کہانی نمبر 7:
جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے
کتاب: سورج کی سیر
مصنف: راج محمد آفریدی
ایک بادشاہ نے اپنی وسیع و عریض سلطنت کو مختلف قبیلوں میں تقسیم کیا ہوا تھا ۔ انہوں نے انتظامی امور کو سنبھالنے کے لیے ہر قبیلے کو ایک سردار کے سپرد کیا تھا۔ ان قبیلوں کے آپسی اختلاف کو دیگر قبائل ختم کرتے۔ بادشاہ سلامت تب دخل اندازی کرتے جب حالات کنٹرول سے باہر ہوتے۔ بادشاہ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ مختلف قبیلوں کے اچانک دورے کرکے وہاں کی عوام کی شکایات سن کر فوراً ازالہ کرتے۔
انہی میں ایک قبیلے کا سردار آلکث کو نیند کی بیماری تھی۔ وہ دن رات میں تقریباً بیس گھنٹے سوتا اور باقی چار گھنٹوں میں کھانا پینا، سیر سپاٹے اور انتظامی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا۔ وہ خود سوتا رہتا جبکہ اس کا وفا دار، عقل مند اور بہادر وزیر فرماکس قبیلے کے مسائل حل کرتا۔
ایک دفعہ دوسرے قبیلے کے سردار لاجس کو عوام نے شکایت کی کہ سامی قبیلہ کے مچھیرے زبردستی ہمارے ہاں مچھلیوں کا شکار کرنے آتے ہیں۔ لاجس نے اپنے وزیر کی زبانی آلکث کو کئی بار آگاہ کیا مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ایک دن غصے میں آ کر اس نے آلکث کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔
لاجس نے سامی قبیلہ آکر سردار کو للکارا۔ ان دنوں روایت تھی کہ سرداروں کی لڑائی میں سپاہی آگے نہ بڑھتے جب تک انہیں حکم نہ ملتا۔ لاجس کی للکار پر فرماکس نے جاکر اپنے سردار کو جگانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ اٹھا۔وزیر نے تھک ہار کر خود ہی مسئلے کو ختم کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے باہر آکر لاجس سے کہا۔
"ہمارے سردار کا کہنا ہے کہ وہ مہمانوں سے نہیں لڑتے۔ لڑائی کا اتنا ہی شوق ہے تو ایک وسیع میدان کا انتخاب کر کے دن اور وقت مقرر کرے، وہ خود آجائے گا۔ باقی رہا مچھیروں کا مسلہ تو وہ بھی حل ہو جائے گا۔" یہ سن کر لاجس نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ شام کو جب آلکث کی آنکھ کھلی تو اسے دن بھر کی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ اس نے وزیر کو شاباش دی اور کھانا کھا کر دوبارہ سو گیا۔
ایک دفعہ ملک کے بادشاہ سلامت نے اپنی عادت کے مطابق سامی قبیلہ کا اچانک دورہ کیا۔ وہ عوام کی شکایات سننے لگا۔ سب بہت خوش اور مطمئن تھے۔ جب وزیر کو اطلاع ملی تو وہ کئی بارسردار کو جگانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔اس پر کافی وقت لگا۔ اسے بادشاہ سے ملنے میں تاخیر کا ڈر کھانے لگا۔ جب اسے سردار کو جگانے میں ناکامی ہوئی تو خود سردار کا لباس پہن کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
اس نے بادشاہ کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بادشاہ قبیلے کی عوام سے اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا۔انہوں نے فرماکس کو سردار ہی سمجھا۔ رخصت لینے سے پہلے انہوں نے سردار کو دربار آنے کی دعوت دی۔ ہر روز کی طرح وزیر نے سردار کو دن بھر کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ وہ وزیر کی کارکردگی سے بہت خوش تھا۔
اگلے روز سردار اپنے وزیر سمیت تیار ہوکر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے خوشی خوشی استقبال کیا۔ جب انہوں نے ان دونوں کو قریب آکر دیکھا تو اسے حیرانی ہوئی۔ انہوں نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سردار اور وزیر کو گرفتار کیا جائے۔ وہ دونوں اپنی گرفتاری پر کافی حیران ہوئے ۔
بادشاہ نے سردار سے پوچھا۔" اگر تم سردار ہو تو اس دن مجھ سے ملنے وزیر کو کیوں بھیجا؟"سردار نے خوف کے مارے ساری حقیقت بیان کردی۔
"بادشاہ سلامت! جس وقت آپ تشریف لائے تھے ،اس وقت میں سو رہا تھا۔اصل میں مجھے زیادہ سونے کی بیماری ہے۔ میں روزانہ بیس گھنٹے سوتا ہوں اور چار گھنٹے جاگتا ہوں۔ وزیر نے میری نمائندگی کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں پیش ہونے کا فیصلہ مجبوری کے تحت کیا۔"
بادشاہ نے یہ سن کر کہا۔" جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔ آج تمہیں تمہارے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔تمہارا ہوشیار وزیر ہی سردار بننے کا لائق ہے۔" پھر انہوں نے اعلان کیا۔" آج سے سامی قبیلے کا سردار فرماکس ہوگا۔"
اس کے بعد ان دونوں کو آزاد کیا گیا۔ پھر سب نے فرماکس کو مبارک باد دینا شروع کیا ۔ اسی طرح آلکث اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے سرداری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
No comments:
Post a Comment