Sunday, July 11, 2021

'Ehsaas' By Mohsin Sahil



ایک سچی کہانی

احساس


محسن ساحل


mohsinsahiluk@gmail.com 





محسن ساحل


ریحان ایک سیدھاسادہ لڑکا تھا۔
وہ ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اس کے والد نعمان صدیقی ایک بنیک میں اکاؤنٹ افسر تھے۔ ایمانداری، شرافت، خودداری اور کڑی محنت کے سبب محلے اور دفتر کے ہی نہیں بلکہ شہر کے لوگ بھی انھیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اکثر ان کا تبادلہ ایک شہر سے دوسرے شہر ہوتا رہتا تھا۔ وہ بغیر کسی شکایت کے تبادلہ نامہ قبول کرتے اور نئی جگہ کام کرنے کے لیے راضی ہوجاتے۔دوران ملازمت شہر کے کچھ امیر لوگ اپنے غیر قانونی کاموں کی منظوری کے لیے انھیں رشوت کا لالچ بھی دیتے لیکن وہ کسی صورت اپنی ایمانداری سے باز نہ آتے۔انھیں حرام کے ایک لقمے سے غربت کی فاقہ کشی بہتر معلوم ہوتی.

دوست تو دوست دشمن بھی ان کی ایمانداری کے قائل تھے ۔ وہ ہر شئے کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے، چھوٹی سے چھوٹی بات پر دھیان دیتے تب کہیں جاکر اس سے متعلق اپنی رائے قائم کرتے۔

ریحان حالانکہ ابھی بچہ ہی تھا لیکن اس میں اپنے والد کی کئی خصوصیات ظاہر ہونے لگی تھیں۔وہ جماعت میں کسی سے نہ جھگڑا کرتا اور نہ ہی کسی سے کوئی چیز مانگتا۔استاد کی عزت کرتا اور شرارتی لڑکوں سے دور رہتا۔ پڑھائی،کھیل اور فنون لطیفہ میں اسے خاصی دلچسپی تھی۔البتہ بچپن کے تقاضے کے تحت وہ کبھی کبھار مستی بھی کرلیا کرتا تھا۔اس کے باوجوداپنے رکھ رکھاؤ سے کافی سمجھدار معلوم ہوتا تھا۔

ہم جماعت ساتھیوں کے علاوہ بڑی جماعت کے کچھ لڑ کے بھی اس کے دوست تھے۔وہ اکثر اسے شرارت کرنے پر اکساتے تھے۔کبھی راہ چلتے شخص کو چھیڑنا،کبھی جماعت کے دوسرے بچوں کو ستانا،استاد کی غیر حاضری میں تختہ سیاہ پر کارٹون بنانا،  اسکول آتے جاتے راستے تبدیل کرنا،  درختوں اور چبوتروں وغیرہ پر چڑھنا ان بچوں کی عادتوں میں شمار تھا۔ یہ لڑکے شرارتی تو تھے لیکن ان کا تعلق شریف خاندانوں سے تھا اس لیے نعمان صاحب کو ریحان اور ان بچوں کی دوستی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔البتہ وہ ریحان کو ایسی شرارتیں نہ کرنے کی تاکید کرتے تھے جن سے کسی کو نقصان پہنچے یا تکلیف ہو۔ ریحان اکثراوقات شرارتوں میں اپنے دوستوں کا ساتھ نہ دیتا۔

ایک دن اسکول کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گھر لوٹ رہا تھا۔ راستے میں بیری کا پیڑ دیکھ کر لڑکے دوڑتے ہوئے پیڑ کی طرف لپکے اور کسی مقابلے کے انداز میں پیڑ پر چڑھنے لگے۔ریحان بھی جلدی جلدی چلتے ہوئے  پیڑ کے پاس پہنچا اور ان کی حرکتوں پر خوش ہوکر شور مچانے لگا۔ سارے بچے پیڑ کو ہلاتے اور گرے ہوئے بیر چنتے۔ریحان نے بھی بہت سارے بیر چنے۔ پھر اس نے خود اپنی محنت سے درخت پر پتھر مارکر بیر توڑنے کی کوشش کی۔ پیڑ کی جانب کئی پتھر اچھالے. ایک دو پتھر نشانے پر لگے جس کے نتیجے میں کچھ بیر نیچے گرے۔لیکن زیادہ تر وار بیکار ثابت ہوئے۔

بیر کے اسی درخت پر چڑیا کاایک گھونسلہ تھا۔اچا نک ریحان کی نظر چڑیا کے گھونسلے پر پڑی۔ اسے شرارت سوجھی اور اس نے ایک پتھر گونسلے کی طرف دے مارا۔اس کا نشانہ پکا نہیں تھا البتہ اس مرتبہ نہ جانے کیسے، ایک پتھر سیدھا چڑیا گھونسلے پر جالگا۔ گھونسلے کے اندر کچھ انڈے بھی تھے جن میں سے بچے نکلنے والے تھے۔تین چار دن پہلے ہی کسی انڈے سے ایک خوبصورت بچے نے جنم لیا تھا۔وہ بہت چنچل تھا۔ہمیشہ چوں چوں کی رٹ لگائے رہتا۔چڑیا اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی۔اسے دوسرے انڈوں سے بھی بچے نکلنے کا انتظار تھا۔وہ اپنے بچے کے ساتھ ساتھ انڈوں کی بھی دیکھ بھال کرتی۔ادھر ادھر سے دانا لاکربچے کے منہ میں ڈال دیتی۔پھرکچھ دیر دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔گویا دونوں آپس میں باتیں کر رہے ہوں۔کبھی کبھی وہ بچے کوساتھ لے کر اڑجاتی۔کسی جگہ پہلے چڑیاخود چونچ مارتی پھر اسی جگہ بچہ بھی چونچ مارتا۔ اس طرح وہ اپنے بچے کو دانا چگنا سکھارہی تھی۔آج چڑیا دانا لانے کے لیے بہت دور نکل گئی تھی۔بچہ گھونسلے میں اپنی ماں کانتظار کر رہا تھا۔

ایک لڑکے نے جونہی ریحان کو نشانہ لگاتے ہوئےدیکھا، وہ زور زور سے ریحان کا نام لے کر چلانے لگا، جیسے ریحان نے کرکٹ میچ میں چھکاّ لگادیا ہو۔پھر وہ پرجوش انداز میں سب کو بتانے لگا کہ ریحان کا نشانہ کتنا پکا ہے جو اس نے ایک ہی وار میں چڑیا کا گھونسلہ تباہ کردیا۔ لیکن ریحان کی نظر اس پھڑ پھڑاتے ہوئے چڑیا کے بچے پر تھی جو اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ریحان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اس بچے کی جان بچائی جائے۔ چڑیا کا بچہ تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ادھر لڑکے ریحان کو سچے نشانے کے لیے شاباشی دینے لگے۔دوسرے لڑکوں سے بے پروا ریحان سہما سہما سابالکل خاموش ہوگیا۔اسے اپنی حرکت پر بہت افسوس ہورہا تھا۔ گویا اس نے کسی انسان کا قتل کردیا ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔لڑکوں نے اسے سمجھایا کہ اتنی چھوٹی سی بات پر اس طرح افسوس کرنا ٹھیک نہیں۔کھیل، شرارت، مستی میں ایسا تو ہوتا رہتا ہے. وہ اسے گھر جاتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کے لیے بلانے لگے۔ مگر ریحان تھا کہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ خود کو سب سے برا انسان محسوس کررہا تھا.  لیکن اب پچھتانے کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا تھا. حالانکہ اس نے جان بوجھ کر چڑیا کے بچے کو نہیں مارا تھا۔یہ محض ایک اتفاق تھا، ایک انہونی تھی ۔ریحان چڑیا کے مردہ بچے کے پاس بیٹھ کر اسے غور سے الٹ پلٹ کر، ہلاکر دیکھنے لگا۔ چڑیا کا بچہ مرچکا تھا. ریحان کی آنکھیں چھلک اٹھیں اور وہ بے چین ہوکر اپنے آپ سے کہنے لگا۔

”اس بچے کا کیا قصور تھا جو میں نے اس کی جان لے لی؟اس کی ماں کوکتنا دکھ ہوگا جب وہ اپنے بچے کو اس حالت میں پائے گی! مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔میں اس کا قاتل ہوں۔اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے۔اب میں کیا کروں؟“

  گھر پہنچنے میں کافی دیر ہوجانے کی وجہ سے ریحان کی والدہ بہت فکرمند تھیں. ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ریحان اسکول سے گھر پہنچنے میں دیر کرے. ضرور کوئی سنجیدہ بات ہوگی. وہ ریحان کے والد سے کہنے لگیں،

” معلوم نہیں ریحان کہاں رہ گیا ہے؟ معاملہ کیا ہے آپ ذرا معلوم کیجیے ناں۔“

والد صاحب نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا، ”کہاں جاسکتا ہے بھلا۔کسی دوست کے ساتھ کھیل رہا ہوگا۔کچھ ہی دیر میں آجائے گا تم فکر نہ کرو۔“

 ریحان کو اپنے والدین کی فکر کا بھی اندازہ تھا اس لیے اس نے چڑیا کے بچے کو چھوڑ کرگھر کا راستہ لیا۔وہ بوجھل قدموں سے چلنے لگا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، امی نے اسے دیکھتے ہی گلے لگا لیا. پھر وہ اس سے دیر سے گھر آنے کی وجہ پوچھنے لگیں۔

اس کے والد ہلکی سی ڈانٹ کے ساتھ کہنے لگے، ”ریحان!تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ اسکول سے سیدھے گھر آیا کرو۔ادھر ادھر پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ورنہ بہت پٹائی ہوگی۔“

ریحان کے چہرے پر فکرمندی اور تشویش دیکھ کر اس کی امّی نے اشارے سے ابّا کو خاموش رہنے کو کہا۔ابّا چپ ہوگئے۔امّی نے پھر پوچھا، 

 ”بیٹا! بتاؤتمہیں گھر آنے میں اتنی دیر کیوں ہوئی؟ کسی سے جھگڑا ہوگیا تھا؟ یا دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے؟ کسی نے تمہیں مارا تو نہیں ناں؟“

امّی کا یہ جملہ سن کرریحان اپنے آپ کو روک نہیں پایا اور زور زور سے رونے لگا۔ امّی نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔پانی پلایا۔اپنے آنچل سے اس کے آنسو پونچھے۔سر پر ہاتھ پھیرااورجب وہ چپ ہوگیا تو امّی نے پھر پوچھا۔

”بیٹا ریحان! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ میرا پیارا بیٹا۔اپنی امّی کو بھی نہیں بتاؤ گے؟“

ریحان نے بھاری دل سے پورا ماجرہ امی کو بتایا۔امّی کو ریحان کی اس حرکت پر بہت افسوس ہوا۔آخر وہ بھی تو ایک ماں تھیں ۔وہ چڑیا کے دکھ کو اچھی طرح سمجھ سکتی تھیں۔لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ یہ صرف ایک اتفاق تھا۔ اس کی امی نے اسے سلیقے سے سمجھادیا اور تاکید کی کہ آئندہ ایسا نہ کرے. 

ادھر چڑیا شام کو جب اپنے گھونسلے کی طرف لوٹی تو دیکھا کہ گھونسلہ پوری طرح تہس نہس ہو چکاتھا۔سارے انڈے ٹوٹ گئے تھے۔چڑیابے سکون ہوکر اپنے بچے کو تلاش کرنے لگی۔اچانک اس کی نظر بچے کی لاش پر پڑی۔وہ فوراً اس کے پاس جا کربیٹھ گئی۔اس نے بچے کو ادھر ادھر ہلایا۔چونچ سے اٹھانے کی کوشش کی۔لیکن بچہ بے جان تھا۔


چڑیا شور مچانے لگی۔وہ تھوڑی دیر ادھر ادھر پھدکتی پھری. چاروں طرف نظریں دوڑاتی اور واپس بچے کے پاس آکر اسے جگانے کی کوشش کرتی۔اسے امید تھی کہ بچہ اٹھ جائے گا اور پھر وہ اسے لے کر کہیں دور اڑ جائے گی۔لیکن یہ ممکن نہ تھا۔

تین چار دن گزر گئے۔ چڑیا بچے کی لاش کے آس پاس ہی رہی۔ بچے کا مردہ جسم سوکھ چکا تھا۔اس کے باوجود بھی چڑیا نے اپنے بچے کی لاش کو دوسرے جانوروں سے محفوظ رکھا۔اس دوران جب جب بھی ریحان وہاں جاکر دیکھتا تو اسے اپنا گناہ اور بڑا معلوم ہوتا۔دو تین دنوں تک ریحان مسلسل اس جگہ جا کر چڑیا اور اس کے بچے کو دیکھتا رہا. اسے اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ چڑیا کا باربار آسمان کی طرف دیکھنا ایک اشارہ ہے گویا چڑیاخداسے سوال کر رہی ہو،

” کیا تجھے میرے درد کا احساس نہیں؟ “


...........................


9 comments: