Sunday, September 26, 2021

Mushkil Hai Phir Milein Kabhi Yarane Raftgaan organised by Urdu Caravan Mumbai

 *مشکل ہے پھر ملے کبھی یاران رفتگان*


اکبر الہ آبادی ، جگر مراد آبادی اور اختر شیرانی کے مشترکہ ماہ وفات کے موقع پر اردو کارواں کی جانب سے قومی سطح کے ویبنار میں خراج عقیدت.  

شعیب ابجی نائب صدر اردو کارواں نے اردو کارواں کا تعارف پیش کیا. 

فرید احمد خان صدر اردو کارواں نے پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی( صدر شعبہ اردو علی گڑھ) اور دیگر مقررین کا خیرمقدم کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بہت اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ اردو کارواں کے ذریعے اردو زبان ان کالجوں تک پہنچی ہے جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے طلبہ اور اساتذہ اردو زبان و ادب کی خدمات سے انجان تھے

 انہوں نے ولسن کالج، ایس این ڈی ٹی کالج، مٹھی بائی کالج اور ٹا ٹا انسٹیٹیوٹ کا بطور خاص  ذکر کیا. 

عرفان عارف (صدر تحریک بقائے اردو) جو نظامت کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے کہا کہ تینوں شعراء کی تاریخ وفات ایک ہی ہے مگر تینوں کی شاعری میں الگ الگ رنگ نظر آتا ہے

پروفیسر سلیم محی الدین نے اکبر الہ آبادی کے تعلق سے کہا کہ یہ وہ شاعر ہے جسے سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا ہے جبکہ ان کی شاعری دور حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے. 

ڈاکٹر پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی (صدر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ  اکبر الہ آبادی سر سید کے معاصرین میں سے تھے اکبر نےاپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعے اپنی بات کو پیش کیا، اور اپنی شاعری کے ذریعے سے کسی حد تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کی 

اختر شیرانی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ اختر شیرانی کے ہاں زندگی میں سکون نظر آتا ہے ان کی زندگی میں وہ جب پریشان ہوتے ہیں تو رومان کو ذہنی سکون کے لئے تلاش کر لیتے ہیں وہ نغمگی کی طرف آتے ہیں 

. جگر مراد آبادی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ  جگر بنیادی طور پر فارسی کے شاعر تھے وہ رومان کے شاعر تھے، 

اس موقع پر کفایت حسین کیفی نے اختر شیرانی کی نظم او دیس سے آنے والے بتا...

عظمیٰ فردوس نے جگر مراد آبادی کی غزل، جہانگیر روش اور عبدالرحمن نے اکبر الہ بادی اور جگر مراد آبادی کی غزلیں پیش کیں. گلواکارہ شبانہ شیخ نے اکبر الہ آبادی کی غزل کہوں سے قصہ درد و غم کوی ہمنشیں ہے نا یار ہے.. سنا کر سماں باندھ دیا اس کےے علاوہ انھوں نے اختر شیرانی اور جگر مراد آبادی کی غزلیں بھی پیش کیں.

اس نشست میں پروفیسر محمد کاظم دہلی یونیورسٹی، ڈاکٹر پروفیسر عبدالشعبان (ٹاٹا انسٹیٹیوٹ ممبیء)  طلباء و اساتذہ کے علاوہ اردو کارواں ممبیء و اورنگ آباد کے ممبران موجود تھے

رسم شکریہ شبانہ خان سیکرٹری اردو کارواں نے ادا کیا.

Wednesday, September 22, 2021

Jashn E Nurul Hasnain Aurangabad

 وارثان حرف و قلم و قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے اشتراک سے 


محفل طنز و مزاح بضمن جشن نورالحسنین کا شاندار انعقاد




نیوز بذریعہ : سید اطہر احمد 


اورنگ آباد۔ وارثان حرف و قلم کی جانب سے جشن نورالحسنین کے تحت مختلف ادبی پروگرام کاسلسلہ عظیم الشان طریقہ پر جاری ہیں۔ 


اردو ادب کی ترقی و ترویج اور اس کی بقاء کے لئے نئی نسل کو اردو کی جانب راغب کرنا اور اسی کے ساتھ ادب کے ستون سمجھے جانے والے فنکاروں، شعراء، ادیبوں کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ نئے لکھنے والوں کو پلیٹ فارم مہیاکرنا بھی ایک اہم مقصدہے۔اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر وارثان حرف وقلم اور قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے اشتراک سے محفل طنز و مزاح بضمن جشن نورالحسنین کا انعقاد بتاریخ 19/ستمبر 2021ء، بوقت دوپہر 2/بجے تا 5/ بجے، بمقام بیت الیتیم، قلعہ ارک، اورنگ آباد عمل میں آیا۔




 پروگرام کی صدارت معروف طنز و مزاح نگار جناب معز ہاشمی صاحب نے کی۔شرکا ء میں سعید خان زیدی، ابوبکر رہبر، تحسین احمد خان اور بطور مہمانان خصوصی نورالحسنین، ڈاکٹر قاسم امام اور سہیل قادری (قادری ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد)موجود تھے۔

مزاح نگاری ایک بڑا مشکل فن جس میں مزاح نگار زندگی میں موجود ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اپنے انداز میں اس کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس سے ہنسی کو تحریک ملتی ہے۔ مزاح کا مقصد محض لطف اندوزی ہے تو طنز میں اصلاح کاجذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ خالص مزاح اعلی درجے کی چیز ہے اور قاری اس سے لطف و انبساط حاصل کرتا ہے۔ اس مشکل فن کے چند ماہرین شہر اورنگ آباد میں موجود ہیں جن کے مضامین قارئین کو مزاح فراہم کرتے ہیں اور ان سے قارئین بہت محظوظ ہوتے ہیں۔



پروگرام کا آغاز ابوبکر رہبر صاحب کے مزاحیہ مضمون ’بخت کے بدلتے روپ‘ سے ہوا۔ اس مضمون میں ابوبکر رہبر صاحب نے انسانی بخت پر بہترین روشنی ڈالی کہ کس طرح اور کس انداز کے بخت ہوتے ہیں جو انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ 

ابوبکر رہبر صاحب کے بعد تحسین احمد خان نے اپنے مزاحیہ مضمون جس کا موضوع ریٹائرمنٹ کے بعد ایک مرد کی زندگی کس طرح گزرتی ہے اس پر بڑے مزاحیہ انداز میں تحریر کی۔ جس میں میاں بیوی کی عام زندگی کا احاطہ بڑے مزاحیہ انداز میں کیا۔

سعید خان زیدی صاحب نے اپنے مزاحیہ مضمون جس کا عنوان ’شہر خوباں اورنگ آباد اسٹیٹ :  پردہ گرتا ہے‘۔ اپنے منفرد انداز میں شہر اورنگ آباد سے متعلق مٹتی تاریخی یادگار اسٹیٹ ٹاکیز سے متعلق معلومات ان کے اپنے انداز میں پڑھا۔جسے سامعین نے بہتر سراہا۔

ا س محفل میں شرکاء کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی اپنی تخلیق یعنی مزاحیہ مضمون سنانے کی اجازت تھی جس میں ڈاکٹر حسینی کوثر سلطانہ صاحبہ، پروفیسر ڈاکٹر رفیق زکریہ کالج فارویمن، اورنگ آبادکا مضمون ’بات کرنا ایک فن ہے محترمہ نکہت اشرف، معلمہ سروش اسکول نے اپنی بہترین آواز  اور اندھا ز میں سنایا۔

صدارتی مضمون پروگرام کے صدر جناب معز ہاشمی صاحب نے اپنے مزاحیہ انداز میں سنایا جس کا عنوان ’صدر جلسہ‘ تھا۔ اپنے مضمون میں معز ہاشی صاحب نے بہترین انداز میں یہ بتایا کہ کس طرح پروگرام کی صدارت کے لئے انسان بے چین رہتا ہے اور اس کے لئے وہ کچھ بھی کرگزرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ معز ہاشمی کا انداز بیان بڑا ہی مزاحیہ اور دلچسپ رہا۔ 



اس درمیان قاضی جاوید نے ایک پیروڈی سنائی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ پروفیسر قاضی نوید نے بھی پیروڈی اپنے بہترین انداز میں سنا کر سامعین کا دل موہ لیا۔خالد سیف الدین صاحب نے بھی اپنے منفردانداز سے سامعین کی دلچسپی کا سامان مہیا کراتے رہے اور سامعین کو اپنی نشستوں کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔

نورالحسنین صاحب نے اپنے خطاب میں فن طنز و مزاح سے متعلق فرمایا کہ یہ ایک بہت مشکل فن ہے اور اس فن میں کام کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اور اس فن میں اپنے جوہر بکھیرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابوبکر رہبر صاحب کے مضمون کے تعلق سے فرمایاکہ ابوبکر رہبر کا مضمون بڑا بہترین ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی شستہ زبان اور بیان جوبہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ 



تحسین احمد خان کے تعلق سے کہتے ہیں کہ تحسین برسوں سے آکاشوانی پر مزاحیہ تحریر کے لئے مشہور ہے اور ان کی تحریر میں گھریلو زندگی کے مسائل کو بہترین مزاحیہ انداز میں پیش کرنا فن انہیں آتا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

سعید خان زیدی صاحب کے لئے ان کا یہ کہنا کہ ان جیسا سنجیدہ مزاح نگار دیکھنے میں بہت کم آتا ہے۔ سعید خان زیدی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بڑے سنجیدہ سے انسان ہے لیکن ان کی تحریر سے کہیں بھی سنجیدگی نہیں جھلکتی۔ ویسے تو ان کے مضامین روزنامہ اردو اورنگ آباد کے توسط سے قارئین کو مسلسل پڑھنے ملتے ہیں لیکن آج باضابطہ خود انہوں نے قارئین کے روبرو اپنے انداز میں مضمون سنایا جسے بہت داد و تحسین ملی۔

معز ہاشمی کے مضمون پر اور ان کے فن پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ معز کافن اور ان کا انداز بیان اپنے پورے مزاح کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور سامعین کو نہ صرف ہنسنے پر بلکہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہی کیفیت آج بھی تھی سامعین کو ان کے بیان اور انداز سے بہت محظوظ ہوئے اور ان کے مضمون کو اور ان کے انداز بیان کو بہت پسند کیا۔


اس موقع پر نورالحسنین نے وارثان حرف و قلم اور خالد سیف الدین کو مبارکباد دی کہ وہ اردو ادب کی بقاء اور کی ترقی و ترویج کے لئے بہترین کوششیں جاری ہیں اور ان کی اس کوششوں سے اردو کا قاری اور اردوسے محبت کرنے والوں کا حلقہ بڑھتا جارہا ہے۔جو ایک خوش آئند بات ہے۔

جناب سہیل قادری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ سیاسی شخص ہے ساتھ ہی وہ اردو ادب کے طالب علم ہے اور اردو کے کاز کے لئے وہ ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں۔ اور جب جب شہر میں اردو کے پروگرام ہوتے ہیں اس میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کی اردو سے محبت کی مثال ہے۔ اس پروگرام میں اردو ادب کے شیدائی شہریان کثیر تعداد میں موجود تھے اور سب نے پروگرام کو بہت پسند۔


اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں وارثان حرف و قلم کی تمام ٹیم نے انتھک کوشش کی۔ پروگرام کا اختتام رازق حسین و پروگرام کنوئینر سید اطہر احمد کے کلمات تشکر سے ہوا۔ 

٭٭٭٭٭٭

Sunday, September 19, 2021

Important meeting organized by 'Meyaar'

 'معیار' کے ذریعے اہم میٹنگ کا انعقاد 


ممبئ میں تعلیمی و ادبی خدمات کے لیے کوشاں رہنے والی غیر سرکاری تنظیم 'معیار' کی ایک اہم میٹنگ گزشتہ شام گوونڈی کے ایک ریستوران میں منعقد کی گئ. اس میٹنگ کی صدارت 'معیار' کے نائب صدر جناب ابراہیم نجیب نے فرمائی. تنظیم کے تقریباً تمام ممبران نے میٹنگ میں شرکت کی.




 'معیار' کی گزشتہ سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اور مستقبل کے منصبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب محسن ساحل نے بتایا کہ حال ہی میں معیار کی ویبسائٹ اور بلاگ کی شروعات کی گئ ہے. بہت جلد اس ویبسائٹ کی ڈیزائننگ مکمل کردی جائے گی اور اسے تعلیمی و ادبی ڈیجیٹل پلیٹفارم کے طور پر پیش کیا جائے گا. کوشش رہے گی کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ و اساتذہ اس ویب سائٹ سے فائدہ اٹھا سکیں. طلبہ اور اساتذہ کے لیے تعلیمی  و ادبی مواد کا ذخیرہ محفوظ کرنا، تاکہ نئ نسل کے لیے جدید ٹکنالوجی کی مدد سے تعلیم اور زبان و ادب کی ترقی وترویج کے راستے ہموار ہوسکیں اس ویب سائٹ کا اہم مقصد ہے. یاد رہے کہ دو سال قبل معیار کا یو ٹیوب چینل بھی تشکیل دیا گیا تھاجس سے ہزاروں طلبہ و اساتذہ جڑے ہیں.  علاوہ از ایں حالات مناسب ہونے پر بہت جلد ایک اہم تقریب کا انعقاد بھی معیار کے منصوبے میں شامل ہے.




 جناب محمد ذیشان نے دوران میٹنگ اظہار خیال کیا. انھوں نے کہا کہ بی ایم سی کے طلبہ کی تعلیمی ترقی کے لیے غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنا تعاون پیش کرسکتی ہیں. طلبہ اور اساتذہ کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو کی تمام تنظیمیں باہمی روابط قائم کریں اور مختلف منصوبوں پر عمل کریں.




 جناب محمد مجاہد نےاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو اساتذہ نے لاک ڈاؤن کے دوران طلبہ کو آن لائن تعلیم سے جوڑنے کے لیےجتنی پریشانیاں جھیلیں اور جس قدر ابھی بھی سرگرم عمل ہیں، ان کارہائے نمایاں کے لیے اردو اساتذہ کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے.


 میٹنگ میں شریک جناب واصف احمد نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں طلبہ اور اساتذہ کے باہمی رشتے کو اور مضبوط بنانے کے لیے سخت کوششیں کرنی ہوں گی. 


جناب ظریف احمد نے کہا کہ ٹکنا لوجی کی معلومات حاصل کرنا طلبہ و اساتذہ کا حق ہے جس کے لیے اردو کی نجی تنظیموں کو بھی متحرک ہونا پڑے گا. 


جناب محمد عرفان نے وضاحت کی کہ وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بہت ساری نئ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں. ہمیں ان سے ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے. 


میٹنگ کے صدر جناب ابراہیم نجیب نے مجموعی تاثرات سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ و اساتذہ کو جدید ٹکنا لوجی کے ساتھ ساتھ ادب سے جوڑنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے. سرکاری اداروں اور اسکولوں کے علاوہ اردو کی ادبی تنظیموں کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ و اساتذہ کو ادب کی اہمیت سمجھاتے ہوئے انھیں اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے متحرک کریں.


 میٹنگ کے اختتام پر جناب محسن ساحل نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور نئے عزم و بلند حوصلوں سے سرگرم عمل رہنے کی گزارش کی. میٹنگ نہایت کامیاب رہی. 


Nasihat No. 4: Bhalai Phailao

 


حضرت لقمان کی نصیحت : 4


بھلائی پھیلاؤ 



اے مرے ابو نصیحت مجھ کو کوئی کیجیے 

آپ کچھ علم و ادب کا مجھ کو تحفہ دیجیے 

کیوں نہیں بیٹے نصیحت اک سناتا ہوں تمہیں

جو کہا لقمان نے وہ میں بتاتا ہوں تمہیں 

اس نصیحت کو کیا ہے نقل بھی قرآن نے 

جو نصیحت کی تھی بیٹے سے کبھی لقمان نے 

باپ نے بیٹے سے فرمایا مرے لخت جگر 

خیر پھیلایا کرو ہر اک گلی میں گھوم کر 

خود بھلائی پر رہو لوگوں میں پھیلایا کرو 

اس کی خاطر دوسروں کے گھر پہ بھی جایا کرو 

کہنے سننے کا یقیناً فائدہ پاؤگے تم 

بیج تم بوؤگے جیسا ویسا ہی کاٹوگے تم 

اے مرے ابو عمل تب پہلے کرنا چاہیے 

بعد میں لوگوں کو اس جانب بلانا چاہیے 

ہاں مرے بیٹے دیا تم نے ذہانت کا ثبوت 

ہے نصیحت اک امانت دو امانت کا ثبوت

Saturday, September 18, 2021

Story ' Picnic' by Shah Taj Khan

 کہانی 


پکنک


شاہ تاج خان 



شیر اور شیرنی کا چھوٹا بچہ جب اسکول سے واپس آیا تو وہ بہت خوش تھا۔ماسٹر صاحب کل انہیں ایک نئی جگہ دکھانے لے جانے والے تھے۔جب سے ان کے نئے ہاتھی ماسٹر صاحب آئے تھے بچوں کو اسکول جانے میں مزا آنے لگا تھا۔

پکنک پر جانے کے لئے فارم سائن کر تے ہوئے شیر نے پوچھا۔

اس بار ماسٹر صاحب کہاں لیکر جا رہے ہیں؟

بچہ۔ہیومن پارک

دستخط کرنے کے بعد شیر نے اپنی مسز سے کہا۔

میں ہاتھی ماسٹر صاحب سے ملنے جا رہا ہوں۔تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔

وہ پورے راستے یہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ کون سا پارک ہے جس کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ہے۔۔

ہاتھی ماسٹر صاحب کا گھر سامنے تھا،دروازہ کھٹکھٹانے پر مسز ہاتھی نے دروازہ کھولا۔جنگل کا راجہ شیر سامنے تھا ۔اندر آئیے۔کہتے ہوئے مسز ہاتھی نے پوچھا۔

کیسے آنا ہوا؟ 

مجھے ماسٹر صاحب سے بات کرنا ہے۔

تبھی پیچھے سے ماسٹر صاحب آگئے۔شیر نے سیدھے پوچھا

بچوں کو کہاں لیکر جا رہے ہو؟

ماسٹر صاحب۔محترم آپ بے فکر رہیں میں اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں۔آپ جنگل کے راجا ہیں تو میں اُن کا استاد ہوں۔ایک نیا پارک ہے۔زیادہ دن تک نہیں کھلا رہےگا۔اس لیے میں اپنے شاگردوں کو کل ہی اُس پارک کی سیر کرا نا چاہتا ہوں۔ جہاں انہیں کافی کچھ نیا سیکھنے کے لئے ملے گا۔

شیر،ہاتھی،چیتا،بندر سبھی بچے پکنک پر چلے گئے۔

نئے ماسٹر صاحب سے سبھی خوش تھے اُن کے پڑھانے کا طریقہ بہت الگ تھا۔بچے خوشی سے اسکول جاتے اور ہر دن کچھ نیا سیکھ کر آتے۔

شام کو جب بچے پکنک سے واپس آنے تو بہت خوش تھے۔آج انہیں ایک نیا تجر بہ ہوا تھا۔پکنک کی باتیں کرتے ہوئے شیر بچے نے اپنے ہاتھ پھیلا کر بتایا کہ اتنے بڑے بڑے پنجرے تھے۔ماسٹر صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ انسان ہیں۔وہ ہم سے ہاتھ جوڑ کر معافی کیوں مانگ رہے تھے؟ آپ تو کہتے تھے کہ انسان بہت خطرناک ہو تے ہیں! مگر وہ رو رہے تھے،ہم سے دوستی کرنا چاہتے تھے۔کیا ہمیں ان سے دوستی کرنا چاہئے؟ شیر بچہ اپنی روانی میں بولے جا رہا تھا اور شیر حیران پریشان اپنے بیٹے کو صرف دیکھ رہا تھا ۔بیٹے کے سوال کا اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

Wednesday, September 15, 2021

'Khilona Bandooq" by Raj Mohammed Afridi

 کہانی 11 : 

کھلونا بندوق


کتاب : سورج کی سیر


مصنف: راج محمد آفریدی





"ڈز ڈز۔۔۔۔۔ڈز ڈز۔۔۔۔۔ " سارے بچے ہنستے ہوئے ماسٹر صاحب کے پاس سے دوڑتے ہوئے گزر گئے۔ سب کے ہاتھوں میں کھلونا بندوقیں تھیں ۔ وہ ایک دوسرے پر بندوق تان کر منہ سے "ڈز ڈز" کی آوازیں نکال کر یہاں وہاں بھاگ کر کھیلتے رہے۔ ماسٹر صاحب خاموشی سے گزرنے لگے کہ اس کی نظر اپنے یتیم بھتیجے سدیس پر پڑی  جو ایک طرف سب سے انجان کھڑا ہوا تھا۔

ایک سال قبل سدیس کا باپ  اصلی بندوق  صاف کرتے ہوئے گولی چلنے سے مر گیا تھا۔اس کے بعد ماسٹرصاحب نے اس کی پرورش کا ذمہ اٹھایا۔سدیس ایک طرف افسردہ کھڑا کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ رہا تھا ۔ اپنے چچا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک بھر آئی۔ اس نے فخریہ انداز میں دوستوں سے کہا۔

 "چچا جان آگئے۔میرے پیارے چچا آگئے۔ اب میرے ہاتھ میں بھی بندوق ہوگی۔اب میں چور سپاہی والا کھیل کھیلوں گا۔آہا !کتنا مزا آئے گا۔ اب ہم سب مل جل کر کھیلیں گے۔" 

ماسٹر صاحب قریب آئے تو سدیس نے بغور ان کا جائزہ لیا۔ ماسٹر صاحب کے خالی ہاتھ دیکھ کر اس کی چہچہاہٹ افسردگی میں تبدیل ہوئی۔ اس نے ناخوش ہوکر چچا سے شکایت کے انداز میں کہا۔

 "چچا  جان! آپ تو خالی ہاتھ لوٹ آئے ، میں نے آپ کو بندوق لانے کا کہا تھا اور آپ نے کہا کہ مجھے بندوق سے بھی اچھا تحفہ لاکر دیں گے۔ دیکھو!محلے کے سارے بچوں کے ساتھ کھلونا بندوقیں ہیں، میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کہتے ہیں تیرے ابا نہیں ہیں اس لیے کوئی تجھے بندوق لاکر نہیں دیتا۔" وہ تقریباً رونے لگا۔

 ماسٹر صاحب نے سدیس کے سر پرشفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے تسلی دی۔"نہیں بیٹا ! ایسا نہیں کہتے۔میں ہوں نا۔ میں نے صبح تحفہ لانے کا کہا تھا اور وہ میں لے کر آیا ہوں۔ میں نے کہا تھا بندوق سے اچھا تحفہ ہوگا۔میں اپنے وعدے کو پورا کرچکا ہوں۔میں تمہارے لیے بندوق سے اچھا اور طاقت ور تحفہ لایا ہوں۔"

"لیکن مجھے کھیلنے کو بندوق ہی چاہیے۔اور وہ آپ کے ہاتھ نظر نہیں آرہی۔ مجھےدیکھو سب کے پاس بندوقیں ہیں۔ اور سب کتنا خوش ہیں۔" سدیس نے بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اب باقی بچوں نے دوڑنا بند کرکے ان دونوں کی  طرف دیکھنا شروع کیا تھا۔ان میں چند شریر لڑکے سدیس کو تنگ کرنے کی نیت سے بار بار اپنی بندوقیں ہوا میں لہرا رہے تھے۔

 ماسٹر صاحب نےسدیس کو مطمئن کرنے کی غرض سے کہا۔" بیٹا ! بندوق بری چیز ہے۔اس عمر میں بچوں کے ہاتھ میں بندوق نہیں دینا چاہیے ، یہاں تک کہ کھلونا بندوق بھی نہیں۔ میں اس حق میں نہیں ہوں۔" سدیس پر اس تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

" ٹھیک ہے جو تحفہ آپ لائے ہو، وہ دکھاؤ پہلے۔ اگر مجھے پسند نہ آیا تو پھر مجھے بندوق لاکر دو گے۔" ماسٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر اس نے دیگر بچوں کو اپنی جانب بلاتے ہوئے آواز دی۔ "سب بچے ادھر آئیں۔ میں آج تم سب کے لیے بندوق سے بھی اچھا اور طاقت ور تحفہ لے کر آیا ہوں۔" بچے بڑے شوق سےبھاگتے ہوئے ماسٹر صاحب کے قریب  آگئے۔ ماسٹر صاحب نے بڑے پیار سے بچوں کے ہاتھوں سے کھلونا بندوقیں لے کر ایک طرف رکھنا شروع کیں۔اس کے بعد  ہر بچے کو کھلونا بندوق کے بدلے ہاتھ میں ایک ایک قلم دیتے ہوئے کہا۔

"یہ بندوق سے زیادہ اہم ہے۔آج دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو قلم کے سہارے کرنا ہوگا ، نہ کہ بندوق کی مدد سے۔اسی سے قومیں بنتی ہیں۔"

Monday, September 13, 2021

Nakami Ka Khauf Kaise Door Karein??

 ناکامی کا خوف


   ہم اپنی زندگی میں ناکامی کے خوف کو کس طرح کم کرسکتے ہیں؟                 


از :عشرت انجم ڈاکٹر شیخ محمد شرف الدین ، بی۔ ایڈ۔ سال اول

                                                                                         کالج کا نام : مراٹھواڑہ کالج آف ایجوکیشن،اورنگ آباد


میرے قلم سے۔۔۔۔۔۔


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


زندگی میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں اپنے آپ پر اعتماد ہوتا ہے جب وہ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو اُنھیں اس بات کا پختہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اِس میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہم جو کرنے جارہے ہیں کیا ہم اُس میں کا میاب  ہوپائیں گے یا نہیں؟ایک دفعہ کی ناکامی کا تجربہ اُن کے دماغ میں حاوی ہوجاتا ہے اور وہ اس منفی خیال سے اُبھر ہی نہیں پاتے۔جب بھی وہ کوئی کام شروع کرتے ہیں تو وہی ناکامی کی دیوار ان کے آگے حائل ہوجاتی ہے۔


اگر انسان صحیح راستے کا انتخاب کرے اور مثبت سوچ کے ساتھ کامیابی کے لیے محنت کرتے رہے تو کامیابی کی منزل تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا ۔ کمزور انسان کامیابی کے لیے ہمیشہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں اس کے برخلاف باہمت لوگ کامیابی حاصل کرنے کے لیے خود مواقع  ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ زندگی میں کامیاب ہو، ترقی کرکے آگے جائے۔ لیکن ہمیں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ناکامی کو کامیابی کی پہلی سیڑھی کہا جاتا ہے۔ اگرکوئی اپنی پہلی کوشش میں ناکام ہو بھی جاتا ہے تو اسے ہمت کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا چاہیے  بلکہ اپنی ناکامی کی وجوہات کو تلاش کرتے ہوئے ایک نئی امنگ اور جستجو کے ساتھ کامیابی کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اس بات کا یقین کامل ہونا چاہیے کہ اگر انسان محنت کرے تو کامیابی ایک نہ ایک دن ضرور مل کر رہتی ہے۔

اگر پہلی کوشش میں انسان ناکام بھی ہوجائے تو اسے مثبت انداز سے یہ سوچنا چاہیے کہ ناکامی کہ بہت سے فائدے بھی ہیں۔عام طور پر ناکامی کسی کو پسند نہیں آتی لیکن ناکامی ایک ناکام شخص کے لیے اچھی چیز بھی ہو سکتی  ہے۔ناکامی اُسے حدود میں رکھتی ہے۔ناکامی اُسے سیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ ناکامی اُسے انسان بناتی ہے۔ ناکامی  اُسے احساس دلاتی ہے۔ناکامی اُسے تجربہ فراہم کرتی ہے۔ناکامی اُ س کے لیے نئی امید ثابت ہوتی ہے۔ سب سے اہم چیز ناکامی اُسے سجدوں کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شخص کامیاب نہیں ہو پاتا جس میں ناکامی کا خوف کامیابی کی چاہت سے ذیادہ ہو۔ جو لوگ خوف سے اپنے قدم نہیں اٹھاپاتے وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔


خوف پہ قابو پانا اُسے

 سنبھالنا  ہماری کامیابی کا سبب  ب سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خوف ہے۔خوف ہماری کاکردگی کو ایک حد میں رکھتا ہے۔ جب ہمارا ہنر ‘ ہماری کاکردگی ‘ ہماری قابلیت ایک حد تک آکر رک جاتی ہے تو تب ہم ایک محدود حد تک سوچتے  ہیں اور ایک محدود حد تک سوچنے سے ہمیں کسی بھی معاملے میں لامحدود نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔

                   کسی بھی انسان کی زندگی میں عام طور پر تین طرح کے خوف ہوتے ہیں۔





مثلا انسان کو یہ خوف ہوتا ہے کہ میں کہیں مر نہ جائوں۔۔۔اس لیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک نہ ایک دن ہر ایک کو  مرنا تو ہے ہی لیکن یاد رکھیے صرف ایک بارمرنا ہے۔لوگ بات بات پر کہتے ہے کہیں میں مر نہ جائوں۔ جب ہمارے اختیار میں پیداہونا نہیں ہے تو مرنا  بھی ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ہمیں  اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ انسان تبھی مرتا ہے جب اللہ کی مرضی ہو۔ 

          انسان کو دوسرایہ خوف ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟؟   بہت سے لوگ دنیا میں دیگر لوگوں کو راضی کرنے ‘ انھیں خوش کرنے میں اپنے آپ کو غرق کر دیتے ہیں۔

      اگر ہمیں ناکامی کے خوف کے  ساتھ ساتھ دیگر خوف  سے اُبھرنا ہے تو سب سے  پہلے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی ناکامی کے خوف کا تذکرہ کرتے نہ رہیں کیونکہ ہم  جتنا ناکامی کے خوف کا تذکرہ کرتے ہیں اتنا ہی وہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس طرح ایک پودے کو پانی ملتا ہے ‘روشنی ملتی ہے تو وہ درخت بنتا چلا جاتا ہے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح خوف کا بار بار تذکرہ کرنے سے اس کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہےاور وہ ہم پر غلبہ طاری ہوجاتا ہے۔

دوسرے یہ کہ کسی ہمدرد ‘ انسانی نفسیات جاننے والے سے  اپنے ناکامی کے خوف کا  تذکرہ کرنا چاہیے۔ ہمیں ایسے کسی شخص سے  ہی مشورہ کرنا چاہیے جو ہمارے خوف کو جانتا ہو، یا اُسے سمجھتا ہو ۔خوف کی موجودگی کے باوجود اپنے قدم اُٹھاکر چلنے والا انسان ہی منزل کو پاسکتا ہے۔

تیسرے یہ کہ ہمیں  خوف  سے متعلق خود یہ سوچنا ہوگا کہ خوف دراصل کیا ہے؟  خوف کی بنیاد کیا ہے؟ خوف کی وجہ سے ہماری کا رکردگی  متاثر کیوں ہورہی ہے ؟خوف کس وجہ سے پیدا ہو رہا ہے؟ خوف کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں ؟؟ وغیرہ وغیرہ  یعنی جب ہم خوف پر سوال اٹھاتے ہیں تو آہستہ آہستہ ہمارا خوف کمزور ہوجاتا ہے

   


        

   یاد رکھیئے۔۔۔ جسے اللہ  کا خوف ہوتا ہے اُسے دوسری کسی چیز کا کوئی خوف نہیں ہوسکتا۔جس شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ مجھے بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ مجھے اللہ کو راضی کرنا ہے توخوف اُ س کے قریب ہو کر بھی نہ گذرے گا۔ عام طور پر انسان ساری زندگی اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ کوئی اس کے بارے میں کیا سوچے گا؟  لیکن  اُسے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اُس کا رب اس کے کام سے متعلق کیا سوچتا ہے۔

Nasihat-3 : Namaz Qaaim Karo

 



حضرت لقمان حکیم کی نصیحت - 3


نماز قائم کرو 




اے مرے ابو سنائیں بات کچھ لقمان کی 

جن کی خاطر راہ حکمت رب نے سب آسان کی 

ہاں مرے بیٹے سنو لقمان کی حکمت کی بات 

جن کو سکھلائی خدا نے رحمت و برکت کی بات 

سینکڑوں ان کی نصیحت ہے کتابوں میں لکھی 

جو نصیحت اپنے بیٹے کے لیے حضرت نے کی 

ان کا بیٹا کیا اے ابو تھا بہت بگڑا ہوا ؟ 

جس کے باعث اس قدر بیٹے کو سمجھانا پڑا 

بات تو ایسی کہیں بیٹے نہیں میں نے پڑھی 

اپنے بیٹے سے محبت میں نصیحت اتنی کی 

تیسری ہے یہ نصیحت ،، بیٹا قائم کر نماز،، 

آدمی اس سے خدا سے کرتا ہے راز و نیاز 

ابو قائم کرنے کا مطلب ہے کیا بتلائیے؟ 

ناسمجھ ہوں اس لیے ابو مجھے سمجھائیے 

اس کا مطلب ہے کہ پابندی سے تم پڑھنا نماز 

دل لگے اللہ سے تب جاکے ہوگے پاکباز 

ہوگی جب ایسی نماز اپنا اثر دکھلائے گی 

پہلی فرصت میں اسے جنت میں لے کر جاۓ گی 

۔۔۔۔۔۔

Rasm-E-Ijra : Namwar Muqarrereen Ki Fikr Angez Adabi Taqreerei'n

 کتاب”نامور مقررین کی فکر انگیز ادبی تقریریں“ کی رسم اجراء



یہ کتاب دینی، سیاسی اورعلمی شخصیات کے ادبی خطبات کا حسین گلدستہ ہے:ڈاکٹر شمامہ پروین




اورنگ آباد۔ 

... سیداطہر احمدکے ذریعہ

 مطالعہ سے ہماری فکر و خیال کو وسعت ملتی ہے، مشاہدات و تجربات انسان کونئی منزلوں سے آشنا کرتے ہیں، حاصل مطالعہ کو تحریری شکل دے کرکتابی صورت میں پیش کرنا ادبی سرمایہ میں اضافہ ہے جو ڈاکٹر محمد مصطفی خان نے انجام دیا ہے۔میں بحیثیت صدر ادارہ ان کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اورامید کرتی ہوں کہ وہ اس تحریری و تحقیقی کام کو جاری رکھیں گے،ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شمامہ پروین صاحبہ نے اپنی صدارتی تقریر پیش کیا۔


  ڈاکٹر محمد مصطفی خان ندوی کی مرتب کردہ کتاب ”نامور مقررین کی فکر انگیز ادبی تقریریں“کے رسم اجراء کی تقریب زیر صدارت ڈاکٹر شمامہ پروین صدر رہبر ایجوکیشنل کلچرل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد بتاریخ ۱۱/ستمبر ۱۲۰۲ء بروز سنیچربمقام بیت الیتیم شاہی مسجد عمل میں آئی۔


 اس تقریب میں ڈاکٹر رفیع الدین ناصر صدر شعبہئ نباتیات مو لانا آزاد کالج اورنگ آباد اورڈاکٹر عبد الرشید ندوی مدنی سابق صدر شعبہئ عربی سر سید کالج اورنگ آبادبحیثیت مبصرین موجود تھے۔ واضح ہوکہ یہ تقریب سر سید کالج آف آرٹس کامرس اینڈ سائنس اورنگ آباد نے منعقد کی جس میں اردو کارواں ممبیئ و اورنگ آباد،انجمن اہل قلم اورنگ آباد،بزم تلمیذ ادب اورنگ آباد،دکن،مطلع ادب فاؤنڈیشن اورنگ آباد،بزم تطہیر ادب اورنگ آباد کا اشتراک رہا۔


تقریب کا آغاز عبد اللہ دانش کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، مرتب کتاب ڈاکٹر محمد مصطفی خان نے ابتدائی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں نامور ادباء کی ذخیرہئ تقاریرمیں سے ایسی تقریروں کا انتخاب کیا گیا جن میں زبان و بیان کی سلاست و لطافت کے ساتھ ساتھ وہ ادبی شہ پاروں کی حیثیت رکھتی ہوں جو بیک وقت طلبہ،اساتذہ اور ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے یکساں مفید ہوں،اسی خیال کو عملی طور پراس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 


ڈاکٹر رفیع الدین ناصر اورڈاکٹر عبد الرشید ندوی مدنی نے اس کتاب کی اہمیت و موضوع کی ضرورت پر سیر حاصل گفتگو کی اورمرتب کتاب کو تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس کتاب کی پیش کش پر حوصلہ افزاء کلمات سے نوازا۔



اس موقع پر انجمن اہل قلم کی صدر فردوس فاطمہ رمضانی،مطلع ادب فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی،اردو کارواں اورنگ آباد کی کواڈینیٹر شیخ نفیسہ بیگم،بزم تلمیذ ادب اورنگ آباددکن کی صدر خواجہ کوثر حیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مرتب کو مبارکباد پیش کی، اردوں کارواں ممبیئ کے صدر فرید احمد خان اورسیکریٹری پروفیسر شبانہ خان صاحبہ نے مبارکبادی کا پیغام ارسال کیا اوراس پروگرام کے منعقد کرنے پر ڈاکٹر شمامہ پروین صدر سر سیدکالج کو مبارکباد دی۔



نظامت کے فرائض محمد عرفان خان سوداگر لیکچرار سر سید کالج نے اپنے منفرد انداز میں انجام دے کر پروگرام کی کامیابی میں چار چاند لگائے، اظہار تشکر کے کلمات عائشہ مسرور نے پیش کیے،اس تقریب میں کثیر تعداد میں اساتذہ و علم دوست حضرات نے شرکت کی۔

٭٭٭٭٭

Sunday, September 12, 2021

Nasihat No. 2 : Allah Tala Ka Dhyan Rahe

 


حضرت لقمان حکیم کی نصیحت :2


الله تعالٰی کا دھیان رکھو 




اے مرے بیٹے عقیدہ سچا ہونا چاہیے 

جو کہے باری تعالیٰ مان لینا چاہیے 

ابو لیکن کیا عقیدہ کا ہے مطلب بولیے؟ 

ناسمجھ ہوں میں ذرا سا آپ اس کو کھولیے 

تم عقیدہ کو یہ سمجھو بیٹے بس دل کا یقین 

دل میں سچا اس کو مانو بیٹے تم تو ہو ذہین 

اپنے بیٹے سے کہا لقمان نے یہ جان لو 

ساری چیزیں دیکھتا ہے رب یہ دل سے مان لو 

کوئی نیکی یا بدی چاہے جہاں چھپ کر کرو 

آسماں ہو یا زمیں یا غار یا چٹان ہو 

دور ہو نزدیک ہو دن رات یا تنہائیاں 

جانتا ہے ساری حرکت مالک کون و مکاں 

اس لیے الله کو ہر وقت سمجھو سامنے 

اس کا استحضار اتنا ہو کہ وہ ہو سامنے 

تب تو ابو اب کسی شے سے میں ڈر سکتا نہیں 

میں اکیلا ہر جگہ جاؤں نڈر ہوکر کہیں 

اس کا مطلب یہ نہیں بلکہ خدا سے تم ڈرو 

اور خدا اس کے نبی کے حکم پر چلتے رہو 

انصار احمد معروفی

Saturday, September 11, 2021

Hazrat Luqman e Hakeem : Ansar Ahmed Marufi

 




حضرت لقمان الحکیم 

انصار احمد معروفی۔ ضلع مئو۔ یوپی۔





کون ہیں حکیم لقمان؟ 

اے مرے ابو ہیں آخر کون لقمان الحکیم؟ 

تذکرہ جن کا کیا کرتا ہے قرآن کریم؟ 

آج اک سورہ پڑھی ہے میں نے ان کے نام کی 

آپ کچھ بتلائیے تفصیل ان کے کام کی 

ہاں مرے بیٹے یقینا بات تیری ہے بجا 

میں جوابا جو کہوں گا سچ کہوں گا باخدا 

وہ خدا کے نیک بندے تھے بڑے اونچے ولی 

بلکہ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں نبی تھے وہ  نبی 

حضرت داؤد کے وہ دور میں موجود تھے 

اور نبی ایوب کے وہ رشتہ داروں میں ہوۓ 

پانچ ہزار اور پانچ سو سال ان کی لمبی عمر تھی 

تجربے سے تھی عبارت  ان کی پوری  زندگی 

علم و حکمت سے کیا ان کو خدا نے سرفراز 

حکمت و دانائی کا ان کو سکھایا سارا راز  

کام وہ کرتے تھے ان سے رب نے جو فرمادیا 

اور ادا کرتے تھے رب کی نعمتوں کا شکریہ

وہ خدا کے خاص بندے تھے نہیں ہے اس میں شک 

ان کی حکمت کا بجا ڈنکا زمیں سے تا فلک 

اس لیے اے بیٹے ان کا ذکر ہے قرآن میں

تاکہ ان کی خوبیاں پیدا ہوں ہر انسان میں 

ان کو ابو کیا کوئی بیٹا بھی تھا میری طرح؟ 

ہاں اے بیٹے ان کو بھی بیٹا تھا اک تیری طرح 

اپنے بیٹے کو نصیحت وہ ہمیشہ کرتے تھے 

کامیابی اس کو مل جائے اسے سمجھاتے تھے.

Shaikh Iram Fatima Ko Ph.D Tafveez

 شیخ ارم فاطمہ کوپی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ


11/

ستمبرسوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی ناندیڑ نے اپنے ایک نوٹیفیکیشن مجریہ 31 /اگست کے ذریعے شیخ ارم فاطمہ کو اردو میں ان کے تحقیقی مقالے "مہارشٹرا میں اردو تنقید کا ارتقا۱۹۸۰ء کے بعد"کے  لیے انھیں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری کا مستحق قرار دیا ہے۔شیخ ارم فاطمہ نے یہ مقالہ معروف ادیب وشاعر محقق اورناقدڈاکٹر مقبول احمد مقبول پروفیسر مہاراشٹرا اودے گری  کالج اودگیرکی نگرانی میں تحریر کیا ہے۔پروفیسر عبد الرب استاد  صدرشعبہء اردو گلبرگہ یونیورسٹی اور ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی صدر شعبہء اردومولانا آزاد کالج اورنگ آباد اس مقالے کے ایکسٹرنل ممتحن تھے۔



31 /اگست کو پروفیسر  پنچشیل ایکمبیکر  انچارج ڈین فیکلٹی آف ہیومانیٹیزسوامی رامانند تیرتھ مراٹھوڑہ یونیورسٹی ناندیڑکی صدارت میں آن لائن وائوا منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی نے ایکسٹرنل ممتحن کی حیثیت سے شرکت کی۔ریسرچ اسکالر نے اپنے مقالے کی غرض غایت اور اس کی اہمیت و افادیت پر اختصار کے ساتھ بہترین انداز میں روشنی ڈالی۔پروفیسر پنچشیل ایکیمبیکراور ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی  نے ارم فاطمہ کے پریزینٹیشن کو سراہا تے ہوۓ اطمینان کا اظہار کیا۔شیخ ارم فاطمہ ضلع لاتور کے ایک چھوٹے سے گاؤں نیلنگہ کی متوطن ہیں۔ ارم فاطمہ کی اس کامیابی پر کالج کے اساتذہ اور عزیز واقارب نے انھیں مبارکباد دی ہے۔

Holding a one-day national webinar on "Meer and Meeriyaat"

"میر اور میریات" کے زیرِ عنوان ایک روزہ قومی ویبینار کا انعقاد




(اودگیر-۲/ستمبر)شعبہء اردو اور IQAC مہاراشٹرا اودے گیری کالج اودگیر(مہاراشٹرا) کے زیرِ اہتمام ۳۰/ اگست کو اردو کے عظیم شاعر میر تقی میر پر ایک روزہ قومی ویبینار بعنوان "میر اور میریات"منعقد ہوا۔پروفیسر توقیر احمد خاں سابق صدر شعبہء اردو دہلی یونیورسٹی نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کی اور پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین (جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی) نے کلیدی خطبہ دیا۔پروفیسر آر۔آر تمبولی(پرنسپل) نے استقبالیہ تقریر کی۔بسوراج پاٹل ناگرالکر(صدر مہاراشٹراایجوکیشن سوسائٹی اودگیر) نے اس ویبینار کے انعقاد پر شعبہء اردو کو مبارکباد دی اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔پروفیسر حامد اشرف صدر شعبہء اردو نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ 

پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اپنے کلیدی خطبے میں فرمایا "ہم میر کو صرف غزل کے دائرے میں محدود کر تے ہیں اور ان کی شاعری کو مخصوض عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں جب کہ میر نے کئی مثنویاں، مراثی، رباعیات اور مخمسات بھی لکھے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی نثر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ان کی شاعری کی مختلف جہات ہیں۔میر کی شاعری سادگی میں پرکاری کی بہترین مثال ہے۔ان کی شاعری اتنی آسان نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ میر سہلِ ممتنع کے شاعر ہیں لیکن سہلِ ممتنع میں شعر کہنا کتنا دشوار ہے یہ بات اہلِ نظر سے پو شیدہ نہیں۔ان کے بظاہر آسان نظر آنے والے اشعار گہری معنویت کے حامل ہوتے ہیں۔ہمیں میر کوازسرِ نو دریافت کرنا ہے۔اس کا عمل شروع ہوا ہےجس کی پہل فاروقی صاحب نے کی ۔یہ ویبینار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔


پروفیسر توقیر احمد خاں نے اپنے صدارتی خطاب میں خواجہ اکرام الدین کے خطبے کے نکات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ "میر تقی میر کی شاعری کے کئی پہلو ابھی نظروں سے اوجھل ہیں۔میر کی مکمل تفہیم کے لیے ایسےویبیناروں یا سیمیناروں کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ویبینار کے منتظمین نے "میراور میریات"  جیسے موضوعات کا انتخاب کر اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔اس میں میر کی تحریروں کے علاوہ میر پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب زیرِ بحث آتے ہیں۔یہ ویبینار میر فہمی میں یقینا معاون ثابت ہوگا۔ 

افتتاحی اجلاس کے بعد چار تیکنیکی اجلاس منعقدہوئے۔پہلےاجلاس کی صدارت پروفیسر حدیث انصاری(موہن لال سکھاڈیا یونیورسٹی اودے پور) نے کی ۔اس میں ڈاکٹر راشد عزیز،ڈاکٹر محمد عظمت الحق،ڈاکٹر سید معین الدین حسینی،ڈاکٹر محبوب ثاقب،اور ڈاکٹر نصرت فاطمہ نے مقالے پڑھے۔دوسرے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر راشد عزیز(سینٹرل یونیورسٹی کشمیر) نے کی ۔اس اجلاس میں ڈاکٹر سید فیروز علی،جاوید حسین،ڈاکٹر محمد سمیع الدین،ظفر الاسلام،ڈاکٹر فیضان حیدراور ڈاکٹر عذرا شیریں نے مقالے پیش کیے۔ تیسرے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر محبوب  ثاقب  (شیواجی کالج اودگیر) نے کی۔اس اجلاس میں ڈاکٹر طاہر پروین،ڈاکٹر خالدہ بیگم،خیرالدین اعظم،صبیحہ خاتون اور ڈاکٹر اختر سلطانہ نے مقالہ خوانی کی۔چوتھا اجلاس ڈاکٹر ایس۔ایم شکیل ( سیوا سدن کالج برہان پور) کی صدارت میں منعقد ہوا۔اس میں ڈاکٹر خدیجہ تسنیم،فریدہ بیگم،ڈاکٹر مشتاق گنائی،ڈاکٹر سیدہ حبیب النسا اور  ڈاکٹر عائشہ پٹھان نے مقالےبپیش کیے۔



مختلف ریاستوں سے شریک ان بیس مقالہ نگاروں نے میرتقی میر کی غزل گوئی،مرثیہ نگاری ،مثنوی نگاری،میر کی فارسی شاعری،میر کی نثر نگاری،میر کی شخصیت، فن اور زندگی،میرکا مزاج ،میر کی استادی،میر کی شاعرانہ عظمت،میر کا تصورِ عشق،میر کی شاعری میں صوفیانہ عناصر،نقدِ کلامِ میر جیسے متنوع موضوعات پر مقالے پیش کیے۔ 

پروفیسر عبد الرب استاد(گلبرگہ یو نیورسٹی کلبرگی) نے اختتامی اجلاس کی صدارت کی۔انھوں نے پانچوں اجلاسوں کا جامع انداز میں جائزہ لیا اور اس کار آمد  موضوع پر کامیاب ویبینار کے انعقاد پر مبارکباد دی۔استاد نے کہا کہ اس ویبینار میں میر کی شاعری ،نثر نگاری،نقدِ میر ،میر کی زندگی،شخصیت ،فن اور ان کے افکار وتصورات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔یقینا یہ ویبینار میر فہمی کی راہ کو روشن کرتا ہے انھوں نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد بھی دی اور یہ بھی کہا کہ ان مقالوں کو کتابی صورت میں منظرِ عام پر لانے کا اہتمام کیا جائے۔ویبینار کے آرگنائزنگ سیکریٹری پروفیسر مقبول احمد مقبول نے نظامت کی اور شیخ انم روحین نے تمام کا شکریہ ادا کیا۔

Friday, September 10, 2021

Ek Khanwade Mein Teen Award :Tarikh Saaz Waqiya

 *پہلی بار ایک خانوادے میں تین ایوارڈ تاریخ ساز واقعہ


پروفیسرحنیف کیفی کی کتاب'بچپن 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندہ ہے مجھ میں' کو مغربی بنگال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اردو اکیڈمی کا ایوارڈ ساتھ میں ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کے دو بیٹوں محمد سراج عظیم اور 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر محمد قمر سلیم کو بھی ان 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کی کتابوں پر ایوارڈ۔۔۔ اردو ادب میں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پہلی بار ایک خانوادے میں تین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ایوارڈ تاریخ ساز واقعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

10ستمبر مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے 8 ستمبر کے اعلامیہ میں ڈاکٹر دبیر احمد چئیرمین ایوارڈ سب کمیٹی نے اعلان کیا کہ اس بار قومی اور ریاستی سطح پر73کتابوں پر مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی جانب سے ایوارڈز کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ کتابوں پر مختلف زمروں میں ایوارڈ دئے جاتے ہیں۔ اسی فہرست میں پروفیسر حنیف کیفی اور ان کے دو صاحب زادوں محمد سراج عظیم اور پروفیسر محمد قمر سلیم کے نام بھی شامل ہیں۔

پروفیسر حنیف کیفی، مرحوم

 یہ اردو ادب کی تاریخ میں تاریخ ساز بات ہے کہ پہلی بار کسی خانوادہ کو ایک ہی ادارہ سے تین ایوارڈز سے سرفراز کیا گیا ہو۔ پروفیسر حنیف کیفی کی کتاب بچپن زندہ ہے مجھ میں(ابراہیم ہوش ایوارڈ برائے ادب اطفال) کیفی صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے سابق صدر رہ چکے ہیں۔ 

پروفیسر محمد قمر سلیم


محمد سراج عظیم کی کتاب دنیا کے ہزار رنگ(رونق نعیم ایوارڈ برائےادب اطفال) وہ آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کے سکریٹری ہیں اور مقبول واہٹس ایپ گروپ بچپن کے ایڈمن ہیں۔ اس کے تحت انھوں نے ادب اطفال پر بہت کام کیا ہے۔ کئ نئے ادیب الاطفال، کئ اخبارات میں بچوں کے صفحے، کئ ادب اطفال پر سیمینار اور ویبنار کرائے ہیں۔ 

محمد سراج عظیم

پروفیسر محمد قمر سلیم کی کتاب کچھ درد سا سوا ہوتا ہے (علقمہ شبلی ایوارڈ برائےتخلیقی ادب)ہےممبئی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر انجمن اسلام اکبر پیر بھائ کالج آف ایجوکیشن نوی ممبئی میں شعبہ اردو میں پروفیسر ہیں۔ 


پروفیسر حنیف کیفی کا اسی سال 27 جنوری کو انتقال ہوگیا تھا۔ کیفی صاحب کے خانوادہ کو اس خبر کے بعدپورے ملک سے اردو حلقوں اور ملنے والوں سے مبارکبادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

'Tipu Ki Phir Ek Kahani' by M. Siraj Azeem

 ٹیپو کی پھر ایک کہانی


 محمد سراج عظیم



ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ٹیپو ہمارے محلے کے ایک دلچسپ کردار تھے۔ ہر ایک کے لئے دلچسپی کا سامان چلتا پھرتا کھلونا، یہ روز کا معمول تھا جب تک ٹیپو کو چھیڑ چھاڑ نہ لیں۔ ان کی حماقتوں سے بھری حرکتیں نہ دیکھ لیں ہمیں اور ببّو کو کبھی چین نہیں پڑتا تھا، کبھی کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اب اس طرح کے جو بھی محاورے ہوں وہ سمجھ لیجئیے بس ہمارے ساتھ وہ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے دادا پر ایک عجیب طرح کی کیفیت سوار رہتی تھی چونکہ ہم ایک لکھپتی گھرانے کے بچے تھے اس لیے دادا ہم لوگوں کو یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے اندر زرا سا بھی غرور تکبر آئے یا ہم انسانیت سے دور ہوجائیں۔ حالانکہ گھر میں نوکروں کی بھرمار تھی لیکن دادا چھوٹے چھوٹے کام بھی ہم لوگوں سے کراتے تھے۔ کبھی گھر کا کوڑا ہم لوگوں سے پھنکواتے تھے، ٹرک پر مال لادا جاتا تو ہم لوگوں کو دیکھ بھال کے لئے کھڑا کردیتے۔ گھر میں مہمان آتے تو ہم لوگ کھڑے رہتے سب چیزیں ہم لوگ لاتے ، نوکر کمرے یا ہال کے باہر رہتے۔ ہماری عمر اس وقت گیارہ بارہ سال تھی لیکن روز سبزی منڈی جاکر سودا لانا ہمارا کام تھا۔ ہم نے بتایا نا نوکروں کے باوجود سارا سودا ہم ہی لاتے تھے۔ کیسے لوگ تھے بزرگ، نسل نو کی تربیت کا کیسا خیال رکھتے تھے۔ دادا کے اس سخت رویہ سے ہمیں بہت فائدہ ہوا اور ہماری نشونما تہزیب اور انسانیت کے سائہ میں ہوئ۔جس کا اثر ہمارے اوپر آج تک ہے۔بہرحال۔ 

ٹیپو محلے کا کھلونا تھے۔ ہم نے ٹیپو کو بس ہمیشہ باہر کسی نہ کسی ضرورت کے تحت دیکھا۔ بے چارے ٹیپو کیا تھے کو لہو کا بیل تھے، جو بس ایک ہی محور پر گھومتا رہتا ہے۔ ٹیپو بھی بس لال کوٹھی کے زینے پر  چڑھتے یا اترتے رہتے۔ پتہ نہیں لال کوٹھی والے خود کوئی کام کرتے بھی تھے کہ نہیں۔ خیر۔ 

ٹیپو گرمی جاڑا یا برسات کوئی بھی موسم ہو دوپہر تین بجے کے آس پاس کندھے پر بینت کی کنڈیا ٹانگے خراما خراما سودا لینے سبزی منڈی جاتے ہوتے تھے۔ وہی وقت ہم لوگوں کا بھی ہوتا تھا ہماری دادی بھی اسی وقت شام کی ہنڈیا اور صبح کے لئے سودا منگاتی تھیں۔ اس وقت ہم گھر کے لئے سبزی ترکاری سے لیکر ناشتہ کا سامان پنساری کے یہاں سے سامان غرض دنیا بھر کا سامان لاتے تھے۔ ہمیں آج بڑی حیرت ہوتی ہے اس وقت پچیس تیس روپے میں پورے گھر کا سامان آجاتا تھا۔ بہت سستا زمانہ تھا۔ 

گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ لو چل رہی تھی دادی نے پیسے دیکر ہم لوگوں کو ساری سبزی اور سامان کے بارے میں بتایا۔ دادا خاموشی سے سنتے رہتے تھے یہ وہ روز کرتے تھےپھر جب ہم چلنے کو ہوتےتو وہ گویا ہوتے۔ اے لڑکو سنو دہی دھوما مل حلوائی کے یہاں سے لینا اس سے کہنا تلاؤ پر کھال والے حاجی جی نے منگایا ہےاچھا دہی دینا ، کھٹہ نہ ہو۔ اور سنو گرم مسالہ تنویر پنساری کے یہاں سے لینا کہہ دینا حاجی جی نے منگایا ہے نیا گرم مسالہ دینا پرانا نہ ہو ، کہہ دینا۔ اگر پرانا ہوا تو واپس کر دیں گے۔ اور ہاں جمتوا شلجم (یہ ایک طرح کے چھوٹی پتیوں اور چھوٹے سے دانے کی طرح گلابی شلجم کی ساگ کی گڑیاں ہوا کرتی تھیں، بکری کے گوشت میں اس کا ساگ بہت لذیذ بنتا ھے۔ اس کے ہم لوگ اس قدر شوقین ہیں کہ آج  بریلی چھوڑے ہوئے تقریباً پینتالیس سال ہورہے ہیں مگر آج بھی اس کے موسم میں اگر کوئی دہلی آتا ہوا ہوتا ہےہم لوگ بریلی سے جمتوا شلجم منگاتے ہیں اور اس کے پکنے کا خاص اہتمام ہوتا ہے) کی گڑییں چارآنے کی پچاس ٹھیرا کے لیجیو۔ یہ روز کا معمول تھا، آدھا گھنٹہ دادی لگاتی تھیں اور اتنی ہی دیر دادا سب سمجھانے اور بتانے میں لگاتے تھے۔ ہم لوگ شریر بے انتہا تھے گھر سے نکلتے نکلتے بھی دادا باہر بیٹھک میں بیٹھے کہتے رہتے کرائے کی سائیکل لیکر بازارمت جانا، رکشہ بھی مت کرنا، پیدل کنارے کنارے جانا اور دیر مت لگانا جلدی لوٹ کر آنا ۔ کھیلتے ہوئے مت جانا۔یہ بزرگوں کی باتیں تھیں جو آج یاد آتی ہیں۔ خیر لو چلتی دوپہر میں ہم اور ببو کنڈیا تھامے گلی میں نکلے اور دادا خاص انداز میں یہ سب باتیں کہتے رہے ہم نکل کر گلی کے نکڑ سے مڑ گئے۔ جیسے ہی گلی سے مڑے نظر ٹیپو پر پڑ گئی بس ہماری شرارت کی رگ پھڑکنے لگی بازار جاتے ہوئے کھیلنے کے لئے جھنجھنا مل گیا تھا۔ ٹیپو نے بھی ہمیں دیکھ لیا اور انکی پوری بتیسی کھل گئی۔ " بھائی!!! بھائی بب بازار چَلَّئے ہو! " "ہاں!! آؤ بازار چل رہے ہو چلو آؤ"  " ہاں بائ!! آلا ہوں" ٹیپو نے چیختے ہوئے کہا اور جلدی جلدی تیزی سےقدم بڑھاتے ہوئے ہمارے پاس آگئے۔ ٹیپو بڑے خوش تھے بڑے ہنس رہے تھے جیسے ان کو ان کی مرغوب شئے مل گئی ہو۔ بالکل بچوں کی طرح خوش، ایسی معصومیت کہ بیان سے باہر ہے۔

ٹیپو وہی میلے کچیلے، پائجامہ کا ایک پائنچہ اوپر چڑھا ہوا ایک ٹخنے تک لٹکتاہوا۔ ایک پیر میں پلاسٹک کی کالی بڑی سی چپل دوسرے چھوٹی سی عجیب ہئیت تھی۔ اتنے امیر لوگ اور نوکر کو ایک جوڑی چپل بھی ڈھنگ کی نہیں دلا سکتے۔ یہ سوچ کر مجھے بڑا رنج ہوتا تھا۔ 

اس زمانے میں سڑکوں پر دیوانے، پاگل مجذوب وغیرہ راستے میں بہت ملتے تھے۔ ان سے عجیب کہانیاں جڑی ہوتی تھیں۔ جنھیں سن کر ایک ہیبت ہوجاتی اور ڈر لگتا تھا۔ سبزی منڈی اور ہمارے گھر کے درمیان کئی پاگل ملا کرتے تھے۔ ایک بابو پاگل تھا بڑا گھناونا سا سر اور ڈاڑھی کے بڑھے بال اس کو سب بابو پاگل کہتے کچھ عقلمند بوڑھے کہتے وہ سی آئی ڈی کا آدمی ہے۔ ایک ننُّو دہی کا لپسی تھے ان کی عجب کہانی تھی بہت خوبصورت آدمی تھے ایک بار کلکتہ گھومنے چلے چار پانچ مہینے بعد واپس آئے تو لوگوں کو جتانے کے لئے کہ وہ کلکتہ گھوم کر آئے ہیں ٹیڈی پینٹ(اس زمانے پتلی مہری اور ٹائٹ پینٹ کو ٹیڈی پینٹ کہتے تھے. شرفاء کے خاندان میں ٹیڈی پینٹ پہننا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا) گلے میں رومال باندھے ہوئے محلے کی  حلوائی کی دوکان پر جاکر بولے۔ لَلّو بھائی ہم کو ایک دہی کا لپسی(لسی) مانگتا۔ بس اس دن سے پورے شہر میں نَنُّو دہی کا لپسی ہوگئے اور لوگوں پر غصہ کر کر کے دیوانے ہوگئے۔ ایک پاگل تھا ٹھگنا سا ہاف آستین کی شرٹ اور خاکی بڑا سے نیکر پہنے۔ آنکھیں ڈھیری بڑی خطرناک لگتی تھیں۔ وہ کیا کرتا تھا کہیں چھپا ہوا کرتا تھا۔ بس ایک دم نکلتا اور پیچھے آکر بڑی بھیانک آواز میں کھی کرتا اور پھر جب کوئی ڈر کے بھاگتا تو دو تین بار پھر کھی کرتا اور پھر وہ وہیں کھڑا ہوا کسی جانور کی طرح کھڑا ہوا غرَّاتا رہتا اور پھر اچانک بےہوش ہوجاتا اور زمین پر چت گر جاتا اور اس کے منہ سے بہت سے جھاگ نکلتے رہتے۔ گھنٹوں بعد ٹھیک ہوجاتا پھر نا جانے کہاں چلا جاتا۔ 

ہم لوگ لو کی گرمی میں تفریح ہنسی مذاق کرتے ہوئے بازار کی طرف جارہے تھے۔ کبھی ٹیپو کے چپت لگادی۔ "بھائی بائی کون مالا۔ " "ارے پگلے ہو ٹیپو کون مارے گا" " نئیں!! نئیں! بائ سچی، کوئی مالا میلی چاند پے" ٹیپو کہتے۔ " اماں ہاں ٹیپو گپ مار رہے ہو کون مارے گا ہم تو تمہارے ساتھ چل رہے ہیں" " الے سچ کہہ لا ہوں" "اماں ہاں یار ٹیپو چھوڑو" ٹیپو خاموش ہوجاتے۔ چلتے چلتے پھر شرارت ہوجاتی۔ " دیکھو بھائی بائ پھل چاند پے مالا" "ارے کون مار رہا ہے یار ٹیپو کیا کوئی بھوت ووت آگیا ہے کیا" "الے بھگ!! بھوت لات مین آتا ہے۔ تم مال لے ہو جھوٹ مت بولو" ٹیپو بالکل معصوم بچوں کی طرح کہتے۔ ہم ہنستے تو اب ٹیپو ہم سے زیادہ ہنس رہے ہیں۔ سڑک پر چلتے چلتے یہ سب شرارتیں کرتے ہوئے ہم سبزی منڈی کے طرف بڑھ رہے تھے۔ سرائے خام سے تھوڑا آگے بڑھ کر بتاشے والی گلی کے پاس ایک چھوٹا سا چوک تھا اس کے تین طرف دوکانیں تھیں۔ وہیں ایک ٹھیلے والا بڑے سے ڈرم میں چسکی والی برف لئے کھڑا تھا۔ اس وقت ٹھیلوں پر جمی ہوئی سنترے کے ذائقے والی برف کے ٹھیلے جگہ جگہ کھڑے ہوتے تھے مٹی کی چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں اوپر تک برف بھرکر پانچ پیسے کا ملتا تھا بہت مزہ آتا تھا اس کو چوسنے میں۔ ہم لوگ اس ٹھیلے پر برف کھانے کے لیے رک گئے۔ ہم لوگوں نے اپنے لیے پیالی لی ایک پیالی ٹیپو کو لیکر دی۔ ابھی ہم پیسے دے ہی رہے تھے کہ کھی پتہ نہیں کہاں سا آگیا اور اس نے جو ٹیپو کے پیچھے آکر ڈراونے انداز میں زور سے کھی کیا۔ ہم تو ﷲ ﷲ کہتے ہوئے چیخ کر جو بھاگے تو ہماری پیالی گر گئ ہم تو ایک دوکان میں گھس گئے بَبُّو بتاشے والی گلی کی طرف بھاگ گئے۔ ٹیپو بیچارے چیختے ہوئے بھائی بھائی کہتے ہوئے ایک اونچی سی دوکان کے باہر نکلے ہوئے لینٹر کے نیچے گھس گئے۔ اس کے نیچے نالی بہہ رہی تھی۔ ٹیپو جو لینٹر کے نیچے گھسے جگہ کم تھی پتہ نہیں پائنچہ الجھ گیا یا سیدھے پیر کی بڑی چپل سے پھسل گئے ٹیپو نالی ایسے گرے جیسے کسی جگہ پالتی مار کر بیٹھے ہوں۔ ادھر برف والا اپناٹھیلا چھوڑ کر دور سے کھی کو کہہ ہٹ ہٹ کھی اب وہاں کھڑا ہوا غُرَّا رہا تھا چوک پر سارے دوکاندار نکلے ہوئے چلاَّ رہے تھے۔ ارے یار کچھ نہیں کرے گا وہ ابھی چلا جائے گا۔ ہم دوکان میں سے جھانک رہے تھے ڈر کے مارے برا حال تھا بَبُّو بتاشے والی گلی میں کھڑے اپنی برف چوس رہے تھے۔ آخر کھی دھڑ سے زمین پر گر کر بےہوش گیا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ ہم سے دوکاندار نے کہا جاؤ گھر جاؤ اب کچھ نہیں کرے گا بَبُّو بھی پاس میں آگئے۔ ٹیپو لینٹر کے نیچے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا ٹیپو باہر آجاؤ اب ٹیپو سے اٹھا نا جائے۔ ایک تو وہ تھے ہی میلے کچیلے دوسرے نالی میں گر گئے ان کے پیچھے سے سارے کپڑے کیچڑ میں روند گئے۔ بَبُّو نے انکا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا وہ جو اٹھے تو سر لینٹر سے ٹکرا گیا۔ "ﷲ ﷲ مل دیا!! آئے آئے سل میں توت لگ گئی" ٹیپو چلا چلا کر رونے لگے۔ باہر نکلے تو عجیب حالت تھی۔ پورا پائجامہ کیچڑ میں روندا ہوا ٹیپو رو رہے۔ سارے دوکاندار ہنس رہے ایک عجب سماں تھا کوئی کہنے لگا۔ بیٹا ان کو گھر پہنچا دو۔ ہم کہاں سے گھر پہنچا دیں ہمیں اپنی فکر لگی سودا لینا ہے۔ ہم نے ٹیپو گھر جاؤ کپڑے بدل کر سودا لینا۔ " میں نئیں جاؤں گا گھل ڈاٹر صاب مالیں گے" ابے تو ہم کیا کریں کوئی ہم نے گرایا ہے۔ تم اپنے آپ تو گرے نالی میں۔ ہم نے ٹیپو کو گھڑکی دی۔ ٹیپو ڈر گئے۔ روتے ہوئے برَّاتے ہوئے واپس چل دئیے "میں ڈاٹر صاب سے شکات کلوں گا"۔ ہم ہنستے ہوئے سبزی منڈی کی طرف چلے گئے۔ سودا لے کر گھر لوٹے تو دیر ہوگئ تھی۔ ہماری پیشی دادا کے سامنے ہوگئ ہم نے کھی کی ساری کہانی دادا کو بتا دی دادا خاموش ہوگئے۔ ٹیپو کا کچھ پتا نہیں چلا کیا ہوا۔ دو تین دن بعد ٹیپو باہر مسجد کے پاس ملے۔ ہم ٹیپو کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ ٹیپو ہمیں گھورتے ہوئے بولے۔ " ابھی ابھی ڈاٹر صاب کو بلا تے لا لوں وہ تمالی پٹائی لگائنگے" اور ٹیپو تیزی سے لال کوٹھی کی طرف چلے گئے اور ہم ہنستے ہوئے اپنے گھر