بہنے لگتے ہیں۔

ثقلین- کارٹون میں بہت درد بھرا سین چل رہا تھا،اسی لئے خطیب جذباتی ہو گئے تھے۔۔۔( ثقلین نے سوچتے ہوئے کہا)

مریم- امی یہ تیسری قسم کے آنسو کیسے ہوتے ہیں۔۔؟

 بھابھی- ردِ عمل والے آنسو ( reflex tears)۔۔۔یہ بارش کی طرح تب برستے ہیں جب میں پیاز کاٹتی ہوں یا پھر کھیلتے ہوئے آپ کی آنکھ میں کچھ دھول مٹی وغیرہ چلی جائے۔تب یہ آنسو گندگی اور کیمیکل وغیرہ کو صاف کرکے ہماری آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ان کی مقداربنیادی آنسوؤں basal tears سے زیادہ ہوتی ہے۔ عبدالباری-( یاد کرتے ) جی مامی۔۔۔! امی بھی پیاز کاٹتے ہوئے بہت روتی ہیں۔ بھابھی- ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ آنسو باعث رحمت ہیں۔۔رونے کے بعد اکثر لوگ ہلکا محسوس کرتے ہیں۔۔کیونکہ ہمارے آنسوؤں میں ایسے کئی مادے ہوتے ہیں جو ہمارا موڈ یعنی ہمارا مزاج بھی بہتر کرنے میں مدد گار بنتے ہیں۔۔۔اس لیے اگر رونے کا دل کرے تو رو لینا چاہیے۔۔۔۔سمجھے۔۔۔( سب بچے ہاں میں گردن ہلاتے ہیں) خطیب- یعنی لڑکے بھی رو سکتے ہیں ۔۔۔۔تھینک گاڈ ۔۔۔۔

(اسٹیج پر روشنی کم ہوتی جاتی ہے۔پردہ گرتا ہے)


تیسرا منظر

(پردہ اٹھتا ہے۔)

( اسکول کا بستہ صوفے پر پڑا ہے۔۔جوتے اور موزے کمرے میں یہاں وہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ہال میں کوئی نظر نہیں آ رہا ہے لیکن فون ملانے کی آواز آ رہی ہے۔۔۔اسٹیج پر روشنی بڑھنے کے ساتھ خطیب فون ہاتھ میں لیے نظر آتا ہے۔)

خطیب- السلام علیکم بڑی امّاں۔۔! میں خطیب بول رہا ہوں۔

( دوسری جانب بھابھی فون اٹھاتی ہیں اور ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔)

بھابھی- وعلیکم السلام۔۔۔جیتے رہو۔۔۔کیسے ہوبیٹا۔۔۔۔؟

خطیب- میں ٹھیک ہوں۔آپ سے ایک بات پوچھنا تھی۔۔

بھابھی- جی بیٹا کہیے۔۔۔

خطیب- ( خوش ہوتے ہوئے بتاتا ہے)آج میںپورے شہرکی اسکولوں میں ہوئے تقریری مقابلے میں اول آیا ہوں،مجھے ٹرافی بھی ملی ہے۔۔۔

بھابھی- مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔ میرا ہیرو بچہ۔۔۔۔

خطیب- بڑی امّاں۔۔۔ آج بھی میں اپنے آنسو نہیں روک پایا۔۔۔جبکہ میں آج بہت خوش تھا۔۔آپ نے خوشی میں نکلنے والے آنسوؤں کے بارے میں تو بتایا ہی نہیں تھا۔یہ کیوں نکلتے ہیں؟( خطیب نے اپنی پریشانی بتائی)

بھابھی- بیٹا۔۔۔یہ تو آج تک سائنس داں بھی معلوم نہیں کر پائے کہ خوشی میں آنسو کیوں نکل آتے ہیں۔۔۔تو میں کیا بتاتی۔۔؟( بھابھی نےاسے سمجھایا)

خطیب - سب مجھے کمزور سمجھ رہے ہوں گے۔۔۔

بھابھی- نہیں بیٹا۔۔۔ہمارے آنسوؤں میں یہ خوبی ہے کہ وہ بنا کچھ بولے ہمارے صحیح جذبات سامنے والے تک پہنچا دیتے ہیں۔۔بے فکر رہیے۔۔۔سب سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔۔۔بچے !اب تھوڑا مسکرائے اور مٹھائی لے کر یہاں آجائیے۔۔۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔

(دھیرے دھیرے اسٹیج کی روشنی مدھم ہونے لگتی ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔)

Wednesday, August 4, 2021

Story Series No. 7 ' Jo Sota Hai Wo Khota Hai' : Raj Afridi

 



کہانی نمبر 7: 


جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے



کتاب: سورج کی سیر

مصنف: راج محمد آفریدی


ایک بادشاہ نے اپنی وسیع و عریض سلطنت کو مختلف قبیلوں میں تقسیم کیا ہوا تھا ۔ انہوں نے انتظامی امور کو سنبھالنے کے لیے ہر قبیلے کو ایک سردار کے سپرد کیا تھا۔ ان قبیلوں کے آپسی اختلاف کو دیگر قبائل ختم کرتے۔ بادشاہ سلامت تب دخل اندازی کرتے جب حالات کنٹرول سے باہر ہوتے۔ بادشاہ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ مختلف قبیلوں کے اچانک دورے کرکے وہاں کی عوام کی شکایات سن کر فوراً ازالہ کرتے۔

انہی میں ایک قبیلے کا سردار آلکث کو نیند کی بیماری تھی۔ وہ دن رات میں تقریباً بیس گھنٹے سوتا اور باقی چار گھنٹوں میں کھانا پینا، سیر سپاٹے اور انتظامی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا۔ وہ خود سوتا رہتا جبکہ اس کا وفا دار، عقل مند اور بہادر وزیر فرماکس قبیلے کے مسائل حل کرتا۔

ایک دفعہ دوسرے قبیلے کے سردار لاجس کو عوام نے شکایت کی کہ سامی قبیلہ کے مچھیرے زبردستی ہمارے ہاں مچھلیوں کا شکار کرنے آتے ہیں۔ لاجس نے اپنے وزیر کی زبانی آلکث کو کئی بار آگاہ کیا مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ایک دن غصے میں آ کر اس نے آلکث کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔

لاجس نے سامی قبیلہ آکر سردار کو للکارا۔ ان دنوں روایت تھی کہ سرداروں کی لڑائی میں سپاہی آگے نہ بڑھتے جب تک انہیں حکم نہ ملتا۔ لاجس کی للکار پر فرماکس نے جاکر اپنے سردار کو جگانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ اٹھا۔وزیر نے تھک ہار کر خود ہی مسئلے کو ختم کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے باہر آکر لاجس سے کہا۔

 "ہمارے سردار کا کہنا ہے کہ وہ مہمانوں سے نہیں لڑتے۔ لڑائی کا اتنا ہی شوق ہے تو ایک وسیع میدان کا انتخاب کر کے دن اور وقت مقرر کرے،  وہ خود آجائے گا۔ باقی رہا مچھیروں کا مسلہ تو وہ بھی حل ہو جائے گا۔" یہ سن کر لاجس نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ شام کو جب آلکث کی آنکھ کھلی تو اسے دن بھر کی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ اس نے وزیر کو شاباش دی اور کھانا کھا کر دوبارہ سو گیا۔

ایک دفعہ ملک کے بادشاہ سلامت نے اپنی عادت کے مطابق سامی قبیلہ کا اچانک دورہ کیا۔ وہ عوام کی شکایات سننے لگا۔ سب بہت خوش اور مطمئن تھے۔  جب وزیر کو اطلاع ملی تو وہ کئی بارسردار کو جگانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔اس پر کافی وقت لگا۔ اسے بادشاہ سے ملنے میں تاخیر کا ڈر کھانے لگا۔ جب اسے سردار کو جگانے میں  ناکامی ہوئی تو خود سردار کا لباس پہن کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

 اس نے بادشاہ کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بادشاہ قبیلے کی عوام سے اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا۔انہوں نے فرماکس کو سردار ہی سمجھا۔ رخصت لینے سے پہلے انہوں نے سردار کو دربار آنے کی دعوت دی۔ ہر روز کی طرح وزیر نے سردار کو دن بھر کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ وہ وزیر کی کارکردگی سے بہت خوش تھا۔

اگلے روز سردار اپنے وزیر سمیت تیار ہوکر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے خوشی خوشی استقبال کیا۔ جب انہوں نے ان دونوں کو قریب آکر دیکھا تو اسے حیرانی ہوئی۔ انہوں نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سردار اور وزیر کو گرفتار کیا جائے۔ وہ دونوں اپنی گرفتاری پر کافی حیران ہوئے ۔

 بادشاہ نے سردار سے پوچھا۔" اگر تم سردار ہو تو اس دن مجھ سے ملنے وزیر کو کیوں بھیجا؟"سردار نے خوف کے مارے ساری حقیقت بیان کردی۔

"بادشاہ سلامت! جس وقت آپ تشریف لائے تھے ،اس وقت میں سو رہا تھا۔اصل میں مجھے زیادہ سونے کی بیماری ہے۔ میں روزانہ بیس گھنٹے سوتا ہوں اور چار گھنٹے جاگتا ہوں۔ وزیر نے میری نمائندگی کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں پیش ہونے کا فیصلہ مجبوری کے تحت کیا۔" 

بادشاہ نے یہ سن کر کہا۔" جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔ آج تمہیں تمہارے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔تمہارا ہوشیار وزیر ہی سردار بننے کا لائق ہے۔" پھر انہوں نے اعلان کیا۔" آج سے سامی قبیلے کا سردار فرماکس ہوگا۔" 

اس کے بعد ان  دونوں کو آزاد کیا گیا۔ پھر سب نے فرماکس کو مبارک باد دینا شروع کیا ۔ اسی طرح آلکث اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے سرداری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔