کتاب : سورج کی سیر
مصنف: راج محمد آفریدی
کہانی نمبر 3:
اللّٰہ کی مخلوق
چڑیوں کو اطلاع ملی کہ قریبی ہوٹل میں شادی کی تقریب ہے جس کا اہتمام چھت کے اوپر کیا گیا ہے۔ مہمانوں کی آمد سے پہلے چھت پر جاکر مزے مزے کے کھانے ملنے کا سو فیصد امکان ہے۔ یہ جان کر سارے جنگل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تھوڑی دیر بعد جوان چڑے ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ ان کے سردار نے سب کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ، "میں یہ مانتا ہوں کہ ہمارے گھونسلوں میں کئی دنوں سے فاقوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ اب قدرت نے قریبی ہوٹل میں کھانے کا ایک موقع بھی عطا کیا ہے مگر سب غور سے سن لو! یہ اتنا آسان نہیں۔ انسان ہمیں برداشت نہیں کرسکتے۔ہوٹل سے کھانا تو ہم اڑا لیں گے مگر انسانوں سے بچ جانا ممکن نہیں۔ ہم نے اپنے خاندان کے بہت سے چڑے چڑیوں کو اسی طرح کھویا ہے۔ اس لیے میں آپ سب کو قریبی ہوٹل میں جانے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا۔ "
ایک جوان چڑا یہ سن کر اٹھا اور کہنے لگا، "سردار ! میں آپ کی بات سے متفق ہوں مگر پھر بھی میرا ایک مشورہ ہے، کیوں نا ہم چند تیز رفتار چڑوں کا انتخاب کر کے ہوٹل بھیج دیں جو ہم سب کے لیے کھانے کا بندوبست کر دیں۔ ہم یہاں خالی پیٹ بیٹھے موت کا انتظار تو نہیں کر سکتے نا۔"
"میرے بیٹے! انسان اپنی مرضی سے ہمیں کھانا نہیں دیتے ، ہم ان سے کھانا چراتے ہیں اور چوری کرنا بری بات ہے۔ اس کے ساتھ ایسا کرنے میں خطرہ بھی بہت ہے۔"سردار نے جواباً کہا۔ اس پر ایک جوشیلے چڑے نے بآواز بلند کہا کہ " اس لیے تو ہم چوریاں کرتے ہیں کہ انسان ہمیں کھانا نہیں دیتے، وہ ہمیں ہر جگہ دھتکارتے رہتے ہیں، روزانہ منوں ٹنوں گوشت کھا کر بھی ہمیں نہیں بخشتے، وہ ہمیں پنجروں میں بند کرکے اپنی خوشی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہمیں بچوں کے ہاتھوں میں دیتے ہیں جیسے ہم کھلونے ہوں۔انہیں ہماری خواہشات کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا ۔ وہ ہمیشہ ہمارے جذبات کا گلا گھونٹتے ہیں۔ مجبوراً ہم انسانوں سے چوری کرنے لگتے ہیں۔ آخر ہمیں بھی تو اپنے بچوں کو کھلانا پلانا ہے اوراپنی نسل کو آگے بڑھانا ہے۔" دوسرے چڑوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
سردار یہ سن کر خاموش رہا۔اسے اندازہ ہوا کہ جوان چڑے اس کے حکم کی تعمیل نہیں کریں گے پس وہ ایک طرف بیٹھ گیا۔سر پھرے چڑوں نے سردار کی حالات دیکھی تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جلد جلد گروہ میں سے پانچ تیز رفتار چڑوں کا انتخاب کیا ۔جنہیں اس مشن پر دوپہر سے قبل ہوٹل جانا تھا۔
ہوٹل کی ملازم بلی"کیٹو" کو کسی طرح اس مشن کی اطلاع مل گئی۔ اس نے فوراً ہوٹل انتظامیہ کو مطلع کیا کہ چند چالاک اور بھوکے چڑے دعوت پر ہلا بولنے والے ہیں۔انتظامیہ بلی کی ہوشیاری سے خوش ہوئی۔ اس نے چڑوں کو پکڑنے کے لیے کیٹو کی ضرورت کی ساری چیزیں مہیا کر دیں۔ کیٹو نے مختلف راستوں میں اپنے جاسوس پھیلائے اور چڑوں کو پکڑنے کے لیے جال بچھائے۔
ایک گھنٹہ بعد اسے اطلاع دی گئی کہ فلاں جگہ پانچوں چڑوں کو زندہ سلامت پکڑا گیا ہے۔ ہوٹل انتظامیہ نے کیٹو کو شاباشی دی اور اسے انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کرنے لگے ۔ اسی اثنا میں کیٹو کی نگاہ ان پانچ قیدیوں پر پڑی جو بھوک و خوف کی وجہ سے پنجرے میں بند بہت کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ کیٹو کے دل میں ان کے لیے رحم کا مادہ پیدا ہوا۔اس نے ہوٹل انتظامیہ سے چڑوں کو خود ٹھکانے لگانے کا کہا۔ اس پر انتظامیہ نے فوراً رضامندی کا اظہار کیا۔
کیٹو پنجرے میں بند پانچوں چڑوں کو لے کر ایک کونے کی جانب چلا۔ اس نے سب کے چہروں پر جس کرب کو محسوس کیا تھا اس کے متعلق ان سے پوچھا ۔ان میں سے ایک نے کیٹو کو تفصیل بتانی شروع کی۔ "ہمارے قبیلے نے آٹھ دن سے کچھ نہیں کھایا ، وہاں بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ ہم جس جگہ بھی کھانے کے لیے جاتے ہیں، وہاں ہمیں زہر ملی خوراک ہی ملتی ہے۔ ہمارے بہت سارے ساتھی اسی زہریلے کھانے سے مر گئے ہیں، کوئی ہمیں صاف غذا فراہم نہیں کرتا۔ ہم سے اپنے خاندان کی تکلیف برداشت نہ ہوئی ، اس لیے ہم پانچ جان خطرے میں ڈال کر اپنے خاندان کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے نکل آئے حالانکہ ہمیں اپنے سردار نے یہ بتایا بھی تھا کہ یہ چوری ہے اور اس میں خطرہ بھی ہے لیکن ہم سے ہمارے بچوں کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔"
کیٹو کا دل اس کی باتیں سن کر مزیدنرم پڑ گیا۔ اسے انسانوں پر غصہ بھی آیا کہ انسان روزانہ اتنا سارا کھانا کھاتے ہیں ، آدھے سے زیادہ ضائع بھی کرتے ہیں ، وہ کم از کم اگر اپنا بچا ہوا کھانا چھت کے اوپر صاف ستھری حالت میں رکھنا شروع کردیں تو چڑے چڑیوں کے ساتھ دوسرے پرندے اور حشرات بھی بھوک سے نہیں مریں گے۔ یہ سب اللہ کی مخلوقات ہیں۔ ان کو بھی جینے کا حق حاصل ہے ۔ اس کے بعد کیٹو نے چڑوں کو آزاد کرکے ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے کھانے کا بندوبست کر دیا۔
No comments:
Post a Comment