کتاب: سورج کی سیر
مصنف: راج محمد آفریدی
کہانی8:
اپنی اپنی خواہش
ایک سکول میں تین دوست تھے۔ وہ سکول سے چھٹی ہونے کے بعد پنجرے بنانے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں اکٹھے کام کرتے تھے۔ ان میں ایک عامر کام چور اور آرام طلب تھا ۔ دوسرا موٹا زاہد ہر وقت کھانے پینے کی باتیں کرتا تھا۔ تیسرا حسنین سبق پڑھنے کا شوقین تھا۔
کارخانے کے مالک نے تینوں کو روزانہ کی بنیاد پر کم از کم پانچ پانچ پنجرے بنانے کا کام سونپ دیا تھا۔ عامر تھوڑا کام کرکے گھنٹہ بھر آرام کرتا، زاہد دو پنجرے بنا کر کچھ نہ کچھ کھانے لگتا جبکہ حسنین وقفہ کرکے اپنے ساتھ سکول سے لائی ہوئی کتاب پڑھتا۔ شام تک یہ تینوں اپنے اپنے شوق بھی پوری کر لیتے اور کسی نہ کسی طرح پانچ پانچ پنجرے بنا کر مالک سے دیہاڑی بھی وصول کر لیتے تھے۔
ایک دفعہ وہاں سے ایک جادوگر کے سادہ لوح بیٹے کا گزر ہوا۔ اس نے جب تینوں کو پنجرے بناتے ہوئے دیکھا تو جا کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ جادوگر کے بیٹے کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بنا رہے ہیں۔ اس نے سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تینوں سے سوالات پوچھنا شروع کیے۔
اس نے پہلے عامر سے پوچھا۔ "یہ کیا بنا رہے ہو اور کس مقصد کے لیے بنا رہے ہو؟" عامر نے پنجرہ ایک طرف رکھ کر انگڑائی لی اور لڑکے کوجواب دیا " یہ پنجرہ ہے۔ اس میں پرندے دیگر پرندوں سے چھپ کر آرام کرتے ہیں۔جب ان کا دل کسی کام میں نہیں لگتا تو اپنے والدین سے چھپ کر پنجرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔" جادوگر کا بیٹا یہ سن کر متاثر ہوا۔
اس نے پھر زاہد سے وہی سوال دہرایا۔ زاہد نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، " میں یہ پرندوں کے لیے بنا رہا ہوں تاکہ وہ اس میں آرام سے کھانا کھا سکیں اور اپنے بچوں کی خوب پرورش کرسکیں۔" وہ زاہد کے جواب سے بھی متاثر ہوا۔ حسنین اس لڑکے کی سادہ لوحی پر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔ اس نے جادوگر کے بیٹے کے ساتھ مذاق کرنے کا ارادہ کیا۔
جب جادوگر کے بیٹے نے حسنین سے وہی سوال پوچھا تو اس نے شرارتی انداز میں جواب دیا۔ "ہم یہ پنجرے اس لیے بناتے ہیں تاکہ آپ جیسے شریر بچوں کو اس میں بند کرسکیں تاکہ وہ لوگوں سے سوالات نہ پوچھا کریں۔"
یہ سنتے ہی جادوگر کے بیٹے کی سیٹی گم ہوگئی۔ اس کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہوئے۔ اس نے فورا کہا،"نہیں مجھے اس میں بند مت کرو، میں آئندہ کسی سے کوئی سوال نہیں پوچھوں گا۔بلکہ میں صرف ابو سےپوچھا کروں گا۔ اس کے پاس سارے سوالات کے جوابات ہیں کیونکہ وہ اس شہر کے مشہور جادوگر ہیں۔"
جادوگر کا سن کر تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ عامر نے جادوگر کے بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا۔" ٹھیک ہے۔ہم تمہیں اس پنجرے میں بند نہیں کریں گے مگرایک شرط پر کہ تم ابو سے کہہ کر اسے یہاں لاؤگے تاکہ وہ ہم سب کی ایک ایک خواہش پوری کرسکے۔"لڑکے کو سن کر تسلی ہوئی ۔اس نے خوش ہوکر کہا۔"بالکل۔ میں ابو سے کہہ کر تم سب کی ایک ایک خواہش پوری کر لوں گا۔" یہ سن کر وہ تینوں بھی خوش ہوئے۔
اگلے روز جادوگر کا بیٹا حسب وعدہ اپنے باپ سمیت تینوں کی خواہشات پوری کرنے آ پہنچا۔ سب سے پہلے تو جادوگر نے تینوں کو سمجھایا کہ بچوں کے ساتھ اس طرح کا مذاق نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر حسنین نے اس سے معافی مانگی۔ جادوگر نے سب کو معاف کیا اور پھر باری باری ان کی خواہشات پوچھنے لگا۔
اپنی خواہشات کا سن کر تینوں سوچنے لگے کہ ایسا کیا مانگا جائے جس سے ہمیں فائدہ ملے۔سب سے پہلے عامر نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ "جادوگر صاحب! مجھ سے روز پانچ پانچ پنجرے نہیں بنائے جاتے۔ آپ ایسا کرو میرے لیے پچاس پنجرے تیار کرلو تاکہ میں دس دن خوب آرام کرسکوں۔" جادوگر کو اس کے بھولے پن کا اندازہ ہوا۔ اس نے حسب وعدہ عامر کی خواہش پوری کرتے ہوئے فوراً پچاس پنجرے بنائے۔ پنجروں کو دیکھ کر عامر کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
اس کے بعد زاہد گویا ہوا۔"مجھے ڈھیر ساری مٹھائی، پکی پکائی دس مرغیاں اور چاول کی ایک دیگچی چاہیے۔" جادوگر اس سے بھی متاثر نہ ہوا۔ پھر بھی پلک جھپکتے یہ ساری چیزیں اس کے سامنے پیش کردیں۔
اس کے بعد حسنین کی باری تھی۔ حسنین نے کافی سوچ بچار کے بعد کہا۔" میں چاہتا ہوں میرا ذہن تیز ہو تاکہ مجھے جلد سبق یاد ہو اور ہر سال سکول میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہوں۔ اگر میں لکھ پڑ گیا تو پھر میرے پاس کھانے کی چیزیں بھی ہوں گی اور آرام کرنے کے لیے وقت بھی ہوگا۔ " یہ سن کر جادوگر نے اسے شاباشی دی۔ اسے اندازہ تھا کہ دنیا میں کامیاب انسان بننے کے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ اس نے حسنین کی مذکورہ خواہش پوری کی اور اپنے بیٹے سمیت وہاں سے چلتا بنا ۔
No comments:
Post a Comment