Friday, July 30, 2021

'Faqat Chandd Lamhey' : Nida Fazli

 ”فقط چند لمحے“

ندا فاضلی 




بہت دیر ھے

بس کے آنے میں

آؤ

کہیں پاس کی لان پر بیٹھ جائیں


چٹختا ہے میری بھی رگ رگ میں سورج

بہت دیر سے تم بھی چپ چپ کھڑی ھو

نہ میں تم سے واقف

نہ تم مجھ سے واقف


نئی ساری باتیں نئے سارے قصے

چمکتے ھوئے لفظ چمکتے لہجے

فقط چند گھڑیاں

فقط چند لمحے


نہ میں اپنے دکھ درد کی بات چھیڑوں

نہ تم اپنے گھر کی کہانی سناؤ

میں موسم بنوں

تم فضائیں جگاؤ


”ندا فاضلی“

Thursday, July 29, 2021

'Thanda Thanda Cool Cool' by Shah Taj Khan

 ٹھنڈا ٹھنڈا۔۔کول کول✒️

 شاہ تاج, پونے


آج دادا جی ہم سب بھائی بہنوں کے لئے لیز کے پیکٹ لائے تھے۔چاچا- تایا کے سب بچے ملا کر ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔تین بھائی اور دو بہنیں۔میں سب سے بڑی ہوں اور بارہویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔الوینا سب سے چھوٹی ہے اور ابھی اسکول نہیں جاتی۔ذیشان،شاہ رُخ اور عمر۔۔۔یہ تینوں بہت شرارتی ہیں۔چھٹیوں میں تینوں نے مل کر گھر کو کھیل کا میدان بنایا ہوا ہے اور ذیشان ان سب کا لیڈر ہے۔الوينہ بھی اُن کے پیچھے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔

دادا جی لیز لائے تو تھے لیکن ہم سب کو اکٹھا کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لئے خود بھی آرام کرو اور دوسروں کو بھی کرنے دو۔یہ رشوت تھی شور نہ کرنے کی۔

ہم سبھی اپنا اپنا پیکٹ لیکر کھانے ہی والے تھے کہ ذیشان نے کہا" آپی آپ تو بہت سمجھدار ہیں،تو یہ بتائیے کہ لیز کے پیکٹ میں اتنے کم چپس اور ڈھیر ساری ہوا کیوں ہوتی ہے؟"

"تاکہ چپس تازہ رہیں اور خراب نہ ہوں۔" میں نے کہا۔

" کیا۔ ۔؟ پیکٹ میں گیس ہوتی ہے؟" 

"ہاں!"

" مگر پیکٹ میں سے کوئی بدبو بھی نہیں آ رہی ہے اور نہ ہی کوئی رنگ دکھائی دے رہا ہے۔یہ کون سی گیس ہے؟" شاہ رُخ نے پوچھا

" اس میں نائٹروجن گیس بھری ہوتی ہے۔"

" اچھا جو ہمارے atmosphere میں موجود ہے."

عمر جو مجھ سے چھوٹا ہے اس نے اپنی معلومات کو ظاہر کرتے ہوئے کہا

" جی! یہ atmosphere میں ٪۷۸ ہوتی ہے۔چونکہ یہ عام طور پر براہِ راست ردِعمل نہیں کرتی اس لیے نائٹروجن کا استعمال کھانے پینے کی ڈبہ بند اشیاء کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔نائٹروجن گیس کی وجہ سے ذائقہ بھی نہیں بدلتا۔"

" جی آپی! یہ بے رنگ،بے ذائقہ اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔میں نے ٹھیک کہا نہ!" عمر نے اپنی بات کی تصدیق چاہی۔

" جی عمر! آپ نے بلکل درست کہا ۱۷۷۲  میں سکاٹ لینڈ کے ایک سائنس داں ڈینیل ردرفورڈ نے ( Daniel Rutherford)   

 اس گیس کو دریافت کیا تھا۔تب اس کا نام ائزوٹ (azote) رکھا گیا تھا۔۱۷۹۰ میں اس کا نام بدل کر نائٹروجن رکھا گیا۔"

" آپی! کیا نائٹروجن گیس کسی دوسرے کام میں بھی آتی ہے؟" ذیشان نے پوچھا

" جی! ہوائی جہاز کے ٹائر وں میں یہی گیس بھری جاتی ہے۔یہ جو بلب ہے اس میں بھی نائٹروجن گیس بھری ہوتی ہے۔"

" اچھا تبھی بلب پھوڑنے پر بم کی آواز آتی ہے۔" ذیشان نے کہا کیونکہ وہ ایسا کئی بار کر چکا تھا۔

" ہاں ہیرو! صحیح کہا۔اگر یہ گیس کار کے ٹائر وں میں بھری جائے تو ٹائر کے پھٹنے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے،بس تھوڑی سی مہنگی ہوتی ہے۔"

" کیا ہمارے جسم کو نائٹروجن گیس کی ضرورت نہیں ہوتی؟ شاہ رُخ جو بہت دیر سے سب کی باتیں سن رہا تھا بولا۔

" ہاں ہمیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔جانوروں اور پیڑ پودوں کو بھی نائٹروجن گیس اپنی نشو نما کے لئے ضروری ہوتی ہے۔لیکن ہم سب اسے ہوا سے سیدھے نہیں لے سکتے جس طرح آکسیجن لیتے ہیں۔اسے ہمارا جسم پھل،سنبزیوں اور دالوں کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔جانور بھی پھل،سبزیوں سے نائٹروجن کو حاصل کرتے ہیں۔"

" یہ ہمارے جسم میں کس کام میں مددگار ہوتی ہے؟" عمر نے پوچھا

" یہ ہمارے جسم میں پروٹین بنانے میں مدد کرتی ہے،یہ ہماری جلد اور بالوں کے لئے بھی مفید ہوتی ہے۔نائٹروجن کی مقدار کم ہونے پر بال جھڑنے لگتے ہیں۔"

" کیا ہمیں بھی لیز کے پیکٹ کی طرح ڈھیر ساری نائٹروجن گیس کی ضرورت ہوتی ہے؟" ذیشان نے پوچھا

" نہیں نہیں! مثال کے طور پر اگر میرا وزن ۵۰ کلو گرام ہے تو ایک دن میں مجھے تقریباً ۵.۲۵ گرام نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔"

" اوہ یہ تو بہت کم ہے۔کیا پیڑ پودوں کو بھی اس کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی؟ وہ اسے کیسے حاصل کرتے ہیں؟" ذیشان نے سوالوں کی بوچھار کر دی۔

" پیڑ پودے براہِ راست اسے نہیں لیتے بلکہ زمین میں موجود بیکٹریا نائٹروجن کو اس قابل بنا تے ہیں کہ پیڑ پودے اپنی نشو نما میں اس کا استعمال کر سکیں۔ اچھا پہلے یہ بتائیے کہ نائٹروجن کی کیمیائی علامت  کیا ہے؟" 

" کیمیائی علامت 'N ' ہے" ذیشان نے بتایا

" واہ ویری گڈ! یہ ہوئی بات۔اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔اگر ہمارے پیڑ پودوں اور فصلوں کو صحیح مقدار میں نائٹروجن نہ ملے تو اُن کا رنگ پیلا پڑنا شروع ہو جاتا ہے،اُن کے بڑھنے کی رفتار سست ہو جاتی ہے اور حد سے زیادہ کمی ہونے کی صورت میں فصلوں کو بہت نقصان ہوتا ہے۔نائٹروجن کی مقدار کو زمین میں بنائے رکھنے کے لیے کسان یوریا کھاد کا استعمال کرتے ہیں۔یوریا میں ٪۴۶ نائٹروجن ہوتی ہے۔" 

" واہ یہ تو کمال کی بات ہے۔آخر یہ نائٹروجن گیس زمین کے اندر جاکر خود کو کیسے استعمال کے لائق بناتی ہے ؟" عمر نے پوچھا

" یہ کام مٹی میں موجود بیکٹیریا کرتے ہیں۔وہ گیس کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ پیڑ پودے اُسے اپنے کام میں لا سکیں۔اور پھر ہم انسان اور جانور،پھل،سبزیوں اور دالوں کے ذریعے اسے آسانی سے استعمال کرتے ہیں۔معلوم ہے کہ نائٹروجن ہوا میں واپس بھی ہم چھوڑتے ہیں۔"

" کیسے" سب نے ایک ساتھ پوچھا

" انسان اور جانور اپنے جسم سے جو فضلات خارج کرتے ہیں اُس میں نائٹروجن گیس موجود ہوتی ہے اور وہ پھر ہوا میں مل جاتی ہے اور یہ سرکل یونہی چلتا رہتا ہے۔"

" آپی! کسی بیکٹیریا کا نام تو بتائیے جو ہمارے لئے اتنا اہم کام کرتا ہے؟" شاہ رُخ نے پوچھا

" رائزوبیم( rhizobium) ،اور بھی کئی ہیں لیکن مجھے اُن کے نام یاد نہیں ہیں۔" میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا تو سب مسکرا دیے

بہت دیر سے الوینه چُپ چاپ ہماری بڑی بڑی نا سمجھ میں آنے والی باتیں سن رہی تھی۔میں نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو الوينا ہر وقت آئس کریم کھا تی ہے اُسے بنانے کے لئے بھی نائٹروجن گیس ہی کام میں لائی جاتی ہے۔" یہ سن کر وہ تالیاں بجانے لگی۔

" کیا ایئر کنڈیشن اور فریج میں ٹھنڈک کے لئے اسی گیس کو استعمال کرتے ہیں؟" عمر نے پوچھا

" جی ہاں! اس کے علاوہ خون کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی یہی گیس کام میں لائی جاتی ہے۔" 

" کیا ہم اسے سیدھے اور pure 

استعمال نہیں کر سکتے؟" دادا جی نہ جانے کب ہمارے پیچھے آکر بیٹھ گئے تھے۔انہوں نے پوچھا

" دادا جی مجھے بس اتنا ہی معلوم ہے کہ اگر ہم نائٹروجن گیس کو پیور فورم میں لیتے ہیں تو ہمارے جسم کے مختلف اعضاء پر اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔"

"اس کا مطلب یہ خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔"

 ہم سب نے ایک ساتھ کہا" جی دادا جی۔۔۔۔! " اور پھر گھر کھیل کا میدان بن گیا۔

Wednesday, July 28, 2021

Story Series No 6 'Waqt Ki Razamandi' : Raj Afridi

 


کہانی نمبر 6


 وقت کی رضامندی


کتاب : سورج کی سیر

مصنف: راج محمد آفریدی

پشاور پاکستان




عفان اور اذلان کارٹون دیکھنے میں مصروف  تھے۔ انہوں نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔دادا جی نے کھانے کی میز پر جب دونوں کو نہیں دیکھا تواپنی بہو سے دونوں کے متعلق پوچھا۔" کہاں گئے دونوں لاڈلے؟" بہو نے جواباً کہا، "وہ تو میری بات مانتے ہی نہیں ۔ہمیشہ کبھی موبائل تو کبھی ٹی وی دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ میں نے کئی بار انہیں آواز دی مگر ان کے پاس تو ہمارے لیے وقت ہی نہیں۔میری باتیں ان سنی کرکےاپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔"

دادا جی یہ سن کرتھوڑے افسردہ ہوئے مگر انہوں نے بہو پر کچھ ظاہر نہ کیا۔ وہ فوراًاٹھ کر بچوں کے کمرے چلے گئے۔ بچے  اب بھی کارٹون دیکھنے میں مصروف تھے۔ انہوں نےدادا جی کو دیکھا ہی نہیں جو ان کی چارپائی تک پہنچ چکے تھے۔ دادا جی نے گلا صاف کرتے ہوئے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا۔دونوں نے دادا جی کو دیکھا۔ اذلان نے کارٹون بند کرکے دادا جی کو سلام کیا جس کا انہوں نے پیار سے جواب دیا ۔ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ 

دادا جی نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "سوچا آج میں بھی تم دونوں کے ساتھ یہی سو جاؤں۔" اذلان نے خوش ہوتے ہوئے کہا،"یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے لیکن پہلے کھانا کھانے چلتے ہیں۔ امی انتظار کر رہی ہوں گی۔" دادا جی نے مسکراتے ہوئے کہا،" بیٹھ جاؤ۔ کھانا بعد میں کھا لیں گے۔ پہلی تھوڑی گپ شپ ہوجائے۔" وہ دونوں حیران ہوکر دادا جی کی جانب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا۔"آج بلکہ ابھی میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ سنو گے ؟"

دونوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے دلچسپی کا اظہار کیا تو دادا جی گویا ہوئے۔ "تم دونوں کو پتہ ہے؟ پہلے لوگوں کے پاس گھڑیاں نہیں تھیں، گھر میں سامنے کی دیوار پہ ایک ہی گھڑیال ہوا کرتی تھی۔ گھر کے تمام افراد اسی سے کام چلاتے ، البتہ سب کے پاس  وقت ہوتا تھا، سب ایک دوسرے کو وقت دیتے تھے ، ایک دوسرے کو بغور سنتے تھے ۔ اس کے برعکس آج سب کے پاس گھڑیاں ہیں، دیوار پہ ، کلائی پہ ، موبائل، ٹی وی ہر جگہ انہیں گھڑیاں میسر  ہیں مگر ان کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے وقت نہیں۔" وہ لمبی سانس لیتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے رکے۔

" یہ وقت کہاں چلا گیا دادا جی؟" ننھے عفان نے دادا جی کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔

"ہم سے ہمارا وقت ناراض ہوگیا ہے، اس لیے تو آج کا سال مہینے کے برابر ہوا ہے اور مہینہ ہفتے کے ۔ ہفتہ دنوں میں تبدیل ہوا ہے اور دن سے گھنٹہ بن چکا ہے۔ آج ہم میں سے ہر بندے کو جلدی ہے ، ہر انسان لیٹ ہوچکا ہے، وہ دو کلومیٹر فاصلے طے کرنے کے لیے موٹر سائیکل یا گاڑی کا استعمال کرتا ہے مگر پھر بھی اسے دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ اس سوچ میں مبتلا ہوا ہے کہ دنیا اس سے بہت آگے جاچکی ہے ۔ اسی دوڑ ، اسی مقابلے نے اسے تیز رفتار تو بنا دیا مگر اپنوں سے بہت دور کر گیا۔"

اذلان نے موبائل تکیہ کے نیچے رکھتے ہوئے دادا جی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔ " دادا جی! کیا ہم وقت کو دوبارہ راضی کرسکتے ہیں؟"

دادا جی بچوں کی دل چسپی لینے پر مسکرائے اور کہا کہ"وقت کو راضی کرنے اور اپنانے کے لیے ہمیں خود کو وقت ہی کے سپرد کرنا ہوگا۔ والدین کے ساتھ بیٹھنے سے وقت بہت خوش ہوتا ہے۔ان کے ساتھ کھانا کھانے سے ، ان سے گپ شپ لگانے سے وقت ہم سے راضی ہوکر ہمیں وقت دے گا ۔" بچے بڑے غور سے دادا جی کو سن رہے تھے۔ دادا جی اپنی بات جاری رکھی۔" اس کے ساتھ مطالعہ، کھیل کود، دوستوں سے ملنے اور خاص کر موبائل، ٹیلی ویژن کے لیے حد مقرر کرنا ہوگا۔ تبھی وقت دل سے راضی ہوگا۔"

یہ سن کر بچوں نے دادا جی کو گلے لگایا اور ایک ساتھ گویا ہوئے۔ "آج کے بعد ہم موبائل، ٹیلی ویژن سے زیادہ والدین کو وقت دیں گے ۔ہم ان کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے۔تاکہ وقت ہم سے راضی رہے۔"اس کے بعد وہ تینوں مل کر کھانا کھانے کے لیے آگئے۔

Tuesday, July 27, 2021

'Inaam' : Tabassum Ashfaq

  انعام


تبسم اشفاق



بیوہ جمیلہ  کے چار بیٹے ہیں۔ان کی پرورش کے لیے وہ دن بھر دوسروں کے گھر جا کر برتن اور کپڑے دھونے کا کام کرتی۔وہ خود تو نیک تھی ساتھ ہی اپنے بیٹوں کو بھی اچھی باتیں سکھایا کرتی۔ 

 آج جمیلہ نے اپنے چھوٹے بیٹےببلوٗ کا داخلہ قریب کی اُسی سرکاری اسکول میں کروا دیا جہاں پہلے سے اسکے تینوں بچے بھی داخل ہیں۔ ببلو کو اسکول سے کتابیں اور بیاض مفت مل گئی۔جمیلہ نے ببلوٗ کو ایک پنسل بھی خرید کردی۔

ببلوٗ ایک کپڑے کے تھیلی میں تمام چیزیں لیکر بڑی خوشی خوشی اسکول جایا کرتا۔کچھ دن میں ببلوٗ کی پنسل نوک کر کر کے کافی چھوٹی ہوگئی تھی۔ 

ببلو نے امّی سے کہا"امّی مجھے نئی پنسل چاہیے۔میری پنسل چھوٹی ہو گئی ہے۔"

" ہاں بیٹا،اس ہفتے مالکن پیسے دینے والی ہے۔تب تم کو پنسل خرید کر دونگی۔"

"ٹھیک ہے"کہہ کر ببلو اسکول چلا گیا۔

اتّفاق سے اُسی دن درمیانی وقفہ میں ببلوٗ کو جماعت میں شطرنجی پر ایک نئی بڑی پنسل ملی۔ببلو نے ایک ہاتھ میں اپنی چھوٹی پنسل اور دوسرے ہاتھ میں ملی ہوئی بڑی پنسل پکڑی۔دونوں پنسلوں کو وہ باری باری دیکھتا رہا۔ببلو کے ذہن میں کچھ کشمکش چل رہی تھی کہ درمیانی وقفہ ختم ہوگیا۔سب بچے اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔آخر ببلو دونوں پنسل ہاتھ میں لیے اپنی ٹیچر کے پاس گیا اور ٹیچر کو کہا" میڈم مجھے شطرنجی پر پنسل  ملی ہے۔"

ٹیچر نے کہا"کیا یہ چھوٹی پنسل تمہیں ملی ہے؟"

ببلو نے جواب دیا" نہیں،چھوٹی والی پنسل تو میری ہے،مجھے یہ نئی پنسل جماعت میں ملی ہے۔"

ٹیچر کو ببلوٗ کی ایمانداری بہت پسند آئی۔ٹیچر نے ببلو کی پیٹھ تھپتھپائی اور سب بچّوں کو اس کے لیے تالی بجانے کہا۔ساتھ ہی اپنی طرف سے ببلوٗ کو انعام میں ایک نئی پنسل بھی دی۔

ببلو کو یقین ہو گیا کہ ماں سچ ہی کہتی ہیں کہ سچ بولوگے اور ایمانداری کرو گے تو اللہ کی طرف سے انعام ضروٗر ملتا ہے۔


Sunday, July 25, 2021

'Mahfil Zindagi Mein' by Saleem Jafarabadi

 محفل زندگی میں 


ڈاکٹر سلیم نواز ۔جعفرآبادی 



کچھ نام زندگی کی،

فہرست سے ہٹانا

کچھ نام زندگی کے 

محفل میں کرنا شامل 

آسان سا عمل ہے لیکن!!!

مشکل یہ مرحلہ ہے 

کچھ خون کے ہیں رشتے 

کچھ درد سے وابستہ 

کچھ ماضی کے ہیں حصے

کچھ حال کے ہیں پابند

کچھ تو زہر قاتل

کچھ تو ہے جان محفل

کچھ تو نبھانا آساں، 

کچھ تو نبھانا مشکل،

تھا اضطراب دل میں،

طوفاں سا ایک برپا،

ایک دیوانے کی بات یاد آئی

ہونٹوں پہ ہنسی چمکی

اور آنکھ بھر آئی

کچھ دن کے لئے بندے 

دنیا سے کر کنارہ

سچی لگن والے،

تجھے ڈھونڈتے آئیں گے 

ابن الوقت سارے،

تجھے بھول ہی جائیں گے !!!



٭٭٭٭٭٭

Saturday, July 24, 2021

'Kala Sona' by Shah Taj

 کالا سونا

✒️ شاہ تاج-پونے




اسکول سے بیٹے کو پک اپ کرکے میں نے کار اسٹارٹ کی۔سڑک پر حسب معمول گاڑیوں کے ہجوم میں رکتی،چلتی کار آگے بڑھ رہی تھی۔

 "ہم جب بھی گھر سے نکلتے ہیں ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں!" 

"کیا کریں بیٹا،سڑکوں پر گاڑیاں بھی تو بہت زیادہ ہو گئی ہیں!" میں اپنے بیٹے کو سمجھا تے ہوئے بولی۔

"لوگ ہارن بھی بہت بجاتے ہیں، امی بدبو کتنی آ رہی ہے،سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔میں تو سوچتا ہوں کہ سرکار کو پٹرول،ڈیزل ایک حساب سے دینا چاہیے تاکہ لوگ سوچ سمجھ کر باہر نکلیں!"

"ارے واہ! آپ کی بات سوچنے لائق ہے۔اگر ایسا ہوا تو آنے والی جنریشن کے لئے تیل بچ جائےگا!"

"کیا مطلب...…؟"

"اگر ہم اسی طرح تیل استعمال کرتے رہے تو ایک دن تیل ختم ہو جائے گا."

"کیوں؟ کیا کمپنیاں تیل بنانا بند کر دیں گی؟ "

"نہیں بیٹا! کمپنیاں تیل نہیں بناتیں بلکہ یہ پوری طرح قدرتی ہے۔"

وہ بہت حیران ہو کر میری طرف دیکھ رہا تھا تبھی سگنل ہو گیا تو میں نے کہا کہ گھر پہنچ کر اس بارے میں بات کریں گے۔

اسکول کا بیگ رکھ کر وہ سیدھا میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ پیٹرول کے بارے میں بتائیے۔تجسس اس کی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔میں نے کہا ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھا لیجئے پھر باتیں کریں گے۔

شایان تیسری جماعت میں پڑھتا ہے۔اس کی استاد ہمیشہ کہتی ہیں کہ وہ سوال بہت پوچھتا ہے۔کئی بار تو اس کے جواب دینے کے لئے اُنہیں گوگل سرچ کرنا پڑتا ہے۔

آج وہ کئی سوال لےکر میرے سامنے ہے۔وہ سمجھ نہیں پا رہا کہ تیل قدرتی کیسے ہو سکتا ہے۔

شایان نے کہا کہ ہماری ٹیچر نے بتایا ہے کہ جو چیزیں انسان نہیں بنا سکتا وہ قدرتی ہیں۔ میں نے ہاں میں سر ہلا کر اس کی جانب دیکھا۔

اس کا سوال تھا،"تیل قدرتی ہے تو پھر یہ ملتا کہاں ہے؟" میں پھنس جاتے ہیں!" 

"کیا کریں بیٹا،سڑکوں پر گاڑیاں بھی تو بہت زیادہ ہو گئی ہیں!" میں اپنے بیٹے کو سمجھا تے ہوئے بولی۔

"لوگ ہارن بھی بہت بجاتے ہیں، امی بدبو کتنی آ رہی ہے،سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔میں تو سوچتا ہوں کہ سرکار کو پٹرول،ڈیزل ایک حساب سے دینا چاہیے تاکہ لوگ سوچ سمجھ کر باہر نکلیں!"

"ارے واہ! آپ کی بات سوچنے لائق ہے۔اگر ایسا ہوا تو آنے والی جنریشن کے لئے تیل بچ جائےگا!"

"کیا مطلب...…؟"

"اگر ہم اسی طرح تیل استعمال کرتے رہے تو ایک دن تیل ختم ہو جائے گا."

"کیوں؟ کیا کمپنیاں تیل بنانا بند کر دیں گی؟ "

"نہیں بیٹا! کمپنیاں تیل نہیں بناتیں بلکہ یہ پوری طرح قدرتی ہے۔"

وہ بہت حیران ہو کر میری طرف دیکھ رہا تھا تبھی سگنل ہو گیا تو میں نے کہا کہ گھر پہنچ کر اس بارے میں بات کریں گے۔

اسکول کا بیگ رکھ کر وہ سیدھا میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ پیٹرول کے بارے میں بتائیے۔تجسس اس کی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔میں نے کہا ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھا لیجئے پھر باتیں کریں گے۔

شایان تیسری جماعت میں پڑھتا ہے۔اس کی استاد ہمیشہ کہتی ہیں کہ وہ سوال بہت پوچھتا ہے۔کئی بار تو اس کے جواب دینے کے لئے اُنہیں گوگل سرچ کرنا پڑتا ہے۔

آج وہ کئی سوال لےکر میرے سامنے ہے۔وہ سمجھ نہیں پا رہا کہ تیل قدرتی کیسے ہو سکتا ہے۔

شایان نے کہا کہ ہماری ٹیچر نے بتایا ہے کہ جو چیزیں انسان نہیں بنا سکتا وہ قدرتی ہیں۔ میں نے ہاں میں سر ہلا کر اس کی جانب دیکھا۔

اس کا سوال تھا،"تیل قدرتی ہے توپھر یہ ملتا کہاں ہے؟"

"جی! یہ سمندر کی گہرائیوں میں،ریگستان کی گہرائیوں میں،بس اتنا سمجھ لیجئے کہ یہ زمین کے بہت نیچے کہیں موجود ہوتا ہے۔"میں نے اسے اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے بتایا تو اس کا دوسرا سوال تیار تھا۔ 

" کیا تیل ہر جگہ ہوتا ہے؟"

"نہیں صاحبزادے؟ اسے بہت محنت سے تلاش کیا جاتا ہے۔"

"کیسے.۔۔؟" وہ کچھ حیران سا تھا کہ اتنی گہرائی میں ہم تیل کیسے ڈھونڈ پاتے ہیں؟

"ابھی آپ صرف اتنا سمجھ لیجئے کہ ماہر ارضیات یہ کام کرتے ہیں!"

"ماہر ارضیات کون؟"

اس کا اگلا سوال سن کر میں مسکرائی اور اسے سمجھا تے ہوئے کہا" جس طرح ڈاکٹر انسانی جسم اور بیماریوں کے بارے میں جاننے ہیں ایسے ہی ماہر ارضیات(geologist) ہوتے ہیں جو زمین کے بارے میں جاننے ہیں!"

شایان نے کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے گردن ہلادی۔

"پھر۔ ۔۔۔۔؟" وہ ہر بات جاننا چاہتا تھا۔

"ماہر ارضیات بہت محنت کے بعد یہ معلوم کرتے ہیں کہ سمندر کے کس حصّے میں تیل کا کنواں موجود ہو سکتا ہے۔پھر وہاں بڑی بڑی مشینوں کے ذریعے کھدائی کی جاتی ہے۔کبھی کبھی تو مہینوں کی محنت کے بعد crude oil  

یا خام تیل ملتا ہے۔اسے کچّا تیل بھی کہتے ہیں۔"

"امی !آپ تو پیٹرول کے بارے میں بتانے والی تھیں اب یہ کروڈ آئل کیا ہے؟ "

میں نے پیار سے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا کہ "پٹرول،ڈیزل ہمیں سیدھے ہی نہیں مل جاتا بلکہ وہ ایک گاڑھا چیپچپا مادہ ہوتا ہے۔زیادہ تر کالے رنگ کا ہوتا ہے لیکن براؤن،لال اور ہرا بھی ہوتا ہے۔کروڈ آئل کو بلیک گولڈ بھی کہا جاتا ہے۔جب کروڈ آئل مل جاتا ہے تو اسے نکال کر ریفائنری لے جایا جا تا ہے۔"

"ریفائنری کیاہے؟"

"تیل صاف کرنے والے کارخانے کو ریفائنری کہتے ہیں۔"

"اچھا!"اسے ان باتوں میں بہت مزا آ رہا تھا۔

"یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ پٹرول،ڈیزل کی ہماری زندگی میں کتنی زیادہ اہمیت ہے؟

کیا آپ کو معلوم ہے کہ تقریباً ۸۰ فیصد آئل ہم انرجی کی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔وہ بھی جسے ہم دوبارہ مصرف میں نہیں لا سکتے۔اس کے علاوہ بیوٹی پروڈکٹ جیسے لپ اسٹک،آئی لائنر،ہیئر ڈائی اور بیبی آئل ،بیبی کریم میں بھی پیٹرولیم کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے۔"شایان کو ان باتوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اس لیے وہ  صرف گردن ہلا رہا تھا۔

"اور کچھ بتائیے؟"

میں نے کچھ سوچتے ہوئے بتایا "ہاں! کروڈ آئل کو لیٹر میں نہیں ماپتے بلکہ بیرل میں ناپتے ہیں۔ایک بیرل میں ۱۵۹ لیٹر آئل ہوتا ہے۔سمجھے۔۔۔۔!"

"یہ تو نئی بات معلوم ہوئی۔لیکن یہ تیل زمین کے اندر آیا کہاں سے؟"

اس کا سوال بہت معقول تھا۔یہ بات تو مجھے سب سے پہلے بتانا چاہیے تھی خیر! میں نے اسے بتانا شروع کیا " ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سال پہلے سمندر کے اندر پیڑ پودے،جانور مر کر زمین میں دفن ہوتے گئے۔وہاں کیمیائی عمل جاری رہے اور وہ ریت مٹی کے نیچے دبتے چلے گئے کیمیکلز اور بیکٹیریا نے اپنا کام کیا ۔اورلاکھوں سال بعد وہ آئل میں تبدیل ہو گئے ۔"

"کیا۔۔۔۔؟ایک بوند تیل بننے میں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں؟" شایان کچھ سوچتے ہوئے بولا۔میں نے ہاں کہہ کر اُس سے پوچھا۔"کیا سوچ رہے ہو؟"

"ہم کتنا تیل صرف سگنل پر کھڑے ہو کر ضائع کر دیتے ہیں!!" میں دھیان سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔

 "امی! بہت سےلوگ یہ جانتے ہی نہیں ہیں ک ایک دن تیل کے کنویں خالی ہو جائیں گے۔کیا ہم تیل بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے؟"

میں نے اس کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ" ہم اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ تھوڑا دھیان سے تیل خرچ کریں۔تاکہ آنے والی نسلوں کو تیل استعمال کرنے کے لئے ملے۔ورنہ بچوں کو تیل کی کہانیاں سنانی پڑیں گی"۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

"آپ بتائیے کہ آپ کیا کریں گے؟"میں نے شایان سے سوال کیا۔

شایان کھڑا ہو گیا اور بولا۔"امی! میں سگنل پر ہمیشہ گاڑی بند کرونگا ۔۔!"

  میرے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا۔شاباش۔۔۔۔!

Friday, July 23, 2021

Story Series No.5 ' Suraj Ki Sair' by Raj Mohammed Afridi

 


کہانی نمبر:5

کتاب: سورج کی سیر


سورج کی سیر




مصنف: راج محمد آفریدی

پشاور پاکستان



عاقل اپنی جماعت کا ذہین ترین لڑکا تھا ۔اسے فزکس سے بڑی دل چسپی تھی۔  وہ روز نت نئے تجربات کرکے اپنے کلاس فیلو اور اساتذہ کو حیران کرتا۔ اساتذہ بھی مختلف حوالوں سے اسے سپورٹ کرتے ۔عاقل کے ابوجو خود بھی سائنس دان تھے اور اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز تھے، کو اپنے بیٹے کی قابلیت کا اندازہ تھا اس لیے انہوں نے اس کو ذاتی تجربات کے لیے گھر ہی میں ایک لیبارٹری بنا کر دی تھی۔ جس کی مدد سے وہ فرصت کے لمحات میں اپنی مرضی سے تجربات کرتا رہتا۔

 عاقل نے اسی لیبارٹری میں ماں جی کی سہولت کے لیے سب سے پہلے ایک چھوٹا سا روبوٹ بنایا جو گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتا۔ پھر اپنے محلے کے لیے شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے کم قیمت میں مشینری بنائی ۔ اس نے مسلسل تجربوں سے دنیا میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے دن رات ایک کیے تھے۔ مختلف چیزیں بناتے بناتے ایک دن وہ جدید ترین اڑن طشتری بنانے میں کامیاب ہوا۔

عاقل نے ایک پروگرام کرکے محلے میں اڑن طشتری کی نمائش کی ۔اس کے بنانے پر سب نے اسےداد دی۔ عاقل کا دعویٰ تھا کہ اس اڑن طشتری  کے باڈی پر گرم و سرد درجہ حرارت کا کوئی اثر نہیں پڑتا چاہے ٹمپریچر کچھ بھی ہو ۔ انتہائی کم ایندھن کے خرچ اور تیز رفتاری سے اپنا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھنا اس اڑن طشتری کی دوسری خوبی تھی۔یہ خود کار پائلٹ کے ذریعے ہزاروں میل کا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔اس کے ساتھ اس میں کھانا بنانے کے لیے کچن اور سونے کا ایک کمرہ بھی تھا۔

 ایک دن عاقل نےامی ابو سے اجازت لے کر اڑن طشتری کی مدد سے سورج کی سیر کا فیصلہ کیا۔اس کے ابو نےاپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے حکومت سے اجازت لے کر فوراً عاقل کو سورج کی سیر کرنے کی اجازت دے دی۔ انہیں اپنے بیٹے پر مکمل اعتماد تھا۔ 

اگلے ہی روز عاقل نے ضروری سامان لے کر محلے والوں سے رخصت لی۔ سب نے اسے دعاؤں کے ساتھ خلا کی جانب بھیج کیا۔ اسی طرح اس نے خوشی خوشی اپنا سفر شروع کیا۔ وہ تیز ترین اڑن طشتری کی مدد سے ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں سورج کی حدود میں داخل ہوا۔ وہ گھر والوں سے مسلسل رابطے میں تھا۔سورج کے قریب پہنچ کر اڑن طشتری کی سوئی نے کئی ہزار ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت دکھائی۔

 عاقل کو احساس تھا کہ اس ٹمپریچر میں وہ باہر نکلتے ہی چند سیکنڈز میں پگھل جائے گا لہٰذا اس نے اندر ہی سے سورج کی سیر پر اکتفا کیا۔ جب وہ سورج کے مزید قریب پہنچا تو اسے قدرت کی اس عجیب تخلیق دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔اس نے انتہائی قریب سے سورج کی تصاویر گھر بھیجیں۔گھر والوں نے مقامی اخبارات میں وہ تصاویر شائع کیں جس سے عاقل کی شہرت میں اضافہ ہوا۔

عاقل نے دیکھا کہ سورج کے بے شمار دروازے ہیں۔ ہر دروازے پرمختلف بورڈ آویزاں ہیں۔ ایک بورڈ پر لکھا تھا "سادہ شعائیں" ، دوسرے دروازے پر لگے بورڈ پر یہ تحریر تھی "الٹرا وائلٹ شعاعیں"، اسی طرح "ایکس ریز ، گاما ریز و دیگر بورڈ آویزاں تھے۔" مختلف رنگوں کے دروازوں پر احمد کی نظر پڑی تو اس کا دل باغ باغ ہوا ۔ اس میں سرخ، نیلے، پیلے، نارنجی رنگوں کے آبشار کائنات کی طرف بہے جارہے تھے۔"یعنی یہاں سے یہ شعائیں اور رنگ نکل کر پوری کائنات میں پھیلتے ہیں اور یہی سے قوس قزح بنتی ہے۔"،اس نے سوچا۔

آگے چل کر اس نے دیکھا کہ ایک دروازے سے آگ کے گولے برس رہے تھے۔ ایک دروازے پر لکھا تھا "سیاحوں کا دروازہ"۔ عاقل اسی دروازے کا انتخاب کرکے سورج کے اندر چلا گیا۔ وہ وہاں مختلف جگہوں کے نظارے کرنے میں مصروف تھا کہ اسے اڑن طشتری میں کسی خرابی کا احساس ہوا ۔ اسے سخت دھچکا لگا کیونکہ اس کے مطابق اڑن طشتری ہر قسم کے عیوب سے پاک تھی۔ عاقل کے سر پر خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ وقفے وقفے سے اڑن طشتری سے پرزے گرنا شروع ہوئے یہاں تک کہ اس کا مرکزی انجن بھی بند ہوگیا۔عاقل نے سٹیلائٹ کی مدد سے گھر رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔ وہ سخت پریشان تھا کہ اس دوران وہ ہڑبڑا کر خواب سے جاگ اٹھا۔

Tuesday, July 20, 2021

'Shra-E-Zilhijja Ki Khususiyaat' : Syd Mushtaq

عشرہ ذی الحجہ کی خصوصیات



سید مشتاق


 (قومی صحافی، جموں کشمیر، چیئرمین جموں کشمیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی۔۔) 


 عشرہ ذی الحجہ کی خصوصیات


       عشرہ ذی الحجہ کو اللہ تعالٰی نے مختلف عبادتوں کے ذریعہ خصوصیت بخشی ہے، یہ جو دس دن ہے، ان دس دنوں میں عبادتیں اجتماعی طور پر انجام دی جاتی ہیں، امت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق اور ان کی سیسہ پلائی دیوار کا مظاہرہ ہوتا ہے، مسلکی اختلافات اور فکری انتشار کے مابین یہ دس دن امت کو یہ باور کرواتے ہیں کہ تم ایک جسم اور جان ہو، اجتہادی باریکیوں میں الجھ کر اور فروعی مسائل میں دست گریبان ہو کر اپنی حیثیت، وقعت ضائع نہیں کرنا چاہیے ،شروع مہینے سے لیکر، تکبیر، حج و عمرہ اور قربانی جیسے اعمال اور ان میں باہمی تعلقات یہ ظاہر کرتے ہیں؛ کہ تم سب ایک ہی شریعت کے ماننے جاننے والے اور ایک ہی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہو، باطل کا آلہ کار بن کر انتشار اور بکھراؤ کا ذریعہ نہ بنو، چنانچہ آپ غور کیجئے! اس پورے عشرہ میں اسلام کے اہم ترین اعمال انجام دئیے جاتے ہیں اور عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، عشرہ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت آئی ہے، قربانی دینے والوں کو بال و ناخن کاٹنے سے روکا گیا، تکبیرات تشریق کہنے کا حکم دیا گیا، حج جیسی عظیم عبادت انجام دی جاتی ہے اور قربانی کا اہم ترین عمل بھی اسی میں کیا جاتا ہے، اسی دن مسلمانوں کی دوسری بڑی اور اہم عید عید الاضحی منائی جاتی ہے، ان تمام خصوصیات کی بناء پر اس عشرہ کی اہمیت اور افضلیت دو چند ہوجاتی ہے، ان اعما ل کو قدرے تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کیجئے اور عملی زندگی میں انہیں شامل کیجئے!*

بال اور ناخن نہ کاٹنا:

       *یہ اللہ تعالی کی شان بے نیازی ہے کہ وہ بندے کو کبھی ایسا بھی حکم دیتا ہے جس سے اس کی ہراگندگی اور دیوانگی کا اظہار ہو، انسان دراصل اللہ کے سب سے زیادہ قریب تبھی ہوتا ہے جب وہ اپنا سب کچھ لٹا کر حکم الہی کی پابندی کرے، اس نے اگر کہا کہ جمعہ کا دن ہے تو غسل کرو! ناخن تراشو! اچھے کپڑے پہنو اور نماز ادا کرو! تو اسی میں اس کی عبدیت کا مظہر ہے، اور اگر اس نے کبھی یہ کہہ دیا کہ کوئی ناخن نہ تراشے، بال نہ کٹوائے، حجامہ نہ لگوائے تو اس کی پابندی ہی بندگی کا تقاضہ کرتی ہے؛ چنانچہ قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص جب ذوالحجہ کا چاند دیکھ لے یا یہ خبر عام ہو جائے کہ چاند نظر آگیا ہے تو پہلا حکم اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ اس رات سے لے کر اپنے جانور کی قربانی کر لینے تک اپنے جسم کے کسی حصے سے کوئی بال یا ناخن نہ کاٹے؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ - - عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ-- (صحیح مسلم، الأضاحي، باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو يريد التضحية أن يأخذ من شعره…:۱۹۷۷) ایک دوسری روایت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ یہ پابندی قربانی کرنے تک ہے، صحیح مسلم اور سنن ابو داود میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: فَلاَ یَاْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَ لاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ شَیْئًا حَتّٰی یُضَحِّيَ -- ’’وہ اپنے جانور کو ذبح کرلینے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘ (صحيح مسلم:١٣/١٣٩- سنن ابی داؤد:٢٧٩١) المستدرک على الصحيحين میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے: "ﺇﺫا ﺩﺧﻞ ﻋﺸﺮ ﺫﻱ اﻟﺤﺠﺔ ﻓﻼ ﺗﺄﺧﺬﻥ ﻣﻦ ﺷﻌﺮﻙ ﻭﻻ ﻣﻦ ﺃﻇﻔﺎﺭﻙ ﺣﺘﻰ ﺗﺬﺑﺢ ﺃﺿﺤﻴﺘﻚ” یعنی یہ ناخنوں اور بالوں کی پابندی قربانی کرلینے تک ہے - (مستدرک حاکم:٧٥١٩) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل مبارک سے بھی یہی پتہ چلتا ہے، مؤطا امام مالک میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے بعد سر کے بال کٹوائے - - "ﻓﺤﻠﻖ ﺭﺃﺳﻪ ﺣﻴﻦ ﺫﺑﺢ اﻟﻜﺒﺶ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﻟﻢ ﻳﺸﻬﺪ اﻟﻌﻴﺪ ﻣﻊ اﻟﻨﺎﺱ" (موطا ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻣﻦ اﻟﻀﺤﺎﻳﺎ) بعض آثار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ پابندی تمام گھر والوں پر ھے، چنانچہ حضرت نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں : "أﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻣﺮ ﺑﺎﻣﺮﺃﺓ ﺗﺄﺧﺬ ﻣﻦ ﺷﻌﺮ اﺑﻨﻬﺎ ﻓﻲ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻌﺸﺮ " عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان دس دنوں میں ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بیٹے کے بال کاٹ رہی تھی، تو آپ نے فرمایا: "ﻟﻮ ﺃﺧﺮﺗﻴﻪ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ اﻟﻨﺤﺮ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﺴﻦ” - - اگر تو اسے قربانی کے دن تک مؤخر کردیتی تو بہتر ہوتا - (مستدرک للحاکم:٧٥٢٠) خیال رہے کہ یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کیلئے جو قربانی دینے والے ہوں، چاند دیکھنے سے لے کر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہیے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کیلئے یہ حکم نہیں ہے؛ تاہم بعض شارحین حدیث ان کیلئے بھی اس عمل کو بہتر قرار دیتے ہیں، اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کرلے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں کوئی خلل نہیں آتا۔* ( ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل و احکام: ٣٤)

عشرہ ذی الحجہ اور کثرت ذکر:

      *یوں تو ذکر واذکار اور دعا و مناجات کی خاص گھڑی نہیں؛ بلکہ یہ تو دل میں تصویر یار کی مانند ہے جب چاہا گردن جھکائی اور دیدار کرلیا، مگر بعض اوقات ایسے لمحات متعین کر دئے گئے ہیں جو برکت و سعادت سے پر ہیں، جن میں کثرت اذکار انسان کو پاکیزگی اور طہارت کے نئے معیارات عطا کرتا ہے، تزکیہ نفس اور لقائے الہی کا سوز فراہم کرتا ہے، دل میں گداز اور مزاج میں نرمی لاتا ہے، عبادت وشکر، عبدیت اور بندگی کا انوکھا معجون عطا کرتا ہے، ایک شخص جب ان دنوں یا ان لمحوں میں اپنے رب کو یاد کرے اور اس کے حضور اپنا دل نکال کر رکھ دے تو پھر قوی امکان ہے کہ وہ اپنے رب کی بارگاہ کا خوش نصیب بندہ بن جائے گا، اس کی مقبولیت معزز مخلوق کے درمیان ہوگی اور اس کا تذکرہ ان پاکیزہ روحوں کے درمیان ہوگا جو سب سے مقرب روحیں ہیں، چنانچہ عشرہ ذی الحجہ میں تسبیح و تہلیل اور کثرت اذکار کی تلقین نبی کریم ﷺ نے بھی فرمائی ہے؛ تسبیحات، تحمیدات اور تکبیرات کہنے کو باعث خیر بتایا ہے، اس بارے میں فرمان باری تعالی ہے: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ - - "تا کہ وہ اپنے فائدے کی چیزوں کا مشاہد ہ کریں، اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں" (حج:٢٨) یہاں ” أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ” سے مراد عشرہ ذو الحجہ [ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن] ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔ (روح المعانی :١٧/١٤٥) حضور ﷺ کا ارشاد ہے: مامن ایام اعظم عند اللہ، ولا احب الیہ من العمل فیھنمن ھذہ الایام العشر، فاکثروا فیھن من التھلیل، والتکبیر، والتحمید۔ (مسند احمد:٥٢٩٤) کوئی دن بھی اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عظیم اور پسندیدہ نہیں ہے جن میں کوئی عمل کیاجائے، ذی الحجہ کے ان دس دنوں کے مقابلے میں، تم ان دس دنوں میں تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔ ایک روایت میں فرمایا :فاکثروا فیھن التسبیح، والتکبیر، و التھلیل۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی: ١٠٩٦٠) کہ تم ان دس دنوں میں تسبیح، تکبیر اور تہلیل کی کثرت کیا کرو۔ مسند احمد کی ایک روایت میں "والتحميد” کے الفاظ ہیں (دیکھئے: أحمد - ٢/٧٥) شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: شرحہ علی المسند رقم:٥٤٤٦) یہ جان لینا چاہیے کہ تسبیح کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا جیسے سبحان اللہ کہنا، تکبیر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا ہے جیسے اللہ اکبر کہنا، وہیں تہلیل کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرنا جیسے لا الہ الا اللہ کہنا؛ جبکہ تحمید کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا جیسے الحمد للہ کہنا - - ان چاروں اعمال و کلمات کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ چار کلمات - سُبْحَانَ اللَّهِ - وَالْحَمْدُ لِلَّهِ - وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ - وَاللَّهُ أَكْبَرُ - - سب سے زیادہ محبوب ہیں : أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَرْبَعٌ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ (صحيح مسلم:٢١٣٧) مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے دن اعمال تولنے والے ترازو میں ان کلمات کے بہت زیادہ بھاری ہونے پر تعجب کیا ہے، فرمایا: یہ (چار) کلمات ترازو میں کس قدر وزنی ہیں - - مَا أَثْقَلَهُنَّ فِي الْمِيزَانِ.*(مسند احمد: ١٥٢٣٥)

Monday, July 19, 2021

'Tanhaai' By Iqbal Niyazi


... کہانی 

تنہائی


                                                 


                                 

اقبال نیازی

 

بہت عجیب بات ہو گئی..........

فلموں کے سینیر رأیٹر ساحل صاحب اچانک لاک ڈاؤن سے گھبرا کر،بڑبڑاتے ہوے کپڑے پہننے لگےتو نوجوان نوکر نے حیرت سے پوچھا

" صاحب کہاں جا رہے ہیں؟؟ باہر سب بند ہے."

ساحل صاحب نےایک موٹی گالی دے کر کہا " جوہو جا رہا ہوں , میری نئ فلم کی پارٹی ملنے آرہی ہے"

"ارے صاحب! لاک ڈاؤن ہے, باہر سب بند ہے. جانے کا کوئی سادھن نہیں ہےاور ایسے میں کون سی پارٹی آےگی, سب گھروں میں بند ہیں"

"چپ بے......" ایک اور موٹی گالی ان کی زبان نے ایسے ُاگلی جیسے سنّاٹے میں زِپ سے کوئ بائیک نکلتی ہے.

" تو چل تیار ہو....میرے ساتھ چل...." ساحل صاحب نے نوکر کے شانے دبائے.

لڑکا منع کرتا رہا, دُہائی دیتا رہااور ساحل صاحب اسے لے کر باندرہ کے کارٹر روڈ کے اپنے فلیٹ سے باہر آ گئے. ابھی مین روڈ تک ہی پہنچے تھے کہ پولِس جیپ نے انہیں روکا... ایک تھری اسٹار باہر نکلا,

" ارے انکل! کہاں نکلے ہو؟ دیکھ نہیں رہےلاک ڈاءون ہے."

"  دیکھئے میں فلم رأیٹر ہوں, میں نے فلاں, فلاں, فلاں فلمیں لکھی ہیں" ساحل صاحب نے مرعوب کرنے کی کوشش کی, " اور میری ایک نئی فلم کی آج سِٹنگ ہے."

" ارے انکل آپ اتنے بزرگ ہو گئے ہیں اس لئے بچ گئے.... ورنہ ابھی ڈنڈے پڑنے شروع ہوتے پچھواڑے پر.." انسپکٹر نے ساحل صاحب کی مشہور فلموں سے مرعوب ہوئے بغیر کہا, " چلئے جائیے گھر پر....ایسی کنڈیشن میں کوئ سِٹنگ وِٹنگ نہیں ہوتی...چلئے... اے لڑکے ! لے جا ان کو گھر پر، ورنہ تیری سوُج جائیگی... سمجھا!!!" انسپکٹر نے ڈنڈا بتا کر نوکر لڑکے سے کہا.

ساحل صاحب بڑبڑاتے ہوئے گھر کی طرف لوٹنے لگے. راستے بھر ان کو جتنی گالیاں یاد تھیں, سب پولِس والوں کو ارپن کرتے رہے.

نوکر نے مسکرا کر گھر کا دروازہ کھولا... ساحل صاحب نے آواز لگائی,

" ارے بیوی ! او بیوی...ذرا ایک ڈرنک بنا دو... اجی بیگم....سنو!!! اور یہ تمہارا لاڈلا کہاں ہے؟؟ ابھی تک سو رہا ہے؟؟ اس کو اُٹھاؤ, بولو باپ کو جوہو تک اپنی کار میں چھوڑ آئے..اور سنو بیگم ! ہماری بٹیا کالج گئی کیا؟؟"

نوکر لڑکا حیرت سے ساحل صاحب کو دیکھ رہا تھا....وہ بہت گمبھیرتا سے اپنےبیوی بچوں کو آواز دے رہے تھے جن کا وجود ہی نہیں تھا.

ساحل صاحب نے تو شادی ہی نہیں کی تھی, پھر یہ بیوی بچے...؟؟؟ وہ سوچ میں پڑ گیا.

ایک بھدّی گالی اس کے کانوں میں پڑی " ابے کھڑا کیا ہے.. تیری مالکن کو بول ایک وہسکی کا لارج بنا دے میرے لئے.... سالا پیاس ہی نہیں بجھ رہی.."

نوکر نے اندر روم میں جاکر ساحل صاحب کی بھتیجی کو فون لگایا.. سارا حال سنایا...دوسری طرف سے ہنسی کی آواز أئی اور فون کٹ گیا.

بھتیجی نے کانفرنس کال پر اپنے بڑے بھائی اور ایک بہن کو لیا... اپنے چاچا کا حال سن کر سب ہنسے. بھتیجے نے کہا," بہنوں تیار رہو...کارٹر روڈ کے فلیٹ کے اب 9 کروڑ ملنے والے ہیں.... بہت جلد !!!!

🌹🌹IQBAL NIYAZI۔

' Ustaad Ko Izzat Do' : Amanullah


استاد کو عزت دو


گفتار قلم امان اللّٰہ جھنگ پاکستان 

amanullah175175@gmail.com




استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو 

یہ توہر دور میں انمول رہاہے 

مولوی میر حسن علامہ اقبال کے استاد تھے ۔ علامہ اقبال کو جب انگریز حکومت نے سر کا خطاب دینا چاہا تو اقبال نے انکار کیا کہ پہلے میرے استاد کوشمس العلماء کا خطاب دیا جائے جس پر اس وقت کی حکومت نے کہا آپ نے خود کتابیں لکھی ہیں اور بڑے بڑے مقالے بھی پیش کیے ہیں لیکن آپ کے استاد کا ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے یہ سن کر اقبال گویا ہوئے میرے استاد کا سب سے بڑا کارنامہ میں خود ہوں میرے استاد کی محنت نہ ہوتی تو شاید آج آپ مجھے سر کا خطاب نہ دیتے یہ ان کی شبابہ روز محنت ہی کا نتیجہ ہے جو آج میں اس مقام پر کھڑاہوں ۔

انگریز حکومت نے یہ سنتے ہی علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیا ۔

استاد کے لیے ایسی عزت اور محبت اس وقت جاگتی ہے جب کامیابی کے لیے سفر کا آغاز ایک شفیق اور دانا استاد کی انگلی پکڑ کر کیا جائے ۔ کامیابی کے پیچھے لازمی طور پر کسی نہ کسی بڑے آدمی کا ہاتھ موجود ہوتاہے اور استاد سے بڑھ کر کوئی بڑا آدمی نہیں ہے جن قوموں نے استاد کا احترام کیا ہے انہی نے ہی ترقی پائی ہے ایک دفعہ ابن انشاء ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی کے استاد سے ملنے گے ملاقات کے اختتام پر وہ استاد ابن انشاء کو الوداع کرنے کے لیے یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا، دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پرکھڑے ہوگے ، اس دوران ابن انشاء نے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلبہ اچھل اچھل کر گزرہے ہیں ابن انشاء اجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر کیو ں گزر رہا ہے ؟انھوں نے بتا یا کہ ہمارا سایہ پچھلی جانب ہے اور کوئی طالب علم نہیں چاہتا کہ اس کے پاؤ ں اس کے استاد کے سایہ پر بھی نہ پڑیں ، اس لیے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر گزررہا ہے امریکہ میں تین طرح کے لوگوں کو vip کا درجہ دیا جاتا ہے ۔

۱۔معذور ۲۔ سائنسدان ۳۔ ٹیچر فرانس کی عدالت میں ٹیچر کے سوا کسی کو کرسی پیش نہیں کی جاتی اگر دی جاتی ہے تو ٹیچر کو جاپان میں پولیس کو ٹیچر کی گرفتاری کے لیے پہلے حکومت سے پہلے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑتا ہے کوریا میں کوئی بھی ٹیچر اپنا کارڈ دکھا کر ان تمام سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ایم این ایز اور ایم پی اے کو میسر ہوتی ہیں جرمنی میں اساتذہ کو سب سے زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے پچھلے دنوں ججز، ڈاکٹر ، انجنئیر نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کردیا یہ خبر جرمنی کی چانسلر تک پہنچی تو جرمن چانسلر جس کا نام انجیلا مورکل تھا اس نے بڑا ہی خوبصورت جواب دیا ، میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کر دوں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے اور ہمارے ایشیاء ممالک میں(پاکستان، بھارت ، بنگلہ دیش ، وغیرہ)  میں ٹیچر کی وہ تذلیل کی جاتی ہے کہ شیطان بھی پناہ مانگے ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ اہل علم ودانش کی نا قدری ہے اورجس ملک میں علم اور عالم کی قدر نہیں ہوتی ، وہاں غنڈے ، بد معاش ، ڈاکو ، لٹیرے ہی پیدا ہوتے ہیں استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قراردیا گیا ہے کیوں کہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی زمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہے کیونکہ استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں جینا اور رہنا سہنا سیکھاتا ہے اورکتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتاہے گویا استاد معلم یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بے جانہ ہوگا ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن بناتا ہے پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے استاد معمار بھی ہے اور کسان بھی ہے ، استاد واجب الاحترام بھی ہے ۔


ایک زمانہ تھا جب طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے سالہاسال ملکوں ملکوں گھومتے تھے ، گھر بار سے دور رہ کر اپنے پیاسے من کو سیراب کرتے تھے استادوں کی مار کھا تے تھے ڈانٹ بھگتاتے اور سزاجھیلتے تھے تب جا کر نگینہ بنتے تھے مگر مجال ہے کہ استاد کے اگے آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتے ، ڈر کے مارے گھر بھی نہیں بتاتے تھے کہ استاد نے آج مارا ہے کیونکہ گھر سے اور سزاملتی تھی کہ استاد نے اچھا کیا ہے اورمارتا آپ کو استادکے قدموں میں بیٹھنا اور استاد کی باتوں کو خاموشی سے سننا اور استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا ہائے کیا وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی منزلیں طے کرتاچلا گیا ، اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور ادب ، آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے گئے چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں استاد بنناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے موجودہ دور میں استاد اپنی عزت بچاتا ہے کہ کئی بچے کو ماراتو گربیان تک نہ پکڑ لے اور مارا تو آج کا شوشل میڈیا ہے وہ نہیں چھوڑے گا ، جب سے مار نہیں پیار آیا استا د کامقام وعزت کم ہو کر رہ گی ہے پہلے دور میں استادبچے کو مارتا تو والدین کہتے تھے ٹھیک کیا استا دنے اور مارنا تھا اور آج کے والدین کہتے ہیں استاد کی ہمت کیسے ہوئی میرے بچے کو ہاتھ لگانے کی موجودہ دور کا طالب علم استاد کو عزت دینے کا روادار نہیں ہے وہ استاد کو ایک تنخواہ دار اور ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتا ، اور بچوں کی اس سوچ کے سب سے بڑے زمہ دار خود والدین بھی ہیں ، جو بچپن سے ہی اپنے بچوں کے زہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ ہمار اتنخواہ دار ملازم ہے لہذا انھیں اتنی ہی عزت دو اوروں کو دی جاتی ہے ، حقیقتا موجودہ دور کا ٹیوشن سسٹم اور اکیڈمی کلچر نے بھی استاد کی عزت کو کم کردیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جو والدین بچوں کے لیے ٹیوشن رکھتے ہیں تو وہ بچوں کو کہتے ہیں کہ استاد نے کیا پڑھایا ہے وہ فیس نہیں لیتا تو بچے کے ذہین میں آجاتا ہے کہ استاد فیس لیتا ہے احسان نہیں کرتا یہی وہ پوائنٹ ہے جو استاد کی تذلیل کرتا ہے اسلام میں جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا جاتا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی معززمقام حاصل ہے یہاں میں امان اللہ ایک معلم  ہونے کہ ناطے  ارباب عالم سے  اپیل کرتا ہوں وہ  ٹیچر کی عزت کو  معاشرے میں بحال کروانے کے لیے سیمینار کا انعقاد کرے جس میں نو جوان نسل کو آ گاہی دی جائے کہ استاد کا مقام کیا ہے اور نوجوانانِ نسل   سے کہوں گا خدارا استاد کو  عزت دیں ۔استاد کو عزت دے کر ہم اپنا نام اور اپنے ملک کا نام روشن کرسکتے دنیا میں علم کی قدر اس وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو گا ، دنیا میں وہی عزت ومقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے استاتذہ کرام  کو دی اس لیے کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے با ادب ۔

۔با نصیب ۔۔بے ادب ۔۔۔۔بے نصیب

Saturday, July 17, 2021

'Fikr Para' : Javed Nadeem

 فکرپارہ

جاوید ندیم




وہ بولا " جاوید ، اللہ نے بعض لوگوں کو عجیب صلاحیتوں سے نوازا ہے 

جس کی کوئی منطقی توجیہ نہیں کی جاسکتی 

مگر ہے حقیقت 

کچھ کو قیافہ شناسی کا ہنر بخشا 

کہ مقابل کے حُلیے، بشرے پر نظر پڑتے ہی 

اس کی شخصیت کی ساری پرتیں ان پر کھل جاتی ہیں ! "

" کچھ اپنے پاس آنے والے کے مدّعا کو 

بنا بتائے ہی بھانپ لیتے ہیں !

کچھ آدمی کے لاشعور کے محرکات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں !

بعض زمینی فاصلوں کے باوصف 

دوسروں کے اذہان تک اپنی بات کی ترسیل پر قدرت رکھتے ہیں 

اور انکے خیالات کی تحصیل کی بھی !

اور مجھے اللہ نے یہ وصف بخشا ہے کہ میں 

کسی کو دیکھتے ہی یا اس کے بارے میں سوچ کر یہ جان لیتا ہوں 

کہ وہ میرے بارے میں کیا احساسات و خیالات رکھتا ہے 

میں جان جاتا ہوں کہ کس کے دل میں میرے لئے محبت کے جذبات ہیں 

اور کس کے دل میں بغض و حسد بھرا ہے

اور پھر اسی مناسبت سے میں اس سے معاملہ کرتا ہوں 

محب سے محبت کا اور حاسد سے احتیاط کا  ! "

اسکی بات سن کر میں نے کہا، ایسا تو میرے ساتھ بھی ہوتا ہے

وہ بولا " یقینا" ہوتا ہوگا کہ ایسا ہونا ممکن ہے ! "

اس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا 

" کیا تونے کار ریزوں*  کے بارے میں نہیں سنا ؟

جو زمین پر چل کر ہی یہ بتا دیتے تھے کہ کس جگہ پانی موجود ہے 

اور کھدائی کے بعد زمین سے پانی کے سوتے پھوٹ پڑتے تھے 

یہ پُرانے وقتوں کے اکثر کنوئیں

انہیں کی عطائ صلاحیتوں کا ثمرہ ہیں ! " 

                                                      جاوید ندیم 


* کار  ریز : ( ۱)سطح زمین میں موجود پانی کی نشاندہی کرنے والا ( ۲) آب پاشی کے نظام کا ماہر

Friday, July 16, 2021

' Phir Naya Gadget' By ShahTaj

 پھر نیا گیجیٹ


✒️شاہ تاج  پونے


پھر ایک فکر نے ذہن میں جگہ بنالی۔۔۔۔۔ اب یہ الیکٹرانک سامان خریدا جائے گا اور ریجیکٹ ہونے کے بعد اس کچرے کاکیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ؟ حد ہو گئی۔۔۔۔ان الیکٹرونک کمپنیوں کے لئے کوئی قانون ہیں کہ نہیں۔۔ ! آئے دن کوئی نا کوئی نیا سامان مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔۔۔میرا بس چلے تو ساری کمپنیوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ درج کرا دوں۔انہیں کیا حق ہے عام لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا۔۔۔۔آئے دن نئے پیکٹ میں کوئی الیکٹرونک سامان منظرِ عام پر آ جاتا ہے۔۔۔۔ایک تو ہماری جیب دوسرے ہمارا ماحولیات( environment ) ان کمپنیوں کی نئی نئی اور جدید ترین( latest )تکنیک کا شکار بنتے جا رہے ہیں۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اخبار میں چھپے اس نئے فون کا پہلا شکار میں ہی بنوں گی۔۔۔۔اور ہوا بھی وہی۔۔۔

’’اب آپ ڈانٹ کھاؤ گے۔۔۔اتنے مہنگےفون کا آپ کیا کروگے۔۔؟‘‘میرا بیٹا اخبار میں نئے فون کی خوبیاں پڑھنے کے بعد ضد کر رہا تھا۔۔کہ اُسے وہ فون چاہئے۔

’’امّاں !اب میں کالج جانے والاہوں۔۔۔۔وہاں اس فون کے ساتھ کیسے جا سکتا ہوں۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنے فون کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’کیوں۔۔۔اس فون میں کیا خرابی ہے۔۔؟‘‘میں نے فون ہاتھ میں لے کر دیکھا۔وہ ٹھیک نظر آ رہا تھا۔

’’یہ پرانا اور گھساپٹا  out dated  ہوگیاہے۔۔۔‘‘اس نے جھٹکے سے کہا۔

 صاحبزادے تو فون رکھ کر چلے گئے لیکن اب میں سوچ رہی تھی کہ ایک اور کچرا۔ ۔۔ ۔!یہ جو میرے سامنے الماری ہےنا۔۔۔۔میں اسی میں e-waste   جمع کرتی ہوں۔ای- ویسٹ یعنی الیکٹرونک کچرا۔اس الماری میں کئی لیپ ٹاپ،موبائل فون،آئی- پیڈ اور ماؤس تو چوہوں کی طرح بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔اس کچرے میں آدھی سے زیادہ چیزیں بالکل درست حالت میں ہیں۔بس تیز رفتار ٹیکنالوجی نے اُنہیں پرانا بنا کریہاں پہنچا دیا ہے۔۔۔یہ سب گیجٹ ریس میں ریٹائرڈ ہرٹ ہو کر.... ریس سےباہر .... یہاں کونے میں پڑ ے ہیں۔

کافی پرانی بات ہے جب میں نے اس کچرے کے متعلق رائے دینے والوں کی بات پر عمل کرتے ہوئے ایک فون کسی دوسرے ضرورت مند تک پہنچانے کی نا کام کوشش کی تھی۔ ۔۔۔۔مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب  اپنی پڑوسن کو وہ فون مفت میں ،بالکل مفت میں دینے کی پیشکش کی تھی۔’’بھابھی جی۔۔ میری بیٹی نے نیا فون لے لیا ہے۔۔۔تو میں چاہتی تھی کہ اس کا پہلا فون آپ کی بیٹی استعمال کر لے۔۔ ۔۔‘‘میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا تھا۔

’’کیوں۔۔۔۔؟‘‘

’’ کیونکہ اس کے پاس فون نہیں ہے۔۔۔‘‘میں نے آہستہ سے کہا تھا۔

’’تو کیا میں اُسے آپ کا پرانا فون دے دوں۔۔۔کیا بھابھی !آپ نے تو ہمیں بھنگار والاسمجھ لیا ہے۔۔۔‘‘

میں وہاں سے ایسی شرمندہ ہو کر اٹھی تھی کہ آج تک پڑوسن سے نظر نہیں ملا پا رہی ہوں۔وہ دن اور آج کا دن ہے۔۔۔میں نے کسی کو بھی یہ پیشکش دوبارہ نہیں کی۔

اس کچرے کو الماری میں سجا کر رکھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔میری دقت یہ ہے کہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ای- ویسٹ ایسے ہی کہیں پھینک نہیں سکتی۔کیونکہ میں بہ خوبی جانتی ہوں کہ انہیں بنانے میں کتنے زہریلے اور خطرناک مادوں کا استعمال کیا گیا ہے۔اس میں پارہMercury ، پولی وینو کلورائیڈ polyvinochloride،سیسہ lead، کرومیم chromium، بیریلیم beryllium، کارڈمیئم cadmium،  گیلیم آرسینائیڈ    gallium arsenide  موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔!

گریٹا تھنبرگ (Greta thunberg) جیسی چھوٹی بچی ماحولیات کو ہو رہے نقصان کے تئیں سنجیدہ ہے۔۔۔لیکن یہ بڑی بڑی کمپنیاں ابھی بھی صرف اور صرف اپنے منافع کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔۔ آخرمارکیٹ میں نیا سامان لانے سےپہلے یہ انتظام اور تیاری کیوں نہیں کی  جاسکتی کہ پرانے سامان کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ ۔؟

کیا ای- ویسٹ بھی عام کچرے کی طرح کسی کباڑی یا بھنگار والے کو دے دیا جائے ۔۔۔۔؟ گلی کوچے میں گھومنے والے کباڑی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان سامانوں میں سونا،چاندی اور تانبہ موجود ہے۔۔۔اور جب وہ ان دھاتوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنے پرانے نسخوں کا استعمال کرتے ہیں۔ تب ان طریقوں کے سبب ہوا میں ہائیڈرو کاربن ( hydrocarbon) اور برومینیٹیڈ ڈائے آکسنس  (brominated dioxins)شامل ہو کر صرف اُن غریبوں کو ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیات کو نقصان پہنچا تے ہیں۔۔

میری مشکل یہی ہے کہ میں جانتی ہوں کہ اس کچرے کو ضائع کرنے کے لئے سائنٹیفک طریقے کی ضرورت ہے۔۔اسے نہ تو یہاں وہاں پھینکا جا سکتا ہے اور نہ جلایا جا سکتا ہے۔وہ تو شکر ہے کہ اب دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن حکومت کی جانب سے کچھ پہل کی گئی ہے. شکر ہے  کسی کوخیال آیا تو۔۔ میں نے بھی دیر نہیں کی اور اِن آلات وغیرہ کو دوبارہ کارآمد بنانے والے مستنداور منظور شدہ ادارے اورفرد   (authorised recycler)کا پتہ معلوم کر لیا ۔۔ یہ پتہ مجھے سی ایس سی یعنی comman service centre کے ذریعے معلوم ہو سکا۔اب میں کچھ مطمئن ہوں ۔۔۔۔خیر۔۔,میں تو اب ای- ویسٹ کو صحیح جگہ پہنچا دوں گی۔دوسرے کوئی بھی سامان سوچ سمجھ کر اور ضرورت کے مطابق ہی خریدوں گی۔۔۔ لیکن میرے اکیلے کے یہ کام کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔کیونکہ یہ جان لو کہ اس کچرے کے مضر اثرات ہوا،پانی اور  مٹی کے ذریعےآپ کی غذا کی پلیٹ تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔اس لیے جب بھی کوئی الیکٹرونک سامان خریدنا ہو تو سمجھداری کا مظاہرہ کریں۔جتنی ضرورت اتنی خریداری۔ ۔۔۔!

Wednesday, July 14, 2021

Story Series - 4 ' Qurbani' by Raj Mohammed Afridi

 

کہانی نمبر 4


  قربانی


کتاب : سورج کی سیر 

مصنف : راج محمد آفریدی

پشاور پاکستان




جنگل کے ایک سکول میں کلاس جاری تھی ۔خرگوش ماسٹر صاحب نے عینک درست کرتے ہوئے اپنا پڑھاناجاری رکھا۔

 "ماں باپ اولاد کی ترقی اور روشن کل کی خاطر اپنی ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہتےہیں۔ وہ اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے اپنا سب کچھ ان پر لگا دیتے ہیں۔ وہ اپنی خوشیاں قربان کرکے اولاد کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اپنے ماں باپ کا کہنا ماننا چاہیے۔ وہ جس کام کا حکم دیں فوراً اس پر عمل کرناچاہیے اور جس کام سے تمہیں روکیں تو اسے کبھی بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اسی میں آپ سب کی بھلائی ہے۔" اس کے ساتھ انہوں نے اپنی کلاس ختم کرکے شاگردوں کو آرام کرنے کو کہا۔

 سارے بچے بریک کا سن کر کینٹین کی جانب دوڑے ۔ وہ سب مزے مزے کی چیزیں کھانے لگے مگر ٹنکو ٹائیگر افسردہ حالت میں ایک کونے میں بیٹھا رہا کیونکہ آج صبح ہی اسے ماں نے بری صحبت  والے دوستوں سے دوستی کرنے سے منع کیا تھا اور اسےبہت ڈانٹا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ناشتہ کیے بغیر سکول آیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ آج وہ گھر نہیں جائے گا اور شام تک دوستوں کے ساتھ ہی رہے گا۔ پھر اس کے کانوں میں استاد خرگوش کے الفاظ گونجے، "ماں باپ کا کہا ماننا چاہیے۔" مگر اگلے ہی لمحہ اسے اپنی ماں کا سخت لہجہ یاد آیا ۔ وہ ناگواری کے عالم میں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ایک دوست کے گھر کی جانب چل نکلا۔ٹنکو ٹائیگر نے جاتے جاتے سوچا کہ استاد نے ایسے ہی کہا کہ والدین بچوں کی خاطر ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں۔ میری ماں تو مجھے ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہیں۔

 ناشتہ اور سکول میں کچھ نہ کھانے کی وجہ سے ٹنکو ٹائیگر کو کافی بھوک لگی تھی۔ اتفاقاً راستے میں اسے ہرن کا بچہ نظر آیا جو نہر کنارے پانی پی رہا تھا۔ ساتھ میں اس کی ماں بھی پانی پی رہی تھی۔ ٹنکو ٹائیگر کو ایک دوست کی بات یاد آگئی۔ اس نے کہا تھا کہ "جو مزا ہرن کے کھانے میں ہے ، وہ کسی دوسرے جانور میں نہیں۔" چونکہ بھوک کی شدت سے ٹنکو ٹائیگر کی حالت خراب ہو رہی تھی لہٰذا اس نے ہرن کے بچے کو کھانے کا ارادہ کیا۔

 ہرنی ٹنکو کے ارادے کو بھانپ کر سامنے آئی اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگنے لگی۔ ٹنکو نے انکار کرتے ہوئے کہا " مجھے صبح سے سخت بھوک لگی ہے۔ میں اسی سے اپنی بھوک مٹاؤں گا، وہ بھی اسی وقت۔" یہ سن کر ہرنی کافی خوفزدہ ہوکر اصرار کرنے لگی مگر ٹنکو نہ مانا ۔ آخر کار ہرنی نے اپنی گردن آگے کرکے ٹنکو سے کہا "میرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے آرام سے اپنی بھوک مٹاؤ مگر میرے بچے کو بخش دو کیونکہ اس نے ابھی تک کچھ نہیں دیکھا ہے ، اسے دنیا میں آئے چند ہی مہینے ہوئے ہیں۔ البتہ میں بہت جی ہوں۔ مجھے کھا لو اور میرے بچے کو چھوڑ دو۔" 

یہ سن کر ٹنکو اپنی جگہ ساکت رہ گیا ۔ اسے پھر استاد خرگوش کی بات یاد آئی کہ "والدین اپنا سب کچھ بچوں پر قربان کردیتے ہیں۔" اس کے ساتھ ہی ٹنکو نے ہرنی سے معافی مانگی اور دوڑتے ہوئے اگلے ہی لمحے اپنے گھر پہنچ گیا۔

 گھر میں ماں نے اس کے لیے مزے مزے کی چیزیں تیار کی تھیں۔ ٹنکو اسی وقت ماں کے قدموں میں گر کر گڑگڑاتے ہوئے معافی مانگنے لگا۔"ماں ! مجھے معاف کرو، میں نے آپ کا بہت دل دکھایا ہے۔ آج سے میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔ میں ان سارے دوستوں سے تعلق ختم کروں گا جن سے دور رہنے کا آپ نے حکم دیا تھا۔"

 وہ زارو قطار رو رہا تھا۔  ماں نے اپنے بچے کو  اٹھا کر گلے لگا یا ، اس کے آنسو صاف کیے اور پھر خوب پیار کیا۔اس کے بعد ماں نے ٹنکو ٹائیگر کوکھانے کی میز پر بٹھاتے ہوئے کہا ، "کھانا کھا لے میرے لعل ! آج صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اور سکول جاتے ہوئے جیب خرچ بھی بھول گیا تھا۔" ماں اسے خود نوالہ بنا کر کھلانے لگی تو ٹنکو کی آنکھوں میں پھرآنسو تیرنے لگے مگر اس بار یہ خوشی کے آنسو تھے۔

Tuesday, July 13, 2021

'Badalte Mausam' by Syd Asad Tabish

انشائیہ 

بدلتے موسم



سید اسد تابش

بارسی ٹاکلی، مہاراشٹر



سال میں تین موسم ہوتے ہیں حالانکہ پت جھڑ ساون، بنسنت بہارکی ترتیب پر سوچیں تو چار موسموں کے بعد پانچواں موسم پیار کا بھی ہوتا ہے. ہمیں موسموں کا تغیر و تبدل بھلا لگتا ہے. جبکہ دنیا میں حکومتیں بدلتی ہیں، حالات بدلتے ہیں، نیتیں بدلتی ہیں، تیکنالوجی بدلتی ہے، فیشن بدلتے اور اقدار بھی بدلتی ہیں. ہمارے کرم فرما انیس صاحب کو مختلف مقامات کی مشہور الوان نعمت کا ذائقہ بہت اچھا لگتا ہے. گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، جہاں جو چیز ملتی ہے طبعیت سیر ہونے تک کھاتے ہیں. ہم جب بھی موسم کی تبدلی سے انھیں آگاہ کرتے ہیں ہماری کم ذائقی پر دانت نکال کر ہنسنے لگتے ہیں. کہتے.... "بھائی دنیا میں اتنی چیزیں ہیں مزے کی... ایک آپ ہیں کہ موسموں، صبح و شام کے نظاروں اور تاروں بھری رات سے ہی لطف اندوز ہوتے رہتے ہو. آج تک نہ انکی بات ہماری سمجھ میں آئی نہ ہم اپنا سا شوق ان میں پیدا کر پائے. اب سنیے ہم ان تینوں موسموں میں کیسے کیسے تجربات سے گذر چکے ہیں


  ایک مرتبہ ہمارے ایک شناسا نے  شکایتاً  کہا "یار ملتے نہیں ہو آجکل"......؟ 

 ہمیں جلد کوئی معقول بہانہ سوجھا نہیں ، سنبھلتے ہوئے کہا  "سردی پڑ رہی ہے نا.....؟، دن چھوٹے ہوگئے ہیں.."    


کہنے لگے" زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں...... بالکل نئی اور  منفرد وجہ ہے........ ، دوستوں سے نہیں ملنے کا نیا بہانا دیا تم نے......... "


  ایک رشتہ دار بزرگوار  مئی کی گرم دوپہر میں ہمیں بینک میں ملے. ویسے تو وہ بات بات پر چڑھنے کے عادی تھے مگر ہماری طرف محبت آمیز چہرے سے آتے ہوئے نظر آئے . انہیں بینک کا کوئی فارم پر کرنا تھا. اسلیے خوشامد آمیز محبت سے کہنے لگے. "برخوردار! آج کل ملاقات نہیں کرتے،؟ بھائی کہاں مصروف رہتے ہو...؟ ؟


ہم نے مسکراتے ہوئے دیکھا، اپنی نظریں اور پین کو فارم پر مرکوز کرتے ہوئے آہستہ سے کہا" گرمی کے دن چل رہے ہیں نا؟..... پھر..؟ گرمی کھاتی ہے کیا تم کو.....؟ ہم نے کہا "نہیں دراصل سورج چاچو مجھ پر کچھ زیادہ چڑچڑکرتے ہیں، اسی لئے باہر نہیں نکلتا...." 

اس سے پہلے کہ بزرگوار اپنی کھاجانے والی لال لال آنکھوں سے سرتاپا غصے کی تصویر بنتے، ہم نے فارم ان کے ہاتھ، تھمایا اور وہاں سے کھسک لیے


  بارش کے موسم میں ہم گھومنے پھرنے کے شوقین ثابت ہوئے ہیں. کسی سے بے وقت مڈ بھیڑ کا خطرہ جو نہیں رہتا. بارش میں چھتری لیے باہر نکلنے کی ایک وجہ اور بھی ہے ایک مرتبہ ایامِ نوجوانی میں ایک بارات کے ساتھ، شادی میں گئے تھے. بارات کی ذمہ داری، یعنی مرد و خواتین کو گاڑیوں میں بٹھانا، جائے نوشہ پر کھانا پانی اور بچھایت کا انتظام کرنا جیسے امور ہمارے دور کے دو مامووں کے ذمہ تھے . بارات میں ہم ان کی شان دیکھتے جاتے اور رشک کرتے جاتے تھے. وہ بھی ہماری کیفیت کو جان گئے تھے اس لیے ہمیں اِدھر سے اٹھا کر ادھر بٹھا دیتے. ہم ان کا قہر کم کرنے کے لیے ان سے کوئی بات کرتے تو کہتے. آج موسم بہت دلکش ہے....؟؟ ہم نے جب بھی بات کی. دیکھو کیا اچھا موسم ہے.. کہہ کر *موسم پر ہی کرتے رہے تا دیر تبصرہ ہم* مصرع کی تصریح و تشریح فرماتے... ہم سوچتے شاید کبھی تو یہ کوئی ایسے موضوع میں بھی ہمیں شامل کرتے کہ *دل جس سے دکھے ایسی کوئی بات نہ آئی* مگر ایسا کوئی موقع ان مامو ؤں نے ہمیں نہیں دیا. بارات گاڑیوں میں جارہی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے بادل گھر آئے. گاڑیاں روک دی گئیں. کسی دیہات کی اسکول میں باراتیوں کو اتارا گیا. اب دیکھیے تو  ہمارے یہ رہنما غائب . ادھر ادھر ڈھونڈا. پتہ چلا کسی کمرے میں کھڑکی دروازے بند کرکے دونوں بیڑیاں پیتے بیٹھے ہیں. کسی نے بتایا بارش اور بجلیوں کی کڑک سے ڈرتے ہیں. ہم، انھیں اس طرح گھبرایا ہوا دیکھنا چاہتے تھے. جب اس کمرے میں گئے تو دیکھا کانوں پر رومال باندھے، دیوار سے پیٹھ ٹیکے اکڑوو بیٹھے ہیں. ہولے ہولے باتیں کر رہے ہیں کہ کسی پر ڈر ظاہر نہ ہو. ہم نے حالات کا جائزہ لیا اور دھیمے لہجے میں کہا "کتنا اچھا موسم تھا. یہ بے وقت بارش نے سارا مزہ کرکرا کر دیا. وہ ہمیں ٹٹول رہے تھے کہ کہیں ہم ان کا مذاق تو نہیں اڑا رہے ہیں. کہا" بابا ،یہ بجلیاں اور بارش مذاق نہیں ہے.عمر میں بڑے تائرے بھائی نے اپنے بغل میں بیٹھے دوسرے بھائی سے مخاطب ہو کر کہا "کیوں ہو یونس میاں دو سال پہلے کیسے بجلیاں چمکے تھے اور میں نے تم سے ہی چوک میں کہا تھا، گرتی کہیں نہ کہیں اور تھوڑی ہی دیر میں خبر آئی کہ وہ پٹیل کا پوٹّا (بیٹا) بجلی گرنے سے مر گیا.. یہ لحاظ نہیں کرتے بابا..!!! تو جا یہاں سے ہم کو بیٹھنے دے.. ہم دل ہی دل مسکراتے ہوئے وہاں چل پڑے..


اس واقعہ کے بعد ہم نے خود اپنے مامووں سے ہمت والا پایا، اسلیے ہر بارش میں پابندی سے باہر نکلتے ہیں. کیونکہ دوست اور شناسا شرارت نہیں کرسکتے، ہمارا مذاق نہیں بنا سکتے اور نہ ہی چاے پان کے بڑے بڑے آرڈر کر کے ہمیں پھنسا سکتے ہیں. شرارتی طبیعتیں برسات کی آمد سے سرد پڑ جاتی ہیں. 


Sunday, July 11, 2021

'Ehsaas' By Mohsin Sahil



ایک سچی کہانی

احساس


محسن ساحل


mohsinsahiluk@gmail.com 





محسن ساحل


ریحان ایک سیدھاسادہ لڑکا تھا۔
وہ ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اس کے والد نعمان صدیقی ایک بنیک میں اکاؤنٹ افسر تھے۔ ایمانداری، شرافت، خودداری اور کڑی محنت کے سبب محلے اور دفتر کے ہی نہیں بلکہ شہر کے لوگ بھی انھیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اکثر ان کا تبادلہ ایک شہر سے دوسرے شہر ہوتا رہتا تھا۔ وہ بغیر کسی شکایت کے تبادلہ نامہ قبول کرتے اور نئی جگہ کام کرنے کے لیے راضی ہوجاتے۔دوران ملازمت شہر کے کچھ امیر لوگ اپنے غیر قانونی کاموں کی منظوری کے لیے انھیں رشوت کا لالچ بھی دیتے لیکن وہ کسی صورت اپنی ایمانداری سے باز نہ آتے۔انھیں حرام کے ایک لقمے سے غربت کی فاقہ کشی بہتر معلوم ہوتی.

دوست تو دوست دشمن بھی ان کی ایمانداری کے قائل تھے ۔ وہ ہر شئے کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے، چھوٹی سے چھوٹی بات پر دھیان دیتے تب کہیں جاکر اس سے متعلق اپنی رائے قائم کرتے۔

ریحان حالانکہ ابھی بچہ ہی تھا لیکن اس میں اپنے والد کی کئی خصوصیات ظاہر ہونے لگی تھیں۔وہ جماعت میں کسی سے نہ جھگڑا کرتا اور نہ ہی کسی سے کوئی چیز مانگتا۔استاد کی عزت کرتا اور شرارتی لڑکوں سے دور رہتا۔ پڑھائی،کھیل اور فنون لطیفہ میں اسے خاصی دلچسپی تھی۔البتہ بچپن کے تقاضے کے تحت وہ کبھی کبھار مستی بھی کرلیا کرتا تھا۔اس کے باوجوداپنے رکھ رکھاؤ سے کافی سمجھدار معلوم ہوتا تھا۔

ہم جماعت ساتھیوں کے علاوہ بڑی جماعت کے کچھ لڑ کے بھی اس کے دوست تھے۔وہ اکثر اسے شرارت کرنے پر اکساتے تھے۔کبھی راہ چلتے شخص کو چھیڑنا،کبھی جماعت کے دوسرے بچوں کو ستانا،استاد کی غیر حاضری میں تختہ سیاہ پر کارٹون بنانا،  اسکول آتے جاتے راستے تبدیل کرنا،  درختوں اور چبوتروں وغیرہ پر چڑھنا ان بچوں کی عادتوں میں شمار تھا۔ یہ لڑکے شرارتی تو تھے لیکن ان کا تعلق شریف خاندانوں سے تھا اس لیے نعمان صاحب کو ریحان اور ان بچوں کی دوستی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔البتہ وہ ریحان کو ایسی شرارتیں نہ کرنے کی تاکید کرتے تھے جن سے کسی کو نقصان پہنچے یا تکلیف ہو۔ ریحان اکثراوقات شرارتوں میں اپنے دوستوں کا ساتھ نہ دیتا۔

ایک دن اسکول کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گھر لوٹ رہا تھا۔ راستے میں بیری کا پیڑ دیکھ کر لڑکے دوڑتے ہوئے پیڑ کی طرف لپکے اور کسی مقابلے کے انداز میں پیڑ پر چڑھنے لگے۔ریحان بھی جلدی جلدی چلتے ہوئے  پیڑ کے پاس پہنچا اور ان کی حرکتوں پر خوش ہوکر شور مچانے لگا۔ سارے بچے پیڑ کو ہلاتے اور گرے ہوئے بیر چنتے۔ریحان نے بھی بہت سارے بیر چنے۔ پھر اس نے خود اپنی محنت سے درخت پر پتھر مارکر بیر توڑنے کی کوشش کی۔ پیڑ کی جانب کئی پتھر اچھالے. ایک دو پتھر نشانے پر لگے جس کے نتیجے میں کچھ بیر نیچے گرے۔لیکن زیادہ تر وار بیکار ثابت ہوئے۔

بیر کے اسی درخت پر چڑیا کاایک گھونسلہ تھا۔اچا نک ریحان کی نظر چڑیا کے گھونسلے پر پڑی۔ اسے شرارت سوجھی اور اس نے ایک پتھر گونسلے کی طرف دے مارا۔اس کا نشانہ پکا نہیں تھا البتہ اس مرتبہ نہ جانے کیسے، ایک پتھر سیدھا چڑیا گھونسلے پر جالگا۔ گھونسلے کے اندر کچھ انڈے بھی تھے جن میں سے بچے نکلنے والے تھے۔تین چار دن پہلے ہی کسی انڈے سے ایک خوبصورت بچے نے جنم لیا تھا۔وہ بہت چنچل تھا۔ہمیشہ چوں چوں کی رٹ لگائے رہتا۔چڑیا اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی۔اسے دوسرے انڈوں سے بھی بچے نکلنے کا انتظار تھا۔وہ اپنے بچے کے ساتھ ساتھ انڈوں کی بھی دیکھ بھال کرتی۔ادھر ادھر سے دانا لاکربچے کے منہ میں ڈال دیتی۔پھرکچھ دیر دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔گویا دونوں آپس میں باتیں کر رہے ہوں۔کبھی کبھی وہ بچے کوساتھ لے کر اڑجاتی۔کسی جگہ پہلے چڑیاخود چونچ مارتی پھر اسی جگہ بچہ بھی چونچ مارتا۔ اس طرح وہ اپنے بچے کو دانا چگنا سکھارہی تھی۔آج چڑیا دانا لانے کے لیے بہت دور نکل گئی تھی۔بچہ گھونسلے میں اپنی ماں کانتظار کر رہا تھا۔

ایک لڑکے نے جونہی ریحان کو نشانہ لگاتے ہوئےدیکھا، وہ زور زور سے ریحان کا نام لے کر چلانے لگا، جیسے ریحان نے کرکٹ میچ میں چھکاّ لگادیا ہو۔پھر وہ پرجوش انداز میں سب کو بتانے لگا کہ ریحان کا نشانہ کتنا پکا ہے جو اس نے ایک ہی وار میں چڑیا کا گھونسلہ تباہ کردیا۔ لیکن ریحان کی نظر اس پھڑ پھڑاتے ہوئے چڑیا کے بچے پر تھی جو اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ریحان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اس بچے کی جان بچائی جائے۔ چڑیا کا بچہ تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ادھر لڑکے ریحان کو سچے نشانے کے لیے شاباشی دینے لگے۔دوسرے لڑکوں سے بے پروا ریحان سہما سہما سابالکل خاموش ہوگیا۔اسے اپنی حرکت پر بہت افسوس ہورہا تھا۔ گویا اس نے کسی انسان کا قتل کردیا ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔لڑکوں نے اسے سمجھایا کہ اتنی چھوٹی سی بات پر اس طرح افسوس کرنا ٹھیک نہیں۔کھیل، شرارت، مستی میں ایسا تو ہوتا رہتا ہے. وہ اسے گھر جاتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کے لیے بلانے لگے۔ مگر ریحان تھا کہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ خود کو سب سے برا انسان محسوس کررہا تھا.  لیکن اب پچھتانے کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا تھا. حالانکہ اس نے جان بوجھ کر چڑیا کے بچے کو نہیں مارا تھا۔یہ محض ایک اتفاق تھا، ایک انہونی تھی ۔ریحان چڑیا کے مردہ بچے کے پاس بیٹھ کر اسے غور سے الٹ پلٹ کر، ہلاکر دیکھنے لگا۔ چڑیا کا بچہ مرچکا تھا. ریحان کی آنکھیں چھلک اٹھیں اور وہ بے چین ہوکر اپنے آپ سے کہنے لگا۔

”اس بچے کا کیا قصور تھا جو میں نے اس کی جان لے لی؟اس کی ماں کوکتنا دکھ ہوگا جب وہ اپنے بچے کو اس حالت میں پائے گی! مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔میں اس کا قاتل ہوں۔اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے۔اب میں کیا کروں؟“

  گھر پہنچنے میں کافی دیر ہوجانے کی وجہ سے ریحان کی والدہ بہت فکرمند تھیں. ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ریحان اسکول سے گھر پہنچنے میں دیر کرے. ضرور کوئی سنجیدہ بات ہوگی. وہ ریحان کے والد سے کہنے لگیں،

” معلوم نہیں ریحان کہاں رہ گیا ہے؟ معاملہ کیا ہے آپ ذرا معلوم کیجیے ناں۔“

والد صاحب نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا، ”کہاں جاسکتا ہے بھلا۔کسی دوست کے ساتھ کھیل رہا ہوگا۔کچھ ہی دیر میں آجائے گا تم فکر نہ کرو۔“

 ریحان کو اپنے والدین کی فکر کا بھی اندازہ تھا اس لیے اس نے چڑیا کے بچے کو چھوڑ کرگھر کا راستہ لیا۔وہ بوجھل قدموں سے چلنے لگا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، امی نے اسے دیکھتے ہی گلے لگا لیا. پھر وہ اس سے دیر سے گھر آنے کی وجہ پوچھنے لگیں۔

اس کے والد ہلکی سی ڈانٹ کے ساتھ کہنے لگے، ”ریحان!تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ اسکول سے سیدھے گھر آیا کرو۔ادھر ادھر پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ورنہ بہت پٹائی ہوگی۔“

ریحان کے چہرے پر فکرمندی اور تشویش دیکھ کر اس کی امّی نے اشارے سے ابّا کو خاموش رہنے کو کہا۔ابّا چپ ہوگئے۔امّی نے پھر پوچھا، 

 ”بیٹا! بتاؤتمہیں گھر آنے میں اتنی دیر کیوں ہوئی؟ کسی سے جھگڑا ہوگیا تھا؟ یا دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے؟ کسی نے تمہیں مارا تو نہیں ناں؟“

امّی کا یہ جملہ سن کرریحان اپنے آپ کو روک نہیں پایا اور زور زور سے رونے لگا۔ امّی نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔پانی پلایا۔اپنے آنچل سے اس کے آنسو پونچھے۔سر پر ہاتھ پھیرااورجب وہ چپ ہوگیا تو امّی نے پھر پوچھا۔

”بیٹا ریحان! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ میرا پیارا بیٹا۔اپنی امّی کو بھی نہیں بتاؤ گے؟“

ریحان نے بھاری دل سے پورا ماجرہ امی کو بتایا۔امّی کو ریحان کی اس حرکت پر بہت افسوس ہوا۔آخر وہ بھی تو ایک ماں تھیں ۔وہ چڑیا کے دکھ کو اچھی طرح سمجھ سکتی تھیں۔لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ یہ صرف ایک اتفاق تھا۔ اس کی امی نے اسے سلیقے سے سمجھادیا اور تاکید کی کہ آئندہ ایسا نہ کرے. 

ادھر چڑیا شام کو جب اپنے گھونسلے کی طرف لوٹی تو دیکھا کہ گھونسلہ پوری طرح تہس نہس ہو چکاتھا۔سارے انڈے ٹوٹ گئے تھے۔چڑیابے سکون ہوکر اپنے بچے کو تلاش کرنے لگی۔اچانک اس کی نظر بچے کی لاش پر پڑی۔وہ فوراً اس کے پاس جا کربیٹھ گئی۔اس نے بچے کو ادھر ادھر ہلایا۔چونچ سے اٹھانے کی کوشش کی۔لیکن بچہ بے جان تھا۔


چڑیا شور مچانے لگی۔وہ تھوڑی دیر ادھر ادھر پھدکتی پھری. چاروں طرف نظریں دوڑاتی اور واپس بچے کے پاس آکر اسے جگانے کی کوشش کرتی۔اسے امید تھی کہ بچہ اٹھ جائے گا اور پھر وہ اسے لے کر کہیں دور اڑ جائے گی۔لیکن یہ ممکن نہ تھا۔

تین چار دن گزر گئے۔ چڑیا بچے کی لاش کے آس پاس ہی رہی۔ بچے کا مردہ جسم سوکھ چکا تھا۔اس کے باوجود بھی چڑیا نے اپنے بچے کی لاش کو دوسرے جانوروں سے محفوظ رکھا۔اس دوران جب جب بھی ریحان وہاں جاکر دیکھتا تو اسے اپنا گناہ اور بڑا معلوم ہوتا۔دو تین دنوں تک ریحان مسلسل اس جگہ جا کر چڑیا اور اس کے بچے کو دیکھتا رہا. اسے اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ چڑیا کا باربار آسمان کی طرف دیکھنا ایک اشارہ ہے گویا چڑیاخداسے سوال کر رہی ہو،

” کیا تجھے میرے درد کا احساس نہیں؟ “


...........................