کہانی نمبر:5
کتاب: سورج کی سیر
سورج کی سیر
مصنف: راج محمد آفریدی
پشاور پاکستان
عاقل اپنی جماعت کا ذہین ترین لڑکا تھا ۔اسے فزکس سے بڑی دل چسپی تھی۔ وہ روز نت نئے تجربات کرکے اپنے کلاس فیلو اور اساتذہ کو حیران کرتا۔ اساتذہ بھی مختلف حوالوں سے اسے سپورٹ کرتے ۔عاقل کے ابوجو خود بھی سائنس دان تھے اور اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز تھے، کو اپنے بیٹے کی قابلیت کا اندازہ تھا اس لیے انہوں نے اس کو ذاتی تجربات کے لیے گھر ہی میں ایک لیبارٹری بنا کر دی تھی۔ جس کی مدد سے وہ فرصت کے لمحات میں اپنی مرضی سے تجربات کرتا رہتا۔
عاقل نے اسی لیبارٹری میں ماں جی کی سہولت کے لیے سب سے پہلے ایک چھوٹا سا روبوٹ بنایا جو گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتا۔ پھر اپنے محلے کے لیے شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے کم قیمت میں مشینری بنائی ۔ اس نے مسلسل تجربوں سے دنیا میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے دن رات ایک کیے تھے۔ مختلف چیزیں بناتے بناتے ایک دن وہ جدید ترین اڑن طشتری بنانے میں کامیاب ہوا۔
عاقل نے ایک پروگرام کرکے محلے میں اڑن طشتری کی نمائش کی ۔اس کے بنانے پر سب نے اسےداد دی۔ عاقل کا دعویٰ تھا کہ اس اڑن طشتری کے باڈی پر گرم و سرد درجہ حرارت کا کوئی اثر نہیں پڑتا چاہے ٹمپریچر کچھ بھی ہو ۔ انتہائی کم ایندھن کے خرچ اور تیز رفتاری سے اپنا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھنا اس اڑن طشتری کی دوسری خوبی تھی۔یہ خود کار پائلٹ کے ذریعے ہزاروں میل کا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔اس کے ساتھ اس میں کھانا بنانے کے لیے کچن اور سونے کا ایک کمرہ بھی تھا۔
ایک دن عاقل نےامی ابو سے اجازت لے کر اڑن طشتری کی مدد سے سورج کی سیر کا فیصلہ کیا۔اس کے ابو نےاپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے حکومت سے اجازت لے کر فوراً عاقل کو سورج کی سیر کرنے کی اجازت دے دی۔ انہیں اپنے بیٹے پر مکمل اعتماد تھا۔
اگلے ہی روز عاقل نے ضروری سامان لے کر محلے والوں سے رخصت لی۔ سب نے اسے دعاؤں کے ساتھ خلا کی جانب بھیج کیا۔ اسی طرح اس نے خوشی خوشی اپنا سفر شروع کیا۔ وہ تیز ترین اڑن طشتری کی مدد سے ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں سورج کی حدود میں داخل ہوا۔ وہ گھر والوں سے مسلسل رابطے میں تھا۔سورج کے قریب پہنچ کر اڑن طشتری کی سوئی نے کئی ہزار ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت دکھائی۔
عاقل کو احساس تھا کہ اس ٹمپریچر میں وہ باہر نکلتے ہی چند سیکنڈز میں پگھل جائے گا لہٰذا اس نے اندر ہی سے سورج کی سیر پر اکتفا کیا۔ جب وہ سورج کے مزید قریب پہنچا تو اسے قدرت کی اس عجیب تخلیق دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔اس نے انتہائی قریب سے سورج کی تصاویر گھر بھیجیں۔گھر والوں نے مقامی اخبارات میں وہ تصاویر شائع کیں جس سے عاقل کی شہرت میں اضافہ ہوا۔
عاقل نے دیکھا کہ سورج کے بے شمار دروازے ہیں۔ ہر دروازے پرمختلف بورڈ آویزاں ہیں۔ ایک بورڈ پر لکھا تھا "سادہ شعائیں" ، دوسرے دروازے پر لگے بورڈ پر یہ تحریر تھی "الٹرا وائلٹ شعاعیں"، اسی طرح "ایکس ریز ، گاما ریز و دیگر بورڈ آویزاں تھے۔" مختلف رنگوں کے دروازوں پر احمد کی نظر پڑی تو اس کا دل باغ باغ ہوا ۔ اس میں سرخ، نیلے، پیلے، نارنجی رنگوں کے آبشار کائنات کی طرف بہے جارہے تھے۔"یعنی یہاں سے یہ شعائیں اور رنگ نکل کر پوری کائنات میں پھیلتے ہیں اور یہی سے قوس قزح بنتی ہے۔"،اس نے سوچا۔
آگے چل کر اس نے دیکھا کہ ایک دروازے سے آگ کے گولے برس رہے تھے۔ ایک دروازے پر لکھا تھا "سیاحوں کا دروازہ"۔ عاقل اسی دروازے کا انتخاب کرکے سورج کے اندر چلا گیا۔ وہ وہاں مختلف جگہوں کے نظارے کرنے میں مصروف تھا کہ اسے اڑن طشتری میں کسی خرابی کا احساس ہوا ۔ اسے سخت دھچکا لگا کیونکہ اس کے مطابق اڑن طشتری ہر قسم کے عیوب سے پاک تھی۔ عاقل کے سر پر خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ وقفے وقفے سے اڑن طشتری سے پرزے گرنا شروع ہوئے یہاں تک کہ اس کا مرکزی انجن بھی بند ہوگیا۔عاقل نے سٹیلائٹ کی مدد سے گھر رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔ وہ سخت پریشان تھا کہ اس دوران وہ ہڑبڑا کر خواب سے جاگ اٹھا۔
No comments:
Post a Comment