ڈرامہ
قدرت کا انمول تحفہ
شاہ تاج، پونہ
کردار :۔۔۔۔۔۔۔
عبدالباری- عمر ۶ سال
عبدلآرب- عمر ۵ سال
خطیب- عمر ۹ سال
نسرین- عمر ۶ سال
مریم- عمر ۷ سال
ثقلین - عمر ۱۰ سال
بھابھی- تقریباً ۳۵ سالہ خاتون
(پردہ اٹھتا ہے)
( ایک بڑے سے ہال میں سارے بچے ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں۔بھابھی باورچی خانے میں کھانا بنانے میں مصروف ہیں۔گرمی کی چھٹیوں میں اُن کی دیورانی اور نند اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔گھر میں کافی ہلچل ہے۔)
عبدالباری- ( خطیب کو چڑھاتے ہوئے) خطیب بھائی رو رہے ہیں۔۔۔خطیب بھائی رو رہے ہیں۔۔لڑکیوں کی طرح رو رہے ہیں۔۔۔
مریم- دیکھو !دیکھو !خطیب بھائی کے تو آنسو بھی بہہ رہے ہیں۔۔( تالی بجا بجا کر ہنستی ہے)
( بچوں کا شور سن کر بھابھی اپنا کام چھوڑ کر جلدی سے آتی ہیں ۔)
بھابھی- ( خطیب کو گلے لگاتی ہیں) خطیب حساس بچہ ہے،دوسروں کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔۔۔اس لیے رو دیتا ہے۔
خطیب- ( تھوڑا جھینپتے ہوئے)بڑی امّاں۔۔! دیکھئے نا! یہ سب مجھے چڑا رہے ہیں۔۔ میں رو نہیں رہا تھا،وہ تو کارٹون دیکھتے ہوئے میں تھوڑا جذباتی ہو گیا تھا۔۔۔
بھابھی- بیٹا آنسوؤں سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ تو سوچے سمجھے بغیر لاشعوری طور پر بہہ جاتا ہے۔
خطیب- لیکن میں جلدی رو دیتا ہوں۔۔۔سب مجھے چڑاتے ہیں کہ میں لڑکیوں کی طرح روتا ہوں۔( خطیب نے اپنی پریشانی بیان کی)
مریم- خطیب بھائی ۔۔۔میں بھی روتی ہوں مگرآپ سے کم ہی روتی ہوں۔۔۔
نسرین- ( نسرین مریم کا ساتھ دیتے ہوئے) میں کبھی کبھی روتی ہوں۔۔۔پر کارٹون دیکھ کر تو ہنستی ہوں۔۔۔
( نسرین کی بات پر بھابھی مسکرانے لگیں)
خطیب- دیکھیے یہ سب میرے رونے پر کیسی بات کر رہے ہیں۔۔۔
( دونوں کے پیچھے بھاگتا ہے)
بھابھی- اِدھر آئیے خطیب ۔۔۔یہ جو آپ کی آنکھوں سے پانی بہہ کر باہر آیا۔۔۔آپ اُس سے پریشان ہو۔۔۔؟ تو بیٹا یہ جان لیجئے کہ یہ پانی ہر آنکھ میں ہوتا ہے۔۔۔مگر دل میں جذبات کسی کسی کے پاس۔ ۔مجھے تو آپ پر فخر ہے کہ آپ دوسروں کی تکلیف محسوس کرتے ہو۔۔۔۔! اور آپ دونوں ۔۔۔ بھائی کو پریشان مت کریے۔۔۔ خطیب! ۔۔۔۔شاباش منہ دھو کر آئیے۔۔کھانا کھانے کے بعد میں آپ سب کو آنسوؤں کی کچھ سائنس بتاؤں گی۔۔۔
( بچے خوش ہو جاتے ہیں۔)
ثقلین- ہماری سائنس کی کتاب میں تو آنسو کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔۔۔کیا آنسو بھی کچھ کمال دکھاتے ہیں۔۔۔۔؟(وہ کافی حیران تھا)
بھابھی- جی صاحبزادے۔,۔,۔۔
(اسٹیج کی روشنی مدھم ہوتی ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دوسرا منظر)
(پردہ اٹھتا ہے)
( بڑے سے کمرے میں بستر لگے ہوئے ہیں۔۔۔بچوں کے شور میں کولر کی تیز آواز بھی سنائی نہیں دے رہی ہے۔ایک ٹرے میں پانی کی بوتل اور کچھ گلاس رکھے ہوئے ہیں۔ بچے اپنا اپنا تکیہ ہاتھ میں لیے کولر کی سب سے زیادہ ہوا والی جگہ پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔بھابھی کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔۔وہ ایک پلیٹ میں خربوزہ اور آم لے کرآئی ہیں۔۔۔بچے اُنہیں چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔۔عبدل آرب مامی کی گود میں بیٹھ جاتا ہے۔)
نسرین- بڑی امّاں۔۔! پھپھو اور امی کب آئیں گی۔۔۔؟
بھابھی- وہ بڑی پھپھو کے گھر گئی ہیں ۔۔تھوڑی دیر میں آ جائیں گی۔۔( بچوں کو پھل دیتی ہیں)
بھابھی- ہاں بھئی۔۔۔! عبدالباری۔۔۔ سب سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ سے کس نے کہا کہ صرف لڑکیاں روتی ہیں۔۔؟
عبدالباری- مامی۔۔۔! ابو کہتے ہیں کہ لڑکے نہیں روتے۔۔۔(اس نے پورے اعتماد سے وضاحت کی)
مریم- غلط غلط۔۔۔۔کل جب آپ گر گئے تھے تب کون چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔۔۔۔؟
(عبدالباری وہیں سے مریم کو تکیہ کھینچ کر مارتا ہے)
بھابھی- بیٹا۔۔۔!آنسوؤں اور لڑکیوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری آنکھوں کو نم کرنے کے لیے آنکھوں میں آنسو تومسلسل بہتے رہتے ہیں۔اگر ہماری آنکھیں نم نہیں ہوں گی تو پلکوں کے رگڑنے سے اُنہیں نقصان ہو جائے گا۔۔۔
ثقلین- امی !اس وقت تو کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔!
( سب کی آنکھیں دیکھتا ہے۔)
بھابھی- ( مسکراتی ہیں )جی ہیرو ۔۔۔۔!جو آنسو ہر وقت ہماری آنکھوں میں بہتے رہتے ہیں اُن کی مقدار اتنی نہیں ہوتی کہ وہ آنکھ سے باہر نکل آئیں۔۔ اُنہیں بنیادی آنسو( basal tears )کہتے ہیں ۔
خطیب- آنکھ میں پانی آتا کہاں سے ہے!!!
بھابھی - ہماری آنکھ کے اوپر بائیں طرف ایک غدود ہے جس کا نام اشکوں کے غدود (lacrimal gland )ہے۔ وہاں سے آنسو نکلتے ہیں۔یہ آنکھ کی دائیں جانب دیکھئے ۔ (اپنی آنکھ پر انگلی سے اشارہ کرکے بتاتی ہیں)یہاں اوپر اور نیچے دو باریک سوراخ ہوتے ہیں انہیں puncta کہتے ہیں۔یہ یہ ہماری آنکھ میں جمع ہوجانے والےزائد آنسوؤں کو اکٹھا کرتا ہے اور ہماری آنکھ سے یہ آنسو باہر نہیں آپاتے۔جب ہم پلک جھپکتے ہیں تو یہ آنسو پوری آنکھ میں پھیل جاتے ہیں ۔ یہ ہماری آنکھوں کی حفاظت اور اُن کی صفائی پر ہر وقت لگے رہتے ہیں۔آنسو تو ہمارے لیے تحفہ ہیں۔۔
ثقلین- پھر آنسو باہر کیسے آ جاتے ہیں۔۔؟ اگر یہ اندر ہی رہیں تو ان کو کیا پریشانی ہے ۔۔۔؟( ثقلین حیران تھا)
بھابھی- کیوں کہ ہماری آنکھ میں تین طرح کے آنسو ہوتے ہیں۔بنیادی آنسو( basal tears ) ،ردِ عمل والے آنسو( reflex tears) اور جذباتی آنسو ( psycho - emotional tears ) ۔ ۔ ۔ ہر قسم کےآنسو کا کام اور مقدار الگ ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ہیرو۔۔۔
نسرین- خطیب بھائی کی آنکھوں سے کون سے آنسو باہر نکل آئے تھے۔۔ ؟
بھابھی- اُن کی آنکھوں سے جذباتی آنسو باہر نکل آئے تھے۔یہ آنسو تب نکلتے ہیں جب ہم کوئی واقعہ یا کوئی بات برداشت نہیں کر پاتے۔۔۔جیسے جب ہم بہت تکلیف میں ہوں،جیسے عبدالباری کی آنکھوں سے آئے تھےیا بہت دکھی ہوں۔۔۔مایوس ہوں۔۔بس یوں سمجھ لیجئے کہ غیر اختیاری طور پر یہ آنسو بہنے لگتے ہیں۔
ثقلین- کارٹون میں بہت درد بھرا سین چل رہا تھا،اسی لئے خطیب جذباتی ہو گئے تھے۔۔۔( ثقلین نے سوچتے ہوئے کہا)
مریم- امی یہ تیسری قسم کے آنسو کیسے ہوتے ہیں۔۔؟
بھابھی- ردِ عمل والے آنسو ( reflex tears)۔۔۔یہ بارش کی طرح تب برستے ہیں جب میں پیاز کاٹتی ہوں یا پھر کھیلتے ہوئے آپ کی آنکھ میں کچھ دھول مٹی وغیرہ چلی جائے۔تب یہ آنسو گندگی اور کیمیکل وغیرہ کو صاف کرکے ہماری آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ان کی مقداربنیادی آنسوؤں basal tears سے زیادہ ہوتی ہے۔ عبدالباری-( یاد کرتے ) جی مامی۔۔۔! امی بھی پیاز کاٹتے ہوئے بہت روتی ہیں۔ بھابھی- ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ آنسو باعث رحمت ہیں۔۔رونے کے بعد اکثر لوگ ہلکا محسوس کرتے ہیں۔۔کیونکہ ہمارے آنسوؤں میں ایسے کئی مادے ہوتے ہیں جو ہمارا موڈ یعنی ہمارا مزاج بھی بہتر کرنے میں مدد گار بنتے ہیں۔۔۔اس لیے اگر رونے کا دل کرے تو رو لینا چاہیے۔۔۔۔سمجھے۔۔۔( سب بچے ہاں میں گردن ہلاتے ہیں) خطیب- یعنی لڑکے بھی رو سکتے ہیں ۔۔۔۔تھینک گاڈ ۔۔۔۔
(اسٹیج پر روشنی کم ہوتی جاتی ہے۔پردہ گرتا ہے)
تیسرا منظر
(پردہ اٹھتا ہے۔)
( اسکول کا بستہ صوفے پر پڑا ہے۔۔جوتے اور موزے کمرے میں یہاں وہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ہال میں کوئی نظر نہیں آ رہا ہے لیکن فون ملانے کی آواز آ رہی ہے۔۔۔اسٹیج پر روشنی بڑھنے کے ساتھ خطیب فون ہاتھ میں لیے نظر آتا ہے۔)
خطیب- السلام علیکم بڑی امّاں۔۔! میں خطیب بول رہا ہوں۔
( دوسری جانب بھابھی فون اٹھاتی ہیں اور ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔)
بھابھی- وعلیکم السلام۔۔۔جیتے رہو۔۔۔کیسے ہوبیٹا۔۔۔۔؟
خطیب- میں ٹھیک ہوں۔آپ سے ایک بات پوچھنا تھی۔۔
بھابھی- جی بیٹا کہیے۔۔۔
خطیب- ( خوش ہوتے ہوئے بتاتا ہے)آج میںپورے شہرکی اسکولوں میں ہوئے تقریری مقابلے میں اول آیا ہوں،مجھے ٹرافی بھی ملی ہے۔۔۔
بھابھی- مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔ میرا ہیرو بچہ۔۔۔۔
خطیب- بڑی امّاں۔۔۔ آج بھی میں اپنے آنسو نہیں روک پایا۔۔۔جبکہ میں آج بہت خوش تھا۔۔آپ نے خوشی میں نکلنے والے آنسوؤں کے بارے میں تو بتایا ہی نہیں تھا۔یہ کیوں نکلتے ہیں؟( خطیب نے اپنی پریشانی بتائی)
بھابھی- بیٹا۔۔۔یہ تو آج تک سائنس داں بھی معلوم نہیں کر پائے کہ خوشی میں آنسو کیوں نکل آتے ہیں۔۔۔تو میں کیا بتاتی۔۔؟( بھابھی نےاسے سمجھایا)
خطیب - سب مجھے کمزور سمجھ رہے ہوں گے۔۔۔
بھابھی- نہیں بیٹا۔۔۔ہمارے آنسوؤں میں یہ خوبی ہے کہ وہ بنا کچھ بولے ہمارے صحیح جذبات سامنے والے تک پہنچا دیتے ہیں۔۔بے فکر رہیے۔۔۔سب سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔۔۔بچے !اب تھوڑا مسکرائے اور مٹھائی لے کر یہاں آجائیے۔۔۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔
(دھیرے دھیرے اسٹیج کی روشنی مدھم ہونے لگتی ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔)
عمدہ انداز بیان۔۔۔بچوں کی نفسیات اور سمجھ کے عین مطابق۔ مصنفہ کی سائنسی علوم ۔۔۔خصوصاً علم حیاتیات میں مطالعے کی گہرائی اور باریک بینی واضح نظر آتی ہے۔
ReplyDeleteادب اطفال میں گراں قدر اضافے کے لیے مبارک باد قبول فرمائیں شاہ تاج باجی ⚘⚘⚘