Saturday, August 14, 2021

'Jang-E-Aazadi me Muslaman Aur Urdu Zaban' : Kausar Hayat


 جنگ آزدی میں مسلمان اوراردو زبان

 

از قلم :  خواجہ کوثر حیات،اورنگ آباد (دکن) بھارت




جدوجہد آزادی میں آبادی کے لحاظ سے کم تناسب ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیابلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جان و مال کی بیش قیمت قربانیوں کے ذریعہ ملک عزیز کی آزادی کیلئے تحریکیں چلائیں تختہئ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو خوشی خوشی حوصلہ اور بہادری کے ساتھ گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھیلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے۔جدوجہد کو ایک تحریک کی شکل دی اور تحریک بھی ایسی جس نے انگریزوں کو بھی خوف میں ڈال دیا۔جن میں سب سے قد آور شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کی رہی جو ایک ممتاز عالم دین اور ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران انڈین نیشنل کانگریس کے ایک سینئر مسلم رہنما تھے۔ جن کی بے لوث جدوجہدکو بھلایا نہیں جاسکتا۔

انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر ور فورٹ ولیم انگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔

حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے یہ جملے تاریخی سند رکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں؛

”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جنہوں نے اپنی دور اندیشی اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے“۔

دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ 

اسی طرح بیگم حضرت محل وہ پہلی مسلم خاتون جنگ آزادی کی مجاہدہ تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857 ء کو چن پاٹ کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔

آج بھی جبکہ ملک کو آزاد ہوئے 75/سال کا عرصہ ہوچکا ہے مگر یوم آزادی کا دن جیسا جیسا قریب آتا ہے غیر ارادی طور پر ذہن عجیب سرشاری و مسرت محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ طویل غلامی کی صعوبتوں کے بعدحاصل ہوئی ہماری آزادی ہمارے لئے آج بھی سب سے بڑا جشن ہے۔ اور جب آزادی کے بات کہی جائے لوک مانیہ تلک، مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد، ولبھ بھائی پٹیل، راجندر پرساد، ٹیپو سلطان، نانا علی وردی خان، حیدرعلی، ٹیپو سلطان اور بیگ حضرت محل کے ناموں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ وہیں جوش  اور ولولہ والے نعرے اشعار گیت اور اخبارات کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ایک لیڈر ایک جماعت تیار کرسکتا ہے مگر جب ایک شاعر کہتا ہے کہ وہ عوام کی آواز اور عوام کی زبان بن جاتا ہے۔ اسی طرح اخبار اپنے ہر پڑھنے والے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ چونکہ بھارت مشترکہ تہذیبوں کا گہوارہ ہے اس لئے ہر زبان کی طرح اردو زبان نے بھی آزادی کی جدوجہد میں انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

’انقلاب زندہ باد‘، ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں‘ یہ وہ نعرے ہیں جو آج بھی کانوں میں پڑ جائے تو جوشیلے آزادی کے متوالو ں کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اردو زبان کا کردار آزادی میں کیا رہا دیکھتے ہیں۔تحریک آزادی کے لئے ہر نعرہ وہ جذبہ ہوتا تھے جو کمزور سے کمزور انسان کو جوش و ولولے اس قدر چاق و چوبن کردیتا کہ وہ ایک سچا سپاہی بن جاتا۔ان نعروں میں آزادی کے متعتلوں کی قرابانیں کی طوی داستان ہے۔

کیا خوب منظر تھا سوچے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھانسی کا پھندہ سامنے ہو،موت یقینی ہو، پھر بھی وطن کے سپاہی شہید اشفاق اللہ، بھگت سنگھ جیسے جاں باز 

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہیں 

دیکھنا ہے کہ زور کتنا بازو قاتل میں ہے 

گن گناتے ہوئے پھانسی پر چڑھ جا تے ہیں۔ ان کا یہی جوش و ولولہ انگریزوں کو ناصرف حیران کردیتا بلکہ خوف میں بھی ڈال دیتا۔

طویل غلامی نے اچھے اچھوں کی ہمتوں کو توڑ دیا اور دلوں میں نا امیدی پیدا کردی ان حالات میں یہی نعرے، یہی اشعار و اردو کے اخبارات ورسائل جن میں قابل ذکر نام دہلی اردو اخبار، سراج الاخبار، تہذیب الاخلاق، اردو معّلٰی، البلاغ، الہلال، ہمدرد، صادق الاخبارنے نا امیدی کو امید،کمزوری کو طاقت میں تبدیل کردیا۔ سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑا بلا تفریق مذہب و رنگ عوام نے رہنماؤں، ادیب، صحافی و شعراء کی آواز پر لبیک کہا جیسے حسرت موہانی کا یہ شعر

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی 

وللہ کبھی خدمت انگریز نہ کرتے 

اسی طرح پنڈت برج نارائن چکبست کے اشعار بھی جوش و ولولہ کا باعث بنے 

دکھا دو جوہر اسلام اے مسلمانوں!

وقار قوم گیا قوم کے نگہ بانوں!

ستون ملک کے ہو قدر قومیت جانوں!

جفا وطن پہ ہے، فرض وفا کو پہچانوں!

نہیں علق و مروت کے ورثہ دار ہو تم 

عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم 

مجاز کے اشعار کا کیا کہنا جیسے انقلاب کی روح پھونک دی ہو   

جلال آتش برق شہاب پیدا کر

ازل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر 

تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر

جو ہوسکے تو خود انقلاب پیدا کر

جنگ آزادی کی جدوجہد میں جس طرح مسلمانوں کی کوششوں اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اسی طرح زبان اردو کے منظم خدمات کو بھی یکسر نظرانداز کرنا زبان اردو کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔بے شک اردو زبان جدوجہد آزادی میں مجاہدین آزادی کے ساتھ کمر بستہ کھڑی رہی۔ کبھی نعرہ بن کر، کہیں نغمہ بن کرماند پڑتے ہوئے حصولوں کو سربلندی عطا کی کہ نا تواں بھی خودکو رستم سمجھنے لگا۔اخبارات و رسائل کی تحریروں نے ہلکی ہلکی بغاوت کی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرکے آزادی تحریک کو مزید قوت بخشی۔



٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment