Wednesday, July 14, 2021

Story Series - 4 ' Qurbani' by Raj Mohammed Afridi

 

کہانی نمبر 4


  قربانی


کتاب : سورج کی سیر 

مصنف : راج محمد آفریدی

پشاور پاکستان




جنگل کے ایک سکول میں کلاس جاری تھی ۔خرگوش ماسٹر صاحب نے عینک درست کرتے ہوئے اپنا پڑھاناجاری رکھا۔

 "ماں باپ اولاد کی ترقی اور روشن کل کی خاطر اپنی ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہتےہیں۔ وہ اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے اپنا سب کچھ ان پر لگا دیتے ہیں۔ وہ اپنی خوشیاں قربان کرکے اولاد کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اپنے ماں باپ کا کہنا ماننا چاہیے۔ وہ جس کام کا حکم دیں فوراً اس پر عمل کرناچاہیے اور جس کام سے تمہیں روکیں تو اسے کبھی بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اسی میں آپ سب کی بھلائی ہے۔" اس کے ساتھ انہوں نے اپنی کلاس ختم کرکے شاگردوں کو آرام کرنے کو کہا۔

 سارے بچے بریک کا سن کر کینٹین کی جانب دوڑے ۔ وہ سب مزے مزے کی چیزیں کھانے لگے مگر ٹنکو ٹائیگر افسردہ حالت میں ایک کونے میں بیٹھا رہا کیونکہ آج صبح ہی اسے ماں نے بری صحبت  والے دوستوں سے دوستی کرنے سے منع کیا تھا اور اسےبہت ڈانٹا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ناشتہ کیے بغیر سکول آیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ آج وہ گھر نہیں جائے گا اور شام تک دوستوں کے ساتھ ہی رہے گا۔ پھر اس کے کانوں میں استاد خرگوش کے الفاظ گونجے، "ماں باپ کا کہا ماننا چاہیے۔" مگر اگلے ہی لمحہ اسے اپنی ماں کا سخت لہجہ یاد آیا ۔ وہ ناگواری کے عالم میں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ایک دوست کے گھر کی جانب چل نکلا۔ٹنکو ٹائیگر نے جاتے جاتے سوچا کہ استاد نے ایسے ہی کہا کہ والدین بچوں کی خاطر ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں۔ میری ماں تو مجھے ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہیں۔

 ناشتہ اور سکول میں کچھ نہ کھانے کی وجہ سے ٹنکو ٹائیگر کو کافی بھوک لگی تھی۔ اتفاقاً راستے میں اسے ہرن کا بچہ نظر آیا جو نہر کنارے پانی پی رہا تھا۔ ساتھ میں اس کی ماں بھی پانی پی رہی تھی۔ ٹنکو ٹائیگر کو ایک دوست کی بات یاد آگئی۔ اس نے کہا تھا کہ "جو مزا ہرن کے کھانے میں ہے ، وہ کسی دوسرے جانور میں نہیں۔" چونکہ بھوک کی شدت سے ٹنکو ٹائیگر کی حالت خراب ہو رہی تھی لہٰذا اس نے ہرن کے بچے کو کھانے کا ارادہ کیا۔

 ہرنی ٹنکو کے ارادے کو بھانپ کر سامنے آئی اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگنے لگی۔ ٹنکو نے انکار کرتے ہوئے کہا " مجھے صبح سے سخت بھوک لگی ہے۔ میں اسی سے اپنی بھوک مٹاؤں گا، وہ بھی اسی وقت۔" یہ سن کر ہرنی کافی خوفزدہ ہوکر اصرار کرنے لگی مگر ٹنکو نہ مانا ۔ آخر کار ہرنی نے اپنی گردن آگے کرکے ٹنکو سے کہا "میرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے آرام سے اپنی بھوک مٹاؤ مگر میرے بچے کو بخش دو کیونکہ اس نے ابھی تک کچھ نہیں دیکھا ہے ، اسے دنیا میں آئے چند ہی مہینے ہوئے ہیں۔ البتہ میں بہت جی ہوں۔ مجھے کھا لو اور میرے بچے کو چھوڑ دو۔" 

یہ سن کر ٹنکو اپنی جگہ ساکت رہ گیا ۔ اسے پھر استاد خرگوش کی بات یاد آئی کہ "والدین اپنا سب کچھ بچوں پر قربان کردیتے ہیں۔" اس کے ساتھ ہی ٹنکو نے ہرنی سے معافی مانگی اور دوڑتے ہوئے اگلے ہی لمحے اپنے گھر پہنچ گیا۔

 گھر میں ماں نے اس کے لیے مزے مزے کی چیزیں تیار کی تھیں۔ ٹنکو اسی وقت ماں کے قدموں میں گر کر گڑگڑاتے ہوئے معافی مانگنے لگا۔"ماں ! مجھے معاف کرو، میں نے آپ کا بہت دل دکھایا ہے۔ آج سے میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔ میں ان سارے دوستوں سے تعلق ختم کروں گا جن سے دور رہنے کا آپ نے حکم دیا تھا۔"

 وہ زارو قطار رو رہا تھا۔  ماں نے اپنے بچے کو  اٹھا کر گلے لگا یا ، اس کے آنسو صاف کیے اور پھر خوب پیار کیا۔اس کے بعد ماں نے ٹنکو ٹائیگر کوکھانے کی میز پر بٹھاتے ہوئے کہا ، "کھانا کھا لے میرے لعل ! آج صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اور سکول جاتے ہوئے جیب خرچ بھی بھول گیا تھا۔" ماں اسے خود نوالہ بنا کر کھلانے لگی تو ٹنکو کی آنکھوں میں پھرآنسو تیرنے لگے مگر اس بار یہ خوشی کے آنسو تھے۔

No comments:

Post a Comment