فکر پارہ
جاوید ندیم
اسں نے کہا " علم دو طرح کا ہے
ظاہری و باطینی،
پہلے کا تعلق بصارت سے ہے
دوسرے کا بصیرت سے
بصارت چیزوں کے بیرون کو دیکھتی ہے
بصیرت اندرون کو
پہلا علم لفظ و قلم اور حواس ِ خمسہ سے متعلق ہے
دوسرا تقوی' سے
کہ یہ صور و صوت کا محتاج نہیں ! "
میں نے پوچھا، تقوى' کیا ہے؟
دنیا سے لا تعلقی؟
عبادات و گوشہ نشینی ؟
وہ بولا " نہیں ،
تقوى' تو بازار ِ دنیا میں رہتے ہوئے
منکرات و مناہیّات سے بچنا ہے
کہ یہ دل کو آب دیتا ہے
اور قلب و ذہن کو روشنی
وہ روشنی جو اشیاء کے اندرون
اور جسم سے پرے ماورائے جسم کے
جہان ِ بسیط کو روشن کر دیتی ہے ! "
پھر ہمارے یہ دانشور ؟
یہ ' روشن خیال ' شعراء و ادباء؟
جو تحریر و تقریر میں اعلا اقدار کی بات کرتے ہیں
اور مجلسوں کے بعد شراب و خمر کی محفلیں آراستہ
اور پھر ایک دوسرے کو بے لباس
ان کی رمز آشنائ ؟ بصیرت و آگہی؟
اس نے بلا توقّف کہا " چھلاوا اور سراب ہے !
کہ یہ تالاب میں نظر آنے والے عکس ِ آفتاب کو سورج سمجھ بیٹھے ہیں
یہاں زندگی کی رمز آشنائ ، بصیرت و آگہی
کسی کسبی کی بے عبا دید کے سوا کچھ نہیں
کہ بصارت، بصیرت کو نہیں پہنچ سکتی ! "
جاوید ندیم
No comments:
Post a Comment