ملک عنبر کا خط سید فاروق احمد کے نام
![]() |
سید فاروق |
میاں فاروق!
سدا خوش رہو،
مجھے آپ کے بہتط سے خطوط ملے۔۔ڈاکٹر رفیق زکریا کے ہاتھوں کبھی بشر نواز کے ذریعے کبھی قاضی رئیس ‘جاویدناصر وقمراقبال کے بدست یا مولانا ریاض الدین فاروقی نے بھی آپ کے خط پہنچائے۔حافظ عیاض تو آپ کا خط جنازے ہی میں بھول آئے۔ بولے کوئی مسئلہ نہیں مجھے پورا خط یاد ہے میں آپ کو سنادیتا ہوں۔ میں نے پوچھا خط کا مضمون آپ کو کیسے پتا ہے وہ خط تو میرے نام تھا؟حافظ نے کہا حضور ہم تو ملفوف دیکھتے ہی مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ خاکسار نے مذکورہ خط پڑھ لیا تھا معاف کرنا پڑھوالیا تھا۔ اس لئے اس کا متن حفظ ہوگیا۔ اورکاکا نےآپ کا سلام بھی مجھ تک پہنچایا تھا۔۔دربان نے مجھے بتایا کہ اکبر پٹیل بہت دیر تک میرا انتظار کرتے کرتے چلے گئے شاید وہ بھی آپ کا سلام ہی لے کر آئے تھے۔دربان نے یہ بھی بتایا کہ وہ سپاری کا تھیلہ بھی اٹھاکر لے گئے ہیں۔
میاں فاروق ۔۔۔۔سچ کہوں میں یہاں خدا کی بنائی ہوئی کاریگری، صناعی اورمصوری کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوں۔یہاں زبرجد اور زمرد کے بالاخانے اسقدر خوبصورت ہیں کہ ہیں کہ انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔کیسےکیسے عالیشان لعل وگہر سے تراشیدہ محل اورسرسبزوشاداب باغات ہیں کہ بس انھیں دیکھ دیکھ کردن کہاں گذرجاتا ہےاوررات کب ہوتی ہےپتہ ہی نہیں چلتا۔
آپ کے اتنے سارے خط پاکر میں حیران بھی ہوںاور خوش بھی کہ آپ نے مجھے یاد رکھا۔
میاں۔۔۔!آپ سوالات بہت کرتے ہو۔۔۔آپ کے پورے خطوط مسلسل سوالوںکا ایک طویل سلسلہ ہے۔۔۔اب میںکس کس سوال کا جواب دوں۔
آپ نے اکثر مجھ سے پوچھا ہے کہ جہانگیر سے مجھے اس قدر نفرت کیوں تھی۔۔۔؟
دیکھو میاں !مجھے مغلوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی لیکن انھوں نے میرے گھر کو میرے شہر کو ۹ سال میں تین بار اجاڑا تھا اسے جلادیا تھا سب تہس نہس کردیا تھا ۔۔تین دن تک یہ شہر میری آنکھوں کے سامنے جلتا رہا۔۔۔میں نے ہمت کرکے دوبارہ سہ بارہ اس شہر کو آباد کیا۔اب تم ہی بتائو جب تمہارے گھر کو کوئی اجاڑے گا تو آپ اس سے محبت کروگے یا نفرت کروگے؟
خیر کبھی کبھی میری ان سے سلیک علیک توہوجاتی ہے لیکن میں اب بھی ان سے نالاں ہوں۔
آپ کومعلوم ہونا چاہئے کہ میں افریقہ کے ایک غریب شہر ہرات میں پیدا ہوا چندہی دن گذرے تھے کے میرے والدین نے افلاس اور غربت سے تنگ آکر مجھے فروخت کردیا اور پھر ساری زندگی مجھے شفقت نہیں ملی ۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے مرہٹوں کو مغلوں کے خلاف اکسا یا اور انہیں چھاپہ مار جنگ سکھائی۔اس موضوع پر چاند سلطانہ سے بھی اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔
خیروقت وقت کی بات ہے حالات آتے ہیں اور گذرجاتے ہیںلیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔
میاں فاروق۔۔۔ مجھے اس شہر سے بے پناہ محبت تھی او رہمیشہ رہے گی میںنے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اس علاقہ میں آئوںگا اوریہیں کا ہوکر رہ جائوںگا۔۔۔میںجب ایتھوپیا (افریقہ)سے بغداد فروخت ہوا تو وہاں کا چپہ چپہ اُن خوبصورت الف لیلوی داستانوں کی طرح میرے ذہن میں محفوظ ہوگیا اورمیں ان فلک بوس عمارتوں بارونق سڑکوں حسین محلوں کو ایک غلام کی حیثیت سے دیکھا کرتا تھا۔۔۔
پھر پتہ نہیں قدرت کو کیا منطور تھا‘ بردہ فروش مجھے بغداد سے مدینہ منورہ لے آئے۔
کچھ عرصہ بعد مجھے سارے جہانو ںکے سردار حضور اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔حضورؐنے فرمایاکہ:’’ ملک عنبر! آج تو خاک نشین ہے لیکن کل تخت نشین ہوگا۔ موت اس وقت تک تجھے نہیں آئے گی جب تک خلق خدا تیرے فیض سے سیراب نہ ہوجائے۔۔۔یہ خواب دیکھنے کے بعد میں اپنے آپ میں نہ تھا۔۔تذبذب کے عالم میں ادھر سے ادھر گھوما کرتا تھا۔۔۔اور پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ احمد نگر سے مرتضی نظام شاہ سلطنت نظام شاہی کے فرمانرواںنے حج کے دوران مجھے دیکھا اور خرید کر اپنے خدمتگار کے طور پر احمد نگرلے آئے
میاں فاروق!۔۔بغداد کی مٹی کی خوشبو میں نےکھڑکی میں محسوس کی تھی۔میں نے کھڑکی کی سرزمین کی جھلک اس دعا میں دیکھی تھی جو میں نے کعبہ کے غلاف کو پکڑ کر مانگی تھی۔۔۔مگر تمہارے شہر کے باشندوں نے میرے شہر کو برباد کردیا ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ میرے بنائے گئے دروازے، محلات،گلیاں ،بازاراور دیگر عمارتیںکہیں اجڑنہ جائیں۔۔۔۔میں نے اس شہر کو تجارتی مرکز بنایا۔بہترین بازار، فصیلیں، مساجد اوروزراء اور امراء کے لئے خصوصی محلہ جات بنائے۔میں نے اس شہر کو اتنا کچھ دیا کہ بادشاہ میرے اس شہر میں قیام کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔۔۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اورنگ زیب سلمہ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی شہر میں گزارا تھا۔۔۔میرے بنائے گئے نوکھنڈہ محل میں ہی سلطنت آصفیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔میرے بعد ہر آنے والے نے اس شہر کو خوب سجایا سنوارا ۔اورنگ زیب نے اس کو وسعت دی اور کشادگی بخشی‘ تو آصف جاہ نے اس کی مانگ ستاروں سے بھر دی اوراس کے حسن وجمال میں ۴ چاند لگادئے۔
لیکن سلطنت آصفجاہی کے زوال کے بعد کسی نے اس کی ذرا سی بھی پرواہ نہیں کی۔۔۔۔۔
خیر۔۔۔ اورنگ زیب سلمہ سے کبھی کبھی ملاقات ہوجایا کرتی ہے کیونکہ ان کے ہاں لوگوں کا فی تانتا بندھا رہتا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی ڈاکٹر رفیق زکریا مجھ سے ملے ۔دراصل وہ مجھ سے کافی دنوں سے ملنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔میں جوں ہی بالاخانے سے نکلا تو انہیں باہرکھڑا ہوا پایا وہ نظریں جھکائے شرمسارسے محسوس ہورہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا دیکھو رفیق۔۔۔ادھر میری طرف دیکھو‘ پھرمیں نے انہیں گلے لگایا او رکہا کہ آپ ہی وہ میرے حقیقی جانشین ہو جس نے اورنگ زیب کے بعد میرے خوابوں کو سجانے اور سنوارنے کا کام کیا۔ ۔
میاں فاروق مجھے آپ سے شکایت ہےکہ آپ ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کا ہنر بخوبی جانتےہو اور پھر بھی ہمارے بارے میں او رہمارے کئے گئے کاموں سے متعلق نئی نسل کو کچھ بتاتے نہیں ہو۔ایک تو ویسے بھی اس نسل کے پاس اپنے اسلاف کو پڑھنے سمجھنے اور سننے کا وقت نہیں ہےاور نہ ہی اس کا فہم ہےاور اس پر آپ کا تغافل سونے پر سہاگہ ہے۔
آپ اخباری دنیا سے الیکٹرانک میڈیا میں ایسے کود پڑے جیسے؎
بے خطرکود پڑا آتش نمرود میں عشق
اور اس آگ میں کود کر آپ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ؎
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
لیکن یہ معاملہ ویسا نہیں ہے ؎
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
اس لئے عصاء اپنے ہاتھ میں رکھا کرو۔یہ فرعونوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے کام آتا ہے۔ یہ سب باتیں اور تاریخ آپ آج اور آنے والی نسلوں کو بتائیے۔ میرے پاس بھی کہاں اسلحہ تھا کہ میں مغل فوجوں کا مقابلہ کر پاتا وہ تو گوریلا جنگوں کی تکنیک میرے کام آئی۔ دشمن جب زیادہ تعداد اور زیادہ طاقت والا ہو تو اس سے دوبدو نہیں تکنیک کے ذریعے مقابلہ کرنا چاہئے۔ اسی تکنیک سے میں نے جہانگیر کو ناکوں چنے چبوائے۔ اور ہاں ! آنے والی نسلوں کو یہ بھی بتائیے کہ میں نے صرف جنگ ہی تکنیک سے نہیں لڑی، کالم اسٹرکچر تکنیک کا استعمال کرکے بھڑکل دروازہ تعمیر کیا اور گریوٹیشنل فورس تکنیک کا استعمال کرکے نہر عنبری کو شہر کے نشیب وفراز والے علاقوں سے اور حسب ضرورت نشیب وفراز پیدا کرکے دور دراز کے علاقوں تک پہنچایا۔ اس کے علاوہ میں نے جو عمارتیں تعمیر کی تھیں جیسے نوکھنڈہ محل، سبز محل شاہ گنج وغیرہ انھیں تو تباہ وبرباد کردیاگیا۔ بس جامع مسجد، چیتہ خانہ اور کالی مسجدوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں۔ چیتہ خانہ سے آپ کہیں قبرستان نہ سمجھ لیں میں اس عمارت کی بات کررہا ہوں جو ہشت پہلو اور آج میونسپل کارپوریشن نے اسے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اور کیا کہوں آپ سے۔۔۔۔بس امید یہی کرسکتا ہوں کہ آپ اپنے اسلاف کے دینی، سماجی، سیاسی ، تعمیراتی کارناموں کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کو روشناس ضرور کرائوگے۔
اپنا اور اپنو ںکا خیال ضرور رکھنا۔۔جتنا ہوسکے جنت کے بالاخانوں کی تعمیر پر زیادہ توجہ دینا۔۔۔مجھے بختیارکاکی ؒ ،زرزری بخش، اور معین الدین چشتی سے ملاقات کرنے بھی جانا ہے۔واپس لوٹوں گا تب پھر کبھی آپ کے دیگر خطوط کا جواب دوںگا۔
تمہارے یہاں جلدنہ آنے کا منتظر
ملک عنبر
No comments:
Post a Comment