وارثان حرف و قلم و قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے اشتراک سے
محفل طنز و مزاح بضمن جشن نورالحسنین کا شاندار انعقاد
نیوز بذریعہ : سید اطہر احمد
اورنگ آباد۔ وارثان حرف و قلم کی جانب سے جشن نورالحسنین کے تحت مختلف ادبی پروگرام کاسلسلہ عظیم الشان طریقہ پر جاری ہیں۔
اردو ادب کی ترقی و ترویج اور اس کی بقاء کے لئے نئی نسل کو اردو کی جانب راغب کرنا اور اسی کے ساتھ ادب کے ستون سمجھے جانے والے فنکاروں، شعراء، ادیبوں کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ نئے لکھنے والوں کو پلیٹ فارم مہیاکرنا بھی ایک اہم مقصدہے۔اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر وارثان حرف وقلم اور قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے اشتراک سے محفل طنز و مزاح بضمن جشن نورالحسنین کا انعقاد بتاریخ 19/ستمبر 2021ء، بوقت دوپہر 2/بجے تا 5/ بجے، بمقام بیت الیتیم، قلعہ ارک، اورنگ آباد عمل میں آیا۔
پروگرام کی صدارت معروف طنز و مزاح نگار جناب معز ہاشمی صاحب نے کی۔شرکا ء میں سعید خان زیدی، ابوبکر رہبر، تحسین احمد خان اور بطور مہمانان خصوصی نورالحسنین، ڈاکٹر قاسم امام اور سہیل قادری (قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد)موجود تھے۔
مزاح نگاری ایک بڑا مشکل فن جس میں مزاح نگار زندگی میں موجود ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اپنے انداز میں اس کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس سے ہنسی کو تحریک ملتی ہے۔ مزاح کا مقصد محض لطف اندوزی ہے تو طنز میں اصلاح کاجذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ خالص مزاح اعلی درجے کی چیز ہے اور قاری اس سے لطف و انبساط حاصل کرتا ہے۔ اس مشکل فن کے چند ماہرین شہر اورنگ آباد میں موجود ہیں جن کے مضامین قارئین کو مزاح فراہم کرتے ہیں اور ان سے قارئین بہت محظوظ ہوتے ہیں۔
پروگرام کا آغاز ابوبکر رہبر صاحب کے مزاحیہ مضمون ’بخت کے بدلتے روپ‘ سے ہوا۔ اس مضمون میں ابوبکر رہبر صاحب نے انسانی بخت پر بہترین روشنی ڈالی کہ کس طرح اور کس انداز کے بخت ہوتے ہیں جو انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔
ابوبکر رہبر صاحب کے بعد تحسین احمد خان نے اپنے مزاحیہ مضمون جس کا موضوع ریٹائرمنٹ کے بعد ایک مرد کی زندگی کس طرح گزرتی ہے اس پر بڑے مزاحیہ انداز میں تحریر کی۔ جس میں میاں بیوی کی عام زندگی کا احاطہ بڑے مزاحیہ انداز میں کیا۔
سعید خان زیدی صاحب نے اپنے مزاحیہ مضمون جس کا عنوان ’شہر خوباں اورنگ آباد اسٹیٹ : پردہ گرتا ہے‘۔ اپنے منفرد انداز میں شہر اورنگ آباد سے متعلق مٹتی تاریخی یادگار اسٹیٹ ٹاکیز سے متعلق معلومات ان کے اپنے انداز میں پڑھا۔جسے سامعین نے بہتر سراہا۔
ا س محفل میں شرکاء کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی اپنی تخلیق یعنی مزاحیہ مضمون سنانے کی اجازت تھی جس میں ڈاکٹر حسینی کوثر سلطانہ صاحبہ، پروفیسر ڈاکٹر رفیق زکریہ کالج فارویمن، اورنگ آبادکا مضمون ’بات کرنا ایک فن ہے محترمہ نکہت اشرف، معلمہ سروش اسکول نے اپنی بہترین آواز اور اندھا ز میں سنایا۔
صدارتی مضمون پروگرام کے صدر جناب معز ہاشمی صاحب نے اپنے مزاحیہ انداز میں سنایا جس کا عنوان ’صدر جلسہ‘ تھا۔ اپنے مضمون میں معز ہاشی صاحب نے بہترین انداز میں یہ بتایا کہ کس طرح پروگرام کی صدارت کے لئے انسان بے چین رہتا ہے اور اس کے لئے وہ کچھ بھی کرگزرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ معز ہاشمی کا انداز بیان بڑا ہی مزاحیہ اور دلچسپ رہا۔
اس درمیان قاضی جاوید نے ایک پیروڈی سنائی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ پروفیسر قاضی نوید نے بھی پیروڈی اپنے بہترین انداز میں سنا کر سامعین کا دل موہ لیا۔خالد سیف الدین صاحب نے بھی اپنے منفردانداز سے سامعین کی دلچسپی کا سامان مہیا کراتے رہے اور سامعین کو اپنی نشستوں کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔
نورالحسنین صاحب نے اپنے خطاب میں فن طنز و مزاح سے متعلق فرمایا کہ یہ ایک بہت مشکل فن ہے اور اس فن میں کام کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اور اس فن میں اپنے جوہر بکھیرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابوبکر رہبر صاحب کے مضمون کے تعلق سے فرمایاکہ ابوبکر رہبر کا مضمون بڑا بہترین ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی شستہ زبان اور بیان جوبہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
تحسین احمد خان کے تعلق سے کہتے ہیں کہ تحسین برسوں سے آکاشوانی پر مزاحیہ تحریر کے لئے مشہور ہے اور ان کی تحریر میں گھریلو زندگی کے مسائل کو بہترین مزاحیہ انداز میں پیش کرنا فن انہیں آتا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
سعید خان زیدی صاحب کے لئے ان کا یہ کہنا کہ ان جیسا سنجیدہ مزاح نگار دیکھنے میں بہت کم آتا ہے۔ سعید خان زیدی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بڑے سنجیدہ سے انسان ہے لیکن ان کی تحریر سے کہیں بھی سنجیدگی نہیں جھلکتی۔ ویسے تو ان کے مضامین روزنامہ اردو اورنگ آباد کے توسط سے قارئین کو مسلسل پڑھنے ملتے ہیں لیکن آج باضابطہ خود انہوں نے قارئین کے روبرو اپنے انداز میں مضمون سنایا جسے بہت داد و تحسین ملی۔
معز ہاشمی کے مضمون پر اور ان کے فن پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ معز کافن اور ان کا انداز بیان اپنے پورے مزاح کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور سامعین کو نہ صرف ہنسنے پر بلکہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہی کیفیت آج بھی تھی سامعین کو ان کے بیان اور انداز سے بہت محظوظ ہوئے اور ان کے مضمون کو اور ان کے انداز بیان کو بہت پسند کیا۔
اس موقع پر نورالحسنین نے وارثان حرف و قلم اور خالد سیف الدین کو مبارکباد دی کہ وہ اردو ادب کی بقاء اور کی ترقی و ترویج کے لئے بہترین کوششیں جاری ہیں اور ان کی اس کوششوں سے اردو کا قاری اور اردوسے محبت کرنے والوں کا حلقہ بڑھتا جارہا ہے۔جو ایک خوش آئند بات ہے۔
جناب سہیل قادری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ سیاسی شخص ہے ساتھ ہی وہ اردو ادب کے طالب علم ہے اور اردو کے کاز کے لئے وہ ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں۔ اور جب جب شہر میں اردو کے پروگرام ہوتے ہیں اس میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کی اردو سے محبت کی مثال ہے۔ اس پروگرام میں اردو ادب کے شیدائی شہریان کثیر تعداد میں موجود تھے اور سب نے پروگرام کو بہت پسند۔
اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں وارثان حرف و قلم کی تمام ٹیم نے انتھک کوشش کی۔ پروگرام کا اختتام رازق حسین و پروگرام کنوئینر سید اطہر احمد کے کلمات تشکر سے ہوا۔
٭٭٭٭٭٭