Wednesday, July 28, 2021

Story Series No 6 'Waqt Ki Razamandi' : Raj Afridi

 


کہانی نمبر 6


 وقت کی رضامندی


کتاب : سورج کی سیر

مصنف: راج محمد آفریدی

پشاور پاکستان




عفان اور اذلان کارٹون دیکھنے میں مصروف  تھے۔ انہوں نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔دادا جی نے کھانے کی میز پر جب دونوں کو نہیں دیکھا تواپنی بہو سے دونوں کے متعلق پوچھا۔" کہاں گئے دونوں لاڈلے؟" بہو نے جواباً کہا، "وہ تو میری بات مانتے ہی نہیں ۔ہمیشہ کبھی موبائل تو کبھی ٹی وی دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ میں نے کئی بار انہیں آواز دی مگر ان کے پاس تو ہمارے لیے وقت ہی نہیں۔میری باتیں ان سنی کرکےاپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔"

دادا جی یہ سن کرتھوڑے افسردہ ہوئے مگر انہوں نے بہو پر کچھ ظاہر نہ کیا۔ وہ فوراًاٹھ کر بچوں کے کمرے چلے گئے۔ بچے  اب بھی کارٹون دیکھنے میں مصروف تھے۔ انہوں نےدادا جی کو دیکھا ہی نہیں جو ان کی چارپائی تک پہنچ چکے تھے۔ دادا جی نے گلا صاف کرتے ہوئے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا۔دونوں نے دادا جی کو دیکھا۔ اذلان نے کارٹون بند کرکے دادا جی کو سلام کیا جس کا انہوں نے پیار سے جواب دیا ۔ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ 

دادا جی نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "سوچا آج میں بھی تم دونوں کے ساتھ یہی سو جاؤں۔" اذلان نے خوش ہوتے ہوئے کہا،"یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے لیکن پہلے کھانا کھانے چلتے ہیں۔ امی انتظار کر رہی ہوں گی۔" دادا جی نے مسکراتے ہوئے کہا،" بیٹھ جاؤ۔ کھانا بعد میں کھا لیں گے۔ پہلی تھوڑی گپ شپ ہوجائے۔" وہ دونوں حیران ہوکر دادا جی کی جانب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا۔"آج بلکہ ابھی میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ سنو گے ؟"

دونوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے دلچسپی کا اظہار کیا تو دادا جی گویا ہوئے۔ "تم دونوں کو پتہ ہے؟ پہلے لوگوں کے پاس گھڑیاں نہیں تھیں، گھر میں سامنے کی دیوار پہ ایک ہی گھڑیال ہوا کرتی تھی۔ گھر کے تمام افراد اسی سے کام چلاتے ، البتہ سب کے پاس  وقت ہوتا تھا، سب ایک دوسرے کو وقت دیتے تھے ، ایک دوسرے کو بغور سنتے تھے ۔ اس کے برعکس آج سب کے پاس گھڑیاں ہیں، دیوار پہ ، کلائی پہ ، موبائل، ٹی وی ہر جگہ انہیں گھڑیاں میسر  ہیں مگر ان کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے وقت نہیں۔" وہ لمبی سانس لیتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے رکے۔

" یہ وقت کہاں چلا گیا دادا جی؟" ننھے عفان نے دادا جی کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔

"ہم سے ہمارا وقت ناراض ہوگیا ہے، اس لیے تو آج کا سال مہینے کے برابر ہوا ہے اور مہینہ ہفتے کے ۔ ہفتہ دنوں میں تبدیل ہوا ہے اور دن سے گھنٹہ بن چکا ہے۔ آج ہم میں سے ہر بندے کو جلدی ہے ، ہر انسان لیٹ ہوچکا ہے، وہ دو کلومیٹر فاصلے طے کرنے کے لیے موٹر سائیکل یا گاڑی کا استعمال کرتا ہے مگر پھر بھی اسے دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ اس سوچ میں مبتلا ہوا ہے کہ دنیا اس سے بہت آگے جاچکی ہے ۔ اسی دوڑ ، اسی مقابلے نے اسے تیز رفتار تو بنا دیا مگر اپنوں سے بہت دور کر گیا۔"

اذلان نے موبائل تکیہ کے نیچے رکھتے ہوئے دادا جی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔ " دادا جی! کیا ہم وقت کو دوبارہ راضی کرسکتے ہیں؟"

دادا جی بچوں کی دل چسپی لینے پر مسکرائے اور کہا کہ"وقت کو راضی کرنے اور اپنانے کے لیے ہمیں خود کو وقت ہی کے سپرد کرنا ہوگا۔ والدین کے ساتھ بیٹھنے سے وقت بہت خوش ہوتا ہے۔ان کے ساتھ کھانا کھانے سے ، ان سے گپ شپ لگانے سے وقت ہم سے راضی ہوکر ہمیں وقت دے گا ۔" بچے بڑے غور سے دادا جی کو سن رہے تھے۔ دادا جی اپنی بات جاری رکھی۔" اس کے ساتھ مطالعہ، کھیل کود، دوستوں سے ملنے اور خاص کر موبائل، ٹیلی ویژن کے لیے حد مقرر کرنا ہوگا۔ تبھی وقت دل سے راضی ہوگا۔"

یہ سن کر بچوں نے دادا جی کو گلے لگایا اور ایک ساتھ گویا ہوئے۔ "آج کے بعد ہم موبائل، ٹیلی ویژن سے زیادہ والدین کو وقت دیں گے ۔ہم ان کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے۔تاکہ وقت ہم سے راضی رہے۔"اس کے بعد وہ تینوں مل کر کھانا کھانے کے لیے آگئے۔

No comments:

Post a Comment