Tuesday, August 10, 2021

'Zameen Doz' by Iqbal Niyazi


افسانچہ

 زمین دوز



 

اقبال نیازی 


*ثمینہ کا اچانک اسکول سے فون آیا۔ملنے کے لیے بلا رہی تھی...اور میں عجیب اُلجھن میں تھا آج اچانک30 برسوں بعد؟

ثمینہ کالج کے زمانے میں بہت تیزطرار لڑکی تھی، بغیر دوپٹہ لیے پورے کالج میں تتلی کی طرح اُڑتی پھرتی تھی۔صرف لڑکوں سے دوستی ،کھلے عام سگریٹ نوشی۔بیئر کی بوتلیں پی کر دور اُڑا دینا اور چّھن کی آواز پر فلک شگاف قہقہے لگانا۔ اس کا دلچسپ مشغلہ تھا۔کالج کے سارے لڑکے لڑکیاں اس کو دیکھ کر بُرابُرا منھ بناتے اور اس سے دور رہتے، صرف میری اس سے خُوب جمتی تھی۔اس نے میری ڈائریکشن میں میرے ایک play میں کام کیا تھا۔

30 برسوں تک اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا، آج اس اُردو اسکول کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ ثمینہ یہاں کیا کر رہی ہے؟

پہلے منزلہ پر پہنچتے ہی ثمینہ نے میرا پرجوش استقبال کیا۔میں تو اسے پہچان بھی نہ سکا۔سر کے بالوں کو پوری طرح ڈھانکا ہوا اسکارف۔جسم پورا عبایہ میں چھپا ہوا۔ہاتھوں میں سفید دستانے۔

’’آؤ آدم...میں تمھارا ہی راستہ دیکھ رہی تھی...‘‘

وہ مجھے لے کر ایک شاندار، سجے سجائے روم میں داخل ہوئی جس کے دروازے پر ہیڈ مسٹریس کی تختی لگی تھی۔میں حیران سا... یہ سب دیکھتا رہا۔

’’آدم...میں نے بڑی مشکلوں سے تمھارا نمبر حاصل کیا ہے یار...، دراصل مجھے وھی پلے اپنی اسکول کے Annual day میں کروانا ہے جس میں میں نے تمہارے ساتھ کام کیا تھا۔‘‘ وہ مسکراہٹ کے تیر پھینک رہی تھی۔میں نے ان تیروں سے بچتے ہوئے کہا

’’ثمینہ...تُم یہاں پرنسپل ہو؟‘‘

’’تو تم کیا سمجھے تھے...کلرک ہوگی؟‘‘

وہی فلک شگاف قہقہہ...

’’مگر تمھارا یہ حلیہ...یہ اسلامی لباس اور یہ ساری تبدیلی؟ یہ سب کب کیسے ہوئی؟؟‘‘ تعجب سے ابھی بھی میری آنکھیں پھٹی ہی تھیں۔

’’کچھ نہیں یار! سب ڈرامے بازی ہے یہ۔اسکول منیجمنٹ مذہبی لوگوں کا ہے سب مولانا ہیں ،اُن کی شرط تھی کہ میں برقعے کی پابندی کروں گی تو ہی وہ مجھے ہیڈ مسٹریس بنائیں گے۔میں نے ان کی شرط مان لی۔‘‘ ثمینہ نے ایک آنکھ دبا کر کہا...اور پھر ایک تیر تیزی سے میری طرف لپکا

’’مگر سمی...تمھارا مزاج تو...‘‘

’’آج بھی وہی ہےڈیر... اس عبایہ کے اندر جینز اور ٹاپ ہی پہنتی ہُوں... نو دوپٹہ ووپٹہ...اور گھر جا کر یہ  اسکارف اور عبایہ سب اُتار کر پھینک دیتی ہوں... میرے ہسبنڈ کنال کو بھی یہ سب پسند نہیں ہے...‘‘ ثمینہ نے ایک بار پھر اپنی ایک آنکھ دبا دی، ایک اور تیر لپکا

اور میں اسکول سے نیچے سیڑھیاں اترتے ہوئے بے خیالی میں بہت نیچے اتر گیا...بیسمنٹ میں جہاں ہر طرف اندھیرا تھا...قبر سے گہرا اندھیرا...


✍️✍️✍️

2 comments:

  1. شُکریہ بھائی شامل کرنے کا

    ReplyDelete
  2. behtreen Afsancha.aise kirdaar aaj her jagah milte hain.qalam ko kagaz ka safer kerva ker kya khoob roop diya hai .best.

    ReplyDelete